اصلاح و دعوت
باؤلا کون؟
شاہد اعوان
گذشتہ روز ایک صاحب نے پاکستانی مسلمانوں کے “ا بو عبید ہ” یا “ابن قا سم” جیسے ناموں پہ اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو مسلمان ہو کر عربوں کی تقلید میں باؤلے ہی ہوگئے ہیں، ابو کا مطلب تو باپ ہے تو کیا آپ کسی عبید ہ کے باپ ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔میں نے اس پہ گزارش کی کہ یہ باؤلا پن نہیں محبت ہے۔ ایسے نام وہ نسبت کے اعتبار سے رکھتے ہیں نہ کہ معنوی اعتبار سے۔کچھ عرصہ سے ایک عجیب فیشن دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کو الباکستان کہہ کر اپنی دانست میں تضحیک وغیرہ کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر کے لوگ مسلمان کیا ہوئے، باؤلے ہی ہوگئے۔ “عربوں عربوں” کہہ کر بہت سی چیزوں پہ طنز کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے نبی کریم ص عرب تھے، قرآن کی زبان عربی ہے تو اسی نسبت سے عربی سے محبت بھی ہے، اسکی تضحیک کیوں؟ برصغیر کے جن لوگوں نے آباؤ اجداد کا مذہب ہی ترک کردیا تو اپنے نبی اور انکی زبان و قبیلہ سے جڑی نسبتوں کو فخر یہ طور پہ اختیار کیوں نہیں کریں گے؟ آپ سے مطلب؟ عجیب بے ہودہ فیشن ہے کہ نبی ص کی محبت کی وجہ سے اختیار کی جانے والی چیزوں کو عربوں عربوں کہہ کر طعنہ زنی کی جائے۔ باؤلے تو آپ ہوئے جاتے ہیں۔ آپ اپنی شرمندگی سے جان چھڑائیے اور دین کی نسبت سے اظہار لاتعلقی کیجئے نا، اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیجئے، جال ہم رنگِ زمیں کیوں بچھاتے ہیں؟
مجھے اپنے کلچر، زبان اور ادب کے فارسی و ھندی سمیت جملہ مقامی عناصر —جو میرے دین سے متصادم نہیں— سے انسیت ہے مگر یہ محبت لسان القرآن کی قیمت پر نہیں ہے۔ میں اپنے خون میں دوڑتے بیدل، خسرو اور احمد رضا خان سے کیسے انکاری ہوسکتا ہوں۔ پنجابی بلھے شاہ اور سندھی بھٹائی سے کیسے منہ موڑ سکتا ہوں؟ مگر یہ سب مجھے اپنے عربی النسل نبی ص کی نسبتوں کا منکر نہیں بناتا۔ ہرگز نہیں۔ مکھ موڑوں تو کا-ف-ر ہوں۔
آپ ماتھے پہ بند یا لگائیے یا تلک، گلے میں ما لا پہنیں یا Bow لگائیں ہمیں اعتراض نہیں۔ کوئی اپنا تعلق قدیم موئن جو دڑو سے جوڑے یا جدید سیکولر سامراج سے، مادر ملکہ کو والدہ بنائے یا ھیومن ازم کے بت کو سجدہ کرے، ٹیکنالوجی کی پوجا کرے یا قدیم یونانی اساطیر پہ ایمان لائے، مگر کسی مسلمان کی نسبت، عقیدت یا عقیدہ کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا حق کیسے رکھتا ہے؟ دنیا بھرکے لبرل ایسا نہیں کرتے مگر دیسی لبرلز کا باوا آدم نرالا ہے۔ خود سے شرمندہ اس طبقہ کے کنفیوزن کا اندازہ اس سے کیجئے کہ بہن سے شادی کرنے والے راجہ داہر کو دھرتی کا بیٹا اور اپنا ہیرو ماننے والے سندھی قوم پرست جی ایم سید نے مرتے دم تک “سید” کی شناخت نہیں چھوڑی تھی۔