اصلاح و دعوت
سخی کون؟
ہارون خان
ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ تین افراد کا بیت اللہ میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ اس دور کا سب سے بڑا سخی کون ہے۔ ایک بولا عبداللہ بن جعفر،دوسرا بولا قیس بن سعد، تیسرا بولا عرابہ اوسی۔گفتگو نے طول پکڑا، ہرایک اپنے اپنے حق میں دلائل دے رہا تھا حتی کہ آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں کچھ اور لوگ بھی اکھٹے ہوگئے، ان میں سے ایک بولا کہ بھائیو کیوں بحث کرتے ہو؟ ہر ایک اپنے پسندیدہ شخص کے پاس جائے اور اس سے کچھ مانگے جوکچھ دے وہ آکر یہاں بتاؤپھر اس بات کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ بڑا سخی کون ہے؟
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا عقیدت مند ان کے گھر گیا اور ان سے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے!میں مسافر ہوں، زاد راہ ختم ہوگیا ہے، طلب گار ہوں۔ وہ گھوڑے پر سوار کہیں جارہے تھے، اسی وقت اترے اور کہا کہ گھوڑے کی رکاب پر پاؤں رکھو اور سوار ہوجاو۔اب یہ تمہارا ہے اس کے ساتھ تھیلا ہے اس میں جوکچھ ہے تمہارا ہے، ہاں ایک تلوار بھی ہے معمولی نہ سمجھنا، علی رضی اللہ عنہ کی ہے۔جب وہ خوبصورت گھوڑا لے کر اپنے دوستوں کے پاس آیاتو تھیلاکھولا تواس میں چار ہزار دینار، ریشمی چادریں اوران سب سے بڑھ کر علی رضی اللہ عنہ کی تلوار تھی۔
قیس بن سعد کا عقیدت مند ان کے گھر گیا وہ سوئے ہوئے تھے، لونڈی نے پوچھا تمہاری کیا ضرورت ہے، کہا مسافرہوں زاد راہ ختم ہوگیا طلب گار ہوں۔ لونڈی نے کہا معمولی سی حاجت کے لئے شیخ کو اٹھانا اچھی بات نہیں،یہ تھیلی پکڑو اس میں سات سو دینار ہیں ان کے گھر میں یہی موجود ہے، گھر کے ساتھ حویلی میں اونٹ بندھے ہوئے ہیں اپنی مرضی کا پسند کرلو، اور ایک غلام اپنی خدمت کے لئے لے کر روانہ ہوجاؤ۔ تھوڑی دیر کے بعد قیس رضی اللہ عنہ اٹھے، خادمہ نے ان سے قصہ بیان کیا، کہا بہتر تھا مجھے اٹھا لیتی اور میں خود اس کی حاجت پوری کرتا، نامعلوم جو کچھ تم نے دیا اس کی ضرورت کے مطابق ہے کہ نہیں، تاہم تم نے اچھا کام کیا اس کے بدلے میں میں تجھے آزاد کرتا ہوں۔
عرابہ رضی اللہ عنہ اوسی کا عقیدت مند ان کے پاس گیا نماز کا وقت تھا،عرابہ بوڑھے تھے، نابینا ہوگئے تھے۔نماز کے لئے گھر سے نکل رہے تھے، دوغلاموں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آہستہ چلتے ہوئے رخ مسجد کی طرف کیا ہوا تھا۔اس آدمی نے کہا کہ بات سنیں، بولے کیا بات ہے، کہا مسافرہوں زاد راہ ختم ہوگیا ہے طلب گار ہوں۔عرابہ رضی اللہ عنہ نے دونوں ہاتھ غلاموں کے کندھوں سے ہٹائے اور بائیں کو دائیں ہاتھ پر زور سے مارا، کہا میں نے اپنا سارا مال خرچ کردیا ہے مگر یہ دوغلام ہیں ان کو لے جاؤ اب یہ تمہارے ہیں۔ اس نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ خود ضرورت مند ہیں میں نہیں لوں گا۔عرابہ رضی اللہ عنہ نے کہا یہ تمارے ہیں اگر نہیں لیتے توبھی آزاد کرتا ہوں اگر تم چاہوتو آزاد کردو چاہو تو لے لو۔ آگے بڑھے دیوار کا سایہ لیا، ٹٹولتے ہوئے مسجد کی طرف چلے گئے۔
تینوں پھر اکٹھے ہوگئے ہرایک نے اپنے عطیے اور سلوک کا ذکر کیا تینوں کی تعریف بلاشبہ کہ سخی اور خرچ کرنے والے ہیں۔ اب رہا فیصلہ کہ سب سے بڑا سخی کون ہے؟
توفیصلہ عرابہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ہوا کہ انہوں نے سارامال تنگ دستی کے باوجود خرچ کیا۔ (بحوالہ: البدایہ والنہایہ)