اصلاح و دعوت
کلونجی اور عجوہ
پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
میں چند دن قبل اپنے دوست سے ملنے گیا۔ کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پتے میں کافی عرصے سے درد ہے۔ اور وہ ایک دن پتے کا آپریشن کرانے کے لئے ہسپتال میں بھی ایڈمٹ ہوگیا تھا کہ کسی صاحب نے کہا کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے اور یہ بات قرآن و حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ کا کلام کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ بس تم صبح سے سات دانے کلونجی کے کھانا شروع کردو۔
میرے دوست نے ہسپتال سے کوچ کیا اور کلونجی کے دانے کھانا شروع کردئیے۔
میں نے اس سے پوچھا:''کیا تم نے ٹیسٹ کروایا کہ پتے میں پتھری ہے یانکل گئی؟’’۔اس نے کہا: ’’دیکھو بھئی مجھے اللہ پر یقین ہے کہ اب وہ پتھری نہیں ہوگی اور اعتقاد کا تقاضا ہے کہ میں ٹیسٹ نہ کراؤں ورنہ تو اعتقاد اور توکل کس بات کا؟۔میں نے اس سے پوچھا:’’کیا تم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ تمہارا اعتقاد درست بھی ہے یا نہیں؟’’اس نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے پھر پوچھا:’’اچھا یہ بتاؤکلونجی میں شفا ہے۔ یہ بات قرآن میں کہاں لکھی ہے؟’’وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ کہنے لگا اچھا حدیث میں بیان ہوئی ہوگی۔ میں نے اسے بتایا کہ ایسی کوئی بات کسی صحیح حدیث میں میرے علم کے مطابق بیان نہیں ہوئی ہے کہ کلونجی پتے کی پتھری کا علاج ہے۔ کلونجی کے بارے میں جو حدیث بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بیماری ایسی نہیں سوائے موت کے جس کی شفاء کلونجی میں نہ ہو۔‘‘(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1271)یہ سن کر وہ کہنے لگا:’’دیکھو اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کلونجی میں ہر مرض کی دوا ہے سوائے موت کے۔تو تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ یہ پتے کی پتھری کا علاج نہیں ہے؟۔میں نے کہا: ’’اچھا چنداحادیث سنو:حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علہک وسلم نے ارشاد فرمایا کھنبی آنکھوں کے لئے علاج ہے عجوہ جنت کا میوہ ہے اور یہ کلونجی موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔(مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2934)ایک اور حدیث ہے:عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی ہر صبح کو سات عجوہ کھجوریں کھالے تو اس دن کوئی زہر اور جادو اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 424)اگر کلونجی عمومی طور پر ہر مرض کی دوا ہوتی تو نبی کریم کھنبی کو آنکھوں کے علاج کے لئے کیوں تجویز کرتے اور عجوہ کو زہر اور جادو کے لئے کیوں تریاق قرار دیتے۔’’
''لیکن اس حدیث میں تو کہا گیا ہے کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے سوائے موت کے‘‘۔ اس نے پھر استفسار کیامیں نے اسے سمجھایا:
’’دیکھو بعض اوقات حدیث میں ایک بات مختصر بیان ہوتی ہے اور اس سے پہلے یا بعد میں کیا بات تھی وہ اکثر بیان کرنے والا نہیں بیان کرتا۔ جس کی بنا پر غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ درج ذیل حدیث تمہاری اس بات کا جواب ہے کہ کلونجی ہر مرض کی دوا ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شفا تین چیزوں میں ہے پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ لگوانا، اور اپنی امت کو داغ لگوانے سے منع کرتا ہوں۔(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 659)یہاں دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شفا اگر ہے تو تین چیزوں میں اور یہاں کلونجی کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
''پھر یہ کیوں فرمایا کہ کلونجی موت کے علاوہ ہر مرض کی دوا ہے؟ ’’اس نے دوبارہ اپنی الجھن کا اظہار کیا۔میں نے اس کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اگر ان سے درست نسبت رکھتی ہے تو وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ البتہ آپ کی بات کا درست مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کلونجی کو ہر مرض کی دوا سمجھ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام ہارٹ کے آپریشن کینسل کردئیے جائیں، تمام کینسر کے مریضوں کیموتھیراپی کو معطل کر دیں ، تمام بخاروں میں اینٹی بائیوٹک بند کردی جائے اور صرف کلونجی پر انحصار کیا جائے۔ ایسا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی نہیں کیا بلکہ کبھی کھمبی، کبھی شہد کبھی عجوہ اور کبھی کسی اور شے کو مرض کے مطابق استعمال کیا ہے۔ اس حدیث کا ایک مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ کلونجی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نبی کریم نے یہ اسلوب استعمال کیا ہے اور یہ عام بول چال میں بہت استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ کلونجی میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ اسے تمام امراض کی شفا کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ایک ریسرچ کا ٹاپک ہے کہ کس طرح استعمال کیا اور کب استعمال کیا جائے اسی مفہوم میں ماضی کے علماء بھی اس حدیث کو لیتے رہے ہیں جیساکہ مشکوٰۃ میں ذکر ہے:''طیبی کہتے ہیں کہ اگرچہ حدیث کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ کلونجی کو ہر بیماری کو دوا فرمایا گیا لیکن یہ کلونجی خاص طور پر انہی امراض میں فائدہ مند ہے۔ جو رطوبت اور بلغم میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کلونجی ماء یابس و خشک و گرم ہوتی ہے اس لئے یہ ان امراض کو دفع کرتی ہے جو اس کی ضد ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم عمومیت پر ہی معمول ہے یعنی کلونجی ہر بیماری میں فائدہ مند ہے بایں طور کہ اگر اس کو کسی بھی دوا میں خاص مقدار و ترکیب کے ساتھ شامل کیا جائے تو اس کے صحت بخش اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں’’۔(مشکوٰۃ، طب کا بیان ۷۹)
یہ سن کر اس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ میں نے کہا:’’دیکھو اللہ پر اعتقاد اور توکل کرنا ایک بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ اس اعتقاد کی سند کیا واقعی اللہ یا اس کے رسول تک پہنچتی ہے یا نہیں۔ اب تم نے ایک مفروضے کو سچ سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کردیا اور اس کے مقابلے میں ایک مسلمہ علم یعنی میڈیکل سائینس کو سائیڈ میں کردیا۔ یہ کوئی مناسب طرز عمل نہیں بلکہ اپنی جان کو ہلاک کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ میڈیکل سائینس بھی اللہ ہی جانب سے عطا کردہ ایک علم ہے اور اس سے روگردانی کرنا درحقیقت اللہ کی ایک نعمت کو ٹھکرانے کے مترادف ہے۔وہ میری اس تقریر پر چپ ہوگیا اور لگتا تھا شاید وہ میری بات سمجھ گیا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس قسم کی باتیں بہت عام ہیں کہ فلاں چیز کھانے سے ایسا ہوجائے گا۔ اگر کوئی یہ بات کسی علم، تجربے یا مشاہدے کی بنیاد پر مانتا ہے تو اسے ایسا کرنے کا حق ہے۔ لیکن جب اس قسم کی بات اللہ یا اس کے رسول کی نسبت سے بیان کی جاتی ہے تو پھر معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔ اگر ایسا واقعی قرآن یا صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے تو بات قابل غور ہے لیکن اگر ایسا نہیں تو یہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ
جب اس قسم کی چیزوں کو استعمال کرنے سے کوئی شفا نہیں ملتی تو لوگوں کا اللہ اور رسول پر سے اصل اعتقاد بھی متزلزل ہوتا ہے اور وہ دین سے بھی دور ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ جب بھی کوئی اس طرح کی بات سامنے آئے کہ فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھنے سے گردے کی پتھری نکل جاتی ہے یا فلاں آیت کا ورد کینسر کے لئے شافع ہے اور وہ اسے اللہ کی جانب منسوب بھی کرے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بات کی صحت چیک کریں۔ بصورت دیگر ہم اپنا بھی نقصان کریں گے اور لوگوں کا بھی۔ اور یہ نقصان صرف دنیا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے اثرات آخرت تک جاپہنچیں گے۔نوٹ: مذکورہ دوست اب پتے کا آپریشن کراچکا ہے اور خوش و خرم ہے۔
***
اے شریف انسانو
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ، وحشت سے بربریّت سے
امن، تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ، مرگ آفریں سیاست سے
امن، انسان کی بقا کے لئے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کی خاطر
جنگ، بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن، بے بس عوام کی خاطر
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُر امن زندگی کے لئے
ساحر لدھیانوی