دنيا كی تين بڑی اين جی اوز

مصنف : لالہ صحرائی

سلسلہ : معلومات

شمارہ : نومبر 2025

معلومات

دنيا كی تين بڑی اين جی اوز

لالہ صحرائی

آج میں آپ کو دنیا کی تین ٹاپ کلاس انٹرنیشل این جی اوز کا پتا بتاتا ہوں جن کیساتھ کام کرنا نہایت آسان ہے اور کسی وقت آپ کے پاس چندہ دینے کیلئے پیسے نہ ہوں تب بھی آپ ان کے ساتھ آن گوئینگ پراجیکٹس پر بطور کارکن کام کر سکتے ہیں۔ان تنظیموں میں آپ کو فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ فیم، گریس، اعزازات، بزنس اپرچونیٹیز، پرسنل بلڈنگ، لیڈرشپ کوالٹیز اور ملکی و غیر ملکی نمایاں سماجی شخصیات سے میل جول کے بیش بہا مواقع بھی ملتے رہتے ہیں۔

1۔ لائنز کلب انٹرنیشنل

2۔ روٹری کلب انٹرنیشنل

3۔ میک۔اے۔وِش آرگنائزیشن

ان تینوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پبلک سے پیسہ نہیں مانگتے بلکہ ممبرز اپنا فلاحی پراجیکٹ خود ڈیزائن کرتے ہیں، اس کی کاسٹ طے کرتے ہیں یعنی کتنے پیسے پراجیکٹ پر لگیں گے اور انتظامی اخراجات کتنے ہوں گے اور کون کون ممبر کتنے کتنے پیسے دے گا۔

اقوام متحدہ دنیا کی سرکاری این جی او ہے جو ریاستوں کے فنڈ سے چلتی ہے لیکن لائینز کلب اور روٹری کلب عام لوگوں کی تنظیمیں ہونے کے باوجود اپنے کام، مین پاور، صلاحیت اور فلاحی اخراجات کے حساب سے اقوام متحدہ سے بھی بھاری این جی اوز ہیں بلکہ کبھی ضرورت پڑتی ہے تو اقوام متحدہ بھی لائنز کلب اور روٹری کلب کو اپنی مدد کیلئے بلا لیتی ہے۔

فنڈنگ یا فنڈ ریزنگ:مثال کے طور پر آپ کسی بیمار کا علاج کرانا چاہتے ہیں تو کیس ویریفائی کرکے اپنے کلب میں اعلان کریں، سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے، انتظامیہ سپروائز کرے گی، کہیں سفارش کی ضرورت پڑے تو کوئی پاورفل ممبر ہسپتال میں مریض کے داخلہ کیلئے اپنے تعلقات بھی استعمال کرے گا۔یا پھر کوئی بندہ غریب بچوں میں درسی کتابوں کے سیٹ تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ کسی اسکول سے مستحق بچوں کی تعداد پوچھ لے اور پھر ایسٹیمیٹ لگا کے اپنے کلب میں اعلان کرے کہ یہ ٹوٹل پراجیکٹ ایک لاکھ روپے کا ہے اور میں اس کام میں تیس ہزار روپے لگا رہا ہوں، اگر آپ حصہ لیتے ہیں تو بتا دیں ورنہ میں اپنے تیس ہزار کی کتابیں لے آتا ہوں اور آپ میرے ساتھ چل کے تقسیم کر دیں۔

یہاں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بندے نے اپنا پراجیکٹ اناؤنس کیا ہو اور وہ کھڑے کھڑے پورا نہ ہو گیا ہو، کوئی کہتا میرے دس ہزار ڈال دو اور کوئی بیس، کوئی تیس دیدیتا ہے اور چند منٹ میں فنڈ پورا ہو جاتا ہے۔جس وقت آپ پراجیکٹ ایگزیکیوٹ کر رہے ہوتے ہیں یعنی امداد تقسیم کر رہے ہوتے ہیں تو ٹاپ لیڈرشپ اور درجنوں ممبرز آپ کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں جو ہیلپ بھی کرتے ہیں اور سپروائز بھی کرتے ہیں۔

