بڑ‬ھ‬اپا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جنوری 2014


    میں اس سید کو جانتا ہوں جس کا قد بڑا متوازن، جس کی داڑھی بڑی گھنی اور جس کا چہرہ بہت رعب و جلال والا تھا۔ جب وہ سر پہ رومی ٹوپی پہنے اپنے شہر میں نکلتا تو رہ چلتے لوگ رک رک کر اسے دیکھنے لگتے۔وہ اپنے محلے کی گلیوں سے گزرتا تو بچے ڈرکر چھپ جاتے، عورتیں دروازوں کی اوٹ میں ہو جاتیں اور جوان و بوڑھے انہیں سلام کرنا اپنا فرض جانتے۔ مگر اسی سید کو جب بڑھاپے نے آن لیا تو سیدھی کمر جھک گئی،ٹانگیں سوکھ کر کانٹا بن گئیں، ہاتھوں پہ رعشہ طاری ہو گیا،آواز کی گھن گرج ختم ہو کر رہ گئی اور پھر جب زندگی کے آخری سالوں میں یہی سید لاٹھی کے سہارے پاؤں گھسیٹتاہو امسجد کی جانب منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہا ہوتا تو اسے اس حالت میں دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی سید ہے کہ جس کی وجاہت دیکھنے کے لیے چلتے قدم رک جایا کرتے تھے۔
    میں اس مرشد سے بھی واقف ہوں کہ جس کا چہر ہ سرخ و سفید، جس کی آنکھیں روشن، جس کا قد لمبا، جس کی چال باوقار اور جس کا سراپا مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔جس کو جوانی میں بھی عورتیں ادب سے بابا جی کہا کر تیں اور چاہتیں کہ اس کے گرد جھرمٹ بنا کے بیٹھیں مگر اس نے خود کو ہمیشہ ان آلایشوں سے بچا کے رکھاحالانکہ آج کل تو طبقہ نسواں ”کالے پیروں“ کے بھی صدقے واری جاتا ہے اور یہ تو پھر بھی سوہنا نہیں بہت سوہنا تھا۔وہ جب سر پر عمامہ باندھے محفل سماع میں بیٹھتا تو مرید صدقے واری جاتے اور قوالوں کی آواز اپنے جوبن پہ آجاتی۔مگر اس مرشد کو بھی بڑھاپے نے آن لیا۔ جس کا کردار کبھی نہ لڑکھڑایا، اس کی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں، گرا اور کولھے ساتھ چھوڑ گئے،اوپر سے فالج نے آن گھیرا ہاتھوں نے بھی جواب دے دیا اور آج یہ پیر باصفا مضبوط کی جگہ معذور ٹانگیں اوربازو لیے بستر کی زینت بن کے رہ گیا ہے اور اب اسے دیکھ کے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی مرشد بے بدل ہے کہ جس کی محفل میں شامل ہونا اور جس کی پرُ درد آواز اور درس سننا لوگ فخر جانتے تھے۔
    میں نے اس لڑکی کو بھی دیکھا ہے کہ جو بیاہ کے آئی تو چھوئی موئی کانچ کی گڑیا جیسی تھی جس کے چہرے کی سرخی و سفیدی، جس کے بالوں کی چمک او رجس کی آنکھوں کی معصومیت دیکھ کے کوئی نہ کہہ سکتا کہ یہ سانولے لوگوں کی سر زمین پنجاب کی باسی ہے۔ کوئی بھی انجان عورت اسے دیکھ کے یہ پوچھنا نہ بھولتی کہ ”آپ افعانستان سے آئی ہیں یا پشاور سے؟“اس خوبصورت لڑکی کی جوانی نے بھی جب ساتھ چھوڑا تواس کی آنکھوں پہ عینک چڑھ آئی اور جسم پہ مو ٹاپا۔ گلابی نازک ہاتھوں پہ جھریوں نے ڈیرے ڈال دیے اورگھٹنوں میں درد نے اور اب اسے دیکھ کے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی کبھی نازک سی چھوئی موئی کانچ کی گڑیا تھی۔ اسی طرح میں شو بزکی دنیا کے کتنے چہروں کو جانتاہوں کہ جوانی میں لوگ انہیں دیکھنے کے لیے گھنٹوں انتظا ر کیا کرتے تھے مگر جب بڑھاپے نے آن لیا تو کو ئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ زمانہ طالب علمی میں، میں گلبرگ لاہور کے اس بلاک میں رہا کرتاتھا جہاں زبیا اور محمد علی کی رہایش تھی۔میں نے بارہا دیکھا کہ دھوپ میں لوگ ان کے گھر کے دروازے کے آگے کھڑے ہیں اور جب پوچھا جاتا کہ کیا مسئلہ ہے تو کہا جاتا کہ کچھ بھی نہیں، بس ہم توچاہتے ہیں کہ جب زیبا گھر سے نکلے تو اسے ایک نظر دیکھ لیں اورآج اس جوڑے کو بھی کوئی دیکھنے والا نہیں۔
    جوانی کی رعنائی، طاقت، ہمت اور خوبصورتی جب بڑھاپے کی بے کسی، بے بسی اور محتاجی میں بدلتی ہے تواچھے بھلے انسان کو ہلا کے رکھ دیتی ہے۔ایسے میں اگر اللہ کی رحمت اور نیک اولاد کا سہارا میسر نہ ہو تو بڑھاپے کی یہ تکلیف دو چند ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بچپن، جوانی اور بڑھاپا نظام زندگی کا حصہ ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صحت کے بعد بیماری کی طرف، فراخی کے بعد تنگی کی طرف، عزت کے بعد ذلت کی طرف، آزادی کے بعدغلامی کی طرف، اور طاقت وہمت کے بعد بے بسی او رمحتاجی کی طرف لوٹنا یقینا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔چونکہ میں بھی اب بڑھاپے کی دنیا میں داخل ہو رہا ہوں اس لیے آج کل مجھے حضور کی یہ دعا بہت یاد آرہی ہے (اللہم انی اعوذ بک من ان ارد الی ارذل العمر)۔اگرچہ قانون قدرت یہی ہے کہ بڑھاپے کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے مگر اللہ اپنے قوانین کا محتاج تو نہیں وہ اپنی رحمت سے کسی کے لیے آسانی فرمادے تو اسے کون روک سکتا ہے۔ اسی گمان کے ساتھ میرا، ان سب مردوں عورتوں کے لیے، جوبڑھاپے کی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں، یہ مشورہ ہے کہ وہ حضور کی اس دعا کو اپنی دعاؤں میں شامل فرمالیں اللہ اس کی برکت سے اور اپنی رحمت سے انہیں بڑھاپے کی محتاجی اور بے بسی سے بچا کے رکھے گا۔کیونکہ یہ مالک کا اپنا فیصلہ ہے کہ  ”میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتاہوں جیسا وہ میرے ساتھ گمان کرتا ہے“۔