اصلاح و دعوت
اپنے آپ سے مليے
محمد عقيل
آج میں آپ کی ملاقات ایسے شخص سے کراتا ہوں جو آپ کے بہت قریب ہے، جو آپ کو بہت اچھی طرح جانتا ہے، آپ سے باتیں کرنا اور ملنا چاہتا ہے، آپ کے ساتھ بستر پر ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ اس سے ملنے کا وقت ہی نہیں پاتے۔ آپ اس کی سرگوشیوں پر کان نہیں دھرتے، آپ اپنی تنہائیوں میں بھی اس سے دور رہتے ہیں۔ وہ کبھی خوابوں میں بھی آپ کے پاس آکر آپ سے ملنا چاہتا ہے تو آپ ان اشاروں کو وہم سمجھ کر ٹال دیتے ہیں۔
آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہونگے کہ وہ کو ن ہے؟شاید آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ میں کسی فرشتے یا جن کی بات کررہا ہوں تو ایسا نہیں۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں خدا کی بات کررہا ہوں تو ایسا بھی نہیں۔پھر ذرا سوچئیے ، ذہن پر زور ڈالیے کہ وہ کون ایسا شخص ہے جو آپ کے قریب رہتا، آپ سے ملنا چاہتا ، آپ سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اس سے کبھی بات ہی نہیں کرتے اور نہ ملاقات کرتےہیں؟
لگتا ہے آپ کنفیوز ہورہے ہیں۔ چلیں میں بتا ہی دیتا ہوں۔ وہ شخص آپ خود ہیں۔ ذرا غور کیجے، آپ اپنی بیوی سے بات کرتے ہیں۔، بچوں کو وقت دیتے ہیں ، دوست احباب سے گپیں لگاتے ہیں، ساتھیوں کے ساتھ روز ملتے ہیں، محلے والوں کو سلام کرتے ہیں حتی کہ دفتر کے چپراسی تک سے سلام دعا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کبھی آپ نے اپنے آپ سے بات کی؟کبھی خود سے ملاقات کی؟ کبھی اپنا حال احوال دریافت کیا ؟ کبھی اپنی ضروریات پر کان دھرا؟آپ شاید ہنس کر یہ کہہ رہے ہوں کہ یہ تو ہم روز کرتے ہیں۔ ہم روز اپنے جسم کی صفائی کرکے اس کا خیال رکھتے، کھانا کھاکر اس کی بھوک مٹاتے، ٹی وی دیکھ کر لذت حاصل کرتے اور اپنے بدن کے دکھ سکھ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ بے شک آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن میں اس ظاہری اور مادی شخصیت کی بات نہیں کررہا۔ اس جسم کا خیال تو ایک جانور بھی رکھتا ہے۔ میں تو اس شخص کی بات کررہا ہوں جو آپ کے اندر بیٹھا ہے۔ جو آپ کی " میں " ہے، جو آپ کی خودی ہے، جو آپ کا اپنا آپ ہے اور جو آپ کی اصل شخصیت ہے۔
آپ کا بدن ، جسم ، چہرہ، ہاتھ پاؤں سب ہر دس سال بعد بدل جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بدلتا۔ کیا آپ نے کبھی اسے جھانک کر دیکھا ؟ کبھی اس کی بھوک و پیاس کا معلوم کیا ؟ کبھی اس سے باتیں کیں؟ کبھی اس کے مسائل معلوم کیے؟ کبھی اس کا دکھ پوچھا؟
آپ کہیں گے کہ ہمِیں تو علم ہی نہیں کہ وہ کس طرح باتیں کرتا ہے؟ کیا کھاتا پیتا ہے؟کن چیزوں سے غمزدہ یا خوش ہوتا ہے؟۔ ارے بھائی، وہ مادے سے نہیں بنا اسی لیے اس کی ضروریات مادی نہیں غیر مادی ہیں۔اس کی بھوک آپ کے اچھے اعمال سے مٹتی ہے اورا س کی پیاس اچھے خیالات سے بجھتی ہے۔ وہ آپ سے نفسیات کی خاموش زبان میں باتیں کرتا ہے، وہ خلق خدا کی خدمت سے خوش ہوتا اور ان کی تکلیف پر غمزدہ ہوجاتا ہے۔ اورپتا ہے جب آپ اس کے پیٹ میں برائیوں کی غذا انڈیلتے ہیں تو وہ اسے ہضم نہیں کرپاتا اور آپ کے اندر ہی الٹی کردیتا ہے۔ جس کا اثر آپ نفسیات پر پڑتا ہے ۔ آپ اس اثر کو نیند کی گولیوں سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ تو برے اعمال کا اثر ہوتا ہے جو نیند کی گولیوں سے کہاں دو ر ہوگا۔
میرے دوست ،ہماری اس اندرونی شخصیت کا بھی ایک چہرہ ہوتا ہے جسے صاف رکھنے کے لیے اعلی کردار درکار ہوتا ہے۔ بدکرداری اس چہرے کو کالا کرتی رہتی ہے اور اگر اسے توبہ کے پانی سے دھویا نہ جائے تو یہ منہ کی کالک دیگر اعضاء تک پھیل جاتی ہے اور اس پر گناہوں کی تہیں چڑھتی رہتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ بدبو اور تعفن سے ہمارا اندرونی وجود گلنے اور سڑنے لگتا ہے جس کی بدبو باہر کے لوگ بھی محسوس کرتے ہیں۔ پھر جب حسد ، کینے، خودغرضی، بدگمانی اور مادہ پرستی کے سانپ بھی اس بدن میں رینگنے لگیں تو اس اندرونی بدن کا کینسر پھیلنا شرو ع ہوجاتا ہے ۔ یہ کینسر نظر نہیں آتا لیکن محسوس ضرور ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہمارے اندر کا انسان مرجاتا ہے اور ہمارا وجود ایک جانور کی طرح کا ہوجاتا ہے ۔ ایسا جانور جس کے کا ن ہوتے ہیں لیکن حق سن نہیں سکتے، آنکھیں ہوتی ہیں لیکن حقیقت دیکھنے کے قابل نہیں ہوتیں، دل ہوتے ہیں لیکن سوچنے کے قابل نہیں ہوتے۔
دوسری جانب اگر اندر کے انسان کو ایثار، قربانی، روحانیت اور خدا پرستی کی روحانی غذا فراہم کی جائے ، اس کے چہرے پر لگی کالک کو روز احتساب کے عمل سے دھویا جائے، اس کی پیاس اچھے خیالات سے بجھائی جائے تو پھر اندر بہاریں آجاتی ہیں۔ پھر باہر کی ابتری کے باوجود اندر سکون ہوتا ہے، پھر شدید گرمی میں بھی اندر ٹھنڈ ہوتی ہے، پھر دولت نہ ہونے پر بھی انسان امیر ہوتا ہے ۔ پھر انسان کے اس وجود پر رحمتوں کا سایہ ہوتا ہے، پھر فرشتے آکر اس نورانی وجود کو سلام کرتے ہیں ۔
تو آِئیے، اندر کے انسان سے ملتے ہیں۔ اپنے آپ سے ملتے ہیں، اس کے چہرے کو سنوارتے ہیں، اس کے بدن پر نیکیوں کا لباس ڈالتے ہیں ، اس کی بھوک اچھائیوں سے مٹاتے ہیں اور اس کی پیاس اچھے احساسات سے بجھاتے ہیں۔امید ہے ، آپ کو یہ ملاقات اچھی لگی ہوگی۔