حاجی انعام الٰہی کا شمار ایسے سرکردہ کاروباری افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی تنگدستی اور نامساعد حالات میں 16 سال کی عمر میں گھر سے ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر بغیر کسی سہارے کے کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، ماں کی بے پناہ دعاؤں اور کاروباری دیانت کی وجہ سے آج ان کا شمار ملک کے مخیراور کامیاب کاروباری افراد میں ہوتا ہے جو اپنی دولت کو تجوریوں میں بند کرنے کے بجائے دکھی انسانوں کی بہبود اور غریب بچوں بچیوں کی تعلیم پر خرچ کرنا زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔ حاجی صاحب سے گھر کا کوئی فرد نفلی حج یا عمرے کی فرمائش کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میرے ہمراہ غریب بستیوں میں چل کر ہر روز حج اور عمرہ کی سعادت اور اجر حاصل کریں۔ یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ وطن میں مفلوک الحال بھائی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں اور ہم سالانہ 70 ارب روپے نفلی حج اور بار بار عمرے پر صرف کر دیں۔ ایک ضرورت مند کی حاجت روائی کرنا سال بھر کے اعتکا ف اور عبادت سے افضل ہے۔
آپ 1927 میں چنیوٹ شہر میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی شفقت پدری سے محروم ہو جانے کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے کاروبار کے لیے کلکتہ کا رخ کیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جب وہاں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو آگرہ کا قصد کیا۔ پھر 1947 میں جب پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا تو آپ براستہ ممبئی کراچی آ گئے جہاں بے سروسامانی کے عالم میں ہارڈویئر کا کاروبار شروع کیا۔ امانت، دیانت اور محنت کے بدلے اللہ تعالیٰ نے اس کاروبار میں بے حد برکت ڈالی۔ پھر آپ 1953 میں لاہور منتقل ہو گئے اور آج تک اسی شہر میں آپ کی صبح و شام بسر ہوتی ہیں۔ اب آپ کا شمار نہ صرف ملک کے قابل ذکر بزنس مینوں میں ہوتا ہے، بلکہ آپ کے دل میں خدمت انسانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ کے بقول میں ان دنوں بہت تنگدست تھا جب زکوٰۃ نہیں دیتا تھا، بینکوں سے سود پر قرض لے کر کاروبار کو وسعت دینے کی جستجو کرتا تھا لیکن جب سے سچے دل سے توبہ کی، کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ جب روپے پیسے کی ریل پیل ہوئی تو آپ نے قرآن پاک کی ان آیات پر عمل شروع کر دیا جن کا ترجمہ ہے:‘‘جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دو۔ ضرورت مندوں کو لوٹا دو۔ دنیا کی دولت ناپائیدار ، کھیل، تماشا، فریب اور متاع قلیل ہے۔ دنیا کے طلبگار کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ مال میں بخل کرنے والا دوزخی ہے۔ مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے۔’’
آپ کے بقول زندگی میں یہ انقلاب ماں کی بے حدو حساب دعاؤں اور محبت بھری نصیحتوں کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی کتاب تفہیم القرآن پڑھ کر آیا۔ آج جبکہ آپ 82 سال کے ہو چکے ہیں، اپنے اسی نظریے پر سختی سے قائم و دائم ہیں۔ آپ نہ صرف حجاز ہسپتال کے بانی صدر ہیں، بلکہ فاؤنٹین ہاؤس، انجمن حمایت اسلام، پاکستان سوسائٹی برائے بحالی معذوراں، اسحاق ہارون ہسپتال، انجمن بہبود مریضاں، پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی، شالامار ہسپتال، لاہور بزنس مین ایسوسی ایشن برائے بحالی معذوراں، چوہدری رحمت علی میموریل ٹرسٹ ہسپتال، پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی برائے نادار طلبا، گورنمنٹ ڈاکٹر مقبول احمد میموریل ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال، ٹرسٹ سکول ٹھوکر نیاز بیگ اور انجمن چنیوٹ بیت المال کے حوالے سے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ سخاوت کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف اپنی تمام منقولہ جائداد حجاز ہسپتال کے لیے وقف کر رکھی ہے، بلکہ ڈیفنس لاہور کے جس گھر میں آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ان دنوں رہایش پذیر ہیں وہ بھی حجاز ہسپتال کے لیے وقف ہے۔ آپ کے بقول وہ مخیر اور دولت مند حضرات جو ہر سال حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے ارض مقدس جانے کا قصد کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو بنیادی ضرورتوں سے محروم انسانوں کی کفالت اور غربت کی چکی میں پسنے والوں کی مالی سرپرستی پر خرچ کریں۔ اللہ کے ہاں ان کا یہ عمل حج سے زیادہ افضل ہو گا۔ دولت و ثروت میں کھیلنے والے بزنس مین لاکھوں مل جائیں گے لیکن دکھی انسانیت کے لیے حاجی انعام الٰہی اثر کے دل میں جتنا درد ہے وہ شاید کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ انھیں خوبیوں کی بدولت شہید پاکستان اور مجدد طب حکیم محمد سعید نے آپ کو دور حاضر کے ابو ذر غفاری کا خطاب عطا فرمایا۔ آئیے جد و جہد سے لبریز کامیاب زندگی کی کہانی ان کی اپنی زبانی پڑھتے ہیں۔
میں 1927 میں چنیوٹ شہر میں پیدا ہوا۔ میرے آباؤ اجداد چنیوٹ شہر کے رہنے والے تھے۔ جہاں ان کی زرعی اراضی تھی لیکن کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ میرے دادا اور پڑدادا لاہور میں کچے چمڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ یہ انیسویں صدی عیسوی کی بات ہے۔ کچے چمڑے کے کاروبار میں ہمارے آباؤ اجداد کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمان بدبو کی وجہ سے اس کاروبار کی طرف راغب نہیں تھے جبکہ ہندو گاؤماتا کی وجہ سے اس کاروبار کے قریب نہ پھٹکتے۔ چنیوٹ برادری کے زیادہ تر لوگ چونکہ کاروبار سے وابستہ تھے اس لیے میرے دادا اور پڑدادا ابتدا میں پرانے شہر کی فصیل کے اندر بعد ازاں فصیل کے باہر محلہ شاہ محمد غوث میں کاروبار کرنے لگے۔ دیہات سے جانوروں کی جو کھالیں خرید کر لائی جاتیں انہیں نمک لگا کر دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کر دیا جاتا۔ دراصل انگریز نہیں چاہتے تھے کہ یہاں لیدر کی صنعتیں قائم ہوں۔ حسن اتفاق سے میرے نانا حاجی کرم الٰہی اور پڑدادا حاجی عبد الرحیم سگے بھائی تھے اور کاروبار میں شراکت دار بھی۔ بے شک ان کا کاروبار لاہور میں تھا لیکن فیملی چنیوٹ میں ہی تھی۔
میرے پڑدادا انگریزی دور میں آنریری مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے جبکہ شاہی مسجد (جو شہنشاہ ہند شاہجہان کے وزیر سعد اللہ نے چنیوٹ میں بنوائی تھی) کے متولی بھی تھے۔ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت انتہائی سست اور راستے نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ اپنے منجھلے بیٹے حافظ اللہ بخش کو اپنی دیکھ بھال کے لیے ساتھ لے گئے۔ کراچی سے جدہ تک کا طویل ترین سفر کئی ہفتوں میں طے ہوا۔ اور یہ سفر پڑدادا کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ پھر جب آپ جدہ پہنچے تو ناسازی طبع کی وجہ سے قافلے کے ساتھ سفر کرنا آپ کے لیے محال ہو گیا۔ اس نازک وقت میں ان کے بیٹے حافظ اللہ بخش نے اولاد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب پڑدادا واپس آ رہے تھے تو بحری جہاز میں ہی علالت کے باعث ان کا انتقال ہو گیا۔ سفر چونکہ طویل تھا اس لیے ان کی میت کو کراچی تک لانا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ حسب دستور انھیں لکڑی کے تخت پر لٹا کر سمندر کی تہہ میں پہنچا دیا گیا۔ پھر میرے دادا بھی 1908 میں فوت ہو گئے۔ والد میاں محبوب الٰہی جو زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے انھوں نے عزیزوں کی ترغیب پر انارکلی میں ، لاہور میں جوتوں کی دکان ‘‘کلکتہ بوٹ ہاؤس’’ کے نام سے کھول لی۔ دادا کا میرے والد کی پیدایش سے چھ ماہ قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔
میں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے کیا اور میٹرک کے بعد تعلیم اس لیے حاصل نہ کر سکا کہ ان دنوں چنیوٹ میں کالج نہیں تھا۔ چونکہ برادری کے بیشتر لوگ چنیوٹ سے باہر دور دراز علاقوں میں کاروبار کرنے میں اپنی الگ شناخت رکھتے تھے اس لیے جب میری عمر 16 سال ہوئی تو دور کے ایک رشتے دار کی ترغیب پر مجھے چنیوٹ چھوڑ کر کلکتہ جانا پڑا۔ وہاں چونکہ میرا کوئی جان پہچان والا نہ تھا، اس لیے کسی سہارے کے بغیر ہی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ابتدا میں فٹ پاتھ پر رکھ کر لیدر فروخت کیا کرتا تھا جس سے بمشکل سو روپے ماہانہ آمدن ہو جاتی۔ چونکہ لیدر منڈی نماز عصر کے بعد بند ہو جاتی تھی، اس لیے باقی وقت کاروبار میں صرف کرنے کے لیے میں نے دہلی سے ‘‘گولڈن چمڑا’’ منگوا نا شروع کر دیا۔ ‘‘گولڈن چمڑا’’ عورتوں کے سینڈل بنانے کے کام آتا تھا۔ پہلے فیکٹریوں اورکارخانوں سے آرڈر وصول کرتا، پھر انھیں فراہم کرتا۔ کلکتہ میں ہم ایک کمرے میں تین چار افراد اکٹھے رہایش پذیر تھے۔ چونکہ قیام گاہ سے دکان چار میل کے فاصلے پر تھی، اس لیے صبح سویرے ٹرام پر وہاں جانا پڑتا۔ پیسے بچانے کے لیے کبھی کبھار یہ سفر پیدل بھی طے کر لیتا۔ ان دنوں وہاں ناریل کی شراب اور پان بیڑی کے استعمال کا عام رواج تھا، لیکن ماں کی اس نصیحت اور تربیت نے پردیس میں بھی برائی سے بچائے رکھا: ‘‘بے شک برائی سے بچنا ہی انسانی عظمت کی دلیل ہے۔ برائی سے بچنے والوں کو اللہ بھی پسند فرماتا ہے۔’’
ماں کی نصیحتوں کو پلے باندھ کر میں زندگی کے سفر میں مشکلات سے لڑتا، جھگڑتا آگے بڑھتا چلا گیا۔ جب کاروباری فضا کلکتہ میں زیادہ فائدہ مند محسوس نہ ہوئی تو آگرہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس لمحے ادھار میں پھنسی ہوئی بیشتر رقم واپس نہ مل سکی۔ آگرہ میں بھی لیدر کا کاروبار شروع کیا۔ ابھی یہاں قیام کو صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا تھا کہ حصول پاکستان کی تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ پھر جب قائداعظم کی قیادت میں پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تو حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے آگرہ میں موجود چنیوٹ برادری کے سرکردہ افراد نے ہندوستان کو خیر باد کہہ کر ممبئی (سابق بمبئی) کے راستے کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا اور اس مقصد کے لیے ممبئی میں ہی مہاجرین کا ایک کیمپ قائم کیا گیا جہاں والدہ اور بہنوں سمیت دو دن قیام پذیر رہا۔ چونکہ سارے پیسے کاروبار میں پھنسے ہوئے تھے اورکہیں سے پیسوں کی واپسی کی فوری امید نہ تھی، اس لیے ممبئی سے کراچی بذریعہ بحری جہاز رخصت ہوتے وقت میری جیب خالی تھی۔ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے ممبئی سے چلتے وقت لائف بوائے صابن کی ایک پیٹی 150 روپے میں خرید کر ساتھ رکھ لی جو کراچی پہنچ کر 500 روپے میں فروخت ہو گئی۔ یہی پانچ سو روپے اس وقت میرا قیمتی اثاثہ تھے۔ چند دن کراچی میں ایک عزیزکے ہاں گزارے، پھر ہوٹل کے ایک کمرے میں جس کا روزانہ کرایہ پانچ روپے تھا، رہایش اختیار کر لی۔ والدہ اور بہنوں کو چنیوٹ واپس بھیج دیا۔ کراچی میں ہی دوسرے ملکوں سے کپڑا منگوانے والے کئی افراد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کپڑا ادھار لے کر دکانوں پر سپلائی کر دیتا۔ اس سے جو منافع ملتا اس کو جمع کرتا رہا، پھر وہ وقت بھی آ پہنچا جب میں نے ایوان صنعت و تجارت کے دفتر میں ایک کمرہ الاٹ کروا کر وہاں ہارڈویئر کے کاروبار کا آغاز کر دیا۔
انھیں دنوں میری زندگی میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی میں بہت دور رس اثرات مرتب کیے۔ ایک ہندو تیرتھ رام سخت مشکلات کا شکار تھا۔ ایک عظیم الشان عمارت کی بالائی منزل پر اس کی فیملی رہایش پذیر تھی جبکہ سامان سے بھری بہت بڑی دکان بھی اس کی ملکیت تھی۔ کرفیو کے دوران وہ ہندو بالائی منزل سے نیچے اترتا تھا۔ اس نے اشارے سے مجھ سے کہا کہ اسے کھانے پکانے کے لیے کوئلہ چاہیے۔ مجھے اس پر ترس آ گیا۔ میں نے کوئلے کا اہتمام کرکے اسے پہنچا دیا۔ میری اس خدمت پر وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے معقول کمیشن پر دکان کا سارا سامان بھارت کے شہر امرتسر پہنچانے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دی اور خود فیملی کو بحفاظت لے کر بھارت چلا گیا۔ اس لمحے جبکہ تیرتھ رام وہاں موجود نہیں تھا، کئی جاننے والوں نے مجھے یہ سامان ہڑپ کر جانے کی ترغیب دی کیونکہ یہ وہ دن تھے جب بھارت سے ہجرت کرنے والے اور پاکستان منتقل ہونے والے مکانات اور سامان پر یا تو مقامی لوگ قبضہ کر لیتے یا وہ ہجرت کر کے آنے والوں کے سپرد کر دیے جاتے۔ اس سامان پر قبضہ کرنا میرے لیے نہایت آسان تھا اور میں ان دنوں تنگدست بھی تھا، لیکن ضمیر نے اس لیے ایسا نہ کرنے دیا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کے وقت کافروں کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری انتہائی خطرناک حالات میں بھی نبھائی تھی۔ میں نے چند دنوں بعد دکان میں رکھا ہوا سارا مال پیک کروا کے امرتسر کے لیے بک کروا دیا۔ ابھی وہ مال واہگہ سرحد کراس نہ کر پایا تھا کہ سرحد بند ہو گئی۔ میں نے پھر وہ مال واپس منگوا کر ممبئی کے راستے امرتسر بذریعہ بحری جہاز اور ریل پہنچا دیا جس پر تیرتھ رام نے حسب وعدہ مجھے معقول رقم بطور کمیشن ادا کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس ایمان داری کا صلہ مجھے اس طرح دیا کہ آگرہ کی نیوی شوکمپنی کا منیجر مجھے اچانک ملا جو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے کراچی آیا تھا۔ جن دنوں میں آگرہ میں لیدر کا کاروبار کرتا تھا اس فرم کے ذمے میری بہت بڑی رقم واجب الادا تھی، جو ہجرت کے وقت نہ مل سکی۔ چنانچہ جب یہ رقم مجھے واپس مل گئی تو میں ہزار پتی ہو گیا۔ اس وقت میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا کہ خیانت کرنے والا بدحال اور مضطرب ہی رہتا ہے جبکہ حلال روزی کمانے والا کامیاب و کامران ہوتا ہے۔
ایوان صنعت وتجارت کے دفتر میں میرا کاروبار خوب چمکنے لگا۔ اس کے ساتھ ہم نے ایک اقتصادی جریدہ ‘‘پاکستان مارکیٹ’’ نکالنا شروع کر دیا۔ مجھے اس رسالے کا سب ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ میں ہارڈویئر ایسوسی ایشن کا بانی تھا، پانچ مرتبہ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہا۔مطالعے کا مجھے بچپن سے ہی شوق تھا بلکہ سکول سے جاری ہونے والے رسالے کا میں نہ صرف ایڈیٹر رہا بلکہ مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ کتابت کا فریضہ بھی میرے ہی سپرد تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دوسروں کی نسبت بہت خوش خط لکھتا تھا۔ ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے دیگر اسلامی کتب و رسائل کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی کتاب تفہیم القرآن بہت اہتمام سے پڑھتا۔ اس کتاب نے میرے ذہن و دل میں انقلاب برپا کر دیا۔ میں نے ناپ تول میں کمی، جعلی مارکوں اور غلط بیانی سے ہمیشہ توبہ کر لی۔ پہلے زکوٰۃ نہیں دیتا تھا، وہ دینا شروع کر دی۔ بینکوں سے سود پر قرض لینا بند کر دیا۔ اللہ نے اس وجہ سے بے پناہ برکت سے نوازا۔ لاہور سے شائع ہونے والا میگزین ‘‘نقوش’’ اور ادب لطیف اور مولوی عبد الحق کا رسالہ ‘‘قومی زبان’’ اکثر میرے زیر مطالعہ رہتے۔ راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے مضامین مجھے بے حد پسند تھے۔ جبکہ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کی تحریروں کو میں اس لیے ناپسند کرتا تھا کہ ان میں بے حیائی اور لچر پن کا عنصر غالب تھا۔ سکول کے زمانے میں عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریر سننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ تقریر نماز عشا کے بعد شروع ہوتی اور نماز فجر تک تمام رات جاری رہتی۔ ان کی تقریر اتنی دلنشین اور پر تاثیر ہوتی کہ رات کے کسی پہر شاید ہی کوئی اٹھ کر محفل سے گیا ہو۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مصیبت و آلام اورتفکرات سے مبرا ہو اور نہ احساس غم سے کوئی ذی روح پاک ہے، البتہ شاذ و نادر ہی کوئی خوش بخت ایسا نظر آئے گا جو شکرانے کی نعمتوں سے مالا مال ہو اور جسے احساس غم نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ ماں کی دعاؤں کا اثر ہے کہ اس بندۂ ناچیز کو قدرت نے غیر مترقبہ نعمتوں سے مالا مال کیا اور کبھی غم کا احساس نہیں ہوا۔ انسانی زندگی چونکہ ماں جیسے عظیم رشتے کے ارد گرد ہی گھومتی ہے اور جتنی قربت بچے کو ماں سے حاصل ہوتی ہے اتنی کسی اور شے سے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی باتیں اور تربیت ساری زندگی انسان کا احاطہ کیے رکھتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لڑکپن کے زمانے میں صبح نیند بہت مزے کی آتی تھی۔ دوپہر کو جب سکول سے گھر واپس آتا تو چارپائی پر لیٹتے ہی سو جاتا۔ اسی سستی کی وجہ سے بچپن میں کئی بار ظہر اور فجر ادا ہونے سے رہ جاتیں۔ بے شک ماں مجھے بہت پیار کرتی تھی لیکن وہ یہ گوارا نہ کرتی کہ میں چارپائی پر سکون سے لیٹا رہوں اور نماز کا وقت نکل جائے۔ چنانچہ غنودگی کو دور کرنے کے لیے ماں اکثر پانی کے چھینٹے اس وقت میرے چہرے پر مارتیں جب میں گہری نیند سو رہا ہوتا۔ وقتی طور پر تو ماں کا یہ عمل مجھے ناگوار گزرتا لیکن پابندئ نماز کی عادت اب اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ گزشتہ 60 سال سے شاید ہی کوئی نماز قضا ہوئی ہو یا آداب سحرگاہی سے محروم رہا ہوں۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ تہجد گزاری کی عادت اب اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ کبھی رات دیر سے سونے کی وجہ سے غفلت ہو بھی جائے تونہایت محبت سے مجھے کوئی بیدار کر دیتا ہے۔ اس لمحے مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لوری سنا رہا ہو یا کوئی محبت بھرا نغمہ الاپ رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس لمحے بستر چھوڑنے میں مجھے کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ کردار سازی کے حوالے سے میری زندگی میں کچھ ایسے پرکشش لمحات بھی آئے جب بحیثیت انسان میں شرافت، پاکیزگی اور طہارت کی حدیں عبور کر سکتا تھا لیکن ماں کی دعاؤں اور اس کی بہترین تربیت کی بدولت زندگی بھر ایسی خرافات سے محفوظ رہا۔ یہاں دو واقعات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو نوجوان نسل کے لیے بھی قابل تقلید ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب عنفوان شباب کے دوران 1965 میں کاروباری سلسلہ میں مجھے دو ماہ انگلینڈ میں گزارنے پڑے۔ وہاں میں جس کرایے کے مکان میں قیام پذیر تھا وہاں ایک نوجوان، حسین اور دلکشی کا جادو اپنے دامن میں لیے ایک نرس بھی رہایش پذیر تھی۔ اس نے میری ذات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ میری قربت حاصل کرے، لیکن آزمایش کے ان لمحات میں والدہ کی تربیت آڑے آئی۔ بقول علامہ اقبال: نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحرگاہی
پھر 1969 ء اور 1970 ء میں مجھے جاپان میں بھی طویل قیام کرنا پڑا۔ چونکہ جاپان میں، میں بالکل اجنبی تھا اور مقامی زبان سے بھی آشنائی حاصل نہ تھا، اس لیے ترجمانی کے لیے میں نے یونیورسٹی کی ایک جاپانی طالبہ کو بطور سیکرٹری رکھ لیا۔ وہ صبح سے شام تک میرے ہمراہ رہتی۔ قدرت نے اسے دلکشی اور خوبصورتی خوب عطا کر رکھی تھی۔ بارہا اس نے مجھے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ بسیار کوششوں کے باوجود جب وہ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل میں ناکام رہی تو اس نے مجھے بے ذوق کے لقب سے پکارا۔ حالانکہ میں اس کی طرف ہمیشہ بے اعتنائی برتتا، لیکن ایک جمعہ کے دن یوں محسوس ہوا کہ مجھے وہ اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائے گی۔ عین اسی وقت مولانا مقیت احمد (جو مشرقی پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر تھے) کا فون آ گیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ نماز جمعہ میں ان کے ساتھ ادا کروں۔ سو اس طرح اس خوبصورت اور پرکشش جاپانی سیکرٹری کے جنسی چنگل سے رہائی پا کر میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا ۔ زندگی بھر شراب اور جوئے سمیت گناہ کبیرہ سے رب العالمین نے ماں کی دعاؤں سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔
بہر کیف جوں جوں ہارڈویئر کے کاروبار میں میرے قدم پختہ ہوتے گئے، میں نے کراچی سے نکل کر دوسرے شہروں میں بھی کاروبار پھیلانے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے میں نے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کا تفصیلی دورہ کیا اور وہاں باقاعدہ اپنی دکانیں قائم کر کے ملازمین بٹھا دیے۔ اگرچہ کراچی میں کاروبار کامیابی سے چل رہا تھا لیکن طبیعت کے میلان نے لاہور کا رخ کیا۔ یہاں آنے کی ایک وجہ اچھا موسم اور خوشگوار ماحول تھا جبکہ دوسری وجہ لاہور کا چنیوٹ سے نزدیک ہونا بھی تھا۔ چنانچہ 1953 ء میں سرکلر روڈ اڈا کراؤن بس کے نزدیک دکان پر ہارڈویئر کا کاروبار شروع کیا۔ دوسری جانب بہنوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی شادیوں کے فریضے بھی بہ احسن انجام دیے۔ ماں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کاروبار کو میری ذاتی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے اس لیے ماں نے مجھے گھریلو ذمہ داریوں سے ہمیشہ دور ہی رکھا۔1959ء میں جب میرے کاروبار کے حالات اچھے نہ تھے، ماں نے حج کی خواہش کا اظہار کیا۔ اگرچہ مالی طور پر میں اس قابل نہیں تھا مگر ماں کی آرزو کو ٹھکرا نہ سکا اور کاروبار بند کر کے خود بھی ماں کے ساتھ حج پر روانہ ہو گیا۔ حج سے واپسی پر ماں نے نصیحت فرمائی کہ ‘‘کاروبار میں کامیابی کے لیے دین کا شیدائی بن جا، اللہ تعالیٰ بہت برکت دے گا۔’’
