روزے کا اہم ترین مقصد تقوے کا حصول ہے لیکن تقویٰ قرآن مجید اور معارف اسلامی کے ان مظلوم ترین الفاظ میں سے ہے جس کے معنی میں اس حد تک تحریف کی گئی ہے کہ اس لفظ کو تقویٰ کے بالکل بر عکس معنی میں استعمال کیا جانے لگاہے۔سستی، جمود اور سادہ لوحی کو تقویٰ کا نام دے دیا گیاہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ بے بسی اور بے چارگی کو صبر کا نام دے دیا گیا ہے۔
اسلام میں تقویٰ سستی اور جمود کا نام نہیں ہے بلکہ تقویٰ ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء سے عبارت ہے۔قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں متّقین کی صفات بیان کی ہیں اورمتقین کی تمام صفات کو صیغہ مضارع میں بیان کیا ہے یعنی عمل مسلسل اور ایمان مترقّی۔
تقویٰ وقایہ سے ہے اور وقایہ یعنی سپر۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ہے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ہے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ہے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لہٰذا اسے شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے الٰہی سپر کی ضرورت ہے اوروہ سپر تقویٰ ہے۔ تقویٰ یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت جو شیطان کے ہر حملے کو پسپا کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پہنچا دے۔
تقویٰ کا ایک منفی معنی ہے اور ایک مثبت، منفی معنی وہی ہے جورہبانیت سے متاثّر بعض صوفی سلسلوں کے ذریعے ہمارے معاشروں میں رائج ہواہے،یعنی چونکہ اپنی زندگی کو پاک اورسالم رکھنے کے لیے خود کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھنا ہے لہذا اپنے آپ کو ایسے مقام پر قرار دیاجائے جو شیطانی دسترس سے باہر ہو۔ لہذا وہ اپنی انفرادی،خاندانی اور سماجی ذمہ داریوں سے فرارحاصل کر کے کسی گوشہ تنہائی میں پناہ لیتے ہیں اور گمان یہ کرتے ہیں کہ یہ جگہ شیطان کی دسترس سے محفوظ ہے جبکہ اس طرح شکست خوردہ اور زندگی سے فرار کرنے والا انسان زیادہ شیطان کی دسترس میں ہوتاہے۔
اسلام اور قرآن کی نظر میں مثبت تقویٰ وہ ہے جو انسان کو دشمن کے سامنے سے فرار کی دعوت نہ دے بلکہ اسے دشمن پرغلبہ پانے کے لئے آمادہ کرے۔ انسان کے اندر ایسی معنوی قوت اور بصیرت پیداکردے جو اسے سماج میں لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی محفوظ رکھے اور نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھے بلکہ دوسروں کی نجات کے لئے بھی کوشاں رہے۔خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے فرارحاصل کرنے کی بجائے انہیں اپنے اور معاشرے کے تکامل کا وسیلہ قرار دے۔
صاحب تقویٰ انسان خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کرتا ہے لیکن ان کا اسیر نہیں ہوتالہٰذا ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے لے کر اپنی عزیز ترین چیزوں تک کو قربان کرنے کے لئے تیّارہو جاتاہے،بر خلاف اس شخص کے جودنیا کی نعمتوں کو ترک کرنے کے بعد بھی ان کا اسیر ہوتاہے اور ضرورت پڑنے پراک معمولی سی بھی قربانی دینے کی جرات نہیں کر پاتا۔جواپنے گوشہ تنہائی میں خدا کی یاد کی بجائے ہمیشہ ان چیزوں کی یاد میں رہتا ہے جو اسے نصیب نہیں ہوئیں یا جنہیں وہ ترک کر کے آیا ہے۔یہاں پر شیطان اس کی شکست خوردہ ذہنیت اور تنہائی سے فائدہ اٹھا کران کی اشیاء کی یاداور محبّت کو اور شدید کر دیتا ہے اور اس طرح اسے اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ہے۔
