کسی پہاڑ کو سر کرنے کی تصدیق کیسے ہوتی ہے ؟

مصنف : محمد عبدہ

سلسلہ : معلومات

شمارہ : نومبر 2024

معلومات

کسی پہاڑ کو سر کرنے کی تصدیق کیسے ہوتی ہے ؟

محمد عبدہ

علی صد پارہ کے حادثے کے بعد سے بہت سارے دوست احباب اور دوسرے افراد جو کوہ پیمائی بارے نہیں جانتے، یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیسے پتا چلتا ہے کہ کوہ پیما نے چوٹی کو سر کر لیا ہے ؟چوٹی سر کرنے کے کونسے ثبوت ہوتے ہیں ؟اگر کوئی ثبوت نہ ہو یا کوئی جھوٹ بولے تو پھر تصدیق کا طریقہ کیا ہے ؟

ان سب سوالوں کے جواب جاننے کیلئے میں نے الپائن کلب پاکستان کے ماہرین، اپنے چند کوہ پیما دوست جو کےٹو سر کرچکے ہیں، سے کچھ معلومات جمع کی ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

کوہ پیماؤں کے پاس چوٹی سر کرنے کےلیے کئی ثبوت ہوتے ہیں جیسے چوٹی پر پہنچ کر کوہ پیما سب سے پہلے فون کرکے بیس کیمپ پر خوشخبری سناتا ہے اور پھر باقی آلات سے ریکارڈ جمع کرتا ہے جن میں زبانی گواہی سے لے کر چوٹی سے لی گئی تصاویر، آلات کے سکرین شارٹ اور راستے کی تفصیلات وغیرہ شامل ہیں۔ جو واپسی پر بیس کیمپ اور متعلقہ اتھارٹی کو دیکر چوٹی سر کرنے کا تصدیق سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے۔ کوئی ایک ثبوت ہی تصدیق کیلئے کافی ہوتا ہے اور اگر ثبوت واضح نہ ہو تو پھر دوسرا اور تیسرا ثبوت مانگا جاتا ہے، ہر ثبوت کے کچھ مخصوص معاملات بھی ہیں جن کا ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

گارمین، جی پی ایس اور دیگر آلات

کوہ پیماؤں کے پاس کیمرہ، گارمین، جی پی ایس، تھرایا سیٹیلائٹ فون سمارٹ واچ سمیت کئی قسم کے آلات ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے چوٹی سر کی ہے یا نہیں۔ کیونکہ ان میں بلندی، طول البلد اور عرض البلد کا ریکارڈ محفوظ ہوجاتا ہے۔

تصاویر۔

چوٹی پر پہنچ کر کوہ پیما کو اپنی مختلف زاویوں سے ہر سمت سے یعنی پینوراما تصاویر بنانی ہوتی ہے جس سے آپ کی موجودگی اور چوٹی کے گرد وپیش کی پہچان ہوتی ہو۔ کیونکہ جب تک آپ چوٹی پر نہیں پہنچیں گے تو وہاں سے نظر آتے نظاروں کی تصویر کیسے لیں گے ؟ تصاویر میں ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ موسم خراب ہو تو پھر تصویری ثبوت کی تصدیق مشکل ہوجاتی ہے۔ کچھ چوٹیوں پر خاص نشانیاں لگی ہوئی ہیں جن کے ساتھ تصویر بنانے سے تصدیق ہوجاتی ہے  جیسے ایورسٹ پر بدھا کا ایک مجسمہ رکھا ہوا ہے جس کے ساتھ تصویر بنائی جاتی ہے اور اسے دیکھ کر نیپالی حکام سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔ جیسے نانگا پربت پر ایک راک چٹان ہے۔ لیکن تصاویر کے لیے موسم صاف ہونا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ واضح تصویری ثبوت نہ ہونے پر کوہ پیما کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔

نیپالی شرپا نے کےٹو سر کرنے پر الپائن کلب میں چوٹی کی تصاویر ثبوت کے طور پر جمع کروائی ہیں جس کو بغور جائزہ لیکر الپائن کلب نے کےٹو سر ہونے کی تصدیق کی تھی۔

چشم دید گواہ

اکثر کوہ پیما مل کر گروپ میں چوٹی سر کرتے ہیں ان سب کے بیانات سے بات واضح ہوجاتی ہے-چوٹی پر جاتے یا واپس آتے راستے میں کسی دوسری ٹیم یا کوہ پیما سے رابطہ بھی چشم دید گواہی کا ثبوت ہوتا ہے۔ کسی دوسری مہم جو ٹیم کے اراکین سے ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی سولو کلائمب یعنی اکیلے مہم جوئی کر رہا ہو جیسے مینسر نے نانگاپربت سر کی تھی۔

