جہد مسلسل
ميری آپ بيتی
مہدی بخاری
چکی کی مشقت سے گزر کر بلآخر ہر انسان کسی نہ کسی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ آزمائش شرط ہے تو مسلسل لگن و محنت بھی شرط ہے۔ خداوند کریم ہر محنت کا صلہ عطا کرتا ہے۔ سلیف میڈ لوگوں کا المئیہ ذرا الگ سا ہوتا ہے۔ امجد اسلام امجد کی نظم کے مطابق
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو ق تل کرتے جاتے ہیں
درگزر کے گلشن میں اَبر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاوش کا
کچھ صِلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ، وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں پھُول اِن کے کھِلتے ہیں
اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں
سڈنی اوپرا ہاؤس کو میں نے سب سے پہلے نیشنل جیوگرافک کے ایک میگزین میں دیکھا تھا۔ عمر تھی اکیس سال۔ جیب میں آٹھ آنے کے سکوں اور پیٹ میں ایک وقت کی روٹی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ والدہ نے سرکاری سکول کی ملازمت کر کے مجھے پالا اور کمیٹی ڈال کر پہلا کیمرا مجھے لے دیا۔وہ پوائنٹ اینڈ شوٹ ڈیڑھ میگا پکسل کا کوڈیک کپمنی کا کیمرا میرا کُل اثاثہ تھا۔ سفر شروع ہوتا ہے۔
آپ میں سے کوئی میری وہ کہانی نہیں جانتا کہ کیسے اور کن کن حالات میں اور کیسے کیسے کمپرومائز کر کے میں نے دوردراز کے سفر کئے ہیں اور فوٹوگرافی جیسا مہنگا ترین فن بروئے کار لانے کو کتنے قرض اٹھانا پڑے ۔کتنا سرمایہ اس فن کی نذر بہایا ہے۔
میں سرمایہ دار نہیں تھا۔ مڈل کلاس فیملی تھی۔ والدہ سرکاری سکول ٹیچر تھیں۔ ان کی تنخواہ سے گھر چلتا تھا۔ اور تنخواہ کتنی ہوتی ہے ؟ ایک وقت کا کھانا کھا کر پلا ہوں دو وقت کا تو نصیب بھی کم کم ہوتا تھا۔ اور جب برسر روزگار ہوا تو پہلی نوکری کی تنخواہ ڈھائی ہزار روپے تھے۔
زندگی مد و جزر کا نام ہے مگر کئی بار ہچکولے کھا کھا کر بڑے باہمت انسان بھی دل ہار جاتے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ میرا گھرانہ سیالکوٹ کے خوشحال گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ والد کامیاب بزنس مین تھے۔ سن 1982 میں میری پیدائش ہوئی تو والد نے کرولا 1982 خریدی کہتے ہیں اس وقت سیالکوٹ میں گنتی کی گاڑیاں چلتی تھیں اور کرولا 82 سارے شہر میں صرف دو تھیں۔ ایک والد صاحب کی اور ایک ہاکی بنانے والی مشہور فرم علی ٹریڈنگ کے مالک کی۔میری عمر پندرہ سال ہوئی تو والد صاحب نے نہ جانے کیا ایسا کر دیا کہ سارا بزنس ٹھپ ہو کر ختم ہو گیا۔ کسی پر اعتبار کر کے انوسٹ کیا اور وہاں سے ایسا دھوکہ ملا کہ اس کے بعد نہ والد سنبھلے نہ بزنس۔ایف ایس سی تک آتے آتے ایک دن انکشاف ہوا کہ والد کو کینسر ہے۔ اماں کو سرکاری سکول میں نوکری کرنا پڑ گئی اور مجھے ایف ایس سی کی پڑھائی کے ساتھ ایک چمڑا بنانے والی کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب۔ ٹینری کا نام تھا خلجی سنز۔
کالج سے فری ہو کر شام 4 بجے چمڑے کی فیکٹری چلا جاتا اور رات دس بجے تک اکاؤنٹس دیکھتا۔ یہ کچا چمڑا پراسس کرنے کی ٹینری تھی۔ شام کو تیار شدہ کچا چمڑا ٹینری سے باہر جاتا جس کی گنتی اور لوڈنگ کی ذمہ داری میری ہوا کرتی۔لوڈ شدہ ٹرک کا گیٹ پاس بنانا بھی میری ڈیوٹی تھی۔ رات آٹھ سے دس تک باہر سے کھالیں ٹینری میں آتیں ان کی گنتی کے بعد وصولی لینا بھی میرے ذمے ہوتا اور آخر میں اکاؤنٹس کی لیجر پر سارا حساب درج کر کے چھٹی کر جاتا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ چمڑے کی ٹینری میں کیمیکلز اور کچے چمڑے کی کتنی بدبو ہوتی ہے۔ شروع کے دنوں میں متلی آتی رہی پھر انسان عادی ہوتا جاتا ہے۔ سخت بدبو میں کام کرنا مجبوری تھی کہ والدہ کی تنخواہ تو ادویات اور ہسپتالوں کے اخراجات میں صرف ہو جایا کرتی۔
گھر آتے رات کے گیارہ بج جاتے۔ ایک گھنٹہ کالج کا کام دیکھتا پھر سو جاتا۔ صبح تین بجے اٹھ کر مجھے ڈسٹری بیوٹر سے اخبار لینا ہوتی جسے صبح کے نو بجے تک مجھے اپنی سائیکل پر گھروں اور دفاتر میں تقسیم کرنا ہوتا۔ پھر کالج کا وقت ہو جاتا۔میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ دن میری زندگی کے سخت ترین دن ہیں یہ گزر جائیں گے۔ ایف ایس سی کے بعد ڈگری کروں گا تو کہیں بہتر نوکری مل جائے گی۔ دن گزرتے رہے۔ کینسر سے کسے فرار نصیب ہے۔ والد کے انتقال کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی داخلہ لیا اور دو سالہ بی ایس سی مکمل کی۔ اس وقت گریجویشن دو سالہ ہوا کرتی تھی۔ 2004 میں گریجویشن مکمل ہوئی تو مجھے نوکری مل گئی۔ یہ انٹرنیٹ سروس پرواڈر کمپنی میں کسٹمر سپورٹ کی جاب تھی۔ ساری رات لوگوں کی شکایات فون پر سننا ہوتیں اور ان کو حل بتانا ہوتا۔ صبح کو پڑھنا ہوتا۔
2004 سے ہی فوٹوگرافی کے سفر کا آغاز کیا۔ یہ شوقیہ سلسلہ چلتا رہا۔ میں نے چار سالہ ڈگری پروگرام BS Hons Telecommunication & Computer Networks میں داخلہ لیا۔ 2008 میں ڈگری مکمل کی اس دوران جاب پر کچھ ترقی ملتی رہی تو میں ساتھ ساتھ کمپیوٹر نیٹورکس کی فیلڈ میں انٹرنیشنل سرٹیفکیٹس کی تیاری کر کے انہیں پاس کرتا رہا۔ فوٹوگرافی سے پذیرائی ملتی رہی۔ لوگوں نے جاننا شروع کیا اور میرے کام کو سراہا جانا لگا۔ 2008 سے 2009 کے بیچ میں نے مائیکروسافٹ ، لینکس اور Cisco کو پاس کیا ۔ MCSE,CCNA,CCNP,JUNIPER, LINUX کی سرٹیفکیشن پاس کیں۔ جاب پر ترقی کر کے IP Core Network ٹیم کا حصہ بن گیا اور نیٹورک انجینئر ہوا۔ میری تنخواہ چھ ہندسوں پر چلی گئی۔ فوٹوگرافی انتہائی مہنگا شوق تھا۔ اس دور میں میں نے اپنی بیگم کا زیور بیچ کر کیمرہ اور لینزز خریدے۔ سفر کرنے کو کولیگز سے اُدھار لیتا جو تنخواہ آتے ہی لوٹا دیا کرتا۔ کولیگز مجھ پر ہنستے کہ تم شمال جانے کے لیے اُدھار لیتے ہو اور پیسے خرچ کر آتے ہو ۔ کیوں ؟ ۔ ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ وہ مجھے نیم پاگل انسان سمجھتے تھے۔ بیگم کا زیور میں نے آنے والے پانچ سالوں میں بنا کر اسے واپس کیا۔
فوٹوگرافی میں شہرت ملی تو لکھنا بھی شروع کر دیا اور میری پہچان بطور کالم کار بھی بن گئی۔ یہاں میں ٹورازم اور فوٹوگرافی میں ملنے والی اچیومنٹس کا ذکر نہیں کروں گا۔ عزت و شہرت بہت ملی پروردگار کا کرم رہا اور اس ملک کے لئے جو کر سکتا تھا کیا۔ میری پروفائل آپ جانتے ہوں گے۔
2015 کے آخر میں مجھے کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنا ازواجی تعلق ختم کرنا پڑ گیا۔ اس کے ساتھ بچوں کی ذمہ داری مجھ پر آ گئی کہ ان کی والدہ کو انہیں رکھنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ بچے چونکہ چھوٹے تھے اس لئے مجھے جاب چھوڑنا پڑی اور بچوں کی نگہداشت کرنے میں چھ ماہ گھر میں لگا رہا۔ ان بیروزگار چھ ماہ میں جو سیونگ تھی وہ لگتی رہی اور ایک بار پھر مجھے جاب کرنا پڑی۔
میں یونیورسٹی میں آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھانے لگا۔ سیالکوٹ چھوڑا لاہور منتقل ہو گیا۔ تنخواہ سے گزر بسر ہوتی رہی۔ دو سال پڑھانے کے بعد یونیورسٹی چھوڑی اور فوٹوگرافی اور ریسرچ سے متعلقہ پراجیکٹس میں مصروف ہو گیا۔ان پراجیکٹس سے گزر بسر ہوتا رہا مگر اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان میں اتنی رقم ہوتی ہے کہ سہولت سے گزارا ہو جائے تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ کام میں اس لئے کرتا رہا کہ میرے متعلقہ تھے اور میرا دل فوٹوگرافی و سیاحت میں لگا رہتا تھا۔ سو دل کی سنتا رہا۔
یہاں کا معاشرہ عجب ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر آپ کی رہائش، سفر، کھانے اور دیگر اخراجات پر لاکھوں لگا سکتا ہے مگر آپ کو اپنے گھر کے اخراجات کے لئے یا کام کا معاوضہ لاکھوں میں دیتے ایک ایک پائی پر بحث کرتا ہے۔ ایسا وقت رہا ہے مجھ پر کہ میں بزنس کلاس میں بیرون و اندرون ملک سفر کرتا رہا مگر میری جیب میں دو ہزار سے زیادہ نہیں تھے نہ بینک میں کچھ موجود تھا۔ میرے پاس ڈیڑھ لاکھ کا موبائل تھا جو کمپنی کا مجھے بطور برآنڈ ایمبسیڈر گفٹ تھا مگر مجھے کچھ پے نہیں ہو رہا تھا۔اس وقت میرے پاس ہواوے کا مہنگا ترین فون P30 Pro تھا۔اور میں ان کا فوٹوگرافی ایمبیسڈر تھا۔ یہ معاشرہ آپ سے نہیں پوچھتا کہ آپ کو کیا چاہیئے یہ اپنے معین شدہ پروٹوکول کو فالو کرتے ہیں۔ میں فائیو سٹارز میں ٹھہرتا رہا، بزنس کلاس میں سفر ہوتے رہے اور ذہن میں کچن چلانے کی ٹینشن لئے گھومتا رہا۔
میں فنکار تھا مگر فائن آرٹ فنکار نہیں تھا اس لئے اپنا نام مجھے کیش کرانا نہ آ سکا۔ شرم، مروت، جھجک میرے آڑے آتی رہی کہ کسی سے پیسوں پر ڈیل کرنا اور بحث کرنا میرے بس کا نہیں رہا۔ میں بڑے اداروں سے ایک ایک پائی پر بحث نہیں کر سکتا۔ مجھے بات کرتے شرم آتی رہی کہ ان سے کیا کہوں ان کو خود معلوم ہونا چاہیئے میں لکھ کر ان کو اپنے سروس چارجز بتا چکا ہوں مگر ہوتا یہ رہا کہ سامنے والا بزنس مین تھا یا ادارے کا فنانس یا مارکیٹنگ مینجر جس نے اپنے ادارے کو ثابت کرنا ہوتا تھا کہ دیکھا اتنے پیسے بچا کر کام کروا لیا ۔۔۔۔
میں نے پھر سرکاری نوکری کی تلاش شروع کی۔ 18 سالہ ایجوکیشن اور 12 سالہ تجربے کے ساتھ میں اوور کوالیفائڈ تھا گریڈ 18 اور 19 کی نوکری کے لئے کہ وہ 16 سالہ ایجوکیشن اور 6 سالہ تجربہ مانگتے تھے۔ عمر کی حد ٹیکنیکل جاب میں اس گریڈ میں 40 سے 45 سال تک ہوتی ہے لہذا عمر میں بھی کم تھا۔ میں سی وی بھیجتا رہا اور مجھ سے کم تجربے والے کامیاب ہوتے رہے۔ جب میں نے دیکھ لیا کہ میرٹ نامی کوئی شے اس ملک میں نہیں ہے تبدیلی کا نعرہ بس نعرہ ہے تو میں نے اس ملک سے کُوچ کرنے کی سوچی اور امیگریشن اپلائی کر دی۔
مجھے جو شہرت ملی کبھی کسی آفیسر کسی جرنیل کسی سیاستدان سے کبھی اپنے کسی کام کے لئے فیور نہیں مانگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کی عزت لوگ کرتے ہیں تو ان کو استعمال نہ کرو مگر نوکریوں پر ہونے والی بندر بانٹ دیکھ کر دل ٹوٹا کہ اس گریڈ کی نوکری پر کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ اپنے بھانجے بھتیجے نواز رہا ہے تو سوچا کہ اس گندے سسٹم میں کیا کروں گا ؟۔ امیگریشن کیس کا یہ نتیجہ نکلا کہ بچوں کی عمر کم تھی یعنی وہ بالغ نہیں تھے اس واسطے وہ ماں کی تحریری اجازت کے بنا بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے تھے۔ ایمبیسی نے مجھ سے ان کی والدہ کا NOC طلب کیا۔ میں نے ان کی والدہ کو کسی طرح کسی کے ہاتھ پیغام پہنچایا تو انہوں نے مطلوبہ NOC دینے سے انکار کر دیا۔
مجھ پر اسی سال یہ وقت بھی آیا کہ میں نے اپنی گاڑی کریم پر چلانی شروع کر دی۔ میں کسی کو کیا بتاتا کہ آجکل کریم چلا رہا ہوں ؟ مجھے نتھیاگلی میں ٹورازم پر منعقد کانفرنس میں مدعو کیا گیا جہاں صدر پاکستان سے لے کر سب بڑے موجود تھے۔ ہال کی نمائش میری ہی تصاویر سے کی گئی تھی اور ان بڑوں نے میرے کام کو خراج تحسین پیش کر کے تالیاں بھی بجائیں۔ دل کیا کہ اپنی تقریر میں سیاحت پر گفتگو کرنے کے ساتھ یہ ایک جملہ بھی کہتا چلوں کہ بارہ چودہ سال اس ملک کی خدمت کر کے آجکل گھر چلانے کو کریم چلا رہا ہوں کیونکہ جس نوکری کا میں اہل ہوں وہ آپ لوگ اپنوں میں بانٹ رہے ہیں مگر سوچا چپ رہو۔ رہنے دو۔
میں شام چھ سے صبح چھ تک بنا کسی کو بتائے لاہور کی سڑکوں پر کریم چلاتا رہا۔ میری بیگم اور تین قریبی دوستوں کے علاوہ اس بات سے کوئی آگاہ نہیں کیونکہ کسی کو کیا بتاتا ؟ ان گزری گزشتہ راتوں میں پچھلے چھ ماہ میں کئی بار آنکھیں بھیگیں میں جو کہ اپنے والدین کی وفات پر نہ رویا مگر اب خود ہی منظر دھندلانے لگے تھے۔
کوئی سواری آ کر بیٹھتی تو اس کا سوال ہوتا -آپ فل ٹائم یہی کام کرتے ہیں ؟جی-اس سے پہلے کیا کرتے تھے آپ ؟کچھ نہیں بس ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام-پڑھے لکھے لگتے ہیں آپ تو نوکری نہیں کرتے ؟
نہیں۔ میں نے ایسے ہی عمر ضائع کی اسی لئے تو ٹیکسی چلا رہا ہوں۔
مجھے وکیل، ڈاکٹر، سائنسدان، پروفیسرز غرض ہر شعبے سے وابستہ مرد و حضرات ملے۔ میں زیادہ بات نہیں کرتا اس لئے چپ چاپ گاڑی چلاتا مگر کچھ لوگ جو بات کرنا چاہتے تھے ان کے سوالوں کے جواب دینے سے گریز کرتا رہتا کہ ان کو اپنے بارے کیا بتاؤں ۔۔۔ لوگ میری ڈریسنگ جو کہ ہمیشہ سے ہی اچھی رہی ہے اور دن میں رے بین کی عینک لگی دیکھ اور سامنے ڈیش بورڈ پر لگا پونے دو لاکھ کا موبائل P30 Pro جو Huawei نے مجھے بطور برآنڈ ایمبسیڈر دیا تھا یہ سب دیکھ کر تجسس کا شکار ہوتے۔ ان کو کیا بتاتا کہ یہ کوٹ، موبائل اور عینک نہیں بکتی ! یہ اعزازی عہدے میرے فن کو سلامی تھے بس۔۔۔ یہ لیبل ٹیلنٹ کی قبر پر چڑھائی جانے والی چادریں ہوتی ہیں۔
