نقطہ نظر
فیصلہ فرد کا اختیار ہے
ڈاکٹر عرفان شہزاد
روزہ رکھنے میں فرد کی استطاعت اور عدم استطاعت کی طویل فقہی بحث کے پیچھے اصل بنیاد دو نکاتی ہے:
1) روزہ رکھنے میں فرد کی استطاعت اور عدم استطاعت کی تعیین کے لیے اجتماعی معیار کیا ہو؟
2) اس معیارکی تعیین کا فیصلہ کون کرے؟
معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کے احکام دو طرح کے ہیں: انفرادی نوعیت کے احکامات اور اجتماعی نوعیت کے احکامات۔ اجتماع سے متعلق احکامات میں اختیار مسلمانوں کے نظم اجتماعی (حکومت) یا اس کے مقرر کردہ متعلقہ اداروں جیسے عدلیہ وغیرہ کو ہوتا ہے، فرد کا اختیار اس میں یا تو ہوتا نہیں، اور اگر ہوتا بھی ہے تو نظم اجتماعی کے تابع ہوتا ہے، جیسے حدود، جہاد وغیرہ۔ جب کہ انفرادی نوعیت کی شریعت میں معاملہ فرد کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جیسے روزہ، حج، طلاق وغیرہ۔
روزہ انفرادی نوعیت کا شرعی حکم ہے۔ روزہ رکھنے کی استطاعت اور عدم استطاعت کی کوئی متعین حدود یا معیار شریعت نے نہیں بتایا، فرد کے حالات اور استطاعت کے متنوع اور تغیر پذیر ہونے کی بناپر یہ اصلاً ناقابل تعیین ہے اور شریعت نے اپنی طرف سے اس کی تعیین نہ کر کے بالکل درست پوزیشن لی۔ لیکن فقیہ کا کہنا ہے کہ فرد کی استطاعت و عدم استطاعت کی حدود کا تعین وہ کرے گا۔ اس طرح وہ انفرادی نوعیت کی شریعت میں بھی فیصلہ کا اختیار فرد کی بجائے خود یا فقھا کی جماعت کو دینا چاہتا ہے۔ شریعت نے جو حدود مقرر نہیں کی، اس کی حد بندی بھی فقیہ خود کرنا چاہتا ہے۔
اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ مسافرت کیا ہے کہ جس پر نماز کا قصر اور جمع کرنا اور روزہ چھوڑ دینے کا جواز مسافر کو مل جاتا ہے؟ فقیہ نے اس کی تعیین مسافر پر چھوڑنے کے بجائے، خود طے کرنے کی ذمہ داری لے لی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ متعدد اور متفرق اقوال وجود میں آ گئے، بقول مولانا عمار خان ناصر، تین میل سے اڑتالیس میل تک کے سفر کو معیار بنا لینے کے اقوال فقھا سے منقول ہیں۔ فقہا نے اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے رجحانات کے مطابق عوام کو ایک ضابطے کا پابند بنانے کی کوشش میں مسافرت کی تعیین کی مختلف و متضاد شرائط بیان کیں، جن سے تعیین کی بحث مزید الجھ گئی، لیکن کوئی متفقہ تعیین نہ ہو سکی۔ مسافرت کی حد کا تعین انہیں آخر کثرت رائے سے طے کرنا پڑا، احناف نے دیگر فقہا کے اقوال کو نظر انداز کر کے اڑتالیس میل کے سفر کو مسافرت کے لیے طے کر لیا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ سفر کے ذرائع تیز رفتار ہو گئے، اڑتالیس میل کا سفر دنوں کی بجائے، گھنٹوں بلکہ گھنٹے میں طے ہونے لگا، مگر فقہا بضد رہے کہ مسافرت اب بھی اڑتالیس میل کے سفر پر ہی لاگو ہوگی۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ آیندہ وقتوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے جب اڑتالیس میل کا یہ سفر اتنے وقت اور مشقت کے ساتھ طے ہوگا جتنا وقت اور مشقت آپ کو اپنے آفس جانے میں اور امام صاحب کو گھر سے مسجد جانے میں لگتا ہے، یا اس سے بھی کم وقت اور مشقت میں، تو کیا تب بھی یہ اصرار برقرار رہے گا؟ یقینا یہ اصرار مضحکہ خیز ہوگا۔ کیا اس وقت بھی یہی کہا جائے گا احکام میں علت کو دیکھا جاتا ہے حکمت کو نہیں، لیکن ہم سجھتے ہیں کہ خدائے حکیم کی علتیں بھی حکمتوں سے خالی نہیں ہو سکتیں۔
یہ مضحکہ خیز صورت حال کیوں پیش آئی؟ دراصل، ہوا یہ ہے کہ فقھا ہر چیز کو ایک ضابطے کے تحت لانے کے خواہش مند تھے، ہر اس معاملے کو بھی جسے شریعت کسی ضابطے کا پابند بنانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ فقھا نے پھر بھی اپنی سی کوششیں کیں اور نتیجہ یہ نکلا ایسے شرعی معاملات ان کے افکار پریشاں میں الجھ کر رہ گیا مگر تعیین حقیقتاً کسی بھی ایسی چیز کی نہ ہو سکی۔