حساب کتاب کی شفافیت:

اگر کوئی بندہ اپنے ذاتی پیسوں سے اپنی چوائس کا کوئی بھی فلاحی پراجیکٹ ترتیب دیتا ہے تو کسی کو حساب دینے کی ضرورت نہیں لیکن جب دیگر ممبر بھی آپ کے ساتھ حصہ ڈالتے ہیں تو پھر اس کی کاسٹ شیٹ بنا کے حصہ داروں کو اور انتظامیہ کو دیدی جاتی ہے کہ فلاں فلاں نے اتنے اتنے پیسے دیئے تھے، ٹوٹل فنڈ اتنا تھا، خرچہ اتنا ہوا اور بلوں کی کاپیاں رپورٹ کیساتھ لگی ہوئی ہیں۔

لیڈرشپ ٹریننگ:

ان اداروں کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی عام آدمی کو لیڈر بنا دیتے ہیں، کوئی بھی شرمیلا، انٹروورٹ پرسن جو احساس کمتری کے باعث ڈھنگ سے بات نہ کر سکتا ہو، یہ دو سال میں اسے بولتا پوپٹ بنا دیتے ہیں۔ٹریننگ ورکشاپس کے علاوہ بھی ٹریننگ کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے یعنی ہر پراجیکٹ میں عام لوگوں کو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں جس کے باعث آپ کو انتظامی امور کا تجربہ حاصل ہوتا رہتا ہے۔مثلاً میں نے ایک پراجیکٹ ڈیزائن کیا ہے تو چئیر پرسن میں ہو گیا لیکن خزانچی کوئی دوسرا ہوگا جو امدادی اشیاء کی خریداری اور انتظامی اخراجات کرے گا، اشیاء تقسیم کرنے کے دن تیسرا بندہ سب کو میسیج کر کے اکٹھا کرے گا اور پراجیکٹ ڈلیوری پلیس تک کانوائے کو لیڈ کرے گا، چوتھا بندہ اس موقع پر عوام کو مینیج کرے گا، کوئی پانچواں بندہ اس موقع پر لیڈرشپ کے پیغامات یا تقاریر کو مینیج کرے گا۔یعنی ایک ایک پراجیکٹ کے اوپر کئی کئی لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا رہتا ہے۔

بزنس پرموشن اپرچونٹیز:

ان تنظیموں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جب ہم بزنس کرتے ہیں، اچھا کماتے کھاتے ہیں تو اپنا کچھ وقت اور پیسہ بطور شکرانہ ان لوگوں تک بھی پہنچانا چاہئے جو زندگی کی جنگ میں کمزور پڑ رہے ہیں یا مصائب کا شکار ہیں، ان کو اپگریڈ کرنے میں مدد کرنی چاہئے۔اور ضمنی مقصد یہ ہے کہ ہم اس فلاحی تنظیم میں ایسے لوگوں کیساتھ جڑیں جو کامیاب ہیں اور اچھا بزنس کر رہے ہیں تاکہ ہم ایکدوسرے کیساتھ اعتماد سے بزنس بھی کر سکیں اور ان کے تجربات سے بھی فائدہ اور گائیڈینس لے سکیں۔ان تنظیموں کے سہ ماہی اور سالانہ کنوینشنز میں آپ اپنے بزنس کے بینر لگا سکتے ہیں، دوسرے ممبرز کو اپنے بزنس کا تعارف کرا سکتے ہیں تاکہ کسی ممبر یا ان کے حلقہ اثر میں کسی کو آپ کی پراڈکٹ یا سروسز کی ضرورت ہو تو آپ مہیا کر سکیں لہذا آپ کے بزنس کو بھی بہت اچھی پروموشن اور سپورٹ ملتی ہے۔ان تنظیموں میں کیونکہ سب نے ایکدوسرے کو منہ دکھانا ہوتا ہے لہذا کوئی ایک دوسرے کیساتھ چیٹنگ نہیں کرتا ورنہ یہ بھی انفلوئنسرز کا ایک چھوٹا سا معاشرہ ہوتا ہے، اس میں چیٹنگ کرکے بندہ زیادہ ذلیل ہوتا ہے بلکہ چیٹر بندہ اس نظام میں رہ ہی نہیں سکتا، اگلے ایک منٹ میں مکھن سے بال کی طرح باہر نکال دیتے ہیں۔

سوشلائزنگ یا تعلقات عامہ:

کاروباری افراد، سماجی شخصیات، میل فیمیل ایکٹرز، سیاستدان اور دیگر کامیاب یا بااثر یا مشہور شخصیات جن سے ملاقات کا تصور بھی محال ہوتا ہے، ہماری یہاں ان سے ملاقات عام سی بات ہوتی ہے۔کتنے ہی اداکار ہیں، سندھ اسمبلی کے اراکین، کوہ نور گروپ والے، داؤد گروپ، بزنس چیمبرز کے اراکین اور ان جیسے کتنے ہی بااثر لوگ لائنز کلب کے ممبر ہیں، نیلوفر بختیار جو ق۔لیگ کی وزیر تھیں، انہوں نے جہاز سے پیرا جمپنگ بھی کی تھی یہ لائنز کلب میں پاکستان کی پہلی خاتون انٹرنیشنل ڈائیریکٹر تھیں، ہم ان سب سے کئی بار بالمشافہ مل چکے ہیں۔ان لوگوں کا تذکرہ محض شوبازی نہیں بلکہ مقصد یہ بتانا ہے کہ جیسے فیسبک پر ایک بندہ جب کسی موضوع پر اپنے تاثرات لکھتا ہے تو دوسرا اسی موضوع پر کچھ بہتر بات بتانے کی کوشش کرتا ہے۔اسی طرح سے جب آپ ایسے کامیاب اور نمایاں لوگوں سے ملتے ہیں تو آپ کو بھی زندگی میں اپنے لئے کچھ بہتر کرنے کی موٹیویشن ملتی ہے، آپ کا سبھاؤ بدلنے لگتا ہے، آپ کے ٹارگیٹ بلند ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ان سے بات چیت کرکے آپ میں خود اعتمادی آتی ہے، ایسے لوگوں سے میل جول میں آپ کا انداز نشست و برخاست بہتر ہونے لگتا ہے، یہ سیلف بلڈنگ کی ایک بہت اچھی اپروچ ہے۔

گریس۔فل مومنٹس:

جس وقت آپ اچھا کام کرتے ہیں تو بعض اوقات آپ کو کوئی ایسا رول بھی مل جاتا ہے جو تاریخی نوعیت کا ہوتا ہے، یعنی کوئی عالمی شخصیت آرہی ہے اور آپ ان کو رسیپشن دینے کے ذمہ دار ہیں، یا کسی سالانہ کنوینشن کی ذمہ داری آپ کے اوپر ہے جس میں عالمی مندوبین بھی شرکت کر رہے ہیں۔یہ کوئی انہونی بات نہیں بلکہ سال میں ایک دو بار ایسے مواقع ضرور آتے ہیں اور اسے چھٹی نہ ملی جسے سبق یاد ہوا کے مصداق جس کے پاس تجربہ یا اہلیت نظر آئے انہیں ہر بار اہم ذمہ داریاں مل جاتی ہیں، یہ مومنٹس آپ خرید نہیں سکتے جہاں ملکی و غیر ملکی نمایاں شخصیات آپ کو مرکز نگاہ رکھے ہوئے ہوں لیکن لائیز اور روٹری میں یہ مواقع عام مل جاتے ہیں۔

ڈنرز اور تفریحی مواقع :

یہ تینوں ادارے سال بھر بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں جس میں دور دراز کے علاقوں کا سفر جو اسٹڈی ٹؤورز اور ایڈونچر کے مصداق بن جاتا ہے اس میں تفریحات کے بیشمار مواقع ملتے ہیں، اور بیچ میں گاہے بگاہے اور سالانہ کنوینشن کے موقع پر بطور خاص خصوصی ڈنر اور میوزیکل نائٹ کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔

میک۔اے۔وش آرگنائزیشن:

کم بجٹ میں انتہائی گریس فل قسم کے فلاحی کاموں کیلئے یہ تنظیم بہت اچھی ہے، اس کے ممبرز ان بیمار اور معذور لوگوں کی خواہشات پوری کرتے ہیں جن کی امیدیں زندگی کی جنگ میں دم توڑ رہی ہوتی ہیں۔آپ ان کی ویبسائٹ پر جائیں تو آپ دیکھیں گے کسی بچے کو کچھ بننا تھا لیکن اب بیماری کے باعث وہ ایسا نہیں بن سکتا تو آپ فنڈ ارینج کرکے اور ضروری انتظامات کرکے ایک دن کیلئے اس کی یہ خواہش پوری کر سکتے ہیں مثلاً کسی کو ڈاکٹر، انجینئیر، پائلٹ، ٹیچر، فوجی یا پولیس افسر بننے کی خواہش ہے تو آپ اس کی مدد کیلئے اپنا ٹائم اور فنڈ مہیا کر سکتے ہیں، تنظیم کے لوگ متعلقہ محکمے سے اجازت لیکر بچے کی خواہش پوری کریں گے اور آپ ان کیساتھ ہوں گے جو خرچہ آئے گا وہ آپ دیں گے۔

کئی غریب اور بیمار بچوں کو کھلونے، پلے اسٹیشن، موبائلفون، لیپٹاپ، بائیسیکل یا ایسا کچھ اور چاہئے ہوتا ہے جو دس سے بیس ہزار میں ممکن ہو سکتا ہے، وہ آپ اڈاپٹ کر سکتے ہیں، پراجیکٹ بک کریں، چیز خریدیں اور انتظامیہ کیساتھ ان کے گھر پہ جا کے دے آئیں۔

کچھ بچوں نے بھارتی اداکار سلمان خان سے ملنے کی خواہش کی تھی تو میک۔اے۔وش پاکستان والوں نے میک۔اے۔وش انڈیا سے رابطہ کیا، انڈیا والوں نے ٹائم لے دیا، کسی بندے نے اخراجات اٹھائے اور تنظیم کے لوگ ان بچوں کو ایک دن کیلئے سلمان خان سے ملوا کے لے آئے تھے۔ایسے بیمار بچے جن کی زندگی کی امید کم ہے ان کی بیشمار خواہشات میک۔اے۔وش کے پلیٹ فارم پر پوسٹڈ ہیں، آپ اپنے بجٹ کے مطابق کوئی بھی پراجیکٹ بک کر سکتے ہیں، آپ نے اس پراجیکٹ کا خرچہ اٹھانا ہے اور انتظامیہ کیساتھ مل کے کسی بچے کی ایک معصوم سی خواہش کو پورا کر دینا ہے۔میک۔اے۔وش انٹرنیشنل ادارہ ہے، ہر ملک میں یہ ادارہ مقامی لوگوں کی مدد سے کام کر رہا ہے، پاکستان میں معروف صنعتکار مرزا اختیار بیگ اور ان کے بھائی جو بزنس چیمبر اور بزنس فیڈریشن کے صدر بھی رہے ہیں، اخبارات میں ان کے معیشت پر کالم بھی چھپتے ہیں، یہ اس پلیٹ فارم کو مینیج کرتے ہیں، آپ اس تنظیم کے مستقل ممبر بھی بن سکتے ہیں اور ممبر بنے بغیر بھی پراجیکٹ اڈاپٹ کر سکتے ہیں۔

منفی تاثرات کا ازالہ:

