کھڑکی

مصنف : اسد محمد خان

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : دسمبر2017

امیں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اْٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ تکلیف تو نہیں ہوتی البتہ ٹافی کھانے کو ملتی ہے اور امی پر اور دوسرے لوگوں پر رعب الگ پڑتا ہے۔ بات یقیناًاس کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ رعب شاید سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا لیکن ٹافی کا سن کر ذرا حوصلہ مند دکھائی دی تھی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فکر مند اور خوف زدہ ہو کر ادھر اْدھر دیکھنے لگتی تھی جدھر سے کمپاؤنڈر کو سوئی لے کر آنا تھا۔چچا ماموں کی نشست ایسی تھی کہ وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھا تھا اس کے پہلو اور بانہوں سے جیسے کھڑکی سی بن گئی تھی اور اس کھڑکی میں سے اس کا پورا چہرہ، اس کا ایک ایک تاثر مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی سے دیکھتے ہوئے ایک بار میری نظریں اس سے ملیں۔ اس وقت چچا ماموں اْسے سمجھا رہا تھا کہ تیرا بھائی جان تو انجکشن لگواتے ہوئے روتا ہے۔ ڈرتا ہے نا! اس لئے روتا ہے۔ تو بالکل نہیں ڈرتی، بڑی بہادر ہے۔
جس وقت چچے ماموں نے یہ بات کہی ٹھیک اس وقت منی بانہوں کی کھڑکی سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ اس بات سے اتفاق کیا۔ منی نے جب دیکھا کہ چچا ماموں کے علاوہ دوسرا کوئی اسے بہادر سمجھ رہا ہے تو وہ ہولے سے مسکرادی۔ میں نے دیکھا کہ وہ اترا کر مسکرائی تھی۔ جیسے مجھے اپنی بہادری کے رعب میں لے رہی ہو۔ جتنی دیر میں کمپاؤنڈر آیا اتنی دیر میں منی اشاروں میں مجھے سمجھا چکی تھی کہ اصل میں وہ بڑی بہادر ہے۔ انجکشن ونجکشن سے بالکل نہیں ڈرتی۔
میں نے بھی بانہوں کی کھڑکی سے رازدارانہ دیکھتے ہوئے سر ہلا ہلا کر اس بات سے اتفاق کیا اور بتا دیا کہ میں پوری طرح اس کی بہادری کے رعب میں آگیا ہوں۔ منی نے اپنی نو دریافت دلیری کے غرور میں ذرا سر اٹھایا تھا کہ سامنے سوئی اْٹھائے کمپاؤنڈر آن کھڑا ہوا۔ بہادری اور خوف کی کسی درمیانی کیفیت میں اس نے ہلکی سی آواز نکالی اور گھبرا کر بانہوں کی کھڑکی کے پار شاید مدد کے کے لئے میری طرف دیکھا۔ اس وقت کمپاؤنڈر نے اس کے بازو پر اسپرٹ میں بھیگی روئی ملنا شروع کردی تھی۔ منی متوقع تکلیف کے خیال سے منہ بسورنے لگی ٹھیک اس وقت جب کہ وہ آواز سے رو سکتی تھی میری نظریں اسکی نظریں پھر ملیں۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرا کر شاید آنکھوں کے کسی اشارے سے اسے یاد دلایا کہ وہ تو بڑی بہادر ہے۔
بحران کے اس لمحے میں بھی منی نے میری بات سمجھ لی۔ اس نے منہ بسورنا بند کردیا اور آواز نکالے بغیر انجکشن لگوالیا۔ میں نے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر تعریف کا اشارہ دیا۔ اور منی اپنے اس چچا یا ماموں کی گود میں چڑھی ہوئی کلینک سے چلی گئی۔
کمپاؤنڈر اور منی کا چچا یا ماموں حیران تھے مگر مجھ کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی منی واقعی بہادر تھی۔
اس بات کو بہت دن ہوگئے۔ میں یہ واقعہ اور منی کا چہرہ کچھ کچھ بھول چلا تھا۔ باہر کڑواہٹ اور دکھ ہو تو میٹھے چہرے اور بھولی باتیں کب تک یاد رہ سکتی ہیں۔ میں خود ایک بحران سے گزر رہا تھا میرے والد دماغ کی رگ پھٹ جانے پر طویل بے ہوشی میں تھے۔ وہ ملک سے باہر تھے میں اپنے سفری کاغذات کی تیاری میں مصروف تھا۔ ساتھ ہی دن میں کئی کئی بار ان کے تیمارداروں سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا مگر مجھے ناکامی ہورہی تھی۔ کاغذات بننے میں دیر تھی۔ نہ وہاں جا سکتا تھا نہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ تیسرے چوتھے دن عزیزوں کی طرف سے ایک تار آجاتا تھا۔ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی دعا کیجیے۔ پھر آخری تار آیا کہ خدا مغفرت کرے وہ گزر گئے۔
میں بچپن کے ایک دوست کے ہمراہ تار گھر پہنچا اور جیسے ہوش و حواس سے عاری کوئی شخص ہوتا ہے بالکل اسی طرح بلند آواز میں لوگوں کو اپنے ذاتی نقصان کے بارے میں بتانے لگا پھر وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے چھوٹوں کے نام ایک تار لکھا جس میں انہیں تسلّی دینے کے بجائے یہ لکھا کہ سفر کا ارادہ میں نے ترک کردیا ہے کیونکہ اب کوئی فائدہ نہیں۔ جس کے لئے سفر کرتا وہی نہ رہے۔
میں یہ سب کچھ کر رہا تھا اور اس بات سے بے خبر تھا کہ تار گھر کی بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کے شانے سے لگی کوئی بچی اچک اچک کر مجھے دیکھنے یا متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لوگ سامنے سے ہٹے تو دیکھنے کے لئے ایک کھڑکی سی بن گئی۔ میں نے اس کھڑکی میں سے پہچان لیا۔ یہ منی تھی۔ منی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اس کے چھوٹے سے ذہن نے اسے بتا دیا تھا کہ مجھے ضرور کوئی پریشانی ہے یا شاید میں ڈرا ہوا ہوں۔ اس لئے وہ مسکرائی اور اس نے ننھی ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر ملیں جیسے مجھے آنسو پونچھ لینے کی ترغیب دے رہی ہو پھر اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرانے لگی۔ بالکل اسی طرح جیسے مہینوں پہلے میں اسے ہمت دلا کر مسکرایا تھا۔
میں نے دکھ بڑھانے والا وہ تار پھاڑ کر پھینک دیا اور نئے تار میں اپنے چھوٹوں کو لکھا کہ حوصلہ رکھو، میں آ رہا ہوں۔