اصلاح و دعوت
ابدی زندگی اور موت کی یاددہانی
جاويد احمد غامدی
گفتگو سے اقتباس
یہ جو کارخانہ بنایا گیا ہے، یہ زندگی اور موت کا کارخانہ ہے. چنانچہ قرآن مجید جب اس کا ذکر کرتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ* کہ ہم نے یہ کارخانہ زندگی اور موت کا کارخانہ بنا دیا ہے. یہاں ایک ہی لمحے میں لوگ پیدا ہو رہے ہیں، پروان چڑھ رہے ہیں، ارسطو افلاطون بن رہے ہیں اور اسی لمحے میں سینکڑوں لوگ رخصت ہورہے ہوتے ہیں. زندگی اور موت کا یہ کارخانہ کیوں بنایا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا یہ جواب دیا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک ابدی دنیا بنائیں جس میں ایک ایسی مخلوق (آباد ہو) جو ہمیشہ سے تو (موجود) نہیں ہے لیکن وہ (اس ابدی دنیا میں پہنچ کر) ہمیشہ زندہ رہے.یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے. یعنی بظاہر تو ہم ایک لفظ بول دیتے ہیں کہ ہمیشہ کی زندگی لیکن ذرا تھوڑی دیر کے لیے رک کر غور کریں تو (معلوم ہوگا کہ) یہ (ہمیشہ کی زندگی) ایک انتہائی غیر معمولی اور ایک انتہائی حیرت انگیز چیز ہے. یعنی ایک مخلوق (مخلوق ہونے کے باوجود) کبھی نہیں مرے گی. (موت کو بنانے والے کا یہ فیصلہ ہے کہ) اس (مخلوق) پر کبھی موت وارد نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ زندہ رہے گی. وہ ہمیشگی اسی طرح کی ہمیشگی ہوجائے گی جیسے اس کائنات کے خالق کی ہمیشگی ہے.وہ خالق ازل سے ہے اور ابد تک ہے اور یہ بشارت دے رہا ہے کہ میں نے ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا جو (نیکی و بدی) کے شعور کے ساتھ (دنیا کی زندگی) پاے گی اور (پھر اس عارضی زندگی میں نیکی کو بدی پر ترجیح دینے کو اپنا وظیفہ بنا کر) اپنے استحقاق کی بنیاد پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کر لے گی.قرآن مجید نے یہ بتایا ہے کہ اس ہمیشہ کی زندگی میں (انسان کو) داخل کرنے سے پہلے ہم نے یہ ایک عارضی دنیا بنادی تاکہ اس ابدی زندگی میں (انسان کے) داخل ہونے سے پہلے ہم یہ دیکھیں کون وہاں امن، سکون، چین اور نعمت کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہے اور کون اپنا مستقبل برباد کر کے داخل ہونا چاہتا ہے -یہ ہمیشہ کی زندگی ہے جس کی خبر ایک عظیم نعمت کے طور پر خدا کے وعدے کی حیثیت سے پیغمبروں نے ہم تک پہنچائی ہے. اسی چیز کی منادی کرنے، اسی کا پیغام پہنچانے اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کےلیے تمام انبیا علیہ السلام آے ہیں... . اس لیے سب سے بڑی چیز جو انسان کے سامنے رہنی چاہیے اور جس کو اکثر و بیشتر ہم فراموش کر دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک دن بہرحال ہم نےاس دنیا سے رخصت ہو ناہے. یہ موت ایک اٹل حقیقت ہے. یعنی جو چیز سب سے اہم ہے لیکن سب سے غیر اہم بن جاتی یے وہ موت کی یاددہانی ہے. یہ موت اگرچہ لفظ کے اعتبار سے زندگی کا خاتمہ ہے لیکن یہ حقیقت میں زندگی کی ابتداء ہے. تو یہ دوسری چیز ہے جس کی یاددہانی پیغمبروں نے قیامت اور روز جزا کہہ کر کرائی ہے.اس سے یہ معلوم ہوا کہ سب سے بڑی چیز جس پر انسان کو متنبہ اور خبردار ہونا ہے وہ موت ہے. لیکن دنیا کے ہنگاموں میں سب سے زیادہ فراموش ہوجانے والی چیز بھی موت ہی ہے. یعنی موت اتنی بڑی حقیقت ہے کہ انسان اپنی ساری امنگوں، آرزوؤں، شعور، دانش اور حکمت کے ساتھ یک بیک اس کا شکار ہو جاتا ہے. یہ بھی نہیں ہے کہ اس موت کا کوئی متعین وقت مقرر کر دیا گیا ہو. وہ کسی بھی وقت آکر دروازے پر دستک دے دے گی اور پھر کسی کے لیے دروازہ کھولنے سے انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہے. چونکہ انسان اس کائنات کی اس سب سے بڑی حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ (انفرادی و اجتماعی حادثات کے ذریعہ سے) اس کی یاددہانی کراتے ہیں.