علما کی تحریریں ہوں یا مقررین کی تقریریں،خطیبوں کے خطبے ہوں یاسیاستدانوں کے جلسے،دانشوروں کے خیالات ہوں یا مفکرین کے نظریات ’ چوپالوں میں جاری بحث ہویاچوراہوں میں ہونے والی عوامی گفتگو’سب میں کسی نہ کسی انداز یا کسی نہ کسی رنگ میں آپ کو یہ پیغام ضرور مل جائے گا کہ امت مسلمہ کی بقا اور ترقی کا راز اتحاد و اتفاق میں مضمر ہے۔اور یہ ہے بھی حقیقت مگر المیہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو پانے کاجو راستہ تجویز کیا جاتا ہے وہ خطِ مستقیم نہیں بلکہ ایک دائرہ ہے جہاں بہت عرصہ چلنے کے بعد بھی انسان خود کو وہیں پاتا ہے جہاں سے اس کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔دائرے کا سفر اصل میں خود فریبی کا سفر ہوتا ہے۔ مسافر یہ سمجھتا ہے کہ وہ محوِ سفر ہے جب کہ حقیقت میں وہ ایک ہی جگہ گھوم رہا ہوتا ہے۔ دیکھنے میں وہ چل رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ کھڑا ہو تا ہے ۔ہاں البتہ ’مسافر اگر حقیقت شناس ہو اور غلطی کا احساس ہوتے ہی رجوع کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو توو ہ یقینا دائرے کوخیر باد کہہ دے گا اور خطِ مستقیم کو تھام کر ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ جانبِ منزل چل پڑ ے گا۔اب اس کا ہر اگلا قدم اسے منزل کے قریب کر رہا ہو گالیکن اگر کسی وجہ سے وہ غلط سمت چل پڑ ے تو اس کا ہر اگلا قد م اسے منزل سے دور کر رہا ہوگا لیکن اس سفر میں بھی یہ امکا ن بہر حا ل روشن ہو تا ہے کہ مسافر پہ جلد ہی سمت کی غلطی واضح ہوجائے اور وہ رجوع کر کے اپنے نقصان کی تلافی کر لے۔ لیکن اگر وہ دائرے کا شکار ہوجائے تو پھر اس کے امکانات بہت ہی کم رہ جاتے ہیں کہ اس پہ سمت کی غلطی واضح ہو گی ۔کچھ ایسا ہی حال آج کی امتِ مسلمہ کا ہے ۔امت مسلمہ کو جو ‘دائرہ’لاحق ہے وہ یہ نعر ہ اور نظریہ ہے کہ‘ ہمیں اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہو جانا چاہیے’۔یہ ایک ایسی بات ہے جو دیکھنے اور سننے میں توآسان مگر کرنے میں صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اختلافِ حقیقی ’ اصل میں عقل کی پیداوار ہو تا ہے اور جب تک انسانوں میں عقل باقی ہے نہ اختلاف ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ اختلاف کرنے کا حق چھینا جا سکتا ہے۔اس لئے نہ صرف عقل و فہم بلکہ تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ خود فریبی اور جذباتیت کا یہ جملہ چھوڑ کر حقیقت کا ادراک کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ختم کر نے والا اتحاد سطحی ’ وقتی اور عارضی ہوتا ہے ۔اتحاد کا اصل راستہ اختلاف ختم کرنا نہیں بلکہ اسے برداشت کرنا او راختلاف کو مخالفت بنانے سے گریز کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں کو اختلافِ رائے کے آداب سکھانا’ دلیل کی حکمرانی قائم کرنا’ دوسروں کے موقف کو سننے کا حوصلہ پیدا کرنااور اپنی رائے کو بطریقِ احسن بیان کر نے کی تربیت پانا بھی اتحاد حقیقی کی راہ کو آسان کر دیتا ہے۔ فروعی یا جزوی اختلاف رکھتے ہوئے چند اصولوں یا معاملات پہ اتفاق کرنا اور ان کے لئے متحد ہوجانا ہی اصل میں حقیقت کا سامنا کرنا ہے ۔
یہ مطالبہ کس قدر عجیب اور غیر فطر ی ہے کہ سب اپنی اپنی شناخت ختم کر کے‘ میری جماعت’ میں ضم ہو جائیں یا میرے نظریے سے متفق ہو جائیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسروں کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ آخر آپ اپنی شنا خت اور ‘سائن بورڈ ’ ختم کر کے ان میں ضم کیوں نہیں ہوتے؟ دوسرے بھی ویسا ہی دل رکھتے ہیں جیسا آپ کا ہے۔ اس لئے جب آپ کو یہ منظور نہیں تو انہیں کیوں منظور ہو؟ اور پھر یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ شناخت اور اپنی پہچان افراد سے لے کر اقوام تک سبھی کو عزیز ہوتی ہے کوئی بھی اسے گم کرنا پسند نہیں کرتا ۔ مختلف حوالوں سے خود کو ممیز کرناانسان کی فطر ت میں شامل ہے ۔کسی بھی فطری تقاضے کو دبا کر یہ سمجھنا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے ایک ایسی غلطی ہے جو بعض اوقات بھیانک نتائج پر منتج ہوتی ہے۔ انسانوں کے درمیان قومیں اور قبیلے بنا کر انہیں پہچان تو خود ان کے خالق نے عطا کی ہے اب یہ انسانوں کے غیر فطر ی اقدامات سے کیسے ختم ہو سکتی ہے؟اپنی شناخت اور پہچان کی جبلت بھی اختلافات کو جنم دینے کا اہم ذریعہ ہے ۔سطح آب پہ تیرنے والے اختلافی بلبلوں کو آپ نے گم کر بھی دیا تو کیا حاصل؟ زیر آب تواختلاف کی لہریں موجود رہا کرتی ہیں۔ وہ کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی ایسا طوفاں بن کر سامنے آ تی ہیں کہ پھر بڑے نقصان کے بغیر انہیں روکناممکن نہ رہتا۔ فساد او رنقصان سے بچنے کا راستہ جبلی تقاضوں کو مثبت اور جائز راہوں سے پوراہونے دینا ہے نہ کہ انہیں ختم کرنا۔دوام او ربقا ’ فطر ت اور فطری اصولوں کو حاصل ہے نہ کہ غیر فطری کاموں اور کا وشوں کو ۔ کائنات کے صحیفے پہ مرقوم یہ جلی حروف پڑھ کر سمجھ لینے ہی میں ہماری عافیت اور بھلائی ہے۔