اصلاح و دعوت
بغيرسمجھے قرآن پڑھنا
متين شاہ
قرآن کے الفاظ کے معانی نہ بھی آتے ہوں، وہ روحانی ارتقا کا سبب ہے-دور جدید میں ایک بات خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ قرآن کو ہمیشہ سمجھ کر پڑھنا چاہیے اور محض الفاظ کی تلاوت چنداں مفید مطلب نہیں۔ یہ بات اس پہلو سے درست ہے کہ قرآن سے مقصود اس کی تعلیمات پر عمل ہی ہے، لیکن خود اس کے الفاظ بھی ربانی مصدر سے نکلے ہونے کے باعث اپنی ذات میں تقدس اور روحانیت کا الگ پہلو رکھتے ہیں۔ چناں چہ ایک اچھے قاری کی تلاوت سن کر ایک عام انسان کے دل پر بھی رقت وخشوع کی کیفیت طاری ہوتی ہے اگرچہ وہ اس کے معانی نہیں سمجھتا۔ قرآن کی تلاوت کے اس پہلو کے حوالے سے علامہ اقبال ایک خط میں نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں :
" قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب محمدی سے نسبت پیدا ہو۔ اس نسبت محمدیہ کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معنی بھی آتے ہوں ۔ خلوص دل کے ساتھ محض تلاوت کافی ہے۔ " ( اقبال نامہ، حصہ دوم، 317 )
مذکورہ بالا دعویٰ اہل قرآن کہلانے والوں کی طرف سے زیادہ سامنے آتا ہے۔ یہ لوگ بعض پہلوؤں سے اقبال سے تمسک کرتے ہیں۔
علامہ اگرچہ قرآن کے معنی سے بھی بھرپور تمسک رکھتے تھے لیکن محض تلاوت کے روحانی ذوق سے بھی حظ وافر رکھتے تھے۔مولانا عبد السلام ندوی " اقبال کامل " میں لکھتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق کتابیں اسلامیہ کالج لاہور کی لائبریری کو دی گئیں۔ ان کتابوں میں ان کی تلاوت کا خاص قرآن وصیت کے مطابق ان کے بیٹے جاوید اقبال کے پاس آیا۔ اقبال صبح کے اوقات میں تلاوت ایسے درد و گداز اور ذوق و شوق سے کرتے تھے کہ آنسووں کا تار بندھ جاتا تھا۔ اتنا روتے کہ مصحف کے اوراق تر ہو جاتے۔ یہ معمول ان کی زندگی میں مرض وفات تک قائم رہا۔ ( اقبال کامل ، 79 )
قرآن پڑھتے ہوئے انسان پر رقت کا طاری ہونا مومنین کی ایسی صفت ہے جس پر مختلف نصوص خود مشیر ہیں۔ ساتویں پارے کی پہلی آیت اسے معرفت ربانی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ چناں چہ اقبال کے سے حالات اسلاف امت کی زندگیوں میں کثرت سے ملتے ہیں۔ شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رح سے کسی نے پوچھا کہ شعر پڑھنے سے جو مزہ حاصل ہوتا ہے وہ قرآن پڑھنے سے نہیں آتا۔ انھوں نے کہا کہ ابھی دوری ہے۔ جب قرب حاصل ہو گا تو جو سیری قرآن سے ہو گی کسی چیز سے نہیں ہو گی۔ یہ تلاوت کا وہ مقام ہے جسے " يتلونه حق تلاوته " سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