اصلاح و دعوت
روح کے نغمے
تحریر:سیدقطب شہید
ترجمہ: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
یہ سید قطب شہید کی زندگی کے آخری ایام کی تحریر ہے۔ جب وہ قید وبند کے مرحلے سے گزررہے تھے۔ ایام اسیری کو انھوں نے اپنی روحانی تربیت و تزکیہ کے لیے استعمال کیا۔ اس کے ثمرات زیر نظرتحریر کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ اس تحریر کا انتساب انھوں نے اپنی بہن امینہ قطب یا حمیدہ قطب کے نام کیاہے۔ پندرہ نکات پر مشتمل اس تحریر کے ہرنکتے کو مصنف نے خاطرخواہ دل میں پیدا ہونے والا خیالکہا ہے۔ ذیلی عناوین مترجم کے قائم کردہ ہیں۔
میری پیاری بہن! یہ خیالات تمھاری خدمت میں پیش ہیں:
پہلا خیال: زندگی کے مقابلے میں موت کی کوئی حیثیت نہیں
موت کا تصوربرابر تمھارے فکر وخیال پر چھایارہتا ہے۔ تم اسے ہر جگہ اور ہر چیز کے پیچھے گمان کرتی ہو، اسے ایک ایسی سرکش قوت سمجھتی ہو جو زندگی اور زندوں پر حاوی ہے اور اس کے مقابلے میں زندگی کو کم زور، کھوکھلی اور خوف زدہ پاتی ہو، لیکن میرا نقطہ نظر تمھارے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ میں زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت کو ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت سمجھتاہوں۔ موت کچھ نہیں کرپاتی سوائے اس کے کہ اپنی روزی کے لیے زندگی کے دسترخوان سے کوئی گراپڑا ٹکڑا اٹھالے۔ میرے ارد گرد زندگی کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ ہرچیز پروان چڑھ رہی ہے۔ بڑھ رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔ مائیں حمل سے ہورہی ہیں اور بچے جن رہی ہیں۔ اس معاملے میں انسان اور جانور برابر ہیں۔پرندے،مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے انڈے دے رہے ہیں، جن سے زندگی پھوٹ رہی ہے اور جان دار نکل رہے ہیں۔ زمین سے پودے پھوٹ رہے ہیں، جن سے پھول اور پھل نکلتے ہیں، آسمان سے موسلادھار بارش ہورہی ہے، سمندروں میں موجیں اٹھ رہی ہیں۔ غرض اس روئے زمین پر ہرچیز نموپذیر ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔درمیان میں کبھی کبھی موت اچانک نمودار ہوتی ہے اور ایک جھپٹّا مارکر آگے بڑھ جاتی ہے، یا چپکے سے اپنے جینے کے لیے زندگی کے دسترخوان پر سے کوئی گرا پڑا ٹکڑا اٹھالیتی ہے۔ زندگی کا کارواں رواں دواں رہتا ہے، اس کی موجیں اچھلتی کودتی اورجوش مارتی ہیں۔ اسے موت کا مطلق احساس نہیں ہوتا۔
بسااوقات جب موت زندگی کے جسم میں ایک مرتبہ نوچتی ہے تو درد سے اس کی چیخ نکل پڑتی ہے، لیکن زخم بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں۔ اور درد کی چیخ بہت جلد راحت میں بدل جاتی ہے۔ انسان اور حیوان، پرندے اور مچھلیاں، کیڑے مکوڑے، پیڑپودے، سب اپنی اپنی راہ پر گامزن رہتے ہیں، روئے زمین زندگی اور زندوں سے معمور رہتی ہے! موت کہیں کونے میں دبکتی رہتی ہے، دفعتہ ایک جھپٹاّ مارتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ یا زندگی کے دسترخوان سے کوئی ٹکڑا گرجاتاہے جسے وہ اٹھالیتی ہے!!
سورج نکل اور ڈوب رہاہے، زمین اس کے گرد گردش کررہی ہے، زندگی کی کونپلیں اِدھر اْدھر نکل رہی ہیں۔ ہرچیز نموپذیر ہے۔ اس میں اضافہ تعداد میں بھی ہورہاہے اور نوعیت میں بھی، کمّیت میں بھی ہورہاہے اور کیفیت میں بھی، اگر موت کچھ کرسکنے کے قابل ہوتی تو زندگی کی روانی ٹھہرجاتی، لیکن زندگی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی، بپھری ہوئی اور موج زن قوتوں کے مقابلے میں موت ایک کم زور اور سکڑی سمٹی قوت ہے۔ زندہ جاوید اللہ واحد کی قوت سے زندگی کی کونپلیں نکلتی ہے، یہاں تک کہ ایک تناور درخت وجود میں آجاتا ہے!!
دوسرا خیال: کسی نظریہ کے لیے جینا زندگی کو طویل اور سرمدی بنادیتا ہے
جب ہم صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں تو زندگی ہمیں مختصر اور معمولی نظر آتی ہے۔ ہمارے سنِ شعور کو پہنچنے سے اس کاآغاز ہوتاہے اور ہماری محدود عمر کے اختتام کے ساتھ اس کابھی خاتمہ ہوجاتاہے! لیکن جب ہم دوسروں کے لیے، یا کسی نظریّے کے لیے جیتے ہیں تو اس صورت میں زندگی بہت طویل اور عمیق نظرآتی ہے۔ اس کا نقطہ آغاز وہ ہوتاہے، جہاں سے انسانیت کاآغاز ہوا ہے اور اس روئے زمین سے ہماری جدائی کے بعد بھی اس کا سلسلہ دراز رہتاہے!!اس طرح ہم اپنی انفرادی عمر میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں۔ یہ اضافہ حقیقی معنیٰ میں ہوتاہے، نہ کہ وہمی طورپر۔ اس طرح زندگی کاتصور دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کے بارے میں ہمارے احساس کو کئی گنا بڑھادیتا ہے۔ زندگی سالوں کی گنتی کانام نہیں ہے۔ بلکہ احساسات و جذبات کا شمار زندگی سے عبارت ہے۔ اس صورت میں جس چیز کو واقعیت پسند وہم قرار دیتے ہیں، وہ اصل میں حقیقت میں ہوتی ہے، ان کے تمام حقائق سے زیادہ درست حقیقت! اس لیے کہ زندگی انسان کے احساس سے الگ کردیجیے۔ اسے حقیقی معنیٰ میں خود زندگی سے عاری کردیں گے اور اگر کسی انسان کااحساس اپنی زندگی کے بارے میں کئی گنا بڑھ جائے تو عملاً اس کی زندگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔مجھے لگتاہے کہ یہ مسئلہ اتنا بدیہی ہے کہ اس میں کسی بحث وجدال کی ضرورت نہیں۔ ہم جب دوسروں کے لیے جیتے ہیں تو درحقیقت خود اپنی زندگی میں کئی گنا اضافہ کرلیتے ہیں اور جس قدر دوسروں کے بارے میں ہمارے احساس میں اضافہ ہوگا خود اپنی زندگی کے بارے میں ہمارا احساس بڑھے گا اور آخرکار خود زندگی کو ہم کئی گنا بڑھالیں گے۔
تیسرا خیال: خیرکا درخت تناور اور شر کا درخت کم زور ہوتا ہے
شرکا بیج لہلہاتا ہے، لیکن خیر کا بیج پھل دیتا ہے۔ پہلا فضا میں تیزی سے بڑھتا ہے، لیکن اس کی جڑیں مٹی میں قریب ہی ہوتی ہیں۔ اپنی پھیلی ہوئی شاخوں کی وجہ سے وہ خیر کے درخت تک روشنی اور ہوا نہیں پہنچنے دیتا۔ خیر کادرخت سست رفتاری کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہیں، جو اسے گرمی اور ہوا کا بدل فراہم کرتی ہیں۔ہم جب شر کے درخت کے فریبی اور زرق برق مظہر سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی قوت اور صلاحیت کاجائزہ لیتے ہیں تو وہ ہمیں بہت کم زور، خستہ اور نرم دکھائی دیتا ہے اور اس میں کوئی حقیقی سختی نظرنہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں خیر کادرخت آزمائشوں پر جمارہتا ہے۔ آندھی طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ وہ پْرسکون انداز میں دھیرے دھیرے بڑھتا رہتا ہے اور شر کے درخت کی جانب سے آنے والے جھاڑجھنکاڑ اور کانٹوں کی مطلق پروا نہیں کرتا۔
چوتھاخیال: خیرکاپہلو تمام انسانوں میں ہوتا ہے
ہم جب لوگوں کے دلوں میں اچھے پہلو کو محسوس کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ان میں بہت کچھ خیر ہے، جسے نگاہیں اوّل وہلہ میں نہیں دیکھ پاتیں! میں نے اس کا تجربہ کیاہے۔میرا یہ تجربہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی‘ جن کے بارے میں ابتداء میں بہ ظاہر اندازہ ہوتاہے کہ وہ شرپسند یا شعور واحساس سے بے بہرہ ہیں۔ ان کی غلطیوں اورحماقتوں پر معمولی ہم دردی کااظہار کیجیے، ان سے حقیقی محبت کاتھوڑا معاملہ کیجیے، ان کی دلچسپیوں اور مسائل کی جانب،بغیر کسی بناوٹ کے، معمولی توجہ مبذول کیجیے، پھر آپ ان کے دلوں میں خیرکاچشمہ پھوٹتا ہوا دیکھیں گے۔ آپ انھیں صدق و صفا اور اخلاص کے ساتھ اپنی جانب سے جو کچھ دیں گے وہ اگرچہ معمولی اور کم زور ہوگا، لیکن اس کے بدلے وہ اپنی محبت و مودّت اور اپنا اعتماد آپ کے حوالے کردیں گے۔ نفسِ انسانی میں شراتنا گہرا نہیں ہوتا،جتنا ہم بسااوقات تصور کرتے ہیں۔ وہ اس اوپری سخت چھلکے میں ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ بقا کے لیے زندگی کی جدّوجہد کا سامنا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ کسی اندیشے سے مامون ہوجاتے ہیں تو وہ سخت چھلکا ہٹ جاتاہے اور اندر میٹھا لذیذ گودا نکل آتا ہے۔ یہ میٹھا پھل اسی شخص کو حاصل ہوتاہے، جو لوگوں کو اپنی جانب سے امن، اپنی محبت پر اعتماد اور ان کی جدّوجہد، پریشانیوں، غلطیوں اور حماقتوں پر حقیقی ہم دردی کااحساس دلاسکے۔ ابتداء ہی میں کشادہ دلی کے معمولی مظاہرے سے یقینی طورپر یہ سب چیزیں حاصل ہوسکتی ہیں۔ بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ اتنی ہی توقع کرسکتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے، اپنی ذات پر اسے برتا ہے، اس لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ مجرد کلمات نہیں ہیں جو خوابوں اور اوہام کی پیداوار ہوں!
پانچواں خیال: دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھانے کی ضرورت ہے
جب ہمارے دلوں میں محبت، ہمدردی اور خیر کے بیج پروان چڑھتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو بہت سی مشقتوں اور زحمتوں سے بچالیتے ہیں۔ پھر ہمیں دوسروں کی چاپلوسی کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس لیے کہ اس وقت ہم ان کی مدح و ثنا کرنے میں سچے اور مخلص ہوں گے۔ ہم ان کے دلوں میں چھپے خیر کے خزانوں کو واشگاف کریں گے اور ان کی ایسی پاکیزہ امتیازی خصوصیات دیکھیں گے جن کی صدق دل کے ساتھ تعریف وتحسین کریں گے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہے، جس میں خیرکاکوئی پہلو یا کوئی اچھی امتیازی صفت نہ ہو، جو اسے کلمہ خیرکامستحق بناتی ہو، لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ہمیں اس کا علم اسی صورت میں ہوپاتا ہے جب ہمارے دلوں میں محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے!اسی طرح ہمیں اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کہ ان سے دل تنگ کرنے اور ان کی غلطیوں اور حماقتوں کو صبر کرنے کی مشقت برداشت کریں، اس لیے کہ جب ہمارے دلوں میں ہمدردی کا بیج پروان چڑھے گا تو ان کی کم زوری اور نقص کے مقامات پر ہم ان کے ساتھ ہم دردی کااظہار کریں گے اور ان سے واقف ہونے کے لیے ان کی ٹوہ میں نہیں لگیں گے۔ اس طرح فطری طورپر ہم اپنے آپ کو ان سے بغض و نفرت کی مشقت یا ان سے بچنے کی پریشانی میں نہیں ڈالیں گے۔ دوسروں سے ہماری نفرت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ خیر کا بیج ہمارے دلوں میں پوری طرح پروان چڑھاہوا نہیں ہوتاہے اور دوسروں سے ہم اس لیے خوف کھاتے ہیں، کیوں کہ ہمارے اندر خیر پر اعتماد کاعنصر کم ہوتا ہے۔ ہم خود کو کتنی طمانیت اور راحت دیں گے، جب دوسروں کی خدمت میں اپنی ہم دردی، محبت اور اعتماد کی سوغات پیش کریں گے اور ہمارے دلوں میں محبت، ہم دردی اور خیر کے بیج پروان چڑھیں گے۔
چھٹا خیال: حقیقی عظمت اور کمال لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے میں ہے
ہم جب لوگوں سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اپنے اس احساس کی بنا پر کہ ہماری روحیں ان سے زیادہ پاکیزہ، ہمارے دل ان سے زیادہ صاف شفاف، ہمارے نفس ان سے زیادہ کشادہ اور ہماری عقلیں ان سے زیادہ تیز ہیں، تو یہ ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا ہے۔
بلکہ اس طرح ہم اپنے لیے سب سے آسان راستہ اور سب سے کم زحمت کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ حقیقی عظمت یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں، ان کی کم زوری، کمی اور غلطی پر بردباری اور ہم دردی کابھرپور مظاہرہ کریں اور انھیں پاک صاف کرنے، تہذیب یافتہ بنانے اور حتی الامکان اپنے معیار تک بلند کرنے کی حقیقی خواہش رکھیں۔اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بلند آفاق اور اعلیٰ اقدار سے دست بردار ہوجائیں، یا ان لوگوں کی چاپلوسی کریں اور ان کے رذائل پر ان کی مدح وثنا کریں یا انھیں یہ احساس دلائیں کہ ہم ان سے برتر ہیں۔ ان متضاد امور کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس راہ میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی سے جھیلنا ہی حقیقی عظمت ہے۔
ساتواں خیال: دوسروں سے تعاون چاہناکوئی عیب کی بات نہیں ہے
جب ہم قدرت و صلاحیت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جاتے ہیں تب ہمیں احساس ہوتاہے کہ دوسروں سے مدد طلب کرنا ہمارے لیے کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں سے بھی نہیں جو ہم سے کم صلاحیت کے حامل ہوں! اس سے ہماری قدر وقیمت کم نہیں ہوتی کہ دوسروں کی مدد سے ہم اپنی موجودہ حالت کو پہنچے ہیں۔ ہم ہر کام اپنے دم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بات میں عار سمجھتے ہیں کہ دوسروں سے مدد چاہیں یا ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد میں شامل کرلیں۔ ہمیں اس بات میں اپنی بے وقعتی کااحساس ہوتاہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے ذریعے اس چوٹی کو سر کرنے میں اْس مدد کا کوئی اثر تھا۔ یہ سب ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہمیں اپنے آپ پر زیادہ اعتماد نہیں ہوتا، یعنی جب ہم بالفعل کسی پہلو میں کم زور ہوتے ہیں، لیکن جب ہم واقعتہً طاقت ور ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا مطلق احساس نہیں ہوتا۔بچہ جب چلنے کی کوشش کرنے لگتاہے تو وہ اس ہاتھ کو جھٹک دیتاہے جو اسے سہارا دیے ہوئے ہوتا ہے!
جب ہم طاقت وقوت کے ایک متعین معیار تک پہنچ جائیں گے تو دوسروں کی مدد کو شکر و سپاس اور خوشی و مسرت کے جذبے کے ساتھ قبول کریں گے۔ شکریہ اس بات پر کہ ہماری مدد کی گئی اور مسرت اس چیز کی کہ جس پر ہمارا ایمان ہے اس پر ایمان رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ہیں، جو جدّوجہد اور ذمہ داری میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ شعور کی ہم آہنگی پر فرحت و مسرت کااحساس بڑا پاکیزہ اور مقدس احساس ہے۔
آٹھواں خیال: دوسرے ہمارے افکار کو اختیار کرنے لگیں تو اس پر ہمیں خوش ہوناچاہیے
ہم اپنے افکاراور عقائد کو اپنے لیے خاص کیے ہیں اور جب دوسرے انھیں اختیارکرنے لگیں تو اس پر اپنے غیظ وغضب کا اظہارکریں اور پوری کوشش کریں کہ ان کی نسبت ہماری طرف ہی کی جائے اور دوسرے لوگ ان کے دشمن بنے رہیں، ایسا ہم اس وقت کرتے ہیں جب ان افکار و عقائد پر ہمارا ایمان پختہ نہیں ہوتا، جب ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے ان کا صدور نہیں ہوتا، بلکہ وہ بلاارادہ ظاہر ہوجاتے ہیں، جب وہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ محبوب نہیں ہوتے!حقیقی خوشی ہی فطری نتیجہ ہے اس چیز کاکہ ہم اپنے جیتے جی اپنے افکار و عقائد کو دوسروں کی ملکیت میں دیکھیں۔ محض اس بات کا تصور کہ یہ افکار و عقائد، ہمارے اس روئے زمین کو داغِ مفارقت دینے کے بعد، دوسروں کے لیے آسودگی اور سیرابی کا ذریعہ بنیں گے، اس بات کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دل رضا، سعادت اور اطمینان سے لب ریز ہوجائیں۔صرف تاجر، ہی اپنے سامانِ تجارت پر ٹریڈ مارک لگاتے ہیں، تاکہ دوسرے لوگ ایسا سامان نہ بناسکیں اور ان کے منافع کو ہڑپ نہ کرسکیں۔ رہے مفکرین اور عقائد کے حاملین تو وہ اس چیز کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان کے افکار و عقائد میں حصہ بٹائیں اور ان پر اس حد تک ایمان لائیں کہ انھیں ان کے اولین علم برداروں کی طرف منسوب کرنے کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنے لگیں! وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ وہی ان افکار و عقائد کے مالک ہیں، بلکہ وہ خود کو ان کی منتقلی اور ترجمانی کے لیے محض واسطہ گردانتے ہیں۔ ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ جس سرچشمہ سے وہ سیراب ہوتے ہیں، وہ ان کاپیدا کیاہوا ہے نہ ان کے ہاتھوں کا بنایاہوا۔ انھیں حاصل ہونے والی خوشی و مسرت کاپاکیزہ احساس ان کے اس اطمینان کاثمرہ ہوتاہے کہ اس اصلی سرچشمے سے انکا گہرا تعلق ہے!.
