عبدا للہ بن جحشؓ

مصنف : مولانا امین احسن اصلاحی

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : 2014 فروری

سیرت الصحابہؓ
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ
مولانا امین احسن اصلاحی

 

     حضرت عبداللہ بن جحش بنوخزیمہ سے تعلق رکھتے تھے۔اسد بن خزیمہ کی نسبت سے ان کا قبیلہ بنواسد کہلاتا ہے۔ ان کے داداکا نام ریاب (یارئاب)بن یعمر تھا۔ ابن سعد نے حضرت عبداللہ کے قبیلے کو ان کے ساتویں جد کی نسبت سے بنو غنم بن دودان کا نام دیا ہے، دودان اسد بن خزیمہ کے پوتے تھے۔ بنو اسد بن خزیمہ سیدنا عثمان کے قبیلہ بنوامیہ (بنو عبد شمس یا حرب بن امیہ) کے حلیف تھے۔ابو محمد حضرت عبداللہ کی کنیت تھی۔
حضرت عبداللہ بن جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زادتھے،ان کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔ ابولہب کی باندی ثویبہ نے پہلے حضرت حمزہ پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد حضرت ابوسلمہ کو دودھ پلایا۔اگر یہ روایت درست ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش نے بھی ثویبہ کا دودھ پی رکھا تھاتو لامحالہ ان کا زمانہ رضاعت موخر ہو گا، کیونکہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم کے بعد پیدا ہوئے۔ثویبہ کے بیٹے مسروح آپ کے دودھ شریک بھائی تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ثویبہ اور مسروح کے بارے میں دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ دونوں وفات پا چکے ہیں۔
بعثت نبوی سے پہلے کا زمانہ فترت کہلاتا ہے، یعنی وہ دور جب انبیائے گذشتہ سے ملنے والی ہدایت لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکی تھی اور نبی آخر الزمان کا ابھی ظہور نہ ہوا تھا۔ اس زمانے میں بھی معدودے چند لوگ تھے جو شرک سے دور اور توحید پر قائم تھے،انھیں روز قیامت اپنے رب سے ملنے کا انتظار تھا۔ ان راست کردار نفوس میں جہاں اصحاب اخدود*، حضرت خالد بن سنان، حضرت قس بن ساعدہ، حضرت زید بن عمرو بن نفیل اور حضرت ورقہ بن نوفل کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں حضرت عبداللہ بن جحش کا نام بھی لیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ زید بن عمرو بن نفیل کی طرح دین ابراہیم کی طرف مائل تھے، جبکہ ان کے بھائی عبیداللہ بن جحش پرنصرانیت کا غلبہ رہا۔ بت پرستی سے نفرت رکھنے اور دین حنیف کی طرف میلان رکھنے کی وجہ سے حضرت عبداللہ کو السابقون الاولون میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ حضرت ابوبکرکی دعوت پر ایمان لائے،ابھی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دار ارقم میں تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز نہ کیا تھا۔ اسلام کی طرف سبقت کرنے میں ان کا نمبر اکتیسواں تھا۔عام خیال یہی ہے کہ حضرت عبداللہ کے والد جحش بعثت نبوی سے پہلے انتقال کر چکے تھے، تاہم ایک روایت ہے کہ وہ زندہ تھے اور نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔جحش کے کل چھ بچے تھے،تاریخ اسلامی میں ہر ایک کا اہم مقام ہوا۔ عبیداللہ بن جحش اورابواحمد بن جحش حضرت عبداللہ کے ساتھ ہی ایمان لائے۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش، حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اہلیہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش، حضرت مصعب بن عمیر کی زوجہ حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت عبداللہ بن جحش کی بہنیں تھیں۔
نبوت کے پانچو یں سا ل قریش کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے اہل ایمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی کہ وہاں جس بادشاہ کی حکومت ہے، اس کے ہاں ظلم نہیں ہوتا۔حبشہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،(تم وہاں اس وقت تک قیام کرسکتے ہو) جب تک اللہ تمھارے لیے شدائد سے چھٹکارے کی راہ نہ نکال دے۔ چنانچہ ماہ رجب میں پندرہ یا سولہ مرد عورتوں کا پہلا قافلہ حبشہ روانہ ہوا۔ چند ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی،اسے ہجرت ثانیہ کہا جاتا ہے، حضرت عبداللہ بن جحش اور عبیداللہ بن جحش ان میں شامل تھے۔ عبیداللہ کی بیوی ام حبیبہ بنت ابوسفیان ان کے ساتھ تھیں۔اس طرح دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی ہو گئی۔کچھ عرصہ کے بعد مشرکین قریش کے ایمان لانے اوران کی طرف سے مسلمانوں پرہونے والا تشدد بند ہونے کی افواہ حبشہ پہنچی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک تعداد نے مکہ واپسی کا قصد کیا، حضرت عبداللہ بن جحش ان میں سے ایک تھے۔ اس خبرکے غلط ثابت ہونے پر کچھ مہاجرین حبشہ لوٹ گئے، تاہم حضرت عبداللہ بن جحش ان تینتیس اصحاب میں سے تھے جو مکہ میں مقیم ہو گئے اور یہیں سے مدینہ کو ہجرت کی۔ قیام حبشہ کے دوران میں حضرت عبداللہ کے بھائی عبیداللہ بن جحش مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے اور اپنی وفات تک وہیں رہے۔
”اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘‘کے مضمون نگار کا کہنا ہے: ”عبداللہ بن جحش’حلف‘(اتحاد قبائل) کے ایک گروہ کے ممتاز ترین فرد تھے۔اس ’حلف‘ میں ان کی بہن زینب بھی شامل تھیں۔“ کوشش کے با وجود ہمیں اس کا مصداق نہیں مل سکا۔ عربوں کے مشہور معاہدین ’احلاف‘،’مطیبین‘اور ’حلف الفضول‘کے ارکان میں حضرت عبد اللہ کا نام شامل نہیں۔
انصار کے قبول اسلام کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت ابوسلمہ نے پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا۔ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداللہ بن جحش، ان کی اہلیہ اور نابینابھائی ابو احمد عبد دار ہجرت پہنچے اورقبا میں بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم ہوئے۔ حضرت عبداللہ کے اعزہ عکاشہ بن محصن،ابوسنان بن محصن، سنان بن ابوسفیان، شجاع بن وہب، عقبہ بن وہب، اربدبن حمیر(یا حمیرہ)، منقذ بن نباتہ،سعیدبن رقیش، یزید بن رقیش، محرز بن نضلہ، قیس بن جابر،عمرو بن محصن، مالک بن عمرو،صفوان بن عمرو، ثقف بن عمرو، ربیعہ بن اکثم،سخبرہ بن عبیدہ اورزبیر بن عبید ہ نے بھی ہجرت کی اور مبشر بن عبدالمنذر ہی کے ہاں ٹھہرے۔بنو غنم کی خواتین میں سے زینب بنت جحش،حمنہ بنت جحش، ام حبیہ بنت جحش، جدامہ بنت جندل،ام قیس بنت محصن،ام حبیب بنت ثمامہ، آمنہ بنت رقیش اور سخبرہ بنت تمیم نے مردوں کا ساتھ دیا۔ پھر مسلمانوں کی اکثریت نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۱ ربیع الاول کو تشریف لائے۔
بنو غنم کے تمام مردو عورت مدینہ ہجرت کر گئے تو ان کے گھروں کو تالے لگ گئے۔ردم کے مقام پرواقع حضرت عبداللہ بن جحش کا گھربھی مقفل ہو گیا۔بنوغنم کی طرح بنو ابو بکیراور بنومظعون کے گھر بھی مکینوں سے خالی ہو گئے۔ایک بار عتبہ بن ربیعہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابو جہل بالائی مکہ جاتے ہوئے بنو جحش کے مکان کے پاس سے گزرے۔عتبہ نے اسے دروازہ بند،بے آباد دیکھ کرسرد آہ بھری اورابودواد ایادی کا یہ شعر پڑھا:
”ہر گھر چاہے کتنی دیر صحیح و سالم رہے، ایک دن الٹے رخ کی ہوا چلتی ہے اور اس پر ویرانیاں چھاجاتی ہیں۔“
