اصلاح و دعوت
بڑھاپا خوب صورت ہے
سليم مغل
ہمارے معاشرے میں جہاں بزرگ کبھی محبت اور تعظیم کا استعارہ ہوتے تھے اب آہستہ آہستہ بوجھ محسوس ہونے لگے ہیں ۔ ایدھی سینٹر میں بزرگوں کا ایک وارڈ وزٹ کرتے ہوئے یہ بات زیادہ شدت سے محسوس ہوئی ۔
امریکی ریاست میں پچھتر برس کے لگ بھگ دو بوڑھے ایک اعصاب شکن انتخابی مہم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ریاست کی باگ دوڑ سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں۔دنیا کی بڑی ریاستوں کے چیلنج بھی جدا ہوتے ہیں۔امریکا وقت کی سپر پاور ہے۔وہ دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔ان کے سکے کی قدر ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کو زیروزبر کردیتی ہے۔جو دنیا کی تہذیب بدل رہے ہیں۔گلوبل ورلڈ کے خوابوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔وہ قومیں پچھتر برس کے بوڑھوں کو امام بنارہی ہیں اپنی قسمتیں انھیں سونپ رہی ہیں۔وہاں سماج بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔وہ سب بوڑھا ہونا بھی نہیں چاھتے۔
ہمارے سماج ،ہمارے خاندانوں میں پچاس برس سے زیادہ کی عورتیں ،ساٹھ برس سے زیادہ کے مرد خاندانی امور سے بتدریج فارغ کردیے جاتے ہیں۔ہم ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے انھیں کارنر کرتے ہیں۔ہماری نئی نسل سمجھتی ہے کہ یہ بوڑھے وہ پتھر ہیں جنھیں چوم کر سرکا دیا جائے۔اپنے اطراف دیکھیں،ہم پچھتر سال کے بوڑھوں سے کیا سلوک کررہے ہیں اپنے خاندانوں میں۔کتنے مشورے ہم خاندان کے بزرگوں سے کرتے ہیں؟کب ہم فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ستر پچھتر کی عمر عبور کر چکے ہوں؟ہم برائے برکت انھیں برداشت کر بھی لیں مگر اپنے فیصلوں کا اختیار انھیں نہیں دیتے۔اب تو نوجوان نسل اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی سمجھتی ہے کہ ایک نسل پرانے لوگ ہمارے "taste "کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
ہم نے خاندان کے ادارے سے دانستہ نانی نانا اور دادی دادا کے کردار کو کمزور کیا۔نئی عمر کے بابا اور ماما اکثر دور رکھتے ہیں اپنی نظر کے نور کو بوڑھی پرچھائیں سے۔کہیں یہ روایات بہت صحت مند بھی ہیں مگر اکثر جگہوں پر دم توڑ رہی ہیں۔بس یونہی کافی دیر سے ٹی وی اسکرین پر ٹرمپ اور جو بائیڈن کو دیکھ کر خیال آیا کہ بوڑھے تو بہت کام کے ہوتے ہیں،ہمارا سماج جانے کیوں انھیں بوجھ سمجھتا ہے۔ہم وقت سے پہلے انھیں محدود کر دیتے ہیں۔فارغ سمجھتے ہیں،انھیں محفلوں اور بازاروں میں لے جانا بند کردیتے ہیں۔ان کے آرام کا بہانہ بنا کر پیچھا چھڑا لیتے ہیں انکو سماج کا موثر حصہ بنانے سے۔آپ کسی بیٹے سے پوچھیں کہ والد صاحب اب تقریبات میں نظر نہیں آتے؟جواب ملے گا ان کی صحت اچھی نہیں رہتی۔
صحت تنہائی سے بہتر ہوتی ہے یا سماج کا حصہ بنانے سے؟خاندان کے بزرگوں کو ہسپتال کے سوا کہیں لے جانا بوجھل سا لگتا ہے۔"قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں تفریح کی سوجھی رہتی ہے۔"
گویا تفریح پر جوانوں کا حق ہے۔حالانکہ تفریح پر بوڑھوں کا حق مغرب میں زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے بوڑھوں کو مصلے پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بس وہ تسبیح پڑھتے رہیں اور ہمارے گھروں سے آفات و بلیات ٹلتی رہیں۔
اگر جو بائیڈن کی عمر(77برس) کے نانا دادا کسی تقریب میں جانے کی خواھش ظاہر کردیں تو جواب ملتا ہے کہ پہلے ہی جوڑوں کا درد ہے خواہ مخواہ خود کو تکلیف نہ دیں۔ہمیں بوڑھے آرام کرتے اچھے لگتے ہیں۔ان کے سرھانے رکھی دواؤں کا ہم خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہ آجائے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آدمی بے چارہ خود کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔اچھا نہیں کرتے ہم میں سے بیشتر اپنے بزرگوں کے ساتھ۔
وہ امریکا جیسی ریاست کی باگ دوڑ دے رہے ہیں بوڑھوں کو۔ہم خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بزرگوں کی رائے کو دخل اندازی سمجھتے ہیں۔عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔اپنے بزرگوں کو بااختیار بنائیے۔زندگی کے تجربات کا نچوڑ نہ ٹیکنالوجی ہے نہ ذھانت۔