مشکلات پر غلبہ
تقویٰ انسان کے اندر پیدا ہونے والی ایک معنوی قوّت کا نام ہے جو نہ صرف یہ کہ انسان کو نقائص اور گناہ سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ اسی قوّت کی مدد سے انسان اپنی روزمرّہ مشکلات پر بھی غلبہ پا سکتا ہے۔ انسان جس عالم میں زندگی گزار رہا ہے وہ عالم طبیعی ومادّہ ہے اور عالم مادّہ عالم تزاحم واختلاف ہے۔ اس عالم میں ایک طرف خود طبیعت کے تقاضے مختلف ہیں اور دوسری طرف انسان کے میلانات، رجحانات اور تقاضے مختلف ومتضاد ہیں اور ہر ایک اپنے تقاضوں کی تکمیل چاہتا ہے۔ لہٰذاانسان کو طرح طرح کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ان مشکلات کی سنگینی اور اپنی ناتوانی کو دیکھتے ہوئے انسان کو ایک ایسی قوت سے وابستہ ہونے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ ہر مشکل پر غلبہ پا سکے۔ اس کے لئے انسان اگرچہ طرح طرح کی قوتوں کو آزماتا ہے لیکن نتیجے میں اسے عجز و ناتوانی کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا کیونکہ منبع قوّت، ذات خدا ہے اورپھر جب وہ خدا کی طرف رخ کرتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے۔''ایّاک نستعین'' پروردگارہم صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں تو خدائے کریم اس کی معجزاتی نصرت کرنے کی بجائے نصرت کے ایک قانون اور نظام کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ زندگی کی ہر مشکل پر غلبہ پاتا رہے۔لہٰذاارشاد فرمایا:''وَاسْتَعِیْنُوا بِالصّبْرِ وَالصَّلَوۃ'' صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو۔نماز سے اس لئے کیونکہ بڑی قوّتوں سے ارتباط انسان کی چھوٹی بڑی مشکلات کو حل کر دیتا ہے اور خدا سے بڑی کوئی قوّت نہیں ہے جس سے ارتباط کا بہترین طریقہ نماز ہے،اورصبر سے اس لئے مدد حاصل کرو کیونکہ صبر انسان کے اندر قوّت،استقامت،پائیداری اور استحکام پیدا کرتا ہے،بلکہ صبر کے معنی ہی استقامت اور پائیداری کے ہیں۔یہ استقامت کبھی ظلم کے مقابلے میں ہے۔ کبھی امتحانات و مشکلات کے مقابلے میں اور کبھی علم و فضل وکمالات کو حاصل کرنے کے لئے صبر واستقامت کی ضرورت پڑتی ہے۔ روزے کا ایک رازیہ ہے کہ روزہ انسان کے اندر صبرو استقامت پیدا کرتاہے۔صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق روزہ ہے اسی لئے اس آیت''وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃ' میں صبر کی تفسیر روزہ سے کی گئی ہے۔ اس مقام پر فلسفہ روزہ یعنی تقویٰ کے معنی میں اور وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔اب روزہ کے نتیجے میں انسان کے اندر ایک ایسی معنوی قوّت پیدا ہو جاتی ہے جس میں شدید استقامت اور پائیداری بھی پائی جاتی ہے اور اس کے بعد انسان ہر مشکل سے باآسانی عبور کر جاتا ہے۔روزہ انسان کو معنوی اعتبار سے اتنا بلند کر دیتا ہے کہ مادّی مشکلات اس کے تکامل کے سفر میں رکاوٹ ایجاد نہیں کر سکتیں۔
تطہیر وتزکیہ
تقوے کا حاصل یا نتیجہ تطہیر و تزکیہ ہے۔
