افسانہ
پچھلا دروازہ
السّلام علیکم۔۔۔! یا اہل القبور۔ وہ جب قبرستان کی چاردیواری میں داخل ہوا تو السلام علیکم۔۔۔ یا اہل القبور کہنے پراسے جواب میں سلامتی کی دعا ملی تو زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے۔ وہ سوچنے لگا مٹی کی ان ڈھیریوں میں سے وہ کون سی ڈھیری ہے۔۔؟ جہاں سے اس کے سلام کا جواب دیا گیا ہے۔ یہ آواز کہاں سے آئی ہے۔۔؟ اسے اپنی سماعت پر شک کا گماں گزرا، وہ شک اور یقین کے درمیان معلق مردہ کتبوں پر لکھے زندہ نام پڑھنے لگا۔ بہت سی قبریں بےنام تھیں۔ ان کے سرہانے یاد کا کوئی نشان نہیں تھا۔ وہ اپنے حصے کی زمین کے بارے میں بھی سوچتا رہا۔ کیا مجھے بھی یہیں دفن ہونا ہے۔۔؟ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ کون زندہ ہے۔۔۔؟ میں۔۔۔؟ یا۔۔۔! مٹی کی وہ ڈھیری جس میں سے آواز آئی ہے۔ اس نے تین بار سورۃ فاتحہ اور گیارہ بار سورۃ اخلاص پڑھی۔۔ اور ثواب سب کے نام کیا۔۔ سب کے نام۔۔! جن کو جانتا تھا اور وہ بھی جو گم نام اور بےنشان تھے۔ اسے ایسے لگا قبروں کے منہ کھلنے لگے ہیں۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ وہ صرف کتابی علم کے سہارے زندہ رہنا چاہتا تھا۔ اس کی زندگی میں موت کا تناسب اس کی عمرسے متجاوز ہونے لگا تو اس نے قبرستان کی سیر کو معمول بنا لیا۔۔ بیالیس برس کی عمرمیں اس کے دل کے قبرستان میں تینتالیس قبریں بن گئیں۔۔! یہ حادثہ اکتالیس برس کی عمر میں اسے پیش آیا جب اس کی دادی ماں اور ماں ایک ہی برس میں اسے چھوڑ گئیں تو قبور کی تعداد اکتالیس سے بیالیس ہو گئی۔ وہ اندرسے ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اسے اپنے مسکن کی تلاش تھی جہاں اسے سکون ملے۔۔ آرام اور آسودگی۔۔!لیکن سرائے تو ویران ہو گئی۔
سرائے میں مقیم مکینوں میں سے اس کے باپ نے دس سال پہلے عدم آباد کو جا آباد کیا اور دادی اماں کے بعد کٹیا میں ماں کے بیمار چراغ سے پوری روشنی تھی۔ ماں کے بعد تو۔۔۔
دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد --جیسے ویران سرا ہوتی ہے
ماں کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ دنیا ایک ویران سراہے۔ گھڑونچی پر رکھے گھڑے میں پانی خشک ہو گیا، چھپر تلے چڑیوں کے گھونسلوں میں ان کے بچے مرگئے، آنگن میں لگے شرینہہ اور شیشم کے درختوں کو دیمک چاٹ گئی، صحن میں لگے ہینڈ پمپ کا پانی گر گیا، کمروں میں چمگادڑ وں نے بسیرا کیا، اس کے والد کی دو نالی بندوق کے لکڑی کے دستے کو دیمک خوراک سمجھ کر چٹ کر گئی، گھر کی بوسیدہ دیواروں میں موت رینگنے لگی۔ اس نے ایک دن اپنے والد کی بوسیدہ ڈائری کے اوراق آہستگی اور نرمی سے کھولے تو ایک شعرپڑھ کر بہت رویا۔
جان کر منجملہ خاصان مے خانہ مجھے ---مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ماں کی الماری میں قرآن، سیپارے، درودشریف کی کتابیں، کریشیہ، اون، سلائیاں، کڑھائی کے گول فریم، تسبیحیں اور ایک تاگے میں تسبیح کے پروئے سات دانے جو اس کی ماں نے عمرے کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ہر چکر کی گنتی شمارکرنے کے لیے ساتھ رکھ لیے تھے۔ ويران سراسے جاتے ہوئے کوئی بھی تواپنی جائداد ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔ کس قبر سے سلامتی کی آواز آئی ہے۔۔؟ ابو۔۔ ماں۔۔ یا۔۔ دادی اماں۔۔؟ اس نے وہیں بیٹھ کر مٹی کی زندہ ڈھیری کو اس یقین کے ساتھ کہ اس کی ماں اس کی آواز سن رہی ہے۔۔ پکارتے اور جھنجوڑتے ہوئے پوچھا۔ ماں۔۔تمہارے جانے کے بعد کائنات بے روح ہو گئی ہے، چہرے ساکت، آسمان چپ، ستارے بےنور، سورج زرد، شجرخزاں رسیدہ اور ہوائیں نوحے رقم کرتی اور کرلاتی رہتی ہیں۔ ماں۔۔ میرے گھر اور شہر خموشاں کے درمیان سوپچاس قدموں کی مسافت ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں۔ میرا مسکن کون ساہے۔۔۔؟ یہ گھر جس میں صرف سانس لینے کا عمل باقی رہ گیا ہے -یا شہر خموشاں۔۔۔؟ جسے تم نے جا آبادکیا ہے۔ میں ایک بےآباد گھر کا باسی ہوں۔ ماں۔۔ بتاؤ نا -ہمارا مسکن کہاں ہے۔۔؟ یہ گھر۔۔؟ یا۔۔ شہرِ خموشاں۔۔؟ اگر یہ گھر مسکن ہے تو تم کیوں رخت سفرباندھ گئیں۔ اور ا گر شہر خموشاں مسکن ہے۔ تو۔۔ہم اس بےآباد گھر میں کیوں سانس لینے کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔۔۔؟ ماں۔۔۔دوجہانوں کے درمیان بچھی مسافت نامعلوم ہے۔ اس مسافت کو طے کرنے میں جانے ابھی اور کتنی سانسوں کا ایندھن پھونکنا ہے۔ ماں۔۔ہجر اور ملن کے درمیان بچھی صدیوں کی صف پہ ساری عمرسجدہ ریز رہوں تو بھی تمہاراحق ادا نہیں ہو سکتا۔ تم وقت کی قید سے پرے جا آباد ہوئیں۔ اور میں۔ ہجرکے پیڑ تلے بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوں۔ زمین گزرگاہے، ہمارامسکن نہیں۔ ماں۔۔۔ تمہارے بعد بے روح عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے خیال آتا ہے، زمین ہمارا ٹھکانہ نہیں، پھر بھی ہم حقِ ملکیت جتاتے جتاتے عمر رواں کے سارے اوراق بے ترتیب کر لیتے ہیں اور ایک روز سارے اوراق پریشان ہو جاتے ہیں۔ خزاں اتر آتی ہے۔ جیسے تمہارے جانے کے بعد سارے درختوں کے پتے جھڑ گئے۔ ماں۔ تمہیں پت جھڑ کے موسموں میں ہی جانا تھا۔ تمہارے بعد موسم نہیں بدلے۔ ماں۔۔ میری باتیں سن رہی ہو۔۔ نا۔ میں اس لیے اب تمہارے پاس آنا چاہتا ہوں کہ نوکیلی دھوپ میں تمہارے پیارکے آنچل کے بغیر زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ وہ جانے کتنی دیر۔۔ ماں سے۔۔ پھر باپ سے اور دادی ماں سے باتیں کرتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی باتیں سنی جا رہی ہیں۔ زندگی میں توکسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ کوئی اس کی باتیں سنتا۔ سب کے اپنے دھندے پسارے تھے، اپنی الجھنیں اور مسائل تھے۔۔ بس ایک یہی شہرتھا، شہر خموشاں۔۔ جہاں وہ اپنے دل کی باتیں لے کر آ نکلتا۔ لیکن آج تو ان ہونی ہو گئی۔ اسے اس کے سلام کے جواب میں سلامتی کی دعاملی تھی۔ اس کا پلٹنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ یہیں بس جانا چاہتا تھا۔۔۔ جہاں جھوٹ تھا نہ غیبت، ہوس تھی اور نہ ہی منافقت۔۔ لالچ تھا۔۔ نہ خودغرضی۔ پھر یہاں اس کا باپ تھا۔ دادی اماں۔۔ اور۔۔ ماں۔۔! واپس پلٹ کر کیا کرنا تھا۔۔لیکن سب سے بڑا سوال جو اس کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا تھا کہ موت کس دروازے سے آئےگی۔۔؟ کیا وہ یہ دروازہ خودسے کھول لے۔۔؟ اسے جھرجھری سی آ گئی۔ اس نے دروازے کے پٹ پرہاتھ رکھا تولرزگیا۔ ادھرکا منظردیکھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ اس نے پلٹ کر پچھلے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔ تو اس کے معصوم بچوں کی نرم کومل مسکراہٹیں اسے واپس بلا رہی تھیں۔۔۔!