ایام حج میں یوں تو آٹھ ذی الحج سے بارہ تک پانچوں دن ہی دقت طلب ہوتے ہیں لیکن ان میں ،خصوصاً وہ وقت زیادہ مشقت آمیز ہوتاہے جب حجاج نے منیٰ سے طوافِ افاضہ کے لیے حرم شریف جانا او روہاں سے واپس منیٰ آنا ہوتاہے۔چونکہ لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ نقل و حرکت درپیش ہوتی ہے اس لیے ٹرانسپورٹ کے مسائل کا پیش آناایک قدرتی بات ہے ۔ اس موقع پر جہاں حجاج کے صبرو تحمل کا امتحان ہوتا ہے وہیں ٹرانسپورٹرز کا تعاون اور جذبہ ہمدردی بھی درکا رہوتا ہے ۔ لیکن حج جیسے عظیم الشان دینی اور روحانی اجتماع میں یہی چیزیں سب سے زیادہ نایاب او ر عنقا ہوتی ہیں۔ہم چھ لوگوں کے قافلے کو بھی اس سال کے حج میں یہ مرحلہ درپیش تھا۔ سب سے آسان حل تویہ ہوتاہے کہ منیٰ سے مکہ مکرمہ پیدل سفر کیا جائے جو آٹھ دس کلومیٹر سے زیادہ نہیں لیکن ضعفا اور خواتین کی موجودگی میں یہ حل ناممکن سا ہو جاتاہے ،اس لیے لا محالہ ٹرانسپورٹ کی ضرورت پیش آتی ہے ۔عام حالات میں اس سفر میں مکمل ٹیکسی کا کرایہ بیس پچیس ریا ل سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن ان دنوں میں فی سواری سو ریال مانگا جاتا ہے اور جس کی مجبوری، جہاں ،جس کو پھنسا دے، اس کو وہیں پھانس لیا جاتا ہے ۔حرم شریف جاتے ہوئے ایک بس مل گئی جس نے بیس بیس ریال میں اس اڈے تک پہنچا دیا جہاں سے گورنمنٹ کی بسیں حرم لے جاتی ہیں۔ لیکن حیرانی ہوئی جب گورنمنٹ کی بسوں میں بھی کرایہ دس دس ریال لیا گیا حالانکہ عام حالات میں یہ کرایہ بھی دو ریال ہوتاہے۔ واپسی پر ایک پٹھان بھائی ،جو ماشاء اللہ خودبھی حج کے مناسک اداکر رہے تھے، ہم پر مہربان ہوئے اور سور یال میں مکمل ٹیکسی کی سروس پیش کر دی۔ ان سے جب ہم نے استفسار کیا کہ آپ لوگ اتنا زیادہ کرایہ کیوں لیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہی تو پانچ دن ہوتے ہیں جن میں ہم نے سال بھر کی آمدن جمع کرنا ہوتی ہے ۔اور اس کے ساتھ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ اتنے لاکھوں خرچ کرکے یہاں آتے ہیں توٹیکسی کا کرایہ دیتے ہوئے آپ کی جان کیوں نکلتی ہے اور ساتھ ہی ہمیں زیادہ سے زیادہ کرایہ ادا کرنے کے فضائل بیان کیے ۔ ان کا خیا ل تھا کہ ہم حجاج کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جیبوں سے جتنے زیادہ پیسے نکلوا لیں گے اتنا ہی حجاج کو ثواب ہو گا۔وہ اس استحصال کو بڑی خوبصورتی سے جسٹی فائی کر رہے تھے ۔ ہم نے ان سے تو بحث مناسب نہ سمجھی البتہ دل میں اقبال کو داد ضرور دی کہ جس نے کہا تھا کہ’’ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے ‘‘۔
دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا گویا ہمارا مزاج سا بن گیا ہے ۔جوں ہی رمضان یاعید کا موقع آتا ہے ملک بھر میں اشیائے خورونوش اور ملبوسات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے ۔اسی طرح عید کے موقع پر ٹرانسپورٹر جی بھر کے لوٹتے ہیں ۔صرف یہی نہیں جہاں جس کا جوداؤ لگتا ہے وہ دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا نہ صرف اپنا حق سمجھتاہے بلکہ اس پر خوش بھی ہوتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتاہے تو شکایت کرتا ہے۔ مسجد میں چند نمازی اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ فلاں مکان فروخت ہورہا ہے، چونکہ اس کا مالک لاہور کا رہنے والا نہیں ہے اور اس کو مقامی مارکیٹ کے ریٹ کا علم بھی نہیں ، اس لیے اس سے اونے پونے داموں خرید لیا جائے اور اس ’کارخیر ‘ کو انجام دینے والوں میں جوصاحب سب سے آگے تھے وہ ماشاء اللہ پکے نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ عمامہ اور لمبی داڑھی کے بھی حامل تھے او رجب ناچیز نے عرض کیا کہ یہ سودا تو اسلام کی روح کے خلاف ہے تووہ صاحب جلدی سے مسجد سے نکل گئے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کا ایمان حرکت میں آجائے او رانہیں اس سود ے سے اجتناب کرنا پڑجائے۔
مجبوری تو بڑی بات ہے ، اسلامی تعلیمات کی روح تو اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتی کہ کسی کی لا علمی سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ ایک تابعی کپڑے کا کاروبار کرتے تھے ۔ ایک صاحب ان کے ملاز م کے ہاتھ کپڑا بہت سستے داموں بیچ گئے ۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو کہا کہ اُ س شخص کو ڈھونڈ کے لاؤ۔ وہ آیا تو اس سے پوچھاکہ کیاتمہیں اس مارکیٹ کے ریٹ کا علم ہے ۔ اس نے کہا کہ نہیں اور کہا کہ کیاتمہیں اس بات کا بھی علم ہے کہ ابھی ایک دو دن میں اس کپڑے کی قیمت بہت زیادہ ہونے والی ہے ۔ اس نے کہا کہ نہیں ، تو ان تابعی نے کہا کہ بھائی اپنا کپڑا واپس لے لو ۔ کل قیامت کو اللہ نے اگر یہ پوچھ لیا کہ تم نے ایک مسلمان بھائی کی لا علمی سے فائدہ اٹھایا ، تو میں اس کا کیا جواب دوں گا۔یہ وہ اسلام ہے جو آج پورے عالم اسلام میں ناپید ہو چکا ہے۔ انفرادی مثالیں تو شاید مل جائیں لیکن اجتماعی صورت حال انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ حج کے موقع پر صرف ٹرانسپورٹرہی نہیں سب ہی ’’حسب توفیق ‘‘ اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔عمارات کو کرایہ پر دینے والے دو کے کمرے میں چار اور چار کے کمرے میں چھ افراد کو ٹھہراتے ہیں۔جن سہولیات کے وعدے پر عمارات کو کرایہ پر دیا جاتا ہے ان وعدوں کو پورا کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے ۔ اشیائے خور و نوش اور ادویات کے ریٹ اندورن شہر اور ،او رجہاں حجاج ٹھہرے ہوتے ہیں وہاں اور ہوجاتے ہیں۔اس طرح منیٰ میں معلمین اور مطوفین جس طرح حجاج کا استحصال کر کے مال بناتے ہیں وہ بھی ایک درد ناک کہانی ہے ۔حجا ج کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہوئے سو کی جگہ پر پانچ پانچ سو کو ٹھونس دیا جاتا ہے اورانہیں بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی سے بھی پہلو تہی کی جاتی ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ اپنی اس لوٹ مار اور استحصال کو جسٹی فائی کرنے کے لیے حج اور صبر کے فضائل بھی بیان کیے جاتے ہیں۔امت مسلمہ کے ساتھ یہ عجیب معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ استحصالی طبقہ کمزور کو دبانے اوراس کو مطمئن رکھنے کے لیے نہ صرف فضائل کا سہارا لیتاہے بلکہ اسے اللہ کی مرضی بھی قرار دیتا ہے ۔حالانکہ اللہ کی مرضی کبھی استحصالی عناصر اور کاموں کے ساتھ نہیں ہوتی ۔ علماکی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی مرضی اور اذن کا فرق سمجھائیں لیکن وہ بھی کیو ں سمجھائیں کہ انہوں نے بھی اسی کے سہارے اپنے جتھے مضبوط کرنے ہوتے ہیں۔
بات مال کی ہوس اور لوٹ مار پر ہی بس نہیں ہوتی بلکہ مناسک کی ادائیگی میں بھی جس کا، جہاں بس چلتا ہے وہ دوسروں کو پیچھے دھکیلتا چلا جاتا ہے ۔طواف جیسی انتہائی اہم عبادت میں دوسروں کو کہنیاں مار کے آگے نکلنا اور انہیں پیچھے دھکیل کر اپنا راستہ بنانا عام سی بات ہے ۔ حجر اسود پہ جو دھکم پیل ہوتی ہے وہ بھی اصل میں دوسروں کی جسمانی کمزوری سے فائدہ اٹھانا ہے ۔حتی کہ ملتزم پہ دعا مانگتے ہوئے دوسروں کو اپنی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر پیچھے کھینچ لینا او رخو دآگے بڑھ جانا ثواب جانا جاتا ہے ۔ یہی صورت حال ریاض الجنۃ میں پیش آتی ہے جو جتنا ،دوسروں کا حق مارنے کا حوصلہ رکھتا ہے اتنی ہی دیر وہاں بیٹھ سکتا ہے الغرض یہ ایک لمبی فہرست ہے ۔حج سے قبل میرا خیا ل تھاکہ شاید یہ اخلاقی افلاس اور انحطاطا پاکستانیوں کاخاصہ ہے مگر حج کے عالمی اجتماع میں یہ محسوس ہو ا کہ یہ قومی نہیں بلکہ ایسی مرض ہے جوپوری ملت کو لاحق ہو چکی ہے۔اخلاقی زوال اور افلاس کی ایک وجہ تو یقیناًتعلیم و تربیت کا کمی ہے ۔ لیکن ایک دوسری وجہ مادی اور سیاسی زوال بھی ہے۔سیاسی اور مادی طاقت کے دھارے جس رخ بہتے ہیں، اخلاق کی نہریں بھی خود بخود اس طرف چلناشروع کر دیتی ہیں۔اس لیے حج کے موقع پر بھی افریقی اور ایشیائی مسلمانوں کے برعکس یورپی مسلمانو ں کے رویوں میں واضح فرق نظر آیا۔
اجتماعی سوچ اور رویوں کو بدلنا اگر میرے اور آپ کے لیے ممکن نہیں تو کم از کم انفرادی رویوں کو بدلنے کی سعی توضرور کی جا سکتی ہے اور کر نی چاہیے اس لیے کہ آخرت میں ہر ہر فرد سے انفرادی سوال ہو گا نہ کہ اجتماعی۔اگر ہم یہ تہیہ کر لیں کہ ہم کسی بھی صورت اور کہیں بھی کسی کی مجبور ی سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے توان شاء اللہ اپنی زندگی میں آپ کبھی نہ کبھی وہ دن بھی دیکھ لیں گے کہ جب کوئی آپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے بجائے آپ کا ہمدردبن کر آپ کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔بصورت دیگر اس بات کے لیے تیار رہیے کہ اگر آپ کسی کی ایک مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر تے ہیں تو دوسرے یقیناًآپ کی دس مجبوریوں کا فائدہ اٹھائیں گے اور پھر آپ کا شکایت کرنا عبث اور بے کا ر ہو گا۔