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ چنیوٹ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائشی تاجر ہوتا ہے۔ یہ خوبی اس کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے۔ چنیوٹ سے ہی تعلق رکھنے والے کئی نوجوان انجینئر ، ڈاکٹر، چارٹرڈ اکاونٹنٹ بنے، لیکن چند سال ملازمت کے بعد انھیں ایک بار پھر کاروبار کی طرف لوٹنا پڑا۔ شاید قدرت نے چنیوٹ کے ہر بچے کے خون میں کاروباری سمجھ بوجھ پیدا کر رکھی ہے۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس وقت بھی پورے ملک کو برآمدات سے جتنا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے اس کا 15 فیصد صرف چنیوٹ کے لوگ اپنی کاوشوں سے فراہم کرتے ہیں جو ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔
1949 ء میں ہی میری شادی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں میں اکرام الٰہی، انجم نعیم اور فرخ ندیم شامل ہیں۔ اکرام الٰہی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور، انجم نعیم نے کراچی اور فرخ ندیم نے راولپنڈی میں کاروبار سنبھال رکھا ہے۔ اپنی محنت اور جانفشانی سے لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔ اب تو خدا کے فضل سے میرے پوتے، نواسوں کے گھروں میں بھی اولاد کھیل رہی ہے۔ پھر بھی ماں بہت یاد آتی ہے۔ ان کی نصیحتیں اور محبت بھری باتیں ہر وقت دامن گیر رہتی ہیں۔ بچپن کا ایک واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے جب میرے نانا سخت بیمار تھے بلکہ نیم بے ہوش تھے۔ اس حالت میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ میں نے انعام الٰہی کو ایک بہت بڑے باغ میں دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بہت عزت اور دولت دی ہے۔ حقیقی زندگی میں نانا کی وہ دعا حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔
1968 ء میں میری زندگی نے ایک اور کروٹ لی۔ ذہنی میلان خدمت انسانی کی طرف راغب ہوا۔ میں نے ہمت کر کے 3600 گز زمین گلبرگ میں خریدی۔ گھر اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ پھر یہیں ڈسپنسری کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ وسیلہ پیدا کرتا رہا اور مخیر دوستوں کے ہاتھ بٹانے سے یہ ڈسپنسری حجاز ہسپتال کا روپ دھارتی چلی گئی۔ آج یہاں ہر ماہ ہزاروں مریض شفایاب ہوتے ہیں۔ یہ واحد ہسپتال ہے جہاں کثیر تعداد میں بوجہ اعتماد ہر شعبے کے نامور معالجین بلا معاوضہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر خواجہ صادق حسین (سابق پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج)، ڈاکٹر محمد احسان (ماہر امراض سینہ، گلاب دیوی ہسپتال)، پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک (ذیابیطس) اور پروفیسر عاطف حسنین کاظمی (ماہر امراض جلد) شامل ہیں۔
میرا یہ ایمان ہے کہ میرا مشن او رمقصد عہدے یا اداروں کی صدارت حاصل کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ جو لطف عہدوں کے بغیر خلق خدا کی خدمت کا ہے اس کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مجھے ادارے یا انجمن کا صدر بنانے کی کوشش کرتا ہے تو ایسی خواہش رکھنے والے احباب سے میں برملا کہتا ہوں کہ میں سرپرست یا صدر کے عہدے کی بجائے نائب قاصد کا عہدہ اپنے لیے زیادہ بہتر تصور کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ روز محشر عہدے نہیں بلکہ خلق خدا کی بہتری کے حوالے سے خدمات دیکھے گا۔ اپنے حوالے سے میں یہ لکھنا مناسب نہیں سمجھتا کