اصلاح و دعوت
امتحان میں دعا کیوں؟
پروفیسر عقیل
اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جب ہم نے محنت کر لی تو پھر اللہ سے دعا کی کیا ضرورت ہے۔ جب ہم نے دن رات جاگ کر محنت کی، سبجیکٹ پر عبور حاصل کر لیا، اس کے ہر ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لے لیا تو پھر دعا نے کیا کرنا ہے۔ دوسری جانب ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ ہم تو دعاؤں سے کامیاب ہوجائیں گے۔ اور جب ایسا ہونا ہے تو پھر محنت کی کیا ضرورت ہے۔ یہ دراصل دو انتہائیں ہیں۔ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے۔اللہ نے یہ دنیا جس اصول پر بنائی ہے اس میں کچھ کام انسان کے ذمے ہے تو کچھ کام اللہ نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ اگر ایک کسان بیج بوئے بغیر فصل کی دعا کرے تو وہ بے وقوف ہے کیونکہ اس نے اپنے حصے کا کام ہی نہیں کیا۔ اللہ کی مدد کا اظہار جو اس کی محنت سے مشروط تھا وہ نظر نہیں آئے گا۔ دوسری جانب ایک کسان جب بیج بولیتا ہے تو اب بھی دعا کی ضرورت ہے کیونکہ اس نے اپنے حصے کا کام تو کر لیا لیکن بے شمار منفی عوامل اس کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ مثال کے طور پر بارش ہی نہ ہو تو فصل نہیں ہو گی، کوئی وبا پھیل جائے تو فصل تباہ ہوجائے گی۔ کوئی سیلاب آجائے تو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔
اسی طرح وہ طلباء جو محنت کئے بغیر دعا پر ہی اکتفا کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ انہوں نے اپنے حصے کا کام پورا نہ کر کے کوتاہی کی ہے اور اس شرط کو پورا ہی نہیں کیا جو دعا کے لیے ضروری تھی۔ چنانچہ ان کی دعا ایسی ہی ہے جیسے گاڑی میں فیول ڈالے بغیر اس کو چلانے کی کوشش کرنا یا کسان کا بیج بوئے بنا فصل کی توقع کرنا۔دوسری جانب وہ طلباء جو محنت کر چکے ہیں، انہوں نے ابھی کامیابی کی ایک شرط پوری کی ہے۔ اس محنت کے علاوہ بے شمار ناقابل کنٹرول عوامل انکی محنت کو اکارت کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک طالبہ نے بہت اچھی تیاری کر لی، سب کچھ پریکٹس کر لیا لیکن اس کے باوجود کئی عوامل اس کی محنت پر حاوی آ کر اسے ناکامی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ عین امتحان کے وقت اس کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے، اس کے ذہن سے بات نکل سکتی ہے، پرچہ خلاف توقع آ سکتا ہے، مارکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے، کوئی حادثہ ہو سکتا ہے وغیرہ۔ چنانچہ اللہ سے استدعا کی جاتی ہے کہ اے میرے رب جو میرے بس میں تھا وہ میں نے کر لیا، اب آپ کا کام ہے کہ مجھے ناقابل کنٹرول عوامل کے اثر سے محفوظ رکھ کر نتیجہ میرے حق میں برآمد کر دیجے۔ اسی لئے جب کامیابی ملتی ہے تو ایک بندہ مومن سارا کریڈٹ اللہ کو دے دیتا ہے اور اسکا شکر گذار ہوتا ہے کیونکہ ہماری محنت کا پھل دینے والا وہی ہے مجرد ہماری محنت نہیں۔اپنے حصے کا کام کئے بنا دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت پر بھروسہ کر کے دعا سے گریز کرنا تکبر۔
محبوب کون؟
