آواز دوست
اقتدار و اختيار كا نشہ
محمد صديق بخاری
وہ ايك مسجد كے منتظم تھے – انہوں نے ساری عمر ايك بنك ميں جاب كر تے گزار دی تھی اور يہ عہد كيا تھا كہ بنك سے ريٹائر ہوتے ہی زندگی مسجد كے ليے وقف كر دوں گا- چنانچہ اپنے وعدے كا پاس كرتے ہوئے وہ اپنا بستر ليے اُس مسجد ميں چلے آئے جس كی تعمير ميں انہوں نے بھی كچھ حصہ ليا تھا-انہی دنوں اتفاق يہ ہوا كہ اُ ن كے دوست جنہوں نےاُ س مسجد كے ليے اپنی ذاتی زمين وقف كی تھی، اور جو اس مسجد كے بانی و مہتمم بھی تھے ، جاب كے سلسلہ ميں بيرون ملك چلے گئے اور جاتے ہوئے مسجد كی ديكھ بھال اور انتظام ان كے سپرد كر گئے-چنانچہ اب وہ بلا شركت غيرے اُ س مسجد كے منتظم ، مہتمم ، خزانچی سب كچھ بن گئے – نہ صرف يہ، بلكہ انہوں نے رضا كارانہ طو ر پر موذن كی ذمہ داری بھی سنبھال لی اور پھر اس منصب كو اس طرح نبھايا كہ سات برس تك كبھی پنج وقتہ اذان ميں ناغہ نہ ہونے ديا اور كم وبيش 12770 مرتبہ اللہ اكبر كی صدا ان كی آواز ميں فضا ؤں ميں گونجی -وہ بوقت تہجدمسجد ميں آتے اور اشراق كے بعد گھر جاتے – پھر ظہر كے بعد ايك گھنٹہ مسجد ميں ٹھہرتے – عصر سے عشا تك تو وہ مسجد ہی ميں ہوتے اوركبھی رات بھی مسجد ہي ميں گزار ديتے – رمضان ميں تقريباً وہ شب و روز مسجد ہی كے ہو كر رہ جاتے اور ہر برس پابندی سے اعتكاف كا بھی اہتمام كرتے -ان كے دوست جو مسجد كے بانی تھے سال ميں دو تين بار چھٹی پہ گھر آتے تو نمازيوں كی طرف سے شكايات كا ايك انبار ان كا منتظر ہوتا – وہ سب كی سنتے ليكن منتظم صاحب كو كچھ نہ كہتے كيونكہ وہ ديكھ رہے تھے كہ مسجد كا نظام بطريق احسن چل رہا ہے اس ليے مداخلت نہ كرتے – نمازيوں كا شكوہ تھا كہ يہ منتظم صاحب نظام كو ايك آمر كی طرح چلاتے ہيں اور كسی كی نہيں سنتے – انہوں نے بعض اوقات ان سے درخواست بھی كی كہ اجتماعی معاملات ميں نمازيوں سے مشورہ كر ليا كريں ليكن ان كا جواز يہ ہوتا كہ مشورے كرنے لگوں تو بس مشورے ہی كرتا رہوں پھر كام نہيں ہو سكے گا – ان كا يہ پختہ خيا ل تھا كہ كام تو بس ڈكٹيٹرانہ طريقے سے ہی ہو سكتے ہيں اور وہ اس پہ عمل بھی كرتے – نہ كسی كی سنتے نہ كسی كی مانتے – بانی مسجد ان كےاخلاص اور ان كی محنت كو ديكھتے ہوئے ان كے اس رويے كو نظرا نداز كرتے رہے- ليكن پھر يوں ہوا كہ بانی مسجد كی جاب بھی ختم ہو گئی اور وہ پاكستان واپس آ گئے – اس دوران ميں دس برس بيت چكے تھے ،پلوں كے نيچے سے بہت سا پانی بہہ چكا تھا- بانی كا نام پس منظر ميں اور ان كا نام پيش منظر ميں آ چكا تھا-پرانے لوگ توواقف تھے مگر دس برسوں ميں آنے والے نئے نمازی يہی سمجھتے تھے كہ اس مسجد كے ذمہ دار بلكہ مالك يہی منتظم صاحب ہيں- بانی نے