ایک بار پھر میں نے منسٹری آف کامرس میں Director IT کی گریڈ 19 کی جاب کے لئے اپلائی کیا۔ پی ٹی ایس کے ذریعہ امتحان دیا اور پاس کر کے انٹرویو میں پیش ہوا۔ پانچ لوگوں پر مشتمل سلیکشن بورڈ تھا اور میں ان کے سامنے بالکل چپ تھا کیونکہ مجھے پتا تھا یہ سب خانہ پرُی کر رہے ہیں۔ دل اٹھ چکا تھا مگر یہ سارا عمل رائیگاں سے گزرنے کا اس لئے سوچا کہ ٹیکسی چلا چلا کر ڈرائیو بننے والے مائنڈ سیٹ اور فریم ورک سے ایک دن کو نکل کر یہی محسوس کر لوں کہ میں ایک قابل انسان بھی ہوں۔
بورڈ والے آئی ٹی کے متعلقہ سوالات کر چکے تو مجھ سے پوچھنے لگے اس کے علاوہ آپ کی کوئی hobby یا کوئی ایسا کام جو آپ کو لگتا ہو کہ آپ منفرد کرتے ہیں؟ میں پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا میں نے اپنے بارے آج تک کی اپنی اچیومنٹس بارے تفصیل سے بتانا شروع کر دیا۔ میں پندرہ منٹ لگاتار بولتا رہا وہ سنتے رہے۔ جب سب کچھ بول چکا تو مجھے کہا گیا آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔
سن 2019 اپریل سے میں اقوام متحدہ سے بطور میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کنسلٹنٹ منسلک ہو گیا ۔ یہ بھی ایک الگ قصہ ہے کہ 2019 کی عید سے قبل مجھے کال آئی اور یو این سے آفر ہوئی۔ عید کے فوری بعد مجھے منسٹری آف کامرس سے جاب کا لیٹر موصول ہو گیا۔ یہ بھی فیڈرل گریڈ انیس کی تین سالہ کانٹریکٹ جاب تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بیوروکریسی میں کنٹریکٹ پر بابو بنے بیٹھے رہنے سے اچھا کہ قوام متحدہ کی آفر قبول کر لوں۔ اس میں سفر ہے، فوٹوگرافی ہے، ریسرچ ورک اور لکھنے کا کام ہے۔ سن 2020 کے دسمبر میں مجھے ورلڈ بینک کی کنسلٹنسی بھی مل گئی۔۔اور آج میں یو این میں کمیونیکیشن آفیسر کی پوسٹ پر مستقل ہو چکا ہوں۔
آپ نے اتنا لمبا مضمون پڑھا شکریہ آپ سب کا۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ وقت آتا ہے گزر جاتا ہے۔ انبیاء سے اس زمین نے وفا نہیں کی۔ خدا ان پر آزمائشیں ڈالتا رہا۔ یہ آزمائشیں بھی ایک نعمت ہوتی ہیں۔ حوصلہ شرط ہے۔ میں بہت برے حالات میں بھی مسکراتا اور آپ سب کو ہنساتا رہا ہوں۔ انسان اگر حالات سے ٹوٹ جائے تو وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ مرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔ لہذا کوشش جاری رکھو۔
جس دن میں سڈنی اوپرا ہاؤس کے سامنے کھڑا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا تو یہی سوچ رہا تھا کہ نیشنل جیوگرافک کے میگزین میں اس کو پہلی بار دیکھنے سے لیکر آج کے بیچ میں کیسی چکی سے پِسا ہوں اور اب جب سب کچھ ہے۔ مہنگے ترین کیمرے و لینزز، ورلڈ برانڈڈ لباس و جوتے، ڈالرز میں ملتی پرکشش تنخواہ و کنسلٹنسی کے چارجز، اب جب نہ دھن کی پرواہ ہے نہ کچن کی تو یہ اوپرا ہاؤس اتنا بے کشش سا کیوں لگ رہا ہے ؟
اس لینڈ مارک کو دنیا میں سب سے زیادہ شُوٹ کیا گیا ہے۔ میں ایسا نیا کیا کر لوں گا ؟ اور میں کیوں کروں یہ سب ؟ ۔ اس دن میں بنا تصویر لیے واپس ہوٹل لوٹ گیا۔ اگلی صبح میں نے سوچا کہ آ گیا ہوں تو اب کیا حرج ہے۔ جو بِیتا سو بِیتا۔ یہی زندگی ہے۔ آگے دیکھو۔ پیچھے تو بس دھول مٹی کا سفر ہے جیسے لاری کچے راستے سے گزر کر اپنے پیچھے گرد و غبار کا طوفان چھوڑ جاتی ہے۔ یہ کچھ تصاویر اوپرا ہاؤس کی پیش ہیں۔ آج ویسے بھی ورلڈ فوٹوگرافی ڈے ہے۔ آپ سب خوش رہیں۔