ابو جہل نے کہا: اس گھر پر کوئی نہ روئے گا۔ پھرعباس سے مخاطب ہوا کہ یہ تمھارے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام ہے، اس نے ہماری جمعیت کومنتشر کر دیا ہے،قو م کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اورہم میں جدائیاں ڈال دی ہیں۔ کچھ دیر کے بعدابوسفیان نے اس گھر پر قبضہ کر لیااور عمرو بن علقمہ کے ہاتھ بیچ دیا۔ حضرت عبداللہ بن جحش کو پتاچلا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔آپ نے فرمایا: حضرت عبداللہ، کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ اللہ تمھیں جنت میں اس سے بہتر گھردے دے؟کیوں نہیں، ابن جحش نے جواب دیا۔فرمایا: جنت کا یہ گھر تمھیں مل چکا۔مکہ فتح ہوا تو حضرت عبداللہ کے بھائی ابو احمدنے دوبارہ گھر کی بات چھیڑی۔ آپ نے جواب ٹالا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو بتایا: ابو احمد، رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے کہ جو مال اللہ کی راہ میں چلا گیا، اس کی واپسی کی کوشش کی جائے۔ابواحمدنے آپ سے مزید بات نہ کی، تاہم ابوسفیان کو مخاطب کر کے یہ شعر کہہ ڈالے:
”ابو سفیان کو اس معاملے کے بارے میں بتا دو جس کے نتائج شرم ساری ہوں گے۔“
”یعنی اپنے چچیرے کا گھر جوتو نے بیچ ڈالا، اس کا تاوان بھرے گاتوتیرا چھٹکارا ہو گا۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت سے حضرت عبداللہ بن جحش کی مواخات قائم فرمائی۔
اواخر جمادی الثانی ۲ھ (جنوری۴۲۶ء) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداللہ بن جحش کی سربراہی میں نو(واقدی کے خیال میں بارہ) مہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔روایات کے مطابق پہلے آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا تقرر کیا تھا،وہ فرط جذبات سے رونے لگے تو حضرت عبداللہ کو روانہ فرمایا۔ حضرت عبداللہ کے علاوہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن (یا حضرت عمار بن یاسر)، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عامر بن فہیرہ (دوسری روایت: حضرت عامر بن ربیعہ)، حضرت واقد بن عبداللہ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا (شاذ روایت: حضرت صفوان بن وہب (بیضا) اس میں شامل تھے۔یہ چھ اونٹوں پر سوار تھے۔آپ نے حضرت عبداللہ کو ایک خط بھی دیا اور فرمایا: مدینہ سے مکہ کی جانب دو دن کا سفر(اٹھائیس میل کی مسافت)طے کر لینے کے بعد وادء ملل (یا ابن ضمیرہ کے کنویں پر) پہنچ کر اسے پڑھنا۔ چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق جب انھوں نے خط کھولا تو لکھاپایا: ”مکہ اور طائف کے بیچ واقع مقام نخلہ کی طرف سفر جاری رکھو،وہاں پہنچ کرقریش کی نگرانی کرو اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔“ حضرت عبد اللہ نے آپ کے فرمان پرسمع و طاعت کہہ کر اپنے ساتھیوں سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی کوزبردستی آگے لے جاؤں۔ جو شہادت کا طلب گار ہے، میرے ساتھ چلے۔سب چل پڑے، کوئی پیچھے نہ رہا۔ دستہ فرع سے آگے بحران کے مقام پرپہنچا تو حضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعدکا مشترکہ اونٹ کھو گیا۔دونوں اسے تلاش کرنے لگ گئے،ابن جحش باقی ساتھیوں کولے کر چلتے رہے اور نخلہ پہنچ گئے۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر چار افراد پر مشتمل قریش کا قافلہ گزرا۔ اہل قافلہ انھیں دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تو حضرت عکاشہ نے سر منڈا لیا، کفار کو مغالطہ ہوا کہ مسلمان عمرہ کے لیے جا رہے ہیں اور مطمئن ہو گئے۔سدّی کا کہنا ہے کہ یہ غزوہ جمادی الثانی کے آخری دن یا حرام مہینے رجب کی پہلی رات (دوسری روایت: رجب کے آخری دن یاحلال مہینے شعبان کی پہلی رات) میں ہوا۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا، اگر قافلے والوں کو چھوڑ دیا تو یہ حرم پہنچ کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال کیا تو یہ حرام مہینے میں ہوگا۔کچھ تردد کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے، حضرت واقد بن عبداللہ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل بن عبداللہ

 

فرار ہو گیا۔ہجرت مدینہ کے بعد یہ ساتویں مہم اور پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اور حکم پہلے اسیر تھے۔ابن کیسان مقداد کی قید میں تھا، ابن جحش اسے قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن مقداد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کر کے ۵/۱ حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالاں کہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا اور زمانہ جاہلیت میں سرداران قوم کے لیے مرباع (ربع غنیمت) مختص کرنے کا رواج رہ چکا تھا۔
اہل سریہ مدینہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں ماہ حرام،رجب میں جنگ کرنے کو نہیں کہا تھا۔آپ نے مال غنیمت اور اسیروں کے معاملے میں توقف کیااور کچھ لینے سے انکار فرما دیا تو صحابہ پشیمان ہو گئے کہ شاید وہ ہلاکت میں پڑگئے۔مسلمان بھائیوں نے ان کو برابھلا کہا، ادھر قریش نے طعنہ زنی شروع کر دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب نے حرام مہینے کی حرمت پامال کی۔ چہ میگوئیاں بڑھ گئیں توارشاد ربانی نازل ہوا:
”آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کی بابت سوال کرتے ہیں۔کہہ دیجیے،اس مہینے میں جنگ کرنا بہت برا ہے اور (اس کے ساتھ ساتھ) لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنا،اللہ کو نہ ماننا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور حرم کے رہنے وا لوں کو نکال باہر کرنااللہ کے ہاں اس سے بھی بد تر ہے اور فتنہ وفساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔“
اس حکم وحی کے بعد آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ جب قریش نے اسیر چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا تو آپ نے فرمایا: ہم اپنے ساتھیوں سعد اور عتبہ کے لوٹنے تک فدیہ نہیں لیں گے، کیونکہ ہمیں ان کی جانوں کا اندیشہ ہے۔ دونوں اصحاب صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نے سولہ سو دینار فدیہ لے کر قریش کے اسیروں عثمان اور حکم کو چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔
سریہ عبداللہ بن جحش جنگ بدر کے وقوع کا سبب بنا، کیونکہ اس سے قریش کی معیشت کو سخت دھچکا لگا۔ان کی تمام تر خوش حالی شام سے تجارت پر موقوف تھی، حبشہ اور یمن سے تجارت کا اتنا حجم نہ تھا کہ وہ اس پر انحصار کر لیتے۔نخلہ کی اس مہم کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریش پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا رعب بیٹھ گیا۔
حضرت عبداللہ بن جحش کی آل میں سے کسی کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کی اسی تقسیم (سپاہیوں کے لیے ۵/۴ اوراللہ اور رسول کے لیے ۵/۱) کو برقرار رکھا جو حضرت عبداللہ نے کی تھی:
”جان لو، تمھیں جو مال غنیمت بھی حاصل ہو،اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول،قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مختص ہو گا۔“معاملہ نمٹنے کے بعد حضرت عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، آیند ہ کوئی غزوہ ہو تو کیا ہم مجاہدین کے لیے مال غنیمت کی توقع رکھیں؟ مکرر وحی نازل ہوئی:
”یقیناً جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا،وہ اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ بخشنے والا،مہربان ہے۔“
حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت ہے کہ بنو کنانہ کی مہم میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے دستے کے افراد میں اختلاف رائے ہو گیا۔کچھ مدینہ واپس آ گئے،کچھ نے قریش کے قافلے پر حملہ کیا۔اس پر آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔فرمایا:”تم میرے پاس سے اکٹھے گئے اورالگ الگ لوٹے ہو۔تم سے پہلی امتوں کو تفرقے ہی نے ہلاک کیا۔میں ایسے شخص کوتمھارا ا میر بناؤں گاجو تم میں سے بہترین نہیں (لیکن)تم سب سے بڑھ کر بھوک، پیاس برداشت کر سکتا ہے۔“پھر آپ نے نخلہ کی طرف عبداللہ بن جحش کو مبعوث کیا اور حضرت عبداللہ بن جحش کو عہد اسلامی کا پہلا امیر مقرر فرمایا (احمد، رقم ۱۵۳۹)۔ ایک روایت کے مطابق پہلا علم بھی ان کے سریہ کو ملا، اسی سریہ میں انھیں امیر المومنین کا خطاب ملا۔