تطہیر تمام عبادتوں کا فلسفہ ہے کیونکہ خدا انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں پاک و پاکیزہ دیکھنا چاہتا ہے ''وَ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْن'' لیکن ماہ رمضان میں یہ معنی زیادہ وسیع اور قابل لمس شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس با برکت مہینہ میں انسان ایک خاص آمادگی کے ساتھ اپنی تطہیر کے لئے کوشش کرتا ہے۔تطہیر روزہ کے ان اہم ترین اسرار میں سے ہے جن کے ذریعے نہ صرف روزہ میں بلکہ روزہ دار اور اس کے تمام اعمال میں وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ ماہ رمضان میں کرم الہٰی کے دسترخوان سے انسان کو بہت سے صفات وکمالات حاصل کرنا ہیں،لیکن کسی بھی صفت اور کمال کا حصول اس بات پر متوقف ہوتاہے کہ انسان نے اپنے اندر کتنی طہارت پیدا کی ہے کیونکہ کمالات کا مسکن پاک انسان اور اس کی پاکیزہ روح ہے۔ آلودہ مقامات پر یا تو کمالات پیدا ہی نہیں ہوتے یا اگر پیدا ہوتے ہیں تو وہ بھی آلودہ ہو جاتے ہیں۔ ماہ رمضان میں انسان کو جو ایک سب سے بڑا کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اسے اپنی تطہیر کرنی ہے کیونکہ تطہیر کے بغیر انسان کو نہ تو روزوں سے کچھ حاصل ہو گا،سوائے بھوک اور پیاس کے، نہ تلاوت قرآن سے اس کے اندر کوئی کمال پیدا ہو گا سوائے تھوڑے سے ثواب کے، اور نہ ہی شب قدر سے بوریت اور تھکاوٹ کے علاوہ کچھ کسب کرسکے گا۔
مراحل وطریقہ تطہیر
تطہیر کوئی ذہنی اور مفہومی شئے نہیں ہے کہ انسان ذہن میں یہ تصور کر لے کہ میں پاک ہونا چاہتا ہوں اور وہ پاک ہو جائے بلکہ تطہیر کے لئے انسان کو چند مراحل سے گزرناہوتا ہے۔
لباس و بدن کی تطہیر
تطہیر کا سب سے ابتدائی اور آسان مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر یعنی اپنے لباس اور بدن کو پاک وصاف کرے۔ اسلام نے اس پہلے مرحلے کے لئے بہت تاکید کی ہے حتی کہ نظافت کو نصف ایمان قرار دیا ہے کیونکہ یہ بعد کے مراحل کو طے کرنے کے لئے ایک آغاز ہے۔ انسان جس طرح لباس و بدن کے ظاہرکی تطہیر کو اہمیت دیتا ہے اسی طرح اسے باطنِ بدن کی بھی تطہیر کرنی چاہئے اور باطن بدن کی تطہیر کا بہترین وسیلہ روزہ ہے۔اسی لیے روایات میں روزہ کو زکات بدن سے تعبیر کیا گیا ہے۔رسول اللہ نے فرمایاہے:''لِکُلِّ شَیءٍ زَکَاۃٌ وَ زَکَاۃُ الْاَبْدَانِ الصِّیَامُ'' ہر شئے کی ایک زکات ہے اور بدن کی زکات روزہ ہے یعنی جس طرح زکاۃ مال کو پاک
کرتی ہے اسی طرح روزہ بدن کو پاک وسالم کرتا ہے۔
خیال و فکر اور قلب و حواس کی تطہیر
دوسرے مرحلہ میں انسان کو اپنے فکر و خیال اور قلب وحواس کی تطہیر کرنی ہے، فکر و خیال کی پاکیزگی انسان کے ارتقاء میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور قلب کی طہارت، اس لیے ضروری ہے کہ قلب ِانسانی عرشِ الٰہی سے تعبیر ہوا ہے،اورحواس سے مراد انسان کی سماعت، بصارت، زبان اور دیگر حواس ظاہری و باطنی ہیں۔ انسان اپنی آنکھ یعنی بصارت کی تطہیر کرے تاکہ'' خائن الاعین''یعنی خیانتکار آنکھوں کا مصداق نہ بن جائے، انسان اپنی سماعت کی تطہیر کرے تاکہ آلودہ سماعت سے خدا کا کلام نہ سنے، ماہ رمضان میں خدا کی طرف انسانوں کو دعوت دی جاتی ہے لیکن گناہوں سے آلودہ سماعتیں اس دعوت کو نہیں سن سکتیں۔انسان اپنی زبان اور قوت گویائی کی تطہیر کرے تاکہ غیبت،فحش، چاپلوسی، اور غیر منطقی باتوں سے آلودہ زبان پر نام خدا نہ آئے کیونکہ انسان کبھی اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ وہ ایک نہایت پاک و پاکیزہ چیز کو کسی گندے اور نجس ہاتھ میں پکڑا دے۔ ماہ رمضان میں حواس کی تطہیر کے لئے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں۔ حضرت فاطمہ ؓ سے ایک قول منقول ہے:''مَا یَصْنَعُ الصَّاءِمُ بِصِیَامِہ اِذَا لَمْ یُصِنْ لِسَانَہ وَسَمْعَہ وَبَصَرَہ وَ جَوَارِحَہ'' روزہ دار اپنے اس روزے کا کیا کرے گاجس میں وہ اپنی زبان، سماعت، بصارت اوراعضاء کو محفوظ نہ رکھے۔