جو اين جی اوز درپردہ غیرملکی ایجنڈوں پر کام کرتی ہیں یہ تینوں ان میں نہیں آتیں، ان کا کوئی درپردہ ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ان کے حلف نامے میں یہ بار بار پڑھایا جاتا ہے کہ میں اپنے ملک کے مفاد اور جھنڈے سے وفادار رہوں گا اور ضرورت مندوں کیلئے فلاحی کام کرتا رہوں گا۔اداروں کے اندر کچھ لوگ اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے اور عہدے حاصل کرنے کیلئے جوڑ توڑ اور سیاست سے بھی کام لیتے ہیں لیکن ان تینوں اداروں میں یہ عنصر بہت ہی معمولی سا ہے کیونکہ جو عہدے سربراہی سے متعلق ہیں ان پر آنے کیلئے دس سے پندرہ سال کی ریاضت چاہئے اور پھر صرف ایک سال کیلئے عہدہ ملتا ہے، اس ایک سال میں آپ چاہے جتنا بھی بڑا کام کر لیں نہ تو ایکسٹینشن ملے گی اور نہ ہی اس عہدے پر دوبارہ آسکیں گے البتہ دیگر انتظامی عہدوں پر گھوم گھوم کے تعیناتی ہوتی رہتی ہے لہذا ان میں ایسی کوئی تلچھٹ نہیں ہوتی۔اخلاقی طور پر بھی خواتین ممبرز کیلئے بھی ان کا معیار بہت اچھا ہے، جتنی بھی خواتین آتی ہیں وہ بیشتر ممبرز کی فیملیز سے ہوتی ہیں لہذا ہر کوئی ریسپیکٹ فل رہتا ہے اور اگر کوئی لڑکیاں تاڑنے والا بندہ نظر آبھی جائے تو اسے فی الفور جھاڑ پونچھ کے باہر نکال دیتے ہیں۔

رابطہ اور ممبرشپ :

لائنز کلب آپ کو کراچی، حیدرآباد، ملتان، فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرانوالہ، اسلام آباد اور پشاور میں مل جائے گی، گردو نواح کے لوگ اپنے قریبی اسٹیشن سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

روٹری کلب آپ کو ہر ضلع کی سطح پر مل جائے گی بلکہ بعض چھوٹے شہروں میں بھی مل جاتی ہے۔

میک۔اے۔وِش صرف چند بڑے شہروں میں آپریٹ کر رہی ہے ان لوکیشنز کی تفصیل ان کی ویبسائٹ یا ہیلپ لائن سے مل جائے گی۔

ان سب کی ممبرشپ پانچ سے دس ہزار سالانہ کے درمیان مل جاتی ہے۔

کلب سے کیا مراد ہے؟

جیسا آپ فلموں میں ڈانس کلب وغیرہ دیکھتے ہیں یہ کلب ایسا نہیں ہوتا بلکہ یہاں کلب سے مراد لوگوں کا ایک گروپ یا ایسوسی ایشن ہے جس میں کم از کم دس افراد ہونے چاہئیں، زیادہ کی کوئی حد نہیں۔کسی علاقے میں ایسے تمام گروپس کے ٹوٹل ممبر کی تعداد جب ایک ہزار سے اوپر ہو جائے تو اس علاقے کو ایک انتظامی یونٹ بنا دیا جاتا ہے جسے ڈسٹرکٹ کہتے ہیں اور اس کا سربراہ گورنر کہلاتا ہے، اوپر جتنے علاقوں کے نام دیئے ہیں وہ سب انتظامی ڈسٹرکٹ ہیں۔آپ نے ممبر بننا ہو تو کسی بھی قریبی کلب کا پتا کرکے اسے جوائن کر سکتے ہیں اور اگر آپ کسی دور دراز کے علاقے میں لائنز کلب، روٹری یا میک۔اے۔وش کو لانا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف دس ہم خیال لوگوں کی ضرورت ہے اور ایک خط و کتابت کا ایڈریس چاہئے، میٹنگ آپ کسی کے بھی گھر پہ کر سکتے ہیں، کسی دفتر کی ضرورت نہیں، فلاحی کام آپ نے فیلڈ میں جاکے کرنے ہیں۔اس کے بعد آپ اپنے قریبی ڈسٹرکٹ گورنر سے رابطہ کریں گے تو وہ آپ کا کلب انٹرنیشنل آفس سے منظور کرا دے گا اور آپ اسی گورنر کے ماتحت کام کریں گے اور ان کے مرکزی پروگرامز میں بھی شرکت کر سکیں گے۔