اصلاح ودعوت
استاد
عمار سلیم۔۔انتخاب ، سیداحمد گیلانی
جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا،کبھی کبھی جان بوجھ کر ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں، ہم طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر آپ زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں، آپ کبھی نہیں ہاریں گے۔
آج ظہر کے بعد سٹوڈنٹس نے مجبور کیا کہ سر آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں،پانچ گیندیں کھیل کر میں نے دو رن بنائے،اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہوا۔اوور ضائع ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس نے میرے آؤٹ ہونے پر خوب شور مچا کر بھر پور خوشی کا اظہار کیا۔ تھوڑی دیر پہلے مغرب کے بعد دوران کلاس انہیں جمع کرکے میں نے پوچھا ، آپ میں سے کون کون چاہتا تھا کہ سر اس کی گیند پر آؤٹ ہوں؟ جو جو بھی باولر تھے تقریباً' سب ہی نے ہاتھ کھڑے کردیئے
مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔میں نے پوچھا، میں کرکٹر کیسا ہوں؟ سب نے کہا، بہت برے۔میں نے پوچھا،میں ٹیچر کیسا ہوں ، جواب ملا سر بہت اچھے ۔مجھے ایک بار پھر ہنسی آئی۔ آپ لوگ جانتے ہیں، یہ صرف آپ نہیں کہتے؟ میں اپنی تعریف نہیں کر رہا،دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے چار ہزار سٹوڈنٹس جن میں بہت سے میرے نظریاتی مخالف بھی ہیں یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں ایک اچھا ٹیچر ہوں،جبکہ میں آپ کو راز کی بات بتاؤں۔ میں جتنا اچھا ٹیچر ہوں شاید اتنا اچھا سٹوڈنٹ نہیں تھا۔مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ، اور بات سمجھنے میں وقت لگا،لیکن کیا آپ بتاسکتے ہیں اسکے باوجود آج دنیا بھر میں میرے سٹوڈنٹ مجھے اچھا ٹیچر کیوں مانتے ہیں؟سب نے کہا سر آپ بتائیں کیوں؟
میرا جواب تھا،ادب۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے،ایک باراپنے ایک ٹیچر کے ہاں میں کسی دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا،فریزر سے برف نکالی ، اس برف کو توڑنے کیلئے کمرے میں کوئی شے نہیں تھی،استاد کسی کام کیلئے کمرے سے نکلے تو وہ سخت برف میں نے مکا مار کر توڑ دی، اور استاد جی کے آنے سے پہلے پہلے جلدی جلدی اس ٹوٹی ہوئی برف کو دیوار پر بھی ایک بار مار دیا۔استاد جی کمرے میں آئے اور دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے تو انہوں نے مجھے ڈانٹا،کہ تمہیں عقل کب آئیگی، یوں برف توڑی جاتی ہے، میں ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنتا رہا، بعد میں انہوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا،اور ہمیشہ میں بیوقوفوں کی طرح سر ہلا کر ان کی ڈانٹ سنتا رہتا،انہیں آج بھی نہیں معلوم کہ برف میں نے مکا مار کر توڑی تھی۔اور یہ بات میں نے انہیں اسلئے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے، ان کی غیر موجودگی میں میں نے اپنی جوانی کے جوش میں برف مکا مار کر توڑ تو دی تھی لیکن جب اچانک ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ میرے اس طاقت کے مظاہرے سے انہیں اپنی کمی کا احساس نہ ہو،صرف اس خیال کی وجہ سے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور لمبے عرصے تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔اور ایک آپ لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر ہدایات دے رہے تھے کہ سر کو مار، سر آوٹ ہوجائیں گے۔
جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا،کبھی کبھی جان بوجھ کر ہارنے سے زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں، ہم طاقت میں اپنے ٹیچرز اور والدین سے بے شک بڑھ جاتے ہیں لیکن اگر آپ زندگی میں سب سے جیتنا چاہتے ہیں تو اپنے ٹیچرز اور والدین سے جیتنے کی کوشش نہ کریں، آپ کبھی نہیں ہاریں گے۔
***