ایک مرتبہ اشفاق احمد اور ان کی اہلیہ بانو قدسیہ میں بحث چھڑ گئی کہ“محبوب ”کی تعریف کیا ہے۔ دونوں کافی دیر تک بحث کرتے رہے یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ چنانچہ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے استاد کے پاس چلتے ہیں اور ان سے دریافت کرتے ہیں۔ وہ جب استاد کے پاس پہنچے تو وہ کھانا پکا رہے تھے۔ دونوں نے ان سے دریافت کیا:”حضرت یہ بتائیے کہ محبوب کسے کہتے ہیں“۔ استاد نے فرمایا:”محبوب وہ ہے جس کا (بظاہر) نا ٹھیک بھی ٹھیک لگے“مختلف لوگوں کے محبوب اپنے ذوق، فہم اور ادراک کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی بیوی بچوں کو محبوب بناتا ہے تو کوئی دولت و ثروت کے گن گاتا ہے۔ لیکن ایک ربانی شخصیت کا مشاہدہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ خدا کا نظام ربوبیت ہمیں چوبیس گھنٹے خدا کے مہربان اور شفیق ہستی ہونے کا ثبوت فراہم کر رہا ہے۔ سورج کی روشنی بلا کسی تعطل کے ہمیں حرارت پہنچاتی، رات کا سکوت سکون فراہم کرتا، زمین کا سینہ ان گنت اناج مہیا کرتا، اوزون مضر شعاعوں سے محفوظ رکھتی، لاتعداد درخت آکسیجن سے تنفس کا بندوبست کرتے اور بے شمار جانور ہمارے لئے غذا کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آفاق کے برعکس ہمارا نفس بھی اس ہستی کو مہربان اور محسن ماننے پر مجبور ہے۔ یہ سب ہزاروں ثبوت ایک غور کرنے والے کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس ہستی کو رحمان، رحیم، شفیق، مہربان، لطف و کرم نچھاور کرنے والی ہستی کے طور پر مانے۔ چنانچہ یہ بیدار مغز انسان اس ہستی سے محبت کرنے لگ جاتا، اسے محبوب مان لیتا اور اپنا تن من دھن سب اس کے لئے خاص کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔
اس حقیقت کو ماننے کے باوجود بہت سی منفی باتیں ہیں جو اس محبوب ہستی کے اس حسین تصور میں داغ کی مانند نظر آتی ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں اس دنیا میں ظالم لوگوں کو لوٹ رہے ہیں، قاتل خاموشی سے مار کے فرار ہوجاتا ہے، معصوم بچے مارے جا رہے ہیں، جوان عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں، غربت و افلاس سے خودکشیاں ہورہی ہیں، سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن یہ رحیم اور شفیق خدا سب کچھ جانتے دیکھتے خاموش ہے۔ وہ قاتلوں کا ہاتھ نہیں پکڑتا، وہ لٹیروں کو چھوٹ دیتا ہے، وہ بچوں کو یتیم ہونے دیتا ہے، وہ عورتوں کے سر سے آسرا چھنتا دیکھتا ہے لیکن خاموش ہے۔ آج اس کے نام پر معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں لیکن وہ وضاحت نہیں کرتا۔ وہ چپ چاپ تماشائی بن کر دیکھ رہا ہے لیکن کچھ نہیں بول رہا۔یہ مشاہدہ ایک سطحی تجزیہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا رحمان و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم، دانا اورمنصوبہ بندی کرنے والا بھی ہے۔ اس نے یہ دنیا امتحان گاہ کے طور پر بنائی ہے۔ اس امتحان میں ہر شخص کو محدود دائرہ میں اجازت ہے کہ وہ اپنی کاپی میں جو چاہے لکھے۔ وہ خود کو قاتل کے روپ میں پیش کرے یا انسانیت کی خدمت کرنے والے کی شکل میں۔ وہ عورتوں کے سر سے چادر چھینے یا انہیں سہارا دینے والا بنے۔ اس آزمائش کے لئے لازم ہے کہ لوگوں کو ایک مخصوص مدت تک آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنا پرچہ اپنی مرضی سے حل کر کے اپنی ابدی زندگی کے مقام کا تعین کر لیں۔خدا ہی اصل محبت کے لائق ہے، حقیقی آقا ہے، تنہا پالنے والا ہے۔ تمام محبتوں، عقیدتوں، نیازوں اور عبادتوں کا مرجع ہے۔ وہی ابدی محبوب ہے۔ اس کی حکمتوں کو مکمل طور پرسمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ بس پھر ہمیں چاہئے کہ اپنے محبوب سے سب سے بڑھ کر محبت کریں اور اس کے خلاف پیدا ہونے والے وسوسوں سے صرف نظر کریں کیونکہ:“محبوب وہ ہے جس کا(بظاہر) نا ٹھیک بھی ٹھیک لگے“۔