افسانہ
اور پل ٹوٹ گيا
اے حميد
کہانی کی کہانی
(یہ محبت کی ایک عجیب کہانی ہے۔ دو دوست اتفاق سے ایک ہی لڑکی سے محبت کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لڑکی دونوں دوستوں سے یکساں محبت کرتی ہے۔ ایک دوست جب پانچ سال کے لئے بیرون ملک چلا جاتا ہے تو اس لڑکی کی شادی دوسرے دوست سے ہو جاتی ہے لیکن شادی کے کچھ دن بعد ہی لڑکی مر جاتی ہے اور مرتے وقت اپنے شوہر سے وعدہ لیتی ہے کہ وہ اس کی موت کی اطلاع اپنے دوست کو نہیں دے گا۔)
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور گوتما ابھی تک نہیں آئی تھی۔ ریستوران، جس کی بالکونی میں بیٹھا میں اس کا انتظار کر رہا تھا، شہر کے بڑے باغ کے پچھواڑے واقع تھا اور کسی پرانی خانقاہ کے مانند چیڑ، یوکلپٹس اور مولسری کے دراز قد درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ ان خوبصورت لمبے لمبے درختوں کی نرم اور گہری سبز شاخوں میں ڈوبتے ہوئے سورج کی الوداعی کرنیں سونا بکھیر رہی تھیں۔ موسم بہار کے دن تھے اور باغ کی سمت سے آنے والی مدھم ہوا کے خنک جھونکے اپنے ساتھ پھولوں کی خوشبو بھی لا رہے تھے۔ پال، میں اور گوتما اسی بالکونی میں بیٹھ کر شام کی چائے پیا کرتے تھے۔ پال پر یہاں نظمیں نازل ہوا کرتی تھیں۔ یوکلپٹس کی جھکی جھکی ٹہنیوں والے درختوں پر اپنی سیاہ چمکیلی آنکھیں گاڑے وہ ان درختوں سے بھی زیادہ لمبی اور الجھی ہوئی کوئی نظم کہہ ڈالتا اور پھر ہمیں سنانے لگتا۔ گوتما کو پال کی نظموں سے زیادہ یوکلپٹس کے درختوں سے دلچسپی تھی۔ پال اپنی بھدی انگلیوں میں دو ماریئر کا سگرٹ گھماتے، آنکھوں کو کبھی نیم وا، کبھی بند اور کبھی پوری طرح کھولے، نظم سنا رہا ہوتا تھا اور گوتما اپنی گھنی پلکوں والی بے داغ آنکھیں اٹھائے یوکلپٹس کی لچکیلی شاخوں میں چہچہانے والے رنگ برنگ پرندوں کو تک رہی ہوتی تھی۔ جیسے پال اسے ان پرندوں کی بابت کوئی انوکھی بات بتا رہا ہو۔ ریستوران کی فضا پرسکون اور خاموش تھی۔ بالکونی کے نیچے پلاٹ میں رنگین پھولوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف سنگین بنچ کے اوپر ناشپاتی کے درخت پر جابجا سپید پھول چمک رہے تھے۔ ایک کمسن بچہ بڑی خاموشی اور انہماک سے گھاس پر گرے پڑے پھولوں کو اٹھا اٹھا کر بنچ پر جمع کر رہا تھا۔ پانچ سال پہلے جب میں اپنی رجمنٹ کے ساتھ قاہرہ جا رہا تھا، تو پال نے آخری رات اسی جگہ ڈنر دیا تھا۔ اس شام گوتما تتلی کے پروں ایسی رنگین ساری میں ملبوس تھی۔ اس کے نرم سیاہ بال بڑی خوبصورتی سے دولٹوں میں گندھے ہوئے تھے، اور بائیں کان کے اوپر چنبیلی کی تین کلیاں مسکرا رہی تھیں۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعیں اس کے صندلیں جسم میں چکاچوند سی پیدا کر رہی تھیں۔ وہ ایک ایسا سنہری خواب معلوم ہو رہی تھی جو شروع رات کی ادھ پکی نیند میں دیکھا گیا ہو۔ پال بڑی مشکل سے نیلی سرج کے سوٹ میں ٹھسا ہوا تھا اور کئی بار کرسی پر پہلو بدل چکا تھا۔ وہ کولڈبیف کے ساتھ گرین کمل کے ہلکے گھونٹ چڑھا رہا تھا اور سگریٹ کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ڈنر اس نے اپنے اعزاز میں دیا ہو۔ ہمارے سروں پر ناشپاتی کی نازک ٹہنیاں اسی طرح سپید پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔
اگلے روز میری روانگی تھی۔ پال اور گوتما مجھے رخصت کرنے آئے۔ گاڑی چلنے لگی۔ پال نے سگریٹ ایک طرف پھینک کر کہا، ’’میرا مصری سگریٹ کیس مت بھولنا۔‘‘ اور گوتما کی سوگوار آنکھوں نے کہا، ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘ اور میں نے کہا، ’’میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘ اور گاڑی پلیٹ فارم سے نکل گئی۔
میں آج واپس آ گیا ہوں۔ پانچ سال قاہرہ، یروشلم اور طہران میں گزار کر، اور میں نے اپنی آمد کی کسی کو اطلاع نہیں دی۔ اور اس دوران میں، میں نے گوتما کو ایک پل کے لیے بھی نہیں بھلایا۔ اس کی یاد ایک سدابہار درخت بن کر میرے دل کے چشمے پر ہر لحظہ، ہر لمحہ اپنی پرسکوں چھاؤں کئے رہی اور اب بھی میں اسی پرسکوں چھاؤں میں چشمے کنارے بیٹھا گوتما کا منتظر ہوں اور وہ ابھی تک نہیں آئی۔ باغ کے اس حصے کی طرف سے، جہاں آم اور جامن کے درختوں کے گھنے ذخیرے تھے، مرطوب ہوا کے نرم جھونکے آرہے تھے جو تلخ کافی کا ایک پیالہ پینے کے بعد گرم جسم کو محبت سے تھپتھپا رہے تھے۔ مجھے گوتما کو اپنی آمد کی ضرور خبر کر دینی چاہیے تھی۔ پال سے تو خیر نپٹ لوں گا لیکن گوتما۔۔۔ گوتما سے کیا کہوں گا۔ اس نے تو کہا تھا، وہ مجھے لینے بندرگاہ پر آئےگی۔ مگر دوسال سے اس نے خط کیوں بند کر رکھے تھے؟ میں اس سے ناراض ہی رہوں گا۔ اس کے خطوط کس قدر مسحور کن ہوتے تھے! وہ اپنے خطوں میں محبت کی پراسرار سرگوشیوں میں گفتگو کیا کرتی تھی۔ اس کے الفاظ شبنم کے بے داغ موتی تھے، جو پچھلی رات جب دنیا سو رہی ہوتی ہے، پھولوں بھری ڈالیوں سے ڈھلک ڈھلک کر بے معلوم آواز میں سبزے پر گرتے رہتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر! تم مجھے یادوں کے گھنے جنگل میں چھوڑ گئے ہو۔ جہاں تمہاری ہر بات، ہر قہقہہ ایک مستقل گونج بن کر پھیل گیا ہو۔ اور میں اس جنگل میں تنہا پھر رہی ہوں۔۔۔۔ تمہارے بغیر زندگی کے لمحات پژمردہ پتیوں کی مانند درختوں سے رک رک کر گر رہے ہیں۔۔۔ جب بیتے دنوں کا خیال آتا ہے تو سوچتی ہوں، دن کیوں گزر جاتے ہیں؟ اور اگر ان کو گزر ہی جانا ہے تو تم قاہرہ کیوں چلے گئے؟ خدا کی قسم اگر تم میرے پاس ہو تو پھر ساری زندگی چاہے ایک دن میں گزر جائے۔ میں افسوس نہ کروں گی۔‘‘
اور میں نے اسے اپنی آمد کی اطلاع تک نہیں دی۔۔۔ پانچ سال کی لمبی جدائی کے بعد جب وہ اچانک مجھے یہاں بیٹھے دیکھےگی، تو اس کے جذبات کی کیا کیفیت ہوگی؟ شاید وہ مجھے بالکل نہ پہچان سکے اور محض ایک اجنبی خیال کرتے ہوئے میرے پاس سے گزر جائے۔۔مگر ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ مجھے خود اس کی سمت بڑھنا ہوگا۔۔۔ ہاں میں خود اٹھوں گا اور اس کی نرم انگلیاں اپنے گرم ہاتھوں میں تھام لوں گا۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ گوتما پر شاید شادی مرگ طاری ہو جائے اور اس کے منہ سے دبی ہوئی چیخ بھی نکل جائےگی اور اس کے پتلے لبوں پر مہر سی لگ جائےگی اور جب یہ حیرت اور شادی مرگ کے بادل چھٹ جائیں گے تو گوتما کا دل آویز چہرہ مسرت سے سرخ ہو جائےگا اور اس کے جذبات نیلے آسمان پر چمکیلی دھوپ میں پرواز کرنے والے سپید براق کبوتروں کی مانند مسرور اور ہلکے پھلکے ہوجائیں گے اور پال مجھے اپنے بھدے جسم سے لپٹا لےگا اور کہےگا، ’’میرا مصری سگریٹ کیس؟‘‘ میں نے مصری سگریٹ کیس نکالا اور سگریٹ سلگا کر شام کے آخری پرسکوں اور افسردگی میں شرابور لمحات میں ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ باغ میں اندھیرا بڑھ رہا تھا اور ہوا زیادہ مرطوب تھی اور زیادہ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ بالکونی کے نیچے پلاٹ میں ناشپاتی کے پھول اپنی ٹہنیوں پر سو گئے تھے۔ میرے اردگرد، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ لوگ بڑی توجہ اور انہماک سے چائے، کافی اور ٹھنڈی چیزیں پی رہے تھے۔ نچلی منزل کے ہال میں لوگوں کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں بھنبھناہٹ سی پیدا کر رہی تھیں۔ میرے سامنے یوکلپٹس کی جھکی ہوئی ٹہنیوں اور چیڑ کے نوکیلے جھومروں کے عقب میں، نیلے آسمان پر رات کا اولین زرد ستارہ چمکنے لگا تھا۔ اور پرندوں کی ٹولیاں شہر کی طرف سے آم اور جامن کے گھنے ذخیروں کی سمت لوٹ رہی تھیں۔
اس روز بھی رات کا اولین ستارہ چیڑ اور یوکلپٹس کے پیچھے نمودار ہوا ہی تھا اور میں اسی طرح سگریٹ کے ہلکے ہلکے کش لے رہا تھا کہ گوتما پہلی بار اس ریستوران میں داخل ہوئی۔ اس کے ہمراہ اس کی چھوٹی بہن تھی، جس نے یاسمین کے نازک پھولوں سے بھری ہوئی بید کی چھوٹی سی ٹوکری بازو میں لٹکا رکھی تھی۔ خاموشی اور اطمینان سے بالکونی کے آخری حصے میں بیٹھ کر انہوں نے چائے پی اور اسی انداز سے ریستوران سے نکل کر باغ کی طرف چلی گئیں۔ تین دن بعد میں نے اسے پھر دیکھا۔ اس روز اس کے ہمراہ ایک بوڑھا سا آدمی بھی تھا، جو بھورے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے سوٹ میں ملبوس چھڑی ہاتھ میں لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ مولسری کے درختوں والی پرانی سڑک پر سے ہوتے ہوئے یہ لوگ دوسری طرف گھوم گئے۔ دو روز بعد اتوار تھا اور اتوار کی شام کو گوتما پھر آئی۔۔۔ اب وہ ہر دوسرے تیسرے، شام کو کبھی اکیلی اور کبھی اپنی چھوٹی بہن کے ہمراہ ریستوران میں آتی اور چائے وغیرہ پی کر واپس چلی جاتی۔ پال اور میں، ریستوران قریب قریب ہر روز بلاناغہ آتے تھے اور اب ہم باغوں کے چکر بھی کاٹنے لگے تھے۔ پال گوتما کے لیے زیادہ بے چین تھا۔ وہ پڑھی لکھی، خوبصورت لڑکی چاہتا تھا جو ریستوران میں اس کے ساتھ بیٹھ کر چائے وغیرہ پئے اور پھر اس کی یوکلپٹس کے درختوں جتنی لمبی اور ہر دوسرے تیسرے مصرعے پر پھیلتی اور سکڑتی نظمیں سن کر اسے داد بھی دے۔ وہ گوتما کو منتخب کر چکا تھا اور ایک شام گوتما کو پال کے ساتھ میز کی طرف بڑھتے دیکھ کر میں دم بخود رہ گیا۔ ’’آپ سے ملیے۔۔۔‘‘ پال نے ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کرایا اور ہم خاموشی سے بیٹھ گئے۔۔۔ گوتما کے ہمارے پاس بیٹھتے ہی ہمیں ایک بڑی ہی خنک اور لطیف خوشبو نے گھیر لیا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے گوتما ہر قسم کے پھولوں سے لدی ہوئی سیج پر سے اٹھ کر آ رہی ہے۔ اس کا لباس بھی تقریباً سپید اور نرم تھا اور پھولوں کا ڈھیر سا معلوم ہو رہی تھی۔ پال کئی قسم کی میٹھی اور نمکین چیزوں کا آرڈر دے کر، سگریٹ سلگائے آنکھیں جھپکا جھپکا کر گوتما سے نہ معلوم کس موضوع پر مصروف گفتگو تھا۔ اور میں کبھی یوکلپٹس کی نرم اور شرمیلی ٹہنیوں کو دیکھ رہا تھا اور کبھی گوتما کی آنکھوں پر جھکی ہوئی جھالریں پلکوں کو۔۔