نواں خیال: حقائق کو سمجھنے اور اس کاادراک کرنے میں بڑا فرق ہے
ہم حقائق کو سمجھیں اور ہم حقائق کا ادراک کریں، دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔بہت زیادہ فرق۔پہلی چیز علم ہے اور دوسری چیز معرفت! پہلی میں ہمارا تعامل مجرد الفاظ و معانی کے ساتھ، یا جزئی تجربات اور نتائج کے ساتھ ہوتا ہے، جب کہ دوسری میں ہم زندہ قبولیتوں اور کلی مطالب کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔پہلی میں ہمیں اپنی ذات کے باہر سے معلومات حاصل ہوتی ہیں، پھر وہ ہماری عقلوں میں جاگزیں ہوکر امتیازی صورت میں محفوظ رہتی ہیں۔ دوسری میں حقائق ہمارے اندرون سے پھوٹتے ہیں، ان میں خون اسی طرح دوڑتاہے، جس طرح ہماری رگوں اور اعضاء میں دوڑتا ہے۔ اور اس کی شعاعیں ہماری نبض سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔
پہلی میں مختلف خانے اور ان کے ذیلی عناوین ہوتے ہیں، علم کاخانہ اوراس کے تحت مختلف عناوین، مذہب کاخانہ اور اس کے تحت مختلف ابواب و فضول۔ آرٹ کاخانہ اور اس کے تحت مختلف مناہج اور رجحانات اور دوسری میں صرف ایک طاقت ہوتی ہے، جو کائنات کی عظیم ترین طاقت سے مربوط ہوتی ہے۔ صرف ایک نالی ہوتی ہے جو اصل چشمہ سے جاملتی ہے۔
دسواں خیال: رہ نمائی کا کام ہمیشہ اعلیٰ روحانی قوتوں کے حاملین نے انجام دیاہے
ہمیں انسانی علوم کی تمام فروع میں ماہرین کی سخت ضرورت ہے، ایسے لوگوں کی جو اپنی تجربہ گاہوں اور دفاتر کو عبادت گاہوں اور خانقاہوں کی شکل دے دیں،جو اپنے دائرہ اختصاص کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں، صرف قربانی کے احساس کے ساتھ نہیں، بلکہ اس میں انھیں لذت کا بھی احساس ہو۔ اس عبادت گزار کا احساس جو اپنی روح کوبہ خوشی اپنے معبود کے حوالے کردیتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنابھی ضروری ہے کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو زندگی کو کوئی رْخ دیتے ہیں یا انسانیت کے لیے کوئی راہ طے کرتے ہیں۔رہ نمائی ہمیشہ انھی لوگوں نے کی ہے اور آیندہ بھی وہی کریں گے جو اعلیٰ روحانی قوتوں کے مالک ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایسے مقدس شعلے کے حامل ہوتے ہیں، جس کی حرارت میں علوم و معارف کے تمام ذرات پگھل جاتے ہیں اور جس کی روشنی میں راہِ سفر صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ اعلیٰ اور بلند تر ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے وہ تمام جزئیات سے مالامال رہتاہے اور اسے بہترین زادِ راہ حاصل رہتا ہے۔ یہ رہ نما اپنی بصیرت سے اس ہمہ گیر وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں، علم،فن، عقیدہ اور عمل جس کے مختلف مظاہر ہیں، چنانچہ وہ ان میں سے کسی کو نہ حقارت کی نظرسے دیکھتے ہیں نہ اسے اس کے معیار سے بلند تر درجہ دیتے ہیں۔چھوٹے لوگ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مظاہر کی ان قوتوں کے درمیان تعارض ہے، چنانچہ وہ مذہب کے نام پر علم سے برسرپیکار رہتے ہیں یا علم کے نام پر مذہب سے جنگ برپا کیے رہتے ہیں۔
یہ لوگ فن کو عمل کا نام دے کر اس کی تحقیر کرتے ہیں یا تحریک پیدا کرنے والی قوت حیات کو صوفیانہ عقیدہ کہہ کر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان طاقتوں میں سے ہر طاقت کو دوسری طاقتوں کے مجموعے سے الگ تھلگ پاتے ہیں، حالاں کہ وہ سب ایک ہی سر چشمے سے نکلی ہوئی ہیں، اس عظیم ترین قوت سے جس کا تسلط اس کائنات پر قائم ہے۔لیکن بڑے رہ نما اس وحدت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا اس اصل سرچشمے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ اس سے فیض اٹھاتے رہتے ہیں!یہ لوگ کم ہیں۔ تاریخ انسانیت میں ان کی تعداد بہت قلیل ہے، بلکہ ان کا وجود نادر ہے، لیکن انھی لوگوں سے ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جو قوت اس کائنات کی نگرانی کررہی ہے اسی نے انھیں ڈھالا ہے اور طے شدہ اور مطلوبہ وقت میں انھیں بیدار کیاہے۔
گیارہواں خیال: خوارق پر اعتقاد کا مطلق انکارخطرناک ہے
خوارق اور گم نام قوتوں پر اعتقادکے معاملے میں مطلق خودسپردگی خطرناک ہے۔ اس لیے کہ وہ خرافات تک لے جاتا ہے اور زندگی کو بہت بڑے وہم میں مبتلا کردیتا ہے!لیکن اس اعتقاد کا مطلق انکار بھی کَم خطرناک نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز نامعلوم تک رسائی کے تمام دروازوں کو بندکردیتی ہے اور ہر ان دیکھی طاقت کا انکار کردیتی ہے۔ محض اس بنا پر کہ وہ ہماری زندگی کے کسی مرحلے میں ہمارے انسانی ادراک سے پرے تھی! اس طرح ہمارا ادراک اس کائنات کے مقابلے میں حجم، طاقت اور قدرو قیمت کے اعتبار سے چھوٹا ہوجاتا ہے اور معلوم کے حدود سے گھرجاتاہے اور وہ اس لمحے تک جب کائنات کی عظمت سے اس کامقابلہ کیاجائے، حقیر اورانتہائی حقیر ہوتا ہے۔
اس روے زمین پر انسان کی زندگی کائناتی قوتوں کے ادراک سے عاجزی کے تسلسل سے عبارت ہے، دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ انسانی زندگی ان قوتوں کے ادراک پر قدرت کا تسلسل ہے۔ جب بھی اس نے بندشوں سے گلوخلاصی حاصل کی ہے اور اپنے طویل راستے میں آگے کی طرف قدم بڑھایا ہے اسے ان قوتوں کا ادراک ہواہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ان قوتوں میں سے جو کبھی انسان کے لیے نامعلوم اور اس کے ادراک سے پرے تھیں، کسی قوت کے ادراک پر اس کا قادر ہوجانا اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے دیکھ لے کہ کائنات میں دوسری بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جن کاابھی وہ ادراک نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے کہ ابھی وہ تجربہ کے مرحلے سے گزررہاہے۔عقل انسانی کے احترام کا تقاضاہے کہ ہم اپنی زندگی میں نا معلوم کومناسب مقام دیں۔ اس لیے نہیں کہ ہم اپنے تمام معاملات اس کے حوالے کردیں، جیساکہ اوہام و خرافات کے دل دادہ کرتے ہیں۔ بلکہ اس لیے تاکہ ہم حقیقی طورپر اس کائنات کی عظمت کااحساس کرسکیں اور اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی قدرو قیمت پہچان سکیں۔ اسی طرح عقل انسانی کے احترام کایہ بھی تقاضا ہے کہ وہ روح انسانی کے لیے بہت سی قوتوں کے دروازے کھول دے، جس سے معرفت حاصل ہوسکے اور ان روابط کاعلم ہوسکے جو ہمیں ہمارے اندروں سے اس کائنات سے جوڑے ہوئے ہیں۔ اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ یہ قوتیں ان تمام چیزوں سے زیادہ عظیم اور عمیق ہیں جن کاہم نے اب تک اپنی عقلوں سے ادراک کیاہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر دن کسی نئے ’نامعلوم‘ کا انکشاف ہورہاہے اور ہم برابر اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