چوٹی اور راستے سے متعلق سوالات

کوئی اکیلے چوٹی سر کر رہا ہو، آلات کی بیٹری ختم ہو جائے، کسی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیں، گم ہو جائیں یا ٹوٹ جائیں یا وہ رات کے وقت چوٹی پر پہنچے یا موسم خراب ہو اور کوہ پیما تصاویر نہ لے پائے تو اس صورت میں وہ کیسے ثابت کرے گا کہ وہ چوٹی تک پہنچا ہے ؟

اس طرح کے کسی مسئلے میں کوہ پیما سے چوٹی اور راستے کے بارے چند سوالات کرنے سے ہی بات کی سچائی کا پتہ چل جاتا ہے۔لیکن یہ ایک مشکل امتحان ہے جس میں بعض دفعہ سچائی کا جاننا مشکوک ہوجاتا ہے اور کوہ پیما کے زبانی دعوے کو ہی سچ ماننا پڑتا ہے جیسے 1993 میں کوہ پیما جوناتھن اور ڈین کے باقی ساتھی راستے میں ہی رہ گئے اور انہوں نے رات 11 بجے کےٹو سر کرنے کا دعوی کیا تھا کیونکہ ان کے باقی ساتھی راستے میں ہی رہ گئے تھے۔ اس پر کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے کے ٹو کو سر نہیں کیا تھا تاہم زیادہ تر افراد نے ان کی زبان کا ہی اعتبار کیا ہے۔

جھوٹے یا فیک ثبوت

چوٹی سر کرنے کے بہت سارے جھوٹے ثبوت اور فیک دعوی بھی سامنے آتے ہیں جو پکڑے جاتے ہیں اور شائد بہت سارے کبھی پکڑے ہی نہ گئے ہوں لیکن بہرحال یہ خدشہ رہتا ہے اس کیلئے آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں -

دو انڈین کوہ پیماؤں نریندر سنگھ اور سیما رانی گوسوامی نے 2016 میں ایورسٹ سر کی اور ثبوت میں تصاویر پیش کیں جو بہت عرصے بعد شک پڑنے پر تحقیق ہوئی تو جھوٹی ثابت ہوگئیں جس پر نیپال نے ان کی ایورسٹ سر کرنے کا اعزاز کینسل کرکے ان کی نیپال میں کوہ پیمائی پر پابندی عائد کردی تھی۔ اب کیا پتہ ایسے کتنے ہی جھوٹے ثبوت پیش کیئے گئے ہوں اور وہ آج تک پکڑے نہ گئے ہوں۔

کوہ پیما کی اپنی زبان کی پاسداری

کوہ پیمائی بہت معیار، اعلی اقدار اور بڑے دل والے بہادروں کا کھیل ہے اس لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قدرت سے محبت کرنے والا سچا اور صاف گو ہوتا ہے وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے بعض دفعہ کوئی ثبوت نہ ہو تو کوہ پیما کا اپنا دعوی اور اس کی زبان پر اعتبار کیا جاتا ہے جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے میسنر کا اکیلے نانگاپربت سر کرنے کا واقعہ ہے اور میسنر نے چوٹی پر ایک پرچی چھوڑی تھی۔ میسنر کے واقعہ پر میرا ایک مضمون بھی موجود ہے۔ لیکن اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جھوٹے دعوی بھی کردئیے جاتے ہیں۔

لاپتہ یا حادثہ میں ہلاک والے کوہ پیماؤں کا معاملہ

کوئی کوہ پیما چوٹی سر کرنے والے دن لاپتہ ہوجائے یا حادثے میں جان گنوا بیٹھے  اور اس نے سر کرنے كے بارے کوئی اطلاع بھی نہ دی ہو تو پھر کیسے پتہ چلے گا کہ چوٹی سر ہوگئی تھی یا نہیں ؟اس پر کوہ پیمائی کے ماہرین متضاد خیالات میں تقسیم ہیں اور کوئی بھی حتمی بات نہیں کہتا۔ کیونکہ اگر گم ہونے یا حادثہ سے پہلے انہوں نے چوٹی سر کرنے کی اطلاع نہیں دی تو پھر تصدیق کرنا ناممکن یا مشکل ترین امر بن جاتا ہے۔جیسے ابھی حالیہ واقعہ میں علی صد پارہ، جان سنوری اور پابلو ماہر گم ہوگئے ہیں اور ان کی طرف سے سر کرنے کی کوئی اطلاع نہیں آئی کیونکہ بقول ساجد ان کے آلات میں سے ایک بیس کیمپ میں تھا، ایک میں واپس لے آیا اور ایک خراب ہوگیا تھا اس لئے سر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ثبوت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سر نہیں ہوئی۔ ایسے معاملے میں ساجد جو آخری وقت تک ان کے سب سے زیادہ قریب اور حالات و واقعات کا گواہ تھا اسی کی گواہی سب سے زیادہ معتبر مانی جائے گی اور اس وقت تک سچ مانی جائے گی جب تک گمشدہ کوہ پیما نہیں مل جاتے اور ان کے پاس سے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتا۔

یہ وقت ثابت کرتا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی کرتا جیسے میں نے کچھ عرصہ قبل “ایورسٹ کی رینبو وادی” کے مضمون میں جارج میلوری کا واقعہ بیان کیا تھا۔ میلوری اور اینڈریو 1924 میں ایورسٹ سر کرنے گئے، انہیں آخری مرتبہ چوٹی سے قریب ڈھائی سو میٹر نیچے دیکھا گیا اور پھر وہ لاپتہ ہوگئے۔ اور یہ راز ہی رہا کہ میلوری و اینڈریو نے ایورسٹ سر کر لی تھی یا نہیں۔ اس سوال کے جواب کا کچھ حصہ 1999 میں میلوری کو تلاش کرنے والی ٹیم کو ملا جب انہوں نے چوٹی سے کچھ نیچے میلوری کی باقیات تلاش کرلیں لیکن اینڈریو کا آج تک کوئی نشان نہیں مل سکا۔میلوری کا ڈھانچہ جس جگہ پر جس حالت میں ملا، اس پر کہا جاتا ہے کہ لازمی طور پر یہ سر کرچکے تھے اور واپسی پر حادثہ ہوا ہے۔ ان کے پاس کوڈک کا ایک کیمرہ بھی تھا جو کہیں گم ہوگیا ہے اور کوڈک کمپنی کا کہنا ہے اگر وہ کیمرہ مل جائے تو ہم اسے ڈی کوڈ کرکے بتا سکتے ہیں کہ اس سے چوٹی کی تصویریں کھینچی گئی تھیں یا نہیں -اس پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور کئی برطانوی کوہ پیما آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایورسٹ کی چوٹی کو سب سے پہلے سر کرنے کا سہرا انھی دو برطانوی شہریوں کو جاتا ہے۔تاہم تمام اندازوں اور قیاس آرائیوں اور تحقیقات کے باوجود آج بھی یہ سوال کوہ پیمائی کی تاریخ کا سب سے نازک سوال ہے کہ میلوری اور اینڈریو کی موت چوٹی سے واپسی پر ہوئی یا چوٹی پر پہنچنے سے قبل ہی وہ موت کا شکار ہو چکے تھے۔ اس واقعہ سے بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ گمشدہ یا حادثے کا شکار ہونے والے کوہ پیماؤں کی کامیابی یا ناکامی کا معاملہ جاننا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور اسے کسی کی چشم دید گواہی یا اندازوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور یہی معاملہ علی صد پارہ، جان سنوری اور پابلو ماہر کا ہے۔ کے ٹو سر ہوئی تھا یا نہیں اس کا فیصلہ ساجد صد پارہ کے بیان پر چھوڑ دینا چاہئے جب تک کہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل جاتا۔

ساجد کا بیان ہے کہ جب وہ موت کے دائرہ سے دن کے گیارہ بجے واپس آنے لگے تو والد علی صد پارہ کی ٹیم بوٹل نیک 8300 میٹر پر تھی اور بہت اچھی اور فٹ حالت میں چوٹی کی طرف جارہے تھے اور انھیں لگتا ہے کہ ان کے والد نے کےٹو کو سر کر لیا تھا اور جو بھی حادثہ ہوا وہ واپسی کے سفر میں بوٹل نیک یا کہیں نیچے ہوا ہوگا۔ یہاں یہ بات ضرور جان لینا چاہیے کہ اگر کوئی ایک بھی ثبوت موجود نہ ہو تو جن مفروضوں کی بنا پر سر کرنے پر شک کا اظہار کیا جا سکتا ہے وہی مفروضے سر کرنے کے حق میں اتنے ہی قابل عمل بھی ہوتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مفروضے اٹھتے، پیدا ہوتے یا بنائے ہی اس وقت جاتے ہیں جب سر کرنے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو یا سر کرنے کی مخالفت میں کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو۔ بہرحال اس طرح کا معاملہ ہو تو حتمی بات ناممکن ہوجاتی ہے تو دونوں طرف کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور اس پہاڑ کے ماہر کوہ پیما کی رائے کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