يہ صورت حال ديكھ كر منتظم صاحب سے عرض كی كہ آپ نے دس برس مسجد كی جس اخلاص اورمحبت سے خدمت كی ہے اس كا تقاضا يہ ہے كہ آپ اپنی خدما ت جاری ركھيں ليكن چونكہ اب مجھے بھی يہيں رہنا ہے اس ليے ہم اپنی اپنی ذمہ دارياں بانٹ ليتے ہيں اورايك دوسرے كے كام ميں مداخلت كيے بغير اپنا اپنا كام كيے جاتے ہيں – انہوں نے اس پہ اتفاق كيا اور كہا كہ علمی ذمہ داری آپ كی اور انتظامی ان كی- اس تقسيم كے تحت امام مسجد و موذن كا نصب و عزل ، درس قرآن ، جمعہ و عيدين كا خطا ب و امامت و ديگر علمی ذمہ دارياں بانی كے حصہ ميں آئيں اور انتظامی ومالياتی ذمہ دارياں اُ ن كے حصہ ميں-اس دوران ميں مسجد كی تعميرو تزئين كے كئی كا م ہوئے جن ميں سے كچھ اسراف كے زمرے ميں بھی آتے تھے ليكن بانی نے تقسيم كار كے اصول كے تحت ان ميں كچھ دخل نہ ديا-چند ہی مہينوں ميں منتظم صاحب نے موذن اور خادم مسجد كا نصب و عزل بھی اپنے ہاتھ ميں لے ليا اور اپنی مرضی كے بندے وہاں لگانے شروع كر ديے صرف يہی نہيں بلكہ بانی كے علمی كاموں ميں بھی دخل اندازی بلكہ dictation دينا شروع كر دی -ان كی يہ باتيں بھی قابل توجہ ہو سكتی تھيں اگر ان كا كوئی علمی پس منظر ہوتا اور ان كے پاس كوئی ٹھوس علمی دلائل ہوتے ،ليكن يہاں تو پورے كا پورا منظر اور پس منظر ضد ، تعصب ، جہالت اور من گھڑت نظريات پر مبنی تھا-بہرحال بانی مسجد پھر بھی خاموش رہے – اس كے بعد منتظم صاحب بانی سے مطالبہ كرنے لگے كہ وہ جگہ جو شروع دن سے ہی مسجد كے دفتر كے ليے وقف ہے ،اس سے وہ كنارہ كشی اختيار كر ليں اور اسے بھی مسجد كے ہال ميں شامل كر ديا جائے يا وہاں پہ دوسرا وضوخانہ بنا دياجائے -اگلے مرحلے ميں انہوں نے يہ كہنا شروع كر ديا كہ بانی اب مسجد كے معاملات ميں دل چسپی نہ ليا كريں – زمين وقف كر كے اب ان كو پيچھے ہٹ جانا چاہيے -ان كے منہ سے براہ راست اس طرح كی باتيں سننے كے بعد بھی بانی خاموش رہے– وجہ صرف مروت ، اور ان كی دس سالہ خدمات كا احترام تھا- اس عرصے ميں خدا كا كرنا كيا ہوا كہ منتظم صاحب كے بيٹے نے انہيں ايك سال كے ليے سعود ی عرب بلا ليا اور و ہ بخوشی وہاں سدھار گئے -اس ايك سال ميں مسجد كے انتظامی ، مالی اور علمی سارے امور بانی كے ذمہ ہو گئے اور ايك سال بحسن و خوبی مكمل ہو گيا- منتظم صاحب ايك سال كے بعد واپس تشريف لائے توبانی نے ان سے پوچھا كہ كيا آپ اپنے مالی و انتظامی اختيارات واپس لينا چاہتے ہيں يا نہيں – انہوں نے فرمايا كہ نہيں بلكہ اب وہ مكمل آرام كرنا چاہتے ہيں اور موت كی تياری كرنا چاہتے ہيں بلكہ انہوں نے فرمايا كہ انہوں نے اپنی تعليمی ڈگرياں بھی پھاڑ دی ہيں اور مكان بھی بچوں كے نام كر ديا ہے- اب ان كا ا س دنيا