اصلاح و دعوت
اپنی شناخت؟
محمد عرفان
پچھلے دنوں پاک فوج کے ایک اعلٰی افسر کے ساتھ بیٹھنے کا اور ہر موضوع پہ کھل کے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔”ایک افریقی ملک سیرالیون میں امن مشن کے دوران 14 اگست کا دن آ گیا۔ ہم لوگوں نے وہاں پاکستانی کونسل جنرل کے ساتھ مل کے اسے اچھے طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا۔وہاں کے صدر کو بھی مدعو کیا۔ جب سیرالیون کے صدر صاحب وہاں پہنچے تو ہم حیران رہ گئے۔ انہوں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔جب کہ ہم سب نے پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا۔وہ ہمارے کونسل جنرل کو ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ آپ کو پتہ نہیں میں نے کتنی مشکل سے اور کس سے شلوار قمیض ادھار لی ہے کیونکہ میں اسے بہت عزت کا لباس سمجھتا ہوں۔مگر آپ لوگوں کو خود ہی یہ پسند نہیں ہے۔ہمیں اس بات پہ اتنی شرمندگی ہوئی کہ ہم ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے”۔
آج دوپہر کو مجھے ایک دوست کا فون آیا۔ آواز سے بہت پریشان لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے۔ کہتا خیر ہی ہے کاغذ پین تو ہو گا ہی پاس۔ میں نے ورڈ ڈاکومنٹ کھول لیا۔ کہنے لگا ”میں عام طور پہ اخباری کالم نہیں پڑھتا۔ آج دفتر میں کام نہیں تھا تو پڑھنے لگ گیا۔بہت اچھے اچھے خیالات پڑھنے کو ملے لیکن ایک بات جس نے سارا مزا خراب کر دیا اور جس کی وجہ سے بہت پریشان بھی ہوں وہ ان کی لکھی ہوئی زبان تھی۔اردو میں انگریزی کے ایسے ایسے الفاظ لکھے ہوئے تھے جن کی بہت پیاری اور عام فہم اردو موجود ہے۔ ان لوگوں کو ذرا بھی خیال نہیں وہ لوگوں میں علم بانٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی احساسِ کمتری بھی کہ ہماری زبان اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس میں ڈھنگ سے بات ہی کی جا سکے۔
ان دو واقعات کے علاوہ بھی پچھلے کچھ عرصے سے تواتر سے ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جن میں احباب اپنی زبان اور اپنے کلچر کو نظر انداز کرنے پہ بہت دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔اگر اردو میں انگلش الفاظ کے عام فہم متبادل الفاظ موجود نہ ہوں تو انگلش الفاظ کا استعمال کرنا سمجھ میں بھی آتا ہے۔ویسے بھی ایسے انگزی الفاظ اب اردو کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن بلاوجہ صرف اپنی علمیت جھاڑنے کے چکر میں آدھا مضمون انگریزی مٰیں لکھ دینا آدھی بات انگریزی میں کرنا بالکل ہی سمجھ سے باہر بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تو بچپن سے اردو، پنجابی، سرائکی، سندھی، پشتو، براہوی یا اپنی کوئی بھی زبان بولتے آئے ہیں۔ ہم اردو یا اپنی دوسری مادری زبان میں سوچتے ہیں تو اپنی سوچ کا اظہار اس سے زیادہ بہتر طریقے سے کسی دوسری زبان میں ہو بھی نہیں سکتا۔پھرہمارے قارئین کی زیادہ تعداد بھی انگریزی اچھی طرح نہیں سمجھتی یا بالکل ہی نہیں پڑھ سکتی۔ اس کے علاوہ ہماری اردو زبان میں بھی اعلٰی ادب تخلیق کیا جا چکا ہے۔پچھلے سال فیس بک کے دوست کو انگریزی میں لکھنے کا شوق ہوا۔ کہانی لکھی کوئی۔ میں نے اسے یہی مشورہ دیا کہ جتنی اچھی طرح آپ اردو میں اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہو انگریزی میں ممکن نہیں۔ پھر کچھ عرصہ اس دوست سے رابطہ نہ ہوا۔ شاید اس نے مجھے ڈیلیٹ کر دیا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے ایک اردو ادب کے گروپ پہ مجھے اس کی پوسٹ نظر آئی۔ پھر اس نے ایڈ بھی کر لیا۔ اس کا میسج آیا کہ بھائی آپ نے پہچانا؟ میں نے کہا جی آپ ہری پور سے ہو اور آپ کو انگریزی میں لکھنے کا شوق تھا۔ کہنے لگا جی اور اب اردو میں لکھنے کا شوق ہے کیونکہ آپ نے جو مشورہ دیا تھا وہ مجھے سمجھ آ گیا۔یہ سب باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں خود پہ فخر کرنا سیکھنا ہے۔اب ہم بھونڈی نقالی کر کے دنیا میں مذاق تو بن ہی رہے ہیں ہمارے اپنے پڑھنے والے لوگ بھی کرب کا شکار ہو رہے ہیں۔اردو میں بات کرنی ہو تو صرف اردو میں کریں۔آپ کی جو روایات ہیں ان پہ فخر کریں ان پہ قائم رہیں۔ یقین کریں ان مغربی ممالک کے پاس اخلاق باختگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ان کی روزمرہ کی انگریزی اتنی گندی ہے کہ ہم ان الفاظ کو گالی سمجھتے ہیں جو وہ اکثر استعمال کرتے ہیں۔آپ جو ہیں وہ بہت اچھے ہیں۔ آپ جو نہیں ہیں وہ بنیں گے تو پھر اپنی شناخت کھو دیں گے اور بغیر شناخت کے انسان عزت سے نہیں رہ سکتا۔