بارہواں خیال: اللہ کی عظمت کااعتراف خود انسان کی شان بڑھاتا ہے
اس زمانے میں بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت مطلق کا اعتراف کرنے سے انسان کی قدرو قیمت کم ہوجاتی ہے اور اس کائنات میں اس کی شان گھٹ جاتی ہے۔ گویا اللہ اور انسان دو حریف ہیں جو اس کائنات میں عظمت اور قوت حاصل کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
میرااحساس ہے کہ جوں جوں اللہ کی عظمتِ مطلق کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ ہوگا اسی قدر ہمیں بھی عظمت حاصل ہوگی۔ اس لیے کہ ہم ایک عظیم اللہ کی تخلیق ہیں۔ جولوگ گمان کرتے ہیں کہ ان کامقام اس وقت بلند ہوجاتاہے جب وہ اپنے وہم میں اپنے معبود کا درجہ گرادیتے یا اس کا مطلق انکارکردیتے ہیں، وہ محدود لوگ ہیں جو قریبی افق کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ انسان نے اپنے ضعف اور عاجزی کے زمانے میں اللہ کی پناہ حاصل کی تھی، لیکن اب جب کہ وہ طاقت ور ہوگیا ہے، اسے کسی معبود کی ضرورت نہیں ہے۔ گویا ضعف بصیرت کے دروازے وا کرتا ہے اور طاقت وقوت اس پر خطِ نسخ پھیر دیتی ہے۔ انسان کے شایانِ شان یہ ہے کہ جوں جوں اس کی قوت میں نمو ہو، اسی قدر اللہ کی عظمت مطلق کے بارے میں اس کے احساس میں اضافہ ہو، اس لیے کہ اس کی قوتِ ادراک میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر وہ اس قوت کے سرچشمہ کا بہ خوبی ادراک کرسکے گا۔
تیرہواں خیال: غلامی آزادی کے لبادے میں
بسااوقات غلامی آزادی کے لبادے میں چھپ جاتی ہے اور اس کا اظہار تمام قیود سے آزادی، عرف اور روایات سے آزادی اور اس کائنات میں انسانیت کی ذمہ داریوں سے آزادی کی شکل میں ہوتا ہے۔ ذات، دباؤ اور کم زوری کے قیود سے آزادی اور انسانیت کی قیود اور ذمہ داریوں سے آزادی، دونوں کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر ہی حقیقی آزادی ہے۔ جب کہ دوسری آزادی فی الواقع ان قدروں سے عاری ہونا ہے، جنھوں نے انسان کو انسان بنایاہے اور اسے حیوانیت کی بھاری بیڑیوں سے آزاد کیا ہے۔یہ بناوٹی آزادی ہے، اس لیے کہ یہ درحقیقت حیوانی جذبات و میلانات کے آگے خودسپردگی اور ان کی غلامی ہے۔ انسانیت نے طویل عرصہ اس غلامی کی بیڑیوں کو کاٹنے اور انسانیت کی آزاد فضا میں سانس لینے کی جدّوجہد کرتے ہوئے گزارا ہے۔
انسانیت اپنی ناگزیر ضروریات کے اظہار سے کیوں شرماتی ہے؟ اس لیے کہ فطری طورپر وہ محسوس کرتی ہے کہ ان ضروریات کے ساتھ بلندی اختیارکرنا انسانیت کی اولین قدر ہے۔ اس کی بیڑیوں سے نجات پانا ہی حقیقی آزادی ہے اور گوشت اور خون کے محرکات پر غلبہ پانا اور کم زوری اور ذلّت کے اندیشوں پر قابو پانا، انسانیت کے مفہوم کو راسخ کرنے میں دونوں کا کردار برابر ہے۔
چودھواں خیال: اس نظریہ میں کوئی زندگی نہیں جوکسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اصولوں کو افراد سے الگ کرکے پیش کرنے پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے کہ گرم اور حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدہ کے بغیر اصول کی کوئی حیثیت نہیں، اور ایسا عقیدہ انسان کے دل کے علاوہ اور کہیں کیوں کر پایاجاسکتا ہے؟۔اصول اور افکار اگر حرکت و عمل پر آمادہ کردینے والے عقیدے پر مبنی نہ ہوں تو وہ محض کھوکھلے الفاظ ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ بے جان معانی ہیں، جو چیز ان کو زندگی بخشتی ہے وہ ایمان کی حرارت ہے، جو کسی انسان کے دل سے نکلتی ہے۔ دوسرے لوگ ہرگز کسی ایسے اصول یا نظریہ پر ایمان نہیں لائیں گے جو کسی حرارت بخش دل میں نہیں، بلکہ ٹھنڈے ذہن میں پیداہوا ہو۔پہلے تم خود اپنے نظریہ پر ایمان لاؤ۔ اس پر تمھارا ایمان گرم عقیدے کی حد تک ہو! تبھی دوسرے لوگ بھی اس پر ایمان لائیں گے ورنہ اس کی حیثیت محض چند الفاظ کی ہوگی جو روح اور زندگی سے خالی ہوں۔
اْس نظریہ کے لیے کوئی زندگی نہیں ہے، جو کسی انسان کے سانچے میں نہ ڈھلاہو اور جس نے کسی ایسے زندہ وجود کی شکل نہ اختیار کی ہو جو روے زمین پر کسی انسان کی صورت میں چلتاپھرتا ہو۔اسی طرح اِس میدان میں اْس انسان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، جس کے دِل میں کسی ایسے نظریہ نے گھر نہ کیاہو، جس پر وہ حرارت اور اخلاص کے ساتھ ایمان ر کھتاہو۔نظریہ اور فرد کے درمیان فرق کرنا روح اور جسم یا معنی اور لفظ کے درمیان فرق کرنے کے مثل ہے۔ بسااوقات یہ عمل ناممکن ہوتا ہے اور اگر نظریہ کو بھی فرد سے الگ کردیاجائے تو اکثر وہ فنا کے گھاٹ اترجاتا ہے۔ جس نظریہ کو کبھی زندگی ملتی ہے اس کی پرورش یقینی طورپر کسی انسان کے خونِ جگر سے ہوتی ہے۔ رہے وہ افکار جو اس مقدس غذا سے محروم رہتے ہیں، وہ مردہ پیدا ہوتے ہیں اور ان میں انسانیت کو ایک بالشت بھی آگے بڑھانے کی سکت نہیں ہوتی۔
پندرہواں خیال: پاکیزہ مقصد کے لیے گھٹیا وسیلہ اختیارکرنا درست نہیں
میرے لیے یہ تصور کرنا دشوار ہے کہ ہم کسی گھٹیا وسیلے کو کام میں لاکر کسی پاکیزہ مقصد تک کیوں کر رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟ پاکیزہ مقصد کسی پاکیزہ دل ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ پھر اس دل کے لیے کیوں کر ممکن ہے کہ کسی گھٹیا وسیلے کو بروئے کار لانے کو گوارا کرے اور اس وسیلہ کو استعمال کرنے کا طریقہ دریافت کرے۔ ہم جب کسی سرسبز و شاداب علاقے میں پہنچنے کے لیے کسی کیچڑ بھرے راستے سے ہوکر گزریں گے تو ضروری ہے کہ ہم اپنی منزل تک کیچڑ میں لت پت ہوکر پہنچیں۔کیچڑ سے ہمارے پیر بھی گندے ہوجائیں گے اور وہ جگہیں بھی جہاں ہمارے پیر پڑیں گے۔ یہی حال اس وقت ہوتاہے جب ہم کوئی گھٹیا اور گندا وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ گندگی ہماری روحوں سے چپک جاتی ہے اور اس کے اثرات ہماری روحوں پر بھی پڑتے ہیں اور اس مقصد پر بھی جسے ہم حاصل کرناچاہتے ہیں۔ روح کے معاملے میں وسیلہ مقصد کا ایک جز ہے۔ عالمِ روح میں یہ امتیازات اور تقسیم نہیں ہوتیں۔ صرف
انسانی شعور ہی ایسا ہے جب اس میں کسی پاکیزہ مقصد کااحساس پیداہوتا ہے تو وہ ہرگز کسی گھٹیا وسیلے کو اختیار کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ فطری طورپر وہ ہرگز اسے اختیار نہیں کرے گا۔ ’مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی وسیلہ اختیار کیاجاسکتاہے۔ یہ مغرب کاعظیم فلسفہ ہے۔ اس لیے کہ مغرب اپنے ذہن ودماغ میں جیتاہے اور دماغ میں وسائل اور مقاصد کے درمیان تقسیم اور فرق کیے جاسکتے ہیں۔٭٭٭