سے كوئی لينا دينا نہيں-ان كی باتوں پہ اعتبار كرتے ہوئے بانی مسجد نے جمعہ كی نماز ميں يہ اعلان كر ديا كہ سابقہ منتظم صاحب اب سابق ہی رہيں گے – ادارے كے انتظامات جيسے اب چل رہے ہيں ويسے ہی چلتے رہيں گے -جوں ہی اس اعلان كی خبر سابقہ منتظم تك پہنچی ، تووہ غصہ سے بھرے مسجد ميں آن وارد ہوئے اور بانی سے مطالبہ كرنے لگے كہ يہ اعلان واپس لو ، اس اعلان پہ معافی مانگو كيونكہ وہ تو اپنے اختيارات واپس لينا چاہتے ہيں- بانی نے عرض كيا كہ يہ اعلان اب واپس نہيں ہو گا كيونكہ آپ سے پوچھ كر ہی كيا گيا تھا-بہرحال نہ تواعلان واپس ہو ا ، اور نہ ان كو اختيارات واپس ملے جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ وہ مسجد اور بانی دونوں سے ناراض ہو گئے اور بول چال تك ترك كر دی- بانی نے ان سے تلخ كلامی كی معافی پہلے مشافھتاً مانگی اور پھر كتابتاً ليكن وہ كسی بھی صورت راضی نہ ہوئے -اس بات كو اب مہينوں بيت چكے ہيں ليكن ان كا رويہ اب بھی وہی ہے -ان سے عرض كيا گيا كہ مسجد كے ليے خود كو وقف كرنے كے وعدے اورمسجد كی خدمت كے فی سبيل اللہ ارادے اب كيا ہوئے ؟ اگر تو يہ سب اللہ كے ليے تھے تو رب كے دروازے اب بھی كھلے ہيں، اس ليے آپ جو جو كام كر سكتے ہيں ان كو كرتے رہيے اور مسجد ميں جو وقت ديتے تھے وہ بھی ديتے رہيے ، آپ كا اسی طرح احترام كيا جائے گا اور يہ يقين ركھيے كہ اللہ ديكھ رہا ہے – اپنی خدمات كا بدلہ اللہ ہی سے ليجيے ، يہ سٹيٹس ، اختيار اوراقتدار اس كا بدلہ ہر گز نہيں-ليكن ان سب باتوں كے باوجود انہوں نے كامل انكار كر ديا يعنی مطلب يہ تھا كہ ميرے اختيارا ت واپس كيے جائيں گے اور مجھے وہی سٹيٹس ديا جائے گا تو مسجد سے تعلق ركھوں گا ورنہ نہيں-
ان كی يہ حالت ديكھ كر بانی مسجد پہروں يہ سوچتا رہتا ہے كہ اختيار اور اقتدار كا نشہ كتنا خطرنا ك ہے – مسجد كا يہ معمولی سا اختيار، جس كی دنياوی لحاظ سے كوئی بھی اہميت نہيں ، جب اتنا معمولی سا اقتدار واختيار كا نشہ يہ حالت كر ديتا ہے تو وہ جو واقعتاً دنياوی اختيار و اقتدار كے مالك ہيں ،ان كا بہك جانا يا فرعون بن جانا تو واقعی جينوئن سا لگتا ہے –
اختيار و اقتدار چاہے چھوٹا ہو يا بڑا ، يقيناً ايك كڑی آزمايش ہے – اسی آزمايش كی شدت كو جانتے ہوئے فرشتوں نے كہا تھا كہ حضرت انسان اختيار پا كر تو دنيا ميں فسا د برپا كرے گا- فرشتوں كی رائے ميں اختيار و اقتدار كا شايد يہ فطری سا تقاضاتھا-اس ليے يہی سمجھ ميں آتا ہے كہ وادی اختيا رميں پھسلنے سے مالك ہی بچائے تو بندہ بچ سكتا ہے ورنہ تو كوئی صورت نظر نہيں آتی- اللہ كريم ہر اختيار والے كو اس دھوكے اور آزمايش سے محفوظ ركھے اور اخلا ص و للہيت نصيب فرمائے -