اصلاح و دعوت
ميرا جواب تو نفی ميں ہے
حسن الياس
يہ محض ايك واقعہ نہیں ،بلكہ ذاتی مشاہدہ ہے، صرف قصہ نہیں،بلکہ ایک داستانِ عبرت ہے۔ ایک تنبیہ ہے، ایک سبق ہے، ایک یا ددہانی ہے!
ان دنوں میں کراچی کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا ،روز صبح صبح گھر سے نکلتا، مدرسے پہنچ کر تحصیل علم کا آغاز ہوتا، دن بھر زمین پر بیٹھ کر فقہ، منطق، کلام اور تفسیر کے عقدے وا کرتا، دروس لیتا، عبارت پڑھتا، سبق دہراتا اورشام ڈھلے تھکا ہارا گھر واپس لوٹتا۔
گھر سے نکلتے ہوئے یا واپس آتے ہوئے،ان صاحب سے اکثر ملاقات ہوتی ،وہ میرے پڑوسی تھےاور پیشہ کے لحاظ سے کیمیکل سائنٹسٹ۔عمر یہی کوئی پینتالیس سال ہو گی ،کبھی کبھی علیک سلیک بھی ہوتی۔میں اکثر انھیں شام آفس سے تھکے ہارے ،ہاتھ میں ٹفن اٹھائے دیکھتا تو کبھی کبھار دل میں خیال آتا کہ یہ آدمی دنیا میں کیسے ڈوبا ہوا ہے۔صبح سے شام تک دنیاداری، مال کمانے اور خود کے بارے میں سوچتا ہے۔ اور ایک میں ہوں جو مدرسے جاتا ہوں ،خدا کے دین کا علم حاصل کر رہا ہوں ،امت کے لیے ،مذہب کی سربلندی کے لیے۔ایک احساس تفاخر ہوتا، خود پر رشک آتا ،خود کو بلند سمجھتا ۔خیر وقت گزرتا رہا۔ ایک دن علی الصبح میرے گھر کے دروازے پہ دستك ہوئی ،باہر نکلا تو وہ صاحب کھڑے تھےاور بچوں کی طرح آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ایک سنجیدہ آدمی کی ایسی حالت دیکھ کر میں گھبرا گیا،پوچھا انکل خیریت ہے!!رقت بھری آواز میں کہنے لگے کہ آپ میرے ساتھ فجر پڑھ لیں ،خدارا جماعت کرالیں۔ میں نےکہا، جی میں تو پڑھ چکا ،لیکن آپ رو کیوں رہے ہیں ،اندر آئیں۔ وہ اندر آگئے تو میں نے کہا کہ میں پڑھ چکا ،آپ کیوں اتنےپریشان ہیں، آپ نماز یہاں پڑھ لیں ۔میں نے اصرار سے پوچھا،کیوں آزردہ ہیں ؟تو وہ صاحب بولےکہ آج دس سال سے زائد ہوگئے تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ، رات دوا لے کر سویا، آج آنکھ نہیں کھل پائی، آپ مجھے جماعت کروا دیں اور مصلے پر کھڑےہوگئے۔میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور میں حیرت میں ڈوب گیا کہ جس شخص کو میں ایک عام سا پینٹ شرٹ پہنا دنیا دار سمجھتا تھا، وہ خدا سے کس تعلق میں جڑا ہوا ہے ۔
آج بھی سوچتا ہوں کہ میں اور مجھ جیسے کتنے لوگ ہیں، جو دین کا علم حاصل کرنے میں عمریں کھپا دیتے ہیں،روزانہ دینی موضوعات پر گفتگوکرتے ہیں ،ایسی جانفشانی، تیقن اور یکسوئی کے ساتھ ،لیکن یہ سب تو ذریعہ تھااس مقصد تک پہنچنے کا، جہاں بندے اور خدا میں وہ قلبی تعلق پیدا ہوجائے، جو میرے پڑوسی میں تھا۔کیا ہمارا یہی جذبہ خدا سے تعلق کی مضبوطی میں بھی ہے۔وہی جوش جو اپنے مذہبی رہبر کے دفاع میں جواب لکھنے میں آتا ہے۔وہی خوشی جو اپنی بات کی پذیرائی میں ہوتی ہے !کم از کم اعتراف کےمقام پر میرا جواب تو نفی میں ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ خدا کے ہاں فیصلے علمی آرا پر نہیں ہوں گے۔عین ممکن ہے ہم دین کی خدمت کا دم بھرتے بھرتے اور صحیح باتیں کرتے کرتے بھی پکڑے جائیں اور دوسرے عام سی زندگی گزار کر کچھ سنتے سناتے اپنی عبودیت کی مضبوطی میں آگے نکل جائیں۔ ذریعے کو مقصد نہیں بننا چاہیے۔
تکبیر اولیٰ فوت ہونے پر میرے پڑوسی کے آنسوؤں نے مجھے وہ بات سمجھا دی، جو کئی سال کی دینی تعلیم بھی مجھے نہ سمجھا سکی۔