یہاں غامدی صاحب آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس چیز کی تعییین نہیں ہو سکتی، اس کی تعیین کے لیے کوئی ایک ضابطہ، قاعدہ اور کلیہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ خدا کے دائرے میں بے جا مداخلت ہے۔ مسافرت میں کلو میڑ نہیں ناپے جائیں گے، کوئی شخص مسافرت کی افراتفری کا شکار ہے یا نہیں اس کا فیصلہ فرد کو کر لینے دیا جائے۔ ممکن ہے ایک آدمی پاکستان سے امریکہ کے ہوائی سفر میں نہایت اطمینان سے سفر کرے اور سفر کی افراتفری کا شکار نہ ہو، اور ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام آباد سے راولپنڈی آتے ہوئے اس افراتفری میں مبتلا ہو۔
مسئلے کی یہی نوعیت روزہ کی استطاعت اور عدم استطاعت کی بحث میں کار فرما ہے۔ فقھا کا کہنا ہے کہ فرد کی عدم استطاعت کا
تعین اور اس پر روزہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی فقیہ کرے گا۔ یہ بالکل لغو بات ہے۔ عدم استطاعت کا فیصلہ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ تو فرد خود ہی کر سکتا ہے، یا بعض صورتوں میں یہ فیصلہ ڈاکٹر کی تجویز سے ہی کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر کی تجویز کے بعد بھی فیصلہ فرد نے ہی کرنا ہے۔
فقہ ایک منضبط علم ہے۔ اس میں ہر ہر مسئلہ کو قوانین کے دائرے میں لانے اور باقاعدہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرز عمل نے شریعت کے اس اطلاقی دائرے میں بھی مداخلت کر ڈالی جہاں تعیین اور انضباط ممکن نہیں بلکہ غیر ضروری اورنقصان دہ تکلف ہے۔
یہاں فقیہ کو ڈر یہ ہے کہ فرد اگر خود فیصلہ کرے گا تو بے جا رخصتیں لینے لگے گا۔ اس خدشے کوطلاق کی مثال سے سمجھیے۔طلاق بھی فرد کے اختیار کا مسئلہ ہے۔ اس میں بھی بڑی بے اعتدالیاں سامنے آتی ہیں، لیکن کیا کبھی فقہا نے یہ فیصلہ کیا کہ مرد کو اس کے اس اختیار سے بے دخل کر دیا جائے، اسے علم ہی نہ ہونے دیا جائے کہ اسے طلاق کا کتنا اختیار حاصل ہے؟ ایسا نہیں، تو باقی شریعت جو انفرادی حیثیت میں فرد سے متعلق ہے اس میں فیصلہ کا اختیار فرد کی بجائے فقیہ کو کیسے منتقل ہو گیا؟ یہاں بھی فیصلہ فرد ہی کرے گا۔
اس سارے معاملے میں ہمارے فقہا کا مقصد نیک بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی شفیق باپ کی طرح اپنے بچے کو ناسمجھ جان کر اسے اس کے اختیارات کا علم ہونے اور اس کے اختیارات اس کے حوالے کرنے کو تیار نہیں کہ مبادا وہ ان کے غلط استعمال سے اپنی دنیا و آخرت کا نقصان کر لیں۔ لیکن یہ طرز فکر درحقیقت خدا کی جگہ لینے کی جسارت ہے کہ رخصتیں دے کر جو غلطی (نعوذ باللہ) خدا سے ہوئی اس کی تلافی اب یہ اپنی عقل سے کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو مسلم سماج میں وہی رتبہ دلائے رکھنا چاہتے ہیں جو دیگر مذاہب میں برہمن یا پوپ کو حاصل ہے، جو فرد سے متعلق اپنے دین کے شرعی معاملات بھی خود طے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس کے ایمان و کفر بلکہ جنت و دوزخ کا فیصلہ بھی خود کرتے ہیں۔
یہ انداز فکر خدا کی اس سکیم کے خلاف ہے جس نے انسان کو آزمایش کے لیے ہی دنیا میں بھیجا تھا۔
الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ (67:2)
(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے فقہاایسے انفرادی معاملات میں فرد اور خدا کے درمیان حائل ہو رہے ہیں، خدا کی برپا کردہ آزمایش کی سکیم میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کا منصب تو بس یہ تھا کہ فرد کو بتا دیتے کہ یہ گناہ اور یہ نیکی ہے، یہ شریعت ہے اور یہ رخصت ہے، فیصلہ البتہ، فرد نے خود کرنا ہے کہ کتنا عمل کرنا اور کتنی رخصت لینی ہے۔ اس میں اگر کوئی افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے تو ان کا کام توجہ دلانا تھا کہ راہ اعتدال کیا ہے۔ اس درست طرز عمل کی بجائے ان میں یہ رجحان طے پا گیا کہ عوام کو علم نہ ہونے دیا جائے کہ شریعت نے معاملہ کہاں ان کے اختیار پر چھوڑ رکھا ہے۔ جس میں غلط یا درست فیصلہ کرنے پر وہ خدا کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔
یہ امکان ضرور ہے کچھ لوگ رخصتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے، لیکن یہی تو ان کی آزمایش ہے کہ وہ پوری دیانت داری کا مظاہرہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں یاہوائے نفس کا شکار ہو جاتے ہیں۔٭٭٭