اصلاح و دعوت
مہلت كی قدر كيجيے
غفران محمود
جج صاحب صبح جلدی عدالت پہنچ جاتے تھے، سات بجے کام شروع کر دیتے تھے اور شام تک مصروف رہتے تھے-وہ جمعرات 16 مارچ 2017کی صبح بھی پونے سات بجے عدالت پہنچ گئے اور مقدمات کی سماعت شروع کر دی، وکیل جرح کر رہے تھے اور وہ وکیلوں کے دلائل سن رہے تھے، سات بچ کر سات منٹ پر جج صاحب کے سینے میں شدید درد اٹھا اور وہ چند سیکنڈ میں پسینے میں بھیگ گئے، انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ دل پر رکھا اور سر میز پر ٹکا دیا، عدالت میں سراسیمگی پھیل گئی-وکلا خاموش ہو گئے-عدالتی عملے نے بھاگ کر جج صاحب کو سیدھا کیا ، وہ پسینے میں شرابور تھے اور اونچی اونچی سانسیں لے رہے تھے ، عملے نے پانی پلانے کی کوشش کی لیکن وہ پانی پینے کے قابل نہیں تھے -عدالت کے ایک کونے سے آواز آئی ’’جج صاحب کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے ‘ آپ انہیں جلدی سے اسپتال پہنچاؤ‘‘ یہ آواز فیصلہ کن ثابت ہوئی-عملے نے انہیں اٹھایا‘ گاڑی میں ڈالا اور گاڑی اسپتال کی طرف دوڑا دی‘ سول اسپتال قریب تھا-جج صاحب کو اسپتال پہنچا دیا گیا‘-ڈاکٹر جمع ہوئے ‘ ابتدائی طبی امداد دی گئی لیکن جج صاحب کا وقت آ چکا تھا یا پھر دیر ہو چکی تھی‘ ان کا دل بند ہو گیا اور سانسیں رک گئیں ‘ ڈاکٹروں نے دل کو جھٹکے دیے ‘ انجکشن بھی لگایا مگروہ زندگی کی سرحد سے بہت دور جا چکے تھے ‘ وزیر اعلیٰ نے اپنا خصوصی ہیلی کاپٹر بھجوایا‘ ان کا جسد خاکی ہیلی کاپٹر میں رکھا گیا اور میت کراچی پہنچا دی گئی۔
یہ جج صاحب جسٹس سعیدالدین ناصر تھے‘ یہ سند ھ ہائی کورٹ کے معزز جج تھے ‘ یہ چھ مارچ 2017 ء سے حیدر آباد کے سرکٹ بینچ میں شامل تھے ‘ یہ کراچی میں رہتے تھے لیکن مقدمات کی سماعت کے لیے یکم اپریل تک حیدرآباد میں مقیم تھے ‘ یہ صبح جلدی کام شروع کر دیتے تھے ‘ یہ 16 مارچ کی صبح عدالت گئے ‘ پہلا کیس شروع کیا‘ سماعت کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا اور یہ چند منٹوں میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ‘مقدمے ‘ فائلیں ‘ وکیل اور فیصلے پیچھے رہ گئے اور یہ چند لمحوں میں مائی لارڈ سے مرحوم مائی لارڈ بن گئے ‘ یہ’’ہے سے تھے ‘‘ ہو گئے ‘
جسٹس سعید الدین ناصر دنیا کی اس اٹل ترین حقیقت کا تازہ ترین ثبوت ہیں جسے ہم روز فراموش کر دیتے ہیں ‘ جسے ہم روز زندگی کے فریب ‘ زندگی کے رنگوں میں بھول جاتے ہیں ‘ وہ حقیقت موت ہے ‘ زندگی بہت مکار ہے ‘ یہ ہمیں یاد ہی نہیں رہنے دیتی ہم نے کبھی مرنا بھی ہے ‘ ہماری موت ہر وقت ہمارے گرد منڈلاتی رہتی ہے ‘ یہ ہمیں کسی لمحے ڈس لے گی زندگی ہمیں یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی‘زندگی اور موت بھی کیا دلچسپ کھیل ہے ‘ مرد کے ایک اختلاط کے دوران 30 کروڑ سپرم خارج ہوتے ہیں ‘ یہ 30 کروڑ سپرم مکمل انسان ہوتے ہیں ‘ عام نارمل مرد میں پانچ ہزار اختلاط کی صلاحیت ہوتی ہے ‘ آپ پانچ ہزار کو 30 کروڑ سے ضرب دیں آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ قدرت نے ایک مرد کو دنیا کی کل آبادی سے دگنے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت دے رکھی ہے لیکن ان اربوں سپرمز میں سے صرف دو چار حد آٹھ دس سپرم انسانی شکل اختیار کرتے ہیں ‘ ان تیس کروڑ انسانوں میں سے صرف ہم پیدا ہو جاتے ہیں ‘ ہماری پیدائش قدرت کے دس عظیم معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے ‘ ہماری تخلیق کے پہلے لمحے کے دوران ہمارے اردگرد 30 کروڑ بہن بھائی موجود ہوتے ہیں ‘ یہ خوبصورتی ‘ طاقت‘ ذہانت اور قسمت میں ہم سے بہتر ہوتے ہیں لیکن قدرت عین وقت پر ہمارے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے اور یوں ہم ماں کی کوکھ میں بیج بن جاتے ہیں ‘ یہ ہماری زندگی کے سفر کی شروعات ہیں ‘ آپ آگے کا سفر بھی ملاحظہ کیجیے ‘ دنیا میں ہر سال لاکھوں بچے پیدائش سے پہلے مر جاتے ہیں ‘ یہ ’’مس کیرج‘‘ ہو جاتے ہیں ‘ قدرت ہمیں مس کیرج سے بھی بچا لیتی ہے ‘ دنیا کے 80 فیصد معذور بچے پیدائش کے دوران معذور ہوتے ہیں ‘ بچے کو ڈیلیوری کے دوران آکسیجن نہیں ملتی‘ سردی یا گرمی لگ جاتی ہے ‘ دائی کا ہاتھ سخت ہو جاتا ہے ‘ ڈیلیوری کے دوران بچے کے سر پر چوٹ لگ جاتی ہے یا پھر ماں ’’گھٹی‘‘ کے نام پر اسے کوئی ایسی چیز کھلا دیتی ہے جسے بچے کا جسم قبول نہیں کرتا اور یوں یہ بے چارہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتا ہے ‘ قدرت ہمیں معذوری سے بھی بچا لیتی ہے‘ دنیا کے لاکھوں بچے ابتدائی پانچ برسوں میں فوت ہو جاتے ہیں‘ یہ خوفناک امراض کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ‘ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول کی نعمت سے محروم ہیں ‘ پاکستان دنیا کے ان ملکوں کا حصہ ہے جن میں ’’ڈراپ آؤٹ‘‘ کی شرح انتہائی بلند ہے ‘ ہمارے آدھے بچے پرائمری سے مڈل میں نہیں جاتے ‘ مڈل میں داخل ہونے والے آدھے بچے ہائی اسکول نہیں پہنچ پاتے‘ آپ تعلیم کا المیہ دیکھئے ‘ ہمارے سو بچوں میں سے صرف تین یونیورسٹی پہنچتے ہیں ‘ پاکستان میں اس وقت ستر لاکھ لوگ نشے کے شکار ہیں ‘ نشیؤں کی اکثریت جوانی میں اس لت کا شکار ہوئی‘ دنیا میں سب سے زیادہ روڈ ایکسیڈنٹ پاکستان میں ہوتے ہیں ‘ ہم ناخالص خوراک بیچنے والے ملکوں میں بھی شمار ہوتے ہیں ‘ ہمارے ملک میں ادویات ‘ پانی اور ہوا بھی خالص نہیں ملتی‘ ہم مہلک بیماریوں کے سینٹر میں بھی رہتے ہیں ‘ ہم ہیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں ‘ ہم شوگرکے مرض میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں‘ ہمارے ملک میں تھیلیسیمیا‘ ٹی بی اور کینسر بھی خطرے کی لکیر سے اوپر ہیں‘ پاکستان دہشت گردی کے شکار تین بڑے ملکوں میں بھی شمار ہوتا ہے‘ ہمارے ستر ہزار لوگ دہشت گردی کا لقمہ بن چکے ہیں اور ہم فرقہ واریت کے شکار ملکوں میں بھی شمار ہوتے ہیں چنانچہ آپ کبھی غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ہمارا وجود ہر لحظہ خطرے کا شکار رہتا ہے اور یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ہمیں بیماریوں سے لے کر ڈراپ آؤٹ اور نوکری سے لے کردہشت گردی سے بچاتی رہی‘ یہ اللہ کا کرم ہے جس کے صدقے ہم پیدا بھی ہوئے ‘ صحت مند بھی رہے ‘ تعلیم بھی حاصل کی ‘ ترقی بھی کی‘ بیماریوں ‘ حادثوں اور دہشت گردی سے بھی بچے اور ہم قدرتی آفات سے بھی محفوظ رہے ‘ یہ سب اللہ کا کرم‘ اللہ کی مہربانی ہے ‘ ہم اللہ کے اس کرم پر جتنا شکر ادا کریں کم ہو گا‘ ہم اللہ کی اس مہربانی پر جتنا سیدھا چلیں وہ بھی کم ہو گا لیکن انسان بدبخت بھی کیا چیز ہے؟ ہم احسان فراموش اور کمینے ہیں ‘ ہم اللہ کی اس مہربانی کو ’’فار گرانٹیڈ‘‘ لیتے ہیں ‘ ہم مہلت کو اپنا حق سمجھ لیتے ہیں ‘ ہم خود کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں ‘ میں نے زندگی میں بے شمار جھوٹے خدا دیکھے ہیں ۔ میں آج بھی ہزاروں جھوٹے خدا دیکھتا ہوں ‘ یہ جھوٹے خدا دکاندار سے لے کر جج اور ایس ایچ او سے لے کر وزیر اعظم تک ملک کی ہر کرسی‘ ہر گدی پر بیٹھے ہیں ‘ آپ کسی دن ان خداؤں کی نخوت‘ ان کا غرور‘ ان کا تکبر اور ان کے پتھریلے لہجے دیکھیں اور پھر ان کی اوقات پر نظر ڈالیں ‘ آپ کو ان پر ترس آئے گا‘ یہ خدا یہ بھول جاتے ہیں کہ موت روزانہ 65 بار ان کے قریب سے گزرتی ہے‘ ڈرائیونگ کے دوران اگر ڈرائیور کو نیند یا چھینک آ جائے تو یہ خدا کہاں ہوں گے‘ پانی کا آدھا قطرہ یا چاول کا ایک دانہ ان کی سانس کی نالی میں چلا جائے ‘ اٹھتے ہوئے ان کا گھٹنا ان کا بوجھ نہ اٹھائے اور یہ شیشے کی میز پر گر جائیں ‘ ان کے سر پر گائے سوپ کا سائن بورڈ گر جائے‘ ان کی گاڑی کا انجن لاک ہو جائے ‘ ان کے کچن کی گیس لیک ہو جائے ‘ ان کی چائے میں چھپکلی گر جائے یا پھر رات سوتے وقت ان کا پنکھا ان کے اوپر گر جائے تو یہ اور ان کی خدائی کہاں جائے گی؟ یہ لوگ کبھی یہ نہیں سوچتے‘ ہم اگر یہ سوچ بھی لیں‘ ہم اگر ان سارے حادثوں سے بچ بھی جائیں تو بھی ہم موت کے ساڑھے چار ہزار بہانے ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ ہمارے خلیوں میں ساڑھے چار ہزار بیماریاں موجود رہتی ہیں‘ ان میں سے کسی بھی وقت کوئی بھی ایکٹو ہو جاتی ہے اور ہم کرسی پر بیٹھے بیٹھے ’’ہے سے تھے‘‘ ہو جاتے ہیں‘ ہم آنجہانی یا مرحوم ہو جاتے ہیں اور ہمارے بعد ہماری کرسی‘ ہماری گدی اور ہماری مسند پر کوئی دوسرا خدا بیٹھ جاتا ہے اور بات ختم۔
میں روز اخبارات کھولنے کے بعد سب سے پہلے انتقال کی خبریں پڑھتا ہوں ‘میں اس کے بعد حادثوں کی خبریں پڑھتا ہوں اور پھر اپنے آپ سے پوچھتا ہوں ’’ یہ لوگ بھی کل تک زندہ تھے ‘ یہ لوگ بھی کل تک امیر‘ طاقتور‘ خوبصورت‘ متحرک اور عقل مند تھے لیکن یہ آج کہا ں ہیں ‘‘ میں اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور پھر مزید ایک دن کی مہلت ملنے پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں ‘ یہ شکر اور یہ توبہ میری روز کی عبادت ‘ میرا روز کا معمول ہے ‘ کاش ہم سب اللہ کی مہلت پر شکر اور توبہ کو اپنا معمول بنا لیں ‘ کاش ہم یہ جان لیں وہ اللہ جو کرسی پر جسٹس سعیدالدین ناصر کی جان قبض کر سکتا ہے وہ ہمیں بھاگنے کا موقع کہاں تک دے گا‘ وہ ہمیں مزید کتنا وقت دے گا تو شاید ہماری یہ عارضی زندگی بہتر ہو جائے-ہم شاید تکبر اور لالچ سے بچ جائیں-چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے اللہ سے توبہ کریں ‘ شکر ادا کریں-روز ایک نیکی کریں اور روز ایک گناہ
ایک کوتاہی ترک کرنے کا عزم کریں-شاید اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آ جائے-شاید یہ ہماری زندگی کو بابرکت بنا دے-شاید یہ ’’تھے‘‘ سے پہلے ہمارے ’’ہے‘‘ کو اچھا بنا دے۔