گوتما کی آواز تازہ اور مدھم تھی۔ بولتے ہوئے اس کا نچلا ہونٹ قدرے سکڑ سا جاتا تھا اور آنکھوں پر پلکوں کی جھالریں کئی بار جھک جھک جاتی تھیں۔ گوتما کا لہجہ اس کی آواز سے زیادہ پراسرار اور مقدس تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہم سے گفتگو نہیں کر رہی بلکہ دبی زبان میں ہمیں کوئی آسمانی پیغام سنا رہی ہے۔ جو اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اور جب وہ ہم سے رخصت ہو کر ریستوران سے باہر نکل گئی تو پال نے کیک کا ایک پیس منہ میں ڈال کر ٹھنڈی چائے کا لمبا گھونٹ چڑھایا اور سگریٹ راکھ دان میں مسل دیا۔ اس نے دونوں ٹانگیں دوسری کرسی پر پھیلا دیں اور اپنی ایک ہونے والی نظم کا آخری مصرعہ گنگنانے لگا ’’اور الف لیلیٰ کی شہزادی مجھ سے کیا کہتی ہے؟‘‘ پال سے جدا ہو کر، باغات میں سے گزرتے ہوئے میں گوتما کے متعلق سوچ رہا تھا اور مجھے کچھ اس قسم کا احساس ہو رہا تھا جیسے میں کسی پرانے معبد کے زمین دوز سرد خانے میں کھڑا ہوں اور میرے سامنے سنگین فرش پر سیاہ آنکھوں اور زعفران میں ڈبوئی ہوئی نرم انگلیوں والی نیم عریاں دیوداسیوں کے رقصاں جسم، عود و عنبر کی خوشبوؤں کی لہروں پر شعلوں کی مانند تھرک رہے ہیں۔ میں آگے بڑھ رہا تھا اور ہر قدم پر مجھے دو دھیا گنبدوں، سنگین بارہ دریوں اور شفاف ندیوں والے باغات کے سنہری دروازے یکے بعد دیگرے کھلتے معلوم ہو رہے تھے۔ اور میں نے چاہا، گوتما میرے پاس ہو اور میں اسے کہوں، گوتما۔۔۔ تم گوتما نہیں گوتم بدھ ہو، مونا لیزا ہو، دیوی سائکی ہو، بہار کا اولین پھول ہو، شام کا پہلا ستارہ ہو اور پیرس کی ایک شام ہو۔۔۔
دوسری ملاقات پر گوتما نے ہم دونوں کو اپنے بوڑھے باپ سے ملایا اور پھر ایک روز اس نے ہمیں اپنے گھر چائے پر آنے کی دعوت دے دی۔ اس روز پال کے سوٹ کا رنگ ہلکا فاختئی تھا اور چاکولیٹ رنگ کی چھوٹے چھوٹے بسنتی پھولوں والی ٹائی اسے بڑی سج رہی تھی۔ گوتما کا گھر، باغ کے جنوبی حصے کی طرف تھا۔ پتھریلی سلیٹوں کی ڈھلوانی چھت والا یہ گھر لکڑی کے تین چار کمروں میں بٹا ہوا تھا، جو بڑی خوش سلیقگی سے سجائے ہوئے تھے۔ مکان کے سامنے چھوٹا سا باغ تھا، جس میں گیندا اور اصلی گلاب اور گل داؤدی کی کیاریاں تھیں۔ ایک طرف اناروں کے چند درخت تھے، جن میں سرخ سرخ کلیاں پھوٹ رہی تھیں۔ مکان کے پچھواڑے باورچی خانے کے باہر لیموں کے جھاڑوں میں سپید پھول کھلے ہوئے تھے۔گلاب اور گل داؤدی کی کیاریوں کے درمیان نرم گھاس پر سبز میز کے گرد تین چار کرسیاں پڑی تھیں۔ میز بالکل سادہ تھی اور اس پر کوئی میزپوش نہیں تھا۔ عین وسط میں گلاب کے پیازی پھولوں سے بھرا ہوا گلدان پڑا تھا۔ ایک طرف گوتما ہلکے قرمزی رنگ کی ساڑھی پہنے کتاب پڑھ رہی تھی اور دوسری طرف اس کا بوڑھا باپ اخبار پڑھ رہا تھا۔ باورچی خانے کے دودکش میں سے آہستہ آہستہ نیلے رنگ کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ ہمیں مکان کے احاطے میں داخل ہوتے دیکھ کر گوتما اور اس کا باپ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گوتما کا صندلیں رنگ اس شام بے حد نکھرا ہوا تھا، اور نرم ہوا کے مرطوب جھونکے اس کے سیاہ بالوں سے کھیل رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا اور آخری دھوپ کا سنہری غبار ہمارے اردگرد پھیل رہا تھا، جس کی ملائم چمک میں پھولوں کی کیاریاں، گہری سبز گھاس، درختوں کی چمکیلی پھنگیں اور گوتما کی نکھری ہوئی بے داغ آنکھیں اور نیلا آسمان اور پال کی بسنتی پھولوں والی ٹائی اپنے معمول سے بڑھ چڑھ کر دلکش اور مہربان محسوس ہو رہی تھیں۔ گوتما کی طرف سے آنے والی ہوا کے جھونکے نرم اور خوشبودار تھے۔ چائے ہم نے پلاٹ میں ہی پی۔ چائے کے بعد پال حسب عادت پتلون کی جیب سے خاکی رومال نکالنے کے لیے اٹھا۔ رومال نکالا اور بیٹھا۔۔۔ اور منہ پونچھا اور گوتما کے باپ سے جرمن ادب پر پچھلی جنگ کے اثرات، گفتگو کرنے لگا۔۔۔ بوڑھا جرمن ادب کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، پھر بھی وہ مجبوراً پال کی باتوں میں دلچسپی ظاہر کر رہا تھا۔ گوتما کبھی ان دونوں کو دیکھتی اور کبھی میری طرف دیکھ کر زیر لب مسکرا دیتی۔ اس کے خیال میں اس کا باپ سیدھا سادہ اور شریف آدمی تھا، جسے سوائے اخبار بینی اور اپنی بچیوں کے، دنیا کی کسی اور شے سے دلچسپی نہیں تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا اگر پال نے اپنی یوکلپٹس کے درختوں ایسی کوئی نظم شروع کر دی تو کہیں بوڑھا اسے روک نہ دے۔ کیونکہ میں نے بوڑھے کو کسی وقت بھی یوکلپٹس کے درختوں کی طرف دلچسپی سے تکتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچھا ہی ہوا کہ پال کی نظر یوکلپٹس پر نہیں گئی اور وہ وکی بام اور ایشروڈ کے ادبی محرکات میں ہی بوڑھے کو گھماتا رہا۔ گوتما کی چھوٹی بہن اندر سے اپنی تصویروں والی کتاب لے آئی اور مجھے اور گوتما کو رنگ برنگی تتلیوں، چڑیوں، ریل گاڑیوں، جہازوں اور مچھلیوں کی تصویریں دکھانے لگی۔ باورچی خانے کی طرف سے لیموں کے پھولوں کی ترش خوشبو آ رہی تھی۔ گوتما نے ایک دو دفعہ بڑی افسردہ نگاہوں سے مجھے اور پھر پال کو دیکھا، جو اس کے باپ سے جبڑے ہلا ہلا کر گفتگو کرنے میں مصروف تھا۔ میں گوتما کی ان نگاہوں کو بالکل نہ سمجھ سکا۔ جب ہم وہاں سے اٹھ کر باہر سڑک پر آ گئے تو پال زور سے چھینکا اور اس نے سگریٹ ایک طرف پھینک دیا اور ایک جگہ دیوار کے ساتھ لگ کر پیشاب کرنے لگا۔ ’’جرمن ادب پر پچھلی جنگ کے اثرات۔‘‘
ریستوران میں ہم ایک دوسرے کے قریب بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ باغات کی سایہ دار پر سکوں روشوں پر ہمارے بلند قہقہوں کی تیز آوازیں کئی راہ گیروں کو چونکا دیتیں۔ اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گوتما اور میرے درمیان سات رنگوں والی قوس قزح کا ایک آسمانی پل تیار ہو رہا ہے اور ہم اس پل کی رنگین شاہ راہ پر خواب ایسی کیفیت میں ایک دوسرے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ آگے۔۔۔ آگے۔۔۔ اور آگے۔
پال ہر بار کوئی نہ کوئی نظم پیش کردیتا اور گوتما اسے دلچسپی کے ساتھ سنتی اور پھر پال سے اس کا مطلب سمجھتی اور پھر اپنی رائے کا اظہار کر دیتی مگر کچھ عرصہ بعد گوتما نے چیڑ اور یوکلپٹس کے چھریرے درختوں کو تکنا شروع کر دیا۔ پال اپنی نظم سنا رہا ہے اور گوتما بے معنی انداز میں پراسرار ٹہنیوں اور نوکیلے جھومروں والے درختوں کو تک رہی ہے۔۔۔ چیڑ اور یوکلپٹس کے خاموش اور بے زبان درخت۔۔۔ اور گوتما ان درختوں کی مانند خاموش اور بےزبان ہوتی گئی اور پال اس کی خاموشی سے چڑنے لگا۔ وہ مسلسل بولے جاتا اور گوتما اپنے مخملیں رخسار ہتھیلی پر رکھے گہری سیاہ اور شفاف آنکھوں پر گھنی پلکوں کا سایہ کیے بت سی بنی درختوں کے اوپر، نیلے آسمان پر پرندوں کی اپنے رین بسیروں کی طرف لوٹتی ٹولیوں کو گھورتی رہتی۔ اس کی خاموشی ایک دھندلے رنگ کا افسردہ بادل بن کر ریستوران اور پھر باغ اور پھر کائنات پر چھا جاتی اور گوتما کی کتابی پیشانی پر کسی ان جانے غم کی بے معلوم تحریریں ڈوبنے ابھرنے لگتیں۔ چائے کی سبزپیالی پر جھکے جھکے، سگریٹ کا دھواں اپنے نتھنوں سے چھوڑتے، پال کئی بار اپنی ہونے والی نظم کا آخری مصرعہ گنگناتا؎ اور الف لیلیٰ کی شہزادی مجھ سے کیا کہتی ہے۔ لیکن الف لیلیٰ کی شہزادی کسی سے کچھ نہ کہتی۔۔۔ اور بت بنی بیٹھی رہتی اور اس کی یہ بے زبان خاموشی ایک پراسرار سوال بن کر لنگر کی مانند میری روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔ میں خاموش کیوں ہوں؟ میں خاموش کیوں ہوں؟ تم خاموش کیوں ہوں گوتما؟ ہم بالکونی میں تنہا تھے۔ گوتما مسکرائی۔۔۔ اس کی مسکراہٹ غروب ہوتے ہوئے سورج کی آخری کرن کی مانند غمگین، افسردہ اور ملول تھی۔ صبح دم بجھتے دیے کی الوداعی چمک تھی۔ جس نے پل بھر کے لیے گوتما کے چہرے پر پھیل کر اس کی خاموشیوں کے سایوں کو تاریک تر بنا دیا۔ اور پھر وہی سوال۔۔۔ پھر وہی لنگر۔۔۔ گوتما تم کیا سوچتی رہتی ہو؟ گوتما نے میری طرف نگاہیں اٹھائیں اور پھر گردن جھکائی اور مغربی درختوں کے پیچھے سورج افق کے لالہ زاروں میں ڈوب گیا۔ گوتما، میں چاہتا ہوں ہم اسی طرح ایک دوسرے کے سائے میں زندگی گزار دیں۔ کیا تم بھی یہی چاہتی ہو۔۔۔؟ یہی چاہتی ہو نا گوتما۔۔۔؟ بولو گوتما! تم خاموش کیوں ہو؟ تمہاری خاموشی ننگی تلوار بن کر میرے سر پر لٹک رہی ہے۔ یہ کسی وقت بھی گر سکتی ہے گوتما۔ جواب دو۔۔۔ بولو! اور گوتما کی پلکوں پر آنسوؤں کے ستارے ٹوٹنے لگے۔
’’گوتما؟‘‘میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کا پھول ایسا چہرہ اوپر اٹھا لیا اور گوتما پھوٹ پڑی اور جب الف لیلیٰ کی شہزادی نے بتایا وہ خاموش کیوں تھی۔ جب مونالیزا نے کانپتے ہونٹوں اور مدھم آواز میں اس راز کو بے نقاب کر دیا، جو ایک عرصے سے اس کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہا تھا تو شام کا اولین نوخیز ستارہ ٹوٹ کر بجھ گیا اور پیرس کی شام، مصر کے کھنڈرات کی بھیانک رات میں بدل گئی اور مجھے گہری اور سنگلاخ نچانوں کے اوپر تنا ہوا قوس قزح کا آسمانی پل ڈولتا اور فضا میں تحلیل ہوتا محسوس ہوا اور پل جھولتا گیا، ڈولتا گیا اور اس کے بند اکھڑنے لگے اور تختے چرچرانے لگے جیسے اس پر بے انداز بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ جیسے پال اپنا بھاری بھر کم جسم لیے اس پر اچھل رہا ہو، کود رہا ہو۔ اور گوتما کے نقوش ڈوبنے لگے اور پال کابھدا جسم ابھرتا گیا، پھیلتا گیا اور پھیلتا گیا۔۔۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔ یہ غلط ہے گوتما، بالکل غلط ہے۔‘‘ ’’ڈاکٹر۔۔۔ خدا کے لیے مجھے غلط نہ سمجھو۔ میں تم دونوں کو چاہتی ہوں، میں نے اپنی محبت کا آنچل تم دونوں پر ایک ساتھ ڈالا ہے۔ توام بچوں کی مانند تمہاری محبت نے اس دل میں ایک ہی وقت میں جنم لیا ہے۔۔۔ پال اور تم۔۔۔ تم اور پال، یہ ایک ہی ٹہنی کے دو پھول ہیں۔ جن پر میری محبت شبنم بن کر ایک ساتھ گری ہے۔ میرے دل کے معبد میں تم دونوں کی مورتیاں ہیں۔ تم میری زندگی کے کنارے ہو اور میری محبت کے سنہری تیز رفتار پر ہو، اور میری کشتی کے بادبان ہو اور میری عظیم الشان مسجد کے مینار ہو اور میں ایک پل کی مانند تم دونوں کے سہارے زندہ ہوں۔۔۔ اور اگر میں مجرم ہوں۔ اگر میں نے کسی دیوتا کی توہین کی ہے تو للہ میری کھال نچوانے سے پیشتر مجھے اتنی مہلت دو کہ میں اس وسیع دنیا میں کوئی ایسی عورت تلاش کر سکوں جس کے سینے میں ایک ساتھ دو شعلے بھڑک رہے ہوں۔ میں اسے اپنے ساتھ لاؤں گی اور تمہارے پاس بٹھاکر اس سے یہ پوچھوں گی کہ وہ کون سی گھڑی تھی، جب اس نے بیک وقت دو انسانوں میں اپنا دل بانٹ دیا تھا اور وہ کون سا دن ہوگا، جب وہ ایک سے دامن چھڑاکر ہمیشہ کے لیے دوسرے کی ہو جائےگی؟ ڈاکٹر! مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ مجھے دکھ ہوگا اگر تم اور پال ایک دوسرے سے بچھڑ جاؤگے۔ یہ پُل جو تم دونوں کے سہارے قائم ہے ٹوٹ جائےگا۔۔۔ میری محبت کی بیل تم دونوں سے اپنی غذا کا میٹھا رس مہیا کرتی ہے اور پھر اس بیل کی سرسبز پتیاں مرجھا کر سوکھ جائیں گی ڈاکٹر۔۔۔ اس پل کو، اس ہری بھری بیل کو، اس عظیم الشان مسجد کو، اس کشتی کو تمہاری ضرورت ہے، پال کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘
گوتما بولتی گئی، بولتی گئی۔ اس کے الفاظ جگنو کی مانند شام کی دھندلی فضا میں جلتے رہے، بجھتے رہے اور اس کی آواز مدھم ہوتے ہوتے سرگوشیوں میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنا تھکا ہوا سر میرے شانے سے لگا دیا۔۔۔ اور ہمارے اوپر، درختوں کی پرپیچ ٹہنیوں میں شام کا سوگوار ستارہ کانپنے لگا۔ ’’میرے اچھے ڈاکٹر۔۔۔‘‘ گوتما کی آواز میں اترے ہوئے دریا کا سکون تھا۔ اس کی آنسوؤں سے دھلی ہوئی آنکھیں نیم سرخ اور چمکیلی تھیں جیسے ان کے عقب میں موم بتیاں روشن ہو گئی ہوں۔ مشرقی درختوں کے کناروں پر ملائم روشنی کا غبار سا پھیل گیا اور دوسرے لمحے گول اور سرخ چاند کا اترا ہوا چہرہ ہمیں افسردگی سے دیکھنے لگا۔ گوتما ہولے سے مسکرائی اور اس کا سفید آویزہ جھلملا اٹھا اور شام کا ستارہ تیزی سے کانپنے لگا۔ ’’میں تمہیں ہمیشہ مسکراتے دیکھنا چاہتا ہوں گوتما۔‘‘ ’’ہم ہمیشہ مسکرائیں گے ڈاکٹر۔۔۔ ہمیشہ۔۔۔‘‘
اور گوتما مسکراتی گئی اور میں بھی مسکرانے لگا اور قوسِ قزح کا پل ساکت ہو گیا اور اس کے آسمانی رنگ زیادہ تر اور زیادہ شوخ دکھائی دینے لگے اور میں اور گوتما بازو ہوا میں اٹھائے، اس نورانی دھنک میں ایک دوسرے کی طرف بڑھتے گئے۔۔۔ بڑھتے گئے اور وقت گزرتا گیا۔۔۔ گزرتا گیا۔
میں نے گھبرا کر وقت دیکھا۔ وقت کافی گزر چکا تھا، مگر گوتما ابھی تک نہیں آئی تھی۔ میں نے پھر سگریٹ سلگایا اور ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ اب رات چھا رہی تھی اور ریستوران کے اندر اور باہر جابجا بجلی کے لیمپ روشن ہو گئے تھے۔ باغ کی طرف سے رات کی رانی کی میٹھی خوشبو آ رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی تیز سیٹی یا قہقہے کی آواز بھی آ جاتی تھی۔ مجھے پال سے سخت گلا تھا۔ کم بخت نے اتنی مدت میں ایک بھی خط نہیں لکھا اور اگر گوتما کے خط میں کچھ لکھوایا بھی تو وہی مصری سگریٹ کیس۔۔۔ مجھے دفعتاً یہاں دیکھ کر حیران تو وہ بھی خوب ہوگا۔ پہلے تو حسب عادت اپنی چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں کئی بار جھپکائے گا اور پھر ایک دم مجھ پر گر پڑےگا۔ ’’ارے تم؟‘‘ اور میں اس سے پوچھوں گا، ’’گوتما کہاں ہے؟‘‘ اور وہ کہے گا، ’’یہیں ہے۔ تم کہو میرا مصری سگریٹ۔۔۔‘‘ اور میں اسے کہوں گا، ’’وہ پہلے سے تو زیادہ خوبصورت ہو گئی ہوگی۔ اس کے چمکیلے سیاہ بال زیادہ لمبے ہو گئے ہوں گے اور اس کی آنکھیں۔۔۔ مگر پال وہ کہاں ہے؟‘‘ اور پال کہے گا، ’’ذرا دم لو کم بخت، چائے تو پی لینے دو۔‘‘ اور وہ چائے کی پیالی پر جھک کر مصری سگریٹ کا دھواں اپنے نتھنوں سے خارج کرتے ہوئے کہےگا، ’اور الف لیلیٰ کی شہزادی مجھ سے کیا کہتی ہے؟‘
اور الف لیلیٰ کی شہزادی کہے گی، ’’تم نے اتنی دیر کیوں کر دی ڈاکٹر۔ تمہارے بغیر زندگی کے دن خشک پتوں کی طرح اپنی ٹہنیوں سے جھڑ جھڑکر گر رہے تھے۔۔۔ اور میں کہوں گا، ’’گوتما۔۔۔! میری گوتما! ان پتوں کا غم نہ کرو جو مرجھا چکے ہیں اور اپنی شاخوں سے ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کونپلوں کو دیکھو جو نئی نویلی دلہن کی مانند شرما شرما کر پھر سے پھوٹ رہی ہیں۔۔۔ یہ نوخیز، نرم، کنواری کونپلیں۔
اور میں مصری سگریٹ کا تیسرا کش لگا رہا تھا کہ دروازے میں پال نمودار ہوا۔ بھورے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے سوٹ میں ملبوس ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ کی انگلی ایک خوبصورت نوعمر بچے کو پکڑائے وہ گوتما کے باپ ایسی سنجیدگی اور پختگی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ پال میری سمت بڑھ رہا تھا اور بالکونی مجھے پیچھے کی طرف کھسکتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ آگے آ رہا تھا اور بالکونی پیچھے جا رہی تھی۔ پال رک گیا اور بالکونی بھی رک گئی اور وہ مجھے تکنے لگا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں پتھر کی مانند میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور وہ اپنی چھڑی کی طرح بے جان بت بنا کھڑا تھا۔ میں خود بخود اٹھا اور اس کے قریب گیا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’گوتما کہاں ہے؟‘‘ اس قدر آہستہ کہ میں خود اپنی آواز بمشکل سن سکا۔ لیکن پال نے گوتما کا نام سن لیا تھا۔ وہ خاموش رہا۔ اس کی بے رنگ نگاہیں میرے ماتھے پر سرد ہوا کے تیز جھونکوں کا کام کر رہی تھیں۔ میں نے تقریباً چیخ کر پوچھا، ’’پال مجھے یوں مت دیکھو۔۔۔ تم چپ کیوں ہو؟ گوتما کہاں ہے؟‘‘ اور پال نے اس خوبصورت بچے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ڈاکٹر! گوتما نے مجھ سے۔۔۔‘‘
اور اس کے بعد میں کچھ نہ سن سکا۔ یہاں سماعت کی حد ختم ہو جاتی تھی اور تاریک خلاؤں میں سنسناتی ہوئی خوفناک خاموشیوں کا آغاز ہوتا تھا اور میں ان تاریک خلاؤں میں اترتا گیا اور زمین دوز معبدوں کے سرد خانوں میں گوتم بدھ، مونالیزا اور سائکی کے مجسمے ایک ساتھ زمین پر اوندھے منہ آن گرے اور شام کا ستارہ ٹوٹ گیا اور پیرس کی شام بجھ گئی۔ اور آسمانی دھنک کاپل اپنا توازن کھو بیٹھا۔ وہ ڈولنے لگا، جھومنے لگا، جیسے اس پر بے انداز بوجھ لاد دیا گیا ہو۔ جیسے پال اپنا بوجھل جسم لیے اس پر اچھل رہا ہو اور پال زور زور سے اچھلنے لگا اور پل کے تختے چرچرائے، اکھڑے۔۔۔ اور پل ٹوٹ گیا۔