معاصی اور سیئات کے ارتکاب میں اگر چہ بظاہر لذت محسوس ہوتی ہے اور اس سے نفس کو فوری خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی مثال ایک لذیذ کھانے کی ہے جس میں زہر ملایا گیا ہو۔ بظاہر وہ نہایت مرغوب ہوتا ہے، مگر اس کا انجام کھانے والے کی ہلاکت ہے۔ذنوب اور معاصی بھی اسی لذیذ مگر مسموم کھانے کی طرح عقوبت اور عذاب کے موجب ہیں۔ گناہ اور عذاب میں سبب اور مسبب کا تعلق ہے اگر بالفرض شریعت مطہرہ نے آدمی کو اس کی عقوبت اور انجام بد سے آگاہ نہ کیاہوتا تو تب بھی ایک صاحب بصیرت انسان، تجربہ کے ذریعے سے اور واقعات عالم سے استدلال کر کے اسی نتیجہ پر پہنچتا۔کیوں کہ جب کبھی بھی کسی سے کوئی نعمت زائل ہوتی ہے اس کاسبب یقینا اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی ہو گا۔ ارشاد الہٰی ہے کہ (اَنَّ اللہ لَا یْغَیِّرْ مَا بِقْومٍ حَتّٰی یَغَیّْروَا مَا بِاَنفْسِھِم ط وَ اِذَ اَرَادَاللہْ بَقَومٍ سْویً فَلَا مَرَدَّلَہ وَ مَالَہم مِّن دْونِہ مِن وَّالٍ)
بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو بری حالت سے تبدیل نہیں فرماتا جب تک
وہ خود اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا نہ کرلیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل فرمانا چاہتا ہے تو پھر کوئی بھی اس کو ٹال نہیں سکتا اور نہ سوائے اس کے کوئی اور ان کے لیے کارساز ہو سکتا ہے۔
زوال نعمت کے اسباب
اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں جن قوموں کی ہلاکت اور ان پر نزول عذاب کا ذکر ہے۔ اگر کوئی سمجھ دار آدمی ان قصص کو غور سے پڑھے تو اس کو واضح طور پر نظر آجائے گا کہ ہر ایک قوم کی ہلاکت اور عذاب کا سبب اس قوم کی نافرمانی تھی۔اسی طرح اگر کوئی تاریخی واقعات یااپنے زمانہ کے احوال پر ایک نظرغائر ڈالے تو اس کو نظر آئے گا کہ زوال نعمت کا اصلی اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسولوں کی نافرمانی ہے۔ ایک شاعر نے اس مضمون کو نہایت خوبی کے ساتھ منظوم کیا ہے۔
اِذَا کْنتَ فِی نَعمَۃٍ فَارِعھَا
فَاِنَّ المَعاصِی تَزِیلْ النَّعَم
جب تم پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ہو اور تم کسی نعمت کا لطف اٹھارہے ہو تو اس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس کی نعمتوں کے سلب کیے جانے کا سبب ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نعمت کو برقرار رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی ہے اس نے اپنے کلام مجید میں شکر کو زیادتی کا موجب بتایا ہے لیکن کیا تم جانتے ہو کہ صرف زبانی الحمدللہ کہنے سے شکر گزار ی کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، شکر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرے۔
شرکا مفہوم
معاصی اور سئیات دنیا اور آخرت میں عقوبت اور عذاب کا موجب ہونے کے باعث شر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ باقی رہا اس کا مسبب یعنی عقوبت اور عذاب، سو اس کا شر کے مفہوم میں داخل ہونا بالکل ظاہر ہے، کیوں کہ اس کی عقوبت جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے شدید ترین عذاب پر مشتمل ہے۔ روحانی عذاب سے مراد شرمندگی کا احساس، سخت ندامت اور حسرت ہے۔اگر ایک عقلمند اس کی نوعیت پر کماحقہ غور کرے تو یقینا اس کے اسباب سے پرہیز کرنا وہ اپنا اول ترین فرض خیال کرے گا لیکن اصل یہ ہے کہ آدمیوں کے دل پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور اگر ان کو حقیقت حال پر اطلاع ہوتی تووہ ایسی باتوں کا ہرگز ارتکاب نہ کرتے جن کے سبب سے وہ نجات سے محروم رہیں یا دنیا اور آخرت کے درجات سے بے بہرہ ہوں۔ آخرت میں جب انکشاف حقیقت ہوگا تو گنہگار اور مجرم چیخیں مارمار کر پکارے گا یا لیتنی قدمت لحیاتی (کاش میں اپنی اس ابدی زندگی کے لیے بھی کچھ ذخیرہ کرتا) یا حسرتا علی مافرطت فی جنب اللہ۔ ہائے افسوس! میں نے اللہ تعالیٰ کے پہلو میں (اس کی آنکھوں کے سامنے رہ کر) کس قدر کوتاہی کی ہے۔شیخ الاسلام حافظ ابن القیم الجوزیۃ رحمہ اللہ کی مایہ ناز تصنیف“ تفسیر المعوذتین“ سے ماخوذ