سچی كہانی
غرور کس بات کا.....؟كچھ آنکھوں دیکھے سچے قصے..
ابوبکر قدوسی
برسوں گزرے...میں اپنے بچوں کے ساتھ تھا...مال روڈ لاھور کا وہ حصہ جہاں کچھ شاپنگ مال ہیں اور کچھ کھانے کے مقامات....میں نے گاڑی روکی ابھی اترنے کی نوبت نہ آئ کہ میری اس پر نظر پڑی...رات دیر تک زندگی کے ہنگاموں میں جاگتی یہ جگہ ان لوگوں سے بھری ہوتی ہے ..چھوٹی چھوٹی سی اشیاء ہاتھوں میں لیے یہ گاڑی گاڑی گھومتے ہیں ..کچھ محض سامان بیچتے ہیں اور کچھ بھیک تک مانگ لیتے ہیں...اس نے امتحانی گتہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ..اس پر ایک گھوڑا دھرا ہوا تھا...گھوڑے کی دم سے باریک سا پائپ اور آخر میں ایک غبارہ سا ..وہ غبارہ دباتا تو ہوا کے زور سے گھوڑا آگے کو پھدکتا..اور ساتھ وہ آواز لگا رہا تھا دس روپے کا صرف دس روپے کا......بے اختیار میرا سر گاڑی کے سٹیرنگ سے جا لگا...میں غم زدہ تھا-"یہ ماضی کے لاہور کے ایک بہت ہی بڑے پبلشر کا بیٹا ہے اور کبھی یہ بھی میرا ہم پیشہ تھا"....آنکھوں میں نمی اتر رہی تھی اور میں اپنے بچوں کو کہہ رہا تھا کہ زوال نعمت سے بچنے کی دعا کیا کریں-
میں ایک روز مکتبہ قدوسیہ بیٹھا تھا .. کسی کام سے ساتھ والی دکان پر گیا...وہاں ایک بزرگ کاندھے پر پٹ سن کی بوری رکھے کسی قدر بے بسی سے بیٹھے تھے..اسی اثناء میں کچھ اور دوکاندار بھی وہاں آ گئے ..بحث مباحثہ شروع ہو گیا ...کوئی لین دین کا جھگڑا تھا...جن صاحب نے پیسے لینے تھے ان کو معلوم ہوا کہ بابا جی اس دکان پر آئے ہیں تو ان کو پابند کروا لیا کہ جانے نہ پائے...ستر کی دھائی میں جب تاج کمپنی کا عروج تھا....اور اس کا ہیڈ کواٹر کراچی میں تھا...ان دنوں تاج کمپنی کوئی نیا قران مارکیٹ میں لاتی تو ان بابا جی کو ان کے گھر میں "سمپل" نہیں بھجواتی تھی..بلکہ ان کو ہوائی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھجواتی کہ آ کر وہ قران کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں اور آرڈر دیں .. وہ سرحد، شمالی علاقہ جات اور کشمیر سب میں اکیلے سپلائی کرتے تھے ..یعنی ایک تہائی پاکستان اور اکیلے بابا جی...پھر بابا جی کے بچے کاروبار میں آ شریک ہوۓ..پھر وہی پرانا قصہ کہ دولت کی خرابیاں در آئیں اور سب قصہ پارینہ ہو گیا-آج وہی بابا جی ایک عام سے "دکندار" کے محبوس بنے بیٹھے تھے صرف چند ہزار روپے کو
جی ہاں غرور کس بات کا...یہ دولت ، یہ ثروت کب نسل در نسل چلتی ہے..؟ رہا نسب تو وہ آپ کا نہیں رب کی عطا ہے ..آپ کا کیا کمال؟....تو آپ کا ہے کیا ؟ غرور کس پر کرتے ہیں؟
ایک صاحب تھے ہمارے اردو بازار کے ہی...تب ہمارا مکتبہ قدوسیہ موجودہ جگہ نہیں تھا... کرائے کی جگہ تھا .. تیس برس پرانا قصہ..ان کی دکان ہماری دکان سے شائد دس دکانیں آگے نسبتا بہتر جگہ پر.. مناسب کاروبار اور خوش حال تھے عزت کی کھاتے ...ان کو کرکٹ کا بہت شوق تھا..دکان پر بڑا سا بلیک بورڈ لٹکایا ہوتا اور میچ کا تازہ بہ تازہ سکور چاک سے اس پر لکھتے رهتے .. یوں بچے شوق سے آتے اور خریداری بھی خوب ہوتی ... ہم بھی سکول سے واپسی پر اور آتے جاتے محظوظ ہوتے.......پھر مدت گزری چند برس پہلے وہ ایک بالٹی اٹھائے دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں فروخت کرتے نظر آئے....
ہاں غرور کس بات کا آپ کرتے ہیں؟...نہ کیا کریں ...رب کو ہی روا ہے اسی کو سجتا ہے..ہم کو نہیں.......آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوالِ نعمت سے پناہ مانگنے کے لیئے یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اَلّٰھُمَّ اِنّی اَعُؤذُبِکَ مِن زَوَا لِ نِعمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَ فُجَآءَۃِ نِقمَتِکَ وَ جَمِیعِ سَخَطِکَ
" الہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری نعمت کے چھن جانے سے اور تیری عافیت کے پھر جانے سے
اور تیرے ناگہانی عذاب سے اور تیرے ہر طرح کے غصے سے۔"