حضرت عبداللہ بن جحش نے جنگ بدر میں حصہ لیا۔عمرو بن حضرمی کا انتقام لینا جنگ بدر کی ایک اہم غایت تھی، اس لیے حضرت واقد بن عبداللہ جنھوں نے عمرو کو قتل کیا اور حضرت عبداللہ بن جحش جو اس مہم کے امیر تھے، مشرکوں کا ٹارگٹ تھے۔اللہ کا کرنا ہے کہ اس غزوہ میں دونوں ان کے ہاتھ نہ آ سکے۔اس وقت کفار کے لشکر میں شامل حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ میدان بدر پہنچنے کے بعد میں عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور کہا: ابو ولید، کیا تم چاہتے ہو کہ آج کے معرکے کاشرف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھیں مل جائے؟تمھیں اپنے ایک حلیف عمرو بن حضرمی کابدلہ ہی لینا ہے،اس کی دیت لے کر واپس چلو۔ عتبہ نے یہ بات ابو جہل سے کرنے کو کہا۔میں نے اسے یہ سمجھا دیا تو وہ عتبہ کے پاس آیا اور غصے سے بولا: خوف سے تمھارے پھیپھڑے پھول گئے ہیں اور دل حلق کو آرہا ہے؟ عتبہ نے گالی دے کر کہا: جلد پتا چل جائے گا کہ کس کے پھیپھڑے پھولے ہیں۔پھر اس نے سپاہیوں سے خود مانگا،کوئی خود سر پر پورا نہ آیا تو اس نے چادرہی لپیٹ لی اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ مشرکین کو شکست فاش ہوئی،اختتام جنگ پررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیروں کے بارے میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا تو حضرت عبداللہ بن جحش کی رائے بھی لی۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ”یا رسول اللہ، یہ آپ کی اپنی قوم کے لوگ اور اعزہ و اقارب ہیں،انھیں زندہ رہنے دیجیے اور ان سے نرمی برتیں،ہو سکتا ہے کہ اللہ انھیں توبہ کی توفیق دے دے۔“ سیدنا عمر کا کہنا تھا: ”یا رسول اللہ، انھی لوگوں نے آپ کو شہر مکہ سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ان کی گردنیں اڑا کر جی کو ٹھنڈا کریں۔“ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے سجھاؤ دیا: ”یا رسول اللہ، اس وادی کو دیکھیں جس میں بے شمار بالن ہے، مشرکوں کو اس ایندھن میں گھسیڑ کر آگ لگا دیں“ (احمد، رقم ۳۶۳۲)۔ حضرت عبداللہ بن جحش کا مشورہ بھی یہی تھا، وہ کھڑے ہوگئے اور کہا: یا رسول اللہ، یہ اللہ کے دشمن ہیں، آپ کو جھٹلایا،اذیتیں پہنچائیں، انھوں ہی نے آپ کو آپ کے شہر سے نکالا اور آپ سے جنگ پر اتر آئے۔ آپ ایسی وادی میں قیام پذیر ہیں جس میں کثرت سے لکڑی پائی جاتی ہے۔ان کافروں اور مشرکوں کے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کریں، پھر ان پر رکھ کر آگ دہکا دیں۔”مسند احمد“ کی یہ روایت (رقم ۳۴۶۴)منقطع السند ہے، تاہم ”مستدرک حاکم“ کی اس سے ملتی جلتی ایک روایت کو حاکم نے صحیح السند قررادیا ہے (رقم ۴۳۰۴)۔
حضرت عبداللہ بن جحش نے جنگ احد میں جام شہادت نوش کیا۔اس دن ان کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک شا خ انھیں دی جو ان کے ہاتھ میں آکر تلوار بن گئی،جبکہ دستہ کھجور ہی کا رہا۔کچھ عرصہ کے بعد یہ تلوارترک باغیوں کے آگے دو سو دینارمیں بکی۔ حضرت ابن جحش نے اس روز شہادت کی دعا مانگی جو قبول ہوئی۔ انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے کہا: چلو،ہم مل کر دعا مانگتے ہیں۔دونوں ایک طرف کونے میں ہو کر خلوت میں ہو گئے تو حضرت سعد نے یہ دعا مانگی: ”اے رب، کل ہم دشمن سے جنگ کریں تو میرے مقابل ایسا جنگجو لانا جو بہت غصے والا ہو،میں تیری راہ میں اس سے لڑوں،پھر مجھے اس پر فتح دینا، میں اسے مار ڈالوں اور اس کے سازو سامان پر قبضہ کر لوں۔“ حضرت عبداللہ بن جحش نے ان کی دعا پر آمین کہا اور خود اللہ کے حضور یہ التجا کی: ”اے اللہ، میرے مقابلے میں ایسا دشمن لانا جو بہت تند ہواور سخت جنگ کرتا ہو۔میں تیری راہ میں اس سے قتال کروں، آخر کار وہ مجھ پر قابو پا لے اور میرا ناک، میرے کان کاٹ ڈالے۔روزجزا جب میری تجھ سے ملاقات ہو اور تو پوچھے کہ تمھارے ناک کان کیوں کاٹے گئے؟ میں کہوں کہ یہ تیری اور تیرے رسول کی راہ میں ہوااورتو میری تصدیق کرے۔ دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اے اللہ،میں تمھیں قسم دیتا ہوں،دشمن مجھے قتل کرے،میرا پیٹ پھاڑے اور میرا مثلہ کرے۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحش کی دعا میری دعا سے بہتر تھی۔ وہ دن گزرا تو میں نے دیکھاکہ ان کے کان اور ناک ایک رسی سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور ان کا مثلہ کیا گیا۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کی قسم پوری کی۔ہمیں توقع ہے کہ روز قیامت ان کی قسم کا باقی حصہ بھی پورا ہو گا۔ ابوحکم بن اخنس ثقفی نے حضرت عبداللہ سے قتال کیا اور اسی کی ضرب سے وہ شہید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ اور حضرت عبد اللہ بن جحش کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداللہ اور ان کے ماموں حضرت حمزہ، دونوں کوایک ہی قبر میں دفن کیاگیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر بیٹھے رہے، جبکہ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم قبر میں اترے۔ طبری کہتے ہیں کہ تدفین کی یہ روایت حضرت عبداللہ کی آل کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کی۔ حضرت ابن جحش کی عمر چالیس برس(یا کچھ زیادہ) ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن جحش کا مثلہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس سریہ کی قیادت کی تھی جس میں مشرکوں کا رئیس ابن رئیس عمرو بن حضرمی مارا گیا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احدسے فارغ ہونے کے بعد مدینہ تشریف لائے تو حضرت حمنہ بنت جحش سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ حضرت حمنہ کو ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کی خبر ملی تو انھوں نے ’انا للہ وانا الیہ راجعون‘ کہا اور دعائے مغفرت کی۔ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا توبھی انھوں نے ’انا للہ‘ کہہ کر مغفرت کی دعا مانگی اور جب انھیں اپنے شوہر حضرت مصعب بن عمیر کے شہید ہونے کا پتا چلا تو وہ چلائیں اور آہ و بکا کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بھائی اور ماموں کی وفات کی خبرسن کر انھوں نے صبر کا مظاہرہ
 کیا، لیکن خاوند کی شہادت کا سن کر گریہ کیا تو فرمایا: عورت کے نزدیک اس کے شوہر کا ایک مقام ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کے بعد ان کے ترکے کی نگہداشت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی۔ آپ نے ان کے بیٹے کے لیے خیبر میں مال مویشی لے لیے۔
حضرت عبداللہ بن جحش کی شادی سیدہ خدیجہ کی چچا زادفاطمہ بنت ابو حبیش سے ہوئی جن سے محمدتولد ہوئے۔ دوسری شادی بنومناف کی زینب بنت خزیمہ(ام المساکین) سے ہوئی جو ان کی شہادت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور جلد ہی تیس سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت زینب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت عبداللہ بن جحش نہیں، بلکہ عبیدہ بن حارث کے بھائی طفیل بن حارث کی زوجیت میں تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے ”سیرت النبی“ میں اس روایت کو اختیار نہیں کیا۔اہل تاریخ نے حضرت عبداللہ بن جحش اور ان کے بھائی عبیداللہ کی سوانح کو خلط ملط کیا ہے۔عام تاریخ نگاروں نے عبیداللہ کے حالات زندگی میں جو بیان کیا ہے، ”مروج الذہب و معادن الجوہر“ میں مسعودی نے اسے حضرت عبداللہ کے سوانحی خاکے میں جڑ دیا ہے۔٭٭٭