آواز دوست
ریت کی دیوار
محمد صديق بخاری
پہلا منظر
کوئی پچیس برس پہلے کی بات ہو گی جب ہمارے علاقے (لاہور، ملتان روڈ) میں ٹی وی کیبل بچھائی جار ہی تھی ۔انہی دنوں میں قریبی مسجد کے مولوی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ کیاآپ کو معلوم ہے کہ ہمارے علاقے میں ٹی وی کیبل بچھائی جا رہی ہے میں نے عر ض کیا کہ معلوم ہے ۔ کہنے لگے تو پھر آپ نے کیا لائحہ عمل اختیا رکیا ۔ میں نے کہا ، کیا مطلب ؟ فرمانے لگے کہ اس کو روکنے کے لیے ۔ میں نے کہا ، روکنے کے لیے کیوں ، کس لیے ؟ کہنے لگے ، اس لیے کہ اس سے ہمارے گھروں میں فحاشی پھیلے گی ، اس لیے اس کا روکنا ہمارے ذمہ ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ میرا تو کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اس سلسلے میں ۔(اس زمانے میں ،میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتا تھا) مگر آپ کیا کر رہے ہیں اس بارے ميں- فرمانے لگے کہ ’’ میراتو جمعے کے خطبے کا موضوع ہی یہ ہو گا۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ محترم اس کیبل کے دوسرے سرے پر وہ عالمی انویسٹر بیٹھے ہیں جن کے سامنے ہماری حکومتیں بھی بے بس ہیں ۔ انہوں نے فائبر آپٹک بچھانے پہ جو سرمایہ کاری کی ہے کیا وہ اس کو بے کار جانے دیں گے ؟اس کا فائدہ تو ان کو تب ہی ہو گا جب یہ کیبل گھر گھر پہنچے ۔ اس لیے میری رائے میں تو اس طرح کی تقریریں کرنا ایک کارِ عبث ہے ۔اور ویسے بھی میں نہیں سمجھتا کہ فحاشی کو روکنے کا یہ کوئی مناسب طریقہ ہے فحاشی کیبل نہیں پھیلائے گی بلکہ ہمارے گھروں ،مدرسوں ، تعلیمی اداروں اورمعاشرے میں اخلاقی تربیت کا فقدان اور رب کے ساتھ ہمارا مردہ تعلق فحاشی پھیلانے کا ذمہ دار بنے گا۔ بہر حال وہ حضرت تو مجھے بزدلی اور بے غیرتی کا طعنہ دے کر تشریف لے گئے اور بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے جمعہ کے روز مسجد میں دھواں دھار تقریر کی اور اس کے بعدلوگوںکو جلوس نکالنے پہ اکسایا چنانچہ چند لوگ ان کے ساتھ ہو گئے جن کے ہمرا ہ مولوی صاحب نے ملتا ن روڈ پہ جا کر نعرے بازی کی، چندٹائر جلائے اور فضائی آلودگی میں اضافہ کر کے گھر واپس تشریف لے آئے ۔ ایک عرصہ بعد معلوم ہواکہ موصوف نے جو ریت کی دیوار کھڑی کی تھی وہ جلدہی گر گئی اور ان کا گھر بھی اسی کیبل سے آراستہ ہو گیا جس کے خلاف انہوں نے لوگوں کو اکسایا تھا۔
دوسرا منظر
ایک دوست ایک انٹر نیشنل تعلیمی ادارے میں جاب کیا کرتے تھے وہ بتاتے ہیں کہ اُس ادارے کے بانی اور مالک بہت ہی مخلص اور ایثار و قربانی والی شحصیت تھے، عصری علوم میں ڈاکٹرتھے لیکن سوچ کے اعتبار سے محلے کے مولوی صاحب سے زیادہ مختلف نہ تھے وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے فحاشی کو روکنے کے لیے موبائل فونز پر پابندی لگا رکھی تھی خاص طور پر خواتین کے لیے ۔حتی کہ ان کے ادارے میں جو لیڈیزہاسٹل تھا وہاں کی ٹیچرز کو لینڈ لائن فون کے لیے بھی اجازت درکار ہواکرتی تھی۔وہ کہتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود وہ خواتین کی پیغام رسانی کے آگے بند نہ باندھ سکے اور آہستہ آہستہ یہ سب ’’شیطانی آلات ‘‘ گوارا کیے جانے لگے ۔ان کی بات سن کر مجھے اپنے خاندان کے وہ نیک اور پڑھے لکھے بزرگ بہت یاد آئے جو پہلے ریڈیو کو شیطانی آلہ کہتے تھے لیکن جب ٹی وی آیاتو وہ ریڈیو سننے لگے مگر ٹی وی کو شیطانی آلہ کہنے لگے اور جب موبائل آیا تو وہ موبائل کو شیطان کہنے لگے لیکن ٹی وی دیکھنے لگے یعنی ایک کے بعد ایک ریت کی دیوارتھی جو گرتی چلی گئی ۔سوچتا ہوں کہ مرحوم کس قدر مخلص او ر نیک انسان تھے لیکن ان کا اخلاص اورنیکی بھی ریت کی دیوار کو قائم نہ رکھ سکا ۔معلوم ہو ا کہ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے ایثار و اخلاص کے ساتھ ساتھ رخ کا صحیح ہونا، زمانے کے مثبت تقاضوں کا بروقت ادراک ہونااور سائنسی علم و ایجادات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اخلاص نیت۔
تیسرا منظر
موبائل ، انٹر نیٹ اور وائی فائی کارواج شروع ہوا تو میں ایک تعلیمی ادارے کے ٹیچرزہاسٹل کا وارڈ ن تھا۔ ادارے کے انڈین پرنسپل پی ایچ ڈی کیمسٹری تھے مگر صوم و صلوۃ کے پابند،شریف انسان تھے ۔ انہوں نے مجھے ایک روز بلایااور کہا کہ سنا ہے کہ آپ کے ہاسٹل میں لوگ انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ جی بالکل کرتے ہیں ، میں خود بھی کرتا ہوں۔ایک دم کھڑ ے ہو گئے اور فرمانے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ آپ کو معلوم نہیں کہ اس سے فحاشی پھیلتی ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ جناب ،یہ بات کہ اس سے فحاشی پھیلتی ہے اور یہ بات کہ اسے فحاشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہ بات تو ایسے ہی ہے کہ جیسے آپ کہیں کہ سنا ہے تم نے گھر میں چھری رکھی ہوئی ہے تمہیں معلوم نہیں کہ اس سے گردن کاٹی جا سکتی ہے ۔ تو میں کہوں گا کہ جی یقینا ًکاٹی جا سکتی ہے ،لیکن اس سے سبز ی اور پھل بھی تو کاٹے جاتے ہیں اور ہماری چھری یہی کام کیا کرتی ہے ۔خیر ان پرنسپل صاحب کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹر نیٹ کا نہ صر ف رواج عام ہو گیا بلکہ تعلیمی شعبے میں بھی اس کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا اور ایک وقت تو وہ آیا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں کلاس رومز میں وائی فائی کی سہولت دینے پر مجبور ہو گئے گویا ان کی دیوار بھی ریت كی تھی جسے گرنا ہی تھا سو گر گئی-
ریت کی دیوار وں کا مقدرتو بہر حال گرناہوتا ہے اسی لیے تو ہم مولوی حضرات سے عرض کرتے رہتے ہیں کہ ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں