اصلاح و دعوت
دوسرے مسلك كا احترام-احمد علی لاہوری اور داؤد غزنوی
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
ضيا چترالی
مولانا احمد علی لاہوریؒ (دیوبندی) اور ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺩﺍﺅﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼؒ (اہل ﺤﺪﯾﺚ) کی مسلکی اختلاف کے باوجود آپس میں گہری دوستی تھی۔ ایک مرتبہ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﺰﻧﻮﯼؒ ﻧﮯ حضرت ﻻﮨﻮﺭﯼؒ ﮐﻮ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﻐﺮﺏ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮨﮯ، ﺍﺳﯽ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﺰﻧﻮﯼؒ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻻﮨﻮﺭﯼؒ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ساتھ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﺑﺎﻟﺠﮩﺮ (ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ) ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻻﮨﻮﺭﯼ ﺁﻣﯿﻦ ﺑﺎﻟﺴﺮ (ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ) ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻢ ان کی مسجد میں جا کر بلند آواز سے آمین کہیں اور باقی تمام نمازی آہستہ آواز میں آمین کہیں تو اچھا نہیں لگے گا۔ بہتر یہی ہے کہ جب ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻻﮨﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﻓﻊ ﺍﻟﯿﺪﯾﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ جانب ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻻﮨﻮﺭﯼؒ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﺰﻧﻮﯼؒ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﻣﯿﻦ ﺑﺎﻟﺠﮩﺮ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺟﺐ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺳﺒﮑﯽ ﮨﻮگی اور مہمان کیلئے یہ بات مناسب نہیں۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻃﻠﺒﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﻣﺴﻠﮏ ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﭼﻮنکہ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺁﺝ ﺗﻢ سب ﺁﻣﯿﻦ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ کچھ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻤﻮﮞ کو ﺑﻼ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ کچھ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ، ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ساتھ ﮐﮩﻨﺎ۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺁﻣﯿﻦ ﺑﺎﻟﺠﮩﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺒﮑﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﻨﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔ ﺟﺐ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ۔ ﺟﻦ ﻃﻠﺒﮧ ﻧﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﺑﺎﻟﺠﮩﺮ ﮐہی، ﺍﻥ ﮐﻮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ کچھ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺁﻣﯿﻦ ﮐﮩﮧ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﺰﻧﻮﯼؒ اور ان کے شاگردوں ﻧﮯ ﺁﻣﯿﻦ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯽ، ﺟﺒﮑﮧ مولانا لاہوریؒ کے شاگردوں ﻧﮯ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ۔ یعنی دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنے مسلک کے بجائے مخالف مسلک پر عمل کیا اور ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﺩیکھ ﮐﺮ ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ (حضرت لاہوریؒ کے حیرت انگیز واقعات)
مولانا سید داؤد غزنویؒ فرماتے ہیں کہ مفتی کفایت اللّٰہ صاحب مرحوم کے بعد جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنیؒ (شیخ الحدیث، دارالعلوم دیوبند) بنے اور نائب صدر کا عہدہ مجھے تفویض ہوا۔ یہ معلوم ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی صاحبؒ مسلک کے بارے میں نہایت سخت گیر تھے، مگر نماز کے وقت امامت کے لیے مجھے آگے کر دیتے اور میری اقتدا میں نماز پڑھتے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تمام عمر عیدین کی نماز مولانا داؤد غزنوی مرحوم کی اقتدا میں پڑھتے رہے۔
مولانا محمد حسین ہزارویؒ جو کہ مفتی محمد حسنؒ (بانی جامعہ اشرفیہ لاہور) کے دوست اور ہم وطن تھے، پہلے حنفی تھے، لیکن مدرسہ غزنویہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اہل حدیث ہوگئے اور وہاں مدرس بھی مقرر ہوئے۔ یہ اس کے بعد بھی مفتی محمد حسنؒ کے ساتھ مولانا اشرف علی تھانویؒ کو ملنے تھانہ بھون جایا کرتے تھے۔ مفتی حسنؒ حضرت تھانویؒ سے بیعت تھے۔ ایک مرتبہ مولانا تھانویؒ نے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ پیچھے نماز میں مولانا ہزاروی کی آمین کی اونچی آواز نہیں آتی؟ مفتی محمد حسنؒ نے کہا کہ شاید آپ کے احترام میں آہستہ آمین کہتے ہیں تو مولانا تھانویؒ نے کہا کہ انہیں کہیں کہ مجھ پر اس سنت کے ترک کا بوجھ نہ ڈالیں اور انہیں کہیں کہ یہاں اونچی آواز سے آمین کہیں، کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ (بزم ارجمنداں، ص 303)
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر--اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر