نقطہ نظر
عذابِ قبر امتِ مسلمہ کے ساتھ، ہاتھ
حنيف ڈار
مسلمان موت سے نہیں ڈرتا، مگر قبر کے عذاب کی کہانیوں سے ڈرتا ہے ،، یوں موت سے نفرت کرتا ہے، حالانکہ مومن کو موت سے محبت ہونی چاہیئے کہ حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ جو مجھ سے ملنا پسند نہیں کرتا ، میں بھی اس سے ملاقات پسند نہیں کرتا ، اللہ پاک تو موت کو مومن کے ساتھ اپنی ملاقات کی گھڑی قرار دیتا ھے ،اور ان کو تسلی دیتا ھے کہ مصائب کی یہ دنیا بس چند روزہ ہے پھر یقینا رب سے ملاقات کی گھڑی آ کر رہے گی،، مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ[ العنکبوت ۵۔جبکہ اس ملاقات کے آداب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ [ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (110ـ الکہف)پس جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ھے اسے اچھے کام کرنے چاہیں اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے ،،
اللہ پاک کفار کا تعارف ہی اس صفت کے ساتھ کراتا ہے کہ ان کو اپنے رب سے ملاقات کی امید نہیں ،، [إِنَّ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا وَرَضُواْ بِٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَٱطْمَأَنُّواْ بِهَا وَٱلَّذِينَ هُمْ عَنْ ءَايَٰتِنَا غَٰفِلُونَ--(يونس - 7)[وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا (21) الفرقان ،،
اسی طرح یہود کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے یہ مشرکین سے بڑھ کر زندگی سے محبت کرتے ہیں ، ولتجدنھم احرص الناس علی حیاۃ و من الذین اشرکوا ، البقرہ ؛؛ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ تم تعداد میں بہت زیادہ ہو گے مگر دنیا میں تمہاری حیثیت سیلاب کے پانی پر بہنے والی جھاگ کی مانند ہو گی جو بظاھر پانی پر چھائی ہوئی نظر آتی ھے مگر جدھر پانی جاتا ہے ادھر جانے پر مجبور ہوتی ہے ، اور اس کی وجہ یہ ھے کہ تم دنیا سے محبت کرو گے اور موت سے نفرت کرو گے ـ
قرآن کے خلاف عذاب قبر کا عقیدہ گھڑا گیا اور یوں یہود نے سازش کے ذریعے اپنے والی بیماری مسلمانوں کو لگا دی ،، ہمیں اپنے والدین کی وفات کا اتنا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک فطری مرحلہ ہے ہر ایک جانے کے لئے ہی آیا ہے، ہمیں ان کہانیوں سے ڈر لگتا ہے جن میں قبر نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو بھی دبانے سے نہیں بخشا، اور قبر اس طرح دباتی ہے کہ ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف چلی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ --
نومسلم یہودی اور عیسائی لوگوں نے اپنے یہودی عقائد مسلمانوں میں رائج کر دیئے ،، قرآن کی واضح آیات کے بالمقابل اگر کروڑوں روایتیں بھی ہوں تو ان کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ،، نہ صرف ہمارے اسلاف نے قرآن کو کوئی اہمیت نہیں دی ، بلکہ آج بھی آپ قرآن کی درجنوں آیات کوٹ کر دیں ، دولے شاہ کے چوہے کہتے ہیں کہ دلیل تو کوئی دی نہیں ،، ان کے نزدیک ان کے اسلاف کے اقوال ہی دین میں دلیل ہیں ،جبکہ قرآن ہی اول و آخر دین کا ریفرینس ہے اس کے سامنے کوئی بڑا نہیں ، خود رسول اللہ ﷺ اسی کی بیان کردہ خبر دینے کے پابند ہیں ، یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ،، اے رسول وہ پہنچایئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کیا گیا ہے، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ،، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ،، المائدہ ،،--رسول اللہ ﷺ نہ تو اعلان نبوت و رسالت سے پہلے عذابِ قبر پر یقین رکھتے تھے اور نہ ہی اعلانِ نبوت کے بعد عذاب قبر کو مانتے تھے ، مکی دور کی چھیاسی سورتیں دیکھ لیں ان میں قبر کے عذاب کی طرف اشارہ تک نہیں ،بلکہ واضح آیات میں اس کی نفی کی گئ ہے ، مثلاً ،، إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ (30) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِندَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ (31)آپ نے بھی مر جانا ہے اور ان لوگوں نے بھی مرنا ہے، پھر بےشک تم سب کو قیامت کے دن اپنے رب کے یہاں جھگڑنا ہے ـ الزمر[ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14)ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (16)المومنون پھر ہم نے نطفے کو علقہ بنایا ، پھر علقہ کو مضغہ بنایا، پھر مضغہ میں ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا ، پھر اس کے بعد تم لازم مر جاؤ گے ، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے ،، اب کوئی یہاں قبر والی بعثت کو ڈال کر دکھائے ،، مرنے کے بعد قبر میں کوئی بعثت اور سوال جواب نہیں ،، میت کا نامہ اعمال اس کی گردن میں ڈال دیا گیا ہے اور قیامت کے دن ہی وہ اس کو دکھایا جائے گا ،، جس دن لوگوں کو ان کے اعمال دکھانے کے لئے گروہ در گروہ رب کے سامنے پیش کیا جائے گا ،، چھوٹی چھوٹی مکی سورتیں دیکھ لیجئے ، زلزال ، العادیات ، القارعہ ہر سورت میں ایک ہی دن کی بعثت کا ذکر ہے ،قبر کی بعثت کہیں مذکور نہیں -
تیرہ سال رسول اللہ ﷺ مکے میں بطور رسول موجود تھے ، چھیاسی مکی سورتوں میں قبر کی بعثت اور عذاب کا کوئی تذکرہ نہیں ، اس کے بعد مدنی سورتوں میں بھی قبر کی بعثت اور عذاب کا کہیں تذکرہ نہیں ،
رسول اللہ ﷺ کو جب مکے میں حکم دیا گیا کہ آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو خبردار کریں تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے تمام رشتے داروں کی دعوت فرمائی اور خطبہ دیا اور فرمایا [إنَّ الرَّائدَ لا يَكذِبُ أَهلَه، واللَّهِ الَّذي لا إلَه إلَّا هوَ إنِّي رسولُ اللَّهِ إليكُم خاصَّةً وإلى النَّاسِ عامَّةً، واللَّهِ لتَموتُنَّ كما تَنامونَ، ولتُبعثنَّ كما تستيقِظونَ، ولتحاسَبُنَّ بما تعمَلونَ، وإنَّها للجنَّةُ أبدًا والنَّارُ أبدًا [ فقہ السیرہ]بےشک کوئی گائیڈ اپنے قافلے والوں سے جھوٹ نہیں بولتا ، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں تم لوگوں کی طرف خاص طور پر اللہ کا رسول ہوں اور بقیہ انسانیت کی طرف عام طور پر ،، اللہ کی قسم تم یقینا ًمر جاؤ گے جس طرح سوتے ہو ، پھر تم اٹھائے جاؤ گے جس طرح نیند سے جاگ جاتے ہیں ،اور پھر تم سے لازم تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا،اور اس کا نتیجہ یا تو ہمیشہ کی جنت ہو گی ، یا ہمیشہ کی آگ ،، دیکھ لیجئے یہاں بھی قبر کا کوئی ڈراوہ نہیں کہ تم سے قبر میں میرے بارے میں پوچھا جائے گا ؛؛ابلیس کو تو حشر تک مہلت، اور نوع انسانیت سے خطاب کا موقع اور مسلمان کو قبر میں ہی مرغا بنانا کیا کھلا تضاد نہیں؟
اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے کہ انسان کی زندگی میں آگے بھیجے گئے اعمال اور مرنے کے بعد اس کی نیکیوں اور بدیوں کے آثار لکھے جا رہے ہیں ابھی مردوں کی کتاب کھلی ہے،جس نے کسی کو قرآن پڑھایا وہ اس کے پڑھنے کا اجر جس نے کسی کو نماز پر لگایا ہے اس کی نماز کا اجر جس نے اسپتال اور مساجد بنائی ہیں ان کا اجر, جب اجر دھڑا دھڑ آتا جا رہا ہے تو فیل اور پاس کے فیصلے قبر میں کیسے ہو گئے؟پھر کفر و شرک کا محاسبہ چھوڑ کر پیشاب میں بے احتیاطی پر فوری سزا کا کیا کانسپٹ ہے؟ یوم تجد کل نفس ما عملت من خیراً محضرا و ما عملت من سوء۔تود لو ان بینھا و بینہ امداد بعیدا۔ جس دن سامنے حاضر پائے گا ہر انسان جو نیکی اور بدی اس نے کی ہو گی۔ وہ چاہے گا کہ کاش اس بدی اور اس کے درمیا بہت لمبا چوڑا فاصلہ ہوتا،، وہ دن حشر ہے قبر میں نہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے انصارِ مدینہ کا مذھب یہودیت اور نصرانیت تھا ، ان میں سے مخلص مومن بھی بن گئے تھے جو صحابہ کہلائے اور منافق بھی تھے جو اندر سے یہودیت اور نصرانیت پر قائم تھے مگر بظاھر مسلمان بنے ہوئے تھے اور اپنے نفاق میں اس قدر ماہر تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی ان سے واقف نہیں تھے ـ یہ بات قرآن کہتا ھے ،، سورہ توبہ میں جو کہ نازل ہونے والی سورتوں میں آخری سورت ہے اس وقت کی سماجی فضا یا ماحول کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ،،
[وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ (101)تمہارے ارد گرد کے اعراب میں سے منافق لوگ بھی ہیں اور مدینے والوں میں سے بھی ، نفاق میں اس قدر ماہر ہیں کہ آپ بھی پہچان نہ پائیں مگر ہم ان کو جانتے ہیں ،عنقریب ہم ان کو دہری سزا دیں گے پھر دردناک عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے ،، اس آیت میں دہرے عذاب سے مراد کچھ نے قتل کا خوف اور بھوک قرار دیا ہے ، کچھ نے رسوائی اور قبر کا عذاب قرار دیا ہے مگر قرآن کی واضح آیات کے خلاف کسی کی رائے قابلِ قبول نہیں ، اس سے مراد ایک تو رسوائی اور دوسرا موت کے وقت کا عذاب ہے جو کہ قرآن میں مذکور ہے جب فرشتے ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مار کر جان نکال رہے ہونگے ،، جبکہ اس آیت کے نزول کے بعد اگلے جمعے میں رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر ایک ایک منافق کو پکار کر اس کو مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا کہ تم منافق ہو ،، یہی وہ جہاد تھا منافقین کے خلاف جس کا حکم اللہ نے سورہ تحریم میں دیا تھا ، یا ایھا النبی جاھد الکفار المنافقین واغلظ علیہم ،،
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میری خدمت کیا کرتی تھی یعنی خادمہ تھی ، میں جب بھی اس کے ساتھ کوئی بھلائی کرتی تو وہ مجھے عذاب قبر سے بچنے کی دعا دیتی، اسی طرح ایک دفعہ یہود کی دو عورتیں آئیں اور انہوں نے بھی مجھے ویسی ہی دعا دی ، تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی بندے کو عذاب ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ،، تمہیں کس نے بتایا ہے ؟ میں نے کہا کہ یہودی عورتوں نے ،، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہود نے جھوٹ بولا ہے اور یہی نہیں یہود تو اللہ پر اس سے بھی بڑھ کر جھوٹ بولتے ہیں ،، یہاں تک تو رسول اللہ ﷺ کا فرمان بالکل قرآن کے عین مطابق ہے ،، اس کے بعد اس روایت میں پنکچر لگایا گیا ہے اسی طرح کا پنکچر جیسا حضرت عائشہؓ کی اس روایت میں لگایا گیا تھا جہاں وحی کے نزول کا ذکر تھا کہ ’’ ورقہ فوت ہو گیا اور وحی رک گئ اور رسول اللہ ﷺ خودکشی کے لئے پہاڑ پر چڑھ جایا کرتے تھے ، بالکل اسی طرح روایت میں اضافہ کیا گیا کہ بعد میں رسول اللہ ﷺ کا موقف تبدیل ہو گیا تھا اور آپ نے تسلیم کیا کہ یہود جھوٹ نہیں بول رہے تھے بلکہ خود رسول اللہ غلط تھے ، [معاذ اللہ ]اور یہود سچے تھے عذابِ قبر واقعی ہوتا ھے ،، منافقین نے یہود کو سچا کرنے کے لئے رسول اللہ کو جھوٹا کر دیا ،، جبکہ رسول اللہ کبھی بھی قرآن کے خلاف موقف نہیں اپنا سکتے تھے ، آپ کا پہلا موقف ہی درست تھا کہ یہود نے عذابِ قبر کے بارے میں اللہ پر جھوٹ باندھا اور وہ اس سے بڑے بڑے جھوٹ بھی اللہ کی طرف منسوب کر چکے ہیں ،لہذا رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے سے ان کو کوئی نہیں روک سکتا ـ اس کے بعد پھر رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں بھی عذابِ قبر اور دجال کو ڈالا گیا ،، جبکہ مکے کے تیرہ سال میں دجال کبھی زیر بحث ہی نہیں آیا ۔۔ مکے میں الزام تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو ورقہ ابن نوفل پڑھاتا ہے ،، یہاں مدینے میں ڈھیر سارے یہودی عقائد اسلامی لٹریچر میں شامل کر کے ثابت کیا کہ بہت کچھ یہودیت سے سیکھا گیا، اسی لئے مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام یہودیت اور نصرانیت کا چربہ ہے ـ اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر آدھے سے زیادہ قرآّن کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا ،، تراویح میں قرآن سارے سناتے اور سنتے میں مگر قرآن پر غور کوئی بھی نہیں کرتا ،۔
اب آیئے فرعون کی طرف ،، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ لوگ کفار پر عذاب کی آیتیں پیش کر کے مسلمانوں پر عذاب ثابت کرتے ہیں ،، جو لوگ اپنے وقت کے رسول کا انکار کر کے اللہ پاک کی سنت کے مطابق عذاب کا شکار بنتے ہیں وہ قیامت تک اسی عذاب کی کیفیت میں رہتے ہیں چاھے وہ جہاں بھی ہوں ان کے عذاب میں کبھی انقطاع نہیں ہوتا ،۔ جیسا کہ قوم نوح کے بارے میں اللہ پاک نے سورہ نوح میں ارشاد فرمایا کہ پس وہ غرق کیئے گئے اور آگ میں داخل کر دیئے گئے ،، [مَّما خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا (25) اپنی خطاؤں کے عوض غرق کیئے گئے پس داخل کر دیئے گئے آگ میں ، پس نہ پایا اللہ کے سوا کوئی مدرگار ـ یعنی فرعون سمیت یہ سب قومیں روحانی طور پر جھنم دکھائی جاتی ہیں ، آگ کا یہ دیکھنا بھی عذاب ہی کی شکل ہے مگر جب ان کی روح قیامت کے دن ان کے بدن کے ساتھ ملا کر نفس نام کی مخلوق وجود میں نہیں لائی جاتی ان کو جھنم میں داخل نہیں کیا جائے گا -
رضوان چوہدری صاحب کی پوسٹ میں کچھ سوال اٹھائے گئے ہیں حالانکہ بطور جواب عرض کیئے گئے ہیں ۔
نفس نکالے جائیں گے( اخرجوا انفسکم ) نکالو اپنا آپ ۔ نہ کہ اخرجو نفوسکم ۔۔ نفس کی جمع انفس بھی ہے اور نفوس بھی ہے اور دونوں قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں ۔ربکم اعلم بما فی نفوسکم ، ان تکونوا صالحین فانہ کان للاوابین غفورا ۔۔ الاسراء 25
روح یعنی امر ربی اور مادی وجود کے ملاپ کے نتیجے میں جو " نفس" یعنی " انا" وہ چھوٹی " میں" جو اقبال کے بقول " بگ آئی ایم" کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور ملکیت کا دعوی کرتی ہے ،جو Possessive Mode میں میرا جسم ، میرا ہاتھ ، میرا پاؤں ، میری روح اور میری زمین وغیرہ کا دعوی کرتی ہے ۔ جونہی اس کو سلب کیا جاتا ہے یعنی روح کی بدن سے علیحدگی ہوتی ہے تو وہ " میں" یوں عدم کا شکار ہوتی ہے کہ روح اور بدن کے ملاپ کے بغیر دوبارہ وجود نہیں پا سکے گی ۔ اور جس دن روحیں بدن سے جوڑی جائیں گی " و اذا النفوس زوجت" تو ایک دم سے paused Mode سے اسٹارٹ موڈ میں آ کر دعوی کرے گی کہ مجھے سوتے سے کس نے جگا دیا ۔ یا ویلنا من بعثنا من مرقدنا ۔ جب تک روح اور بدن کو ملا کر اس نفس کو re create نہیں کیا جائے گا جو حقیقی مجرم ہے تب تک صرف روح کو سزا دینا حالانکہ وہ صرف ایک سافٹ وئیر ہے ۔ بغیر ہارڈ ویئر کے کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔ اور بدن کو سزا جبکہ وہ ایک غیر متحرک مردہ شئ ہے جو روح کے بغیر خود سے حرکت ہی نہیں کر سکتا ۔ وہ حقیقی مجرم یعنی آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ملاپ سے بنی تیسری چیز " پانی" جس نے لوگوں کے گھر گرائے، فصلیں برباد کیں اور نسلیں ڈبو کر مار دیں ۔۔ آپ ہائیڈروجن اور آکسیجن کی طرف ان جرائم کو منسوب نہیں کرتے بلکہ ان کے ملاپ سے وجود پانے والی تیسری مخلوق کو الزام دیتے ہیں ۔۔
2- جھنم زمین پر اور جنت آسمان پر ۔۔۔
یاد رکھیں ہم زمین اور چاند یا دیگر سیارے اور کہکشائیں ہمارا آسمان ہیں ۔ اسی طرح چاند اور مریخ وغیرہ اپنے آپ میں زمینیں اور ہم سمیت دیگر کہکشائیں ان کا آسمان ہیں ۔ جس طرح چاند ہمیں اوپر نظر آتا ہے اسی طرح چاند سے زمین اوپر نظر آتی ہے ۔ جب اللہ اور فرشتے حساب لینے زمین پر اتریں گے تو جنت اور جہنم یہیں سجائی جائے گی ۔ زمین کوٹ کوٹ کر اور دیگر سیاروں اور کہکشاؤں کو ملا کر نئے سرے سے بنائی جائے گی یا قرآن کریم کے الفاظ میں Replace کی جائے گی ۔ یوم تبدل الارض غیر الارض ۔ اس دن زمین تبدیل کر دی جائے گی اس زمین کے غیر کے ساتھ ۔ اس کے مادی اور فطری قوانین بھی الگ ہی ہونگے ۔ و جاء ربک والملک صفا صفا ۔ اور آئے گا تیرا رب اور فرشتے صفوں پر صفیں بنا کر ۔ و جیء یومئذ بجھنم ۔ اور اس دن جھنم بھی لائی جائے گی ۔سورہ الفجر ۔۔۔تو جناب عدالت بھی یہیں لگے گی ۔ رب اور فرشتے بھی یہیں آئیں گے جنت اور جھنم بھی ادھر ہی سجیں گی اور حساب کتاب بھی ادھر ہی ہو گا ۔ پھر ہر شخص اپنی روح و بدن اور نفس سمیت اپنی اپنی جنت کے ساتھ رب کی طرف سے طے کردہ کسی لوکیشن پر ایڈجسٹ ہو جائے گا ۔
مشرکینِ کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے ۔ یہاںتک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے ۔تو یہاں روح کی بالیدگی اور بلندی مقصود ہے ۔ رب کا تقرب بلندی سے منسوب ہے کیونکہ خود خدا بلند تر ہے ۔ مشرکین کبھی رب کا تقرب نہ پا سکیں گے ، نہ اس زندگی میں اور نہ موت کے بعد والی زندگی میں ۔ ہر دو صورت میں وہ رب سے دور اور قعر مذلت سے منسوب رہیں گے روحیں جہاں سے ایشیو ہوئی تھیں وہیں واپس پہنچیں گی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ تمام انسانوں کے لئے ہے صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ۔ و الینا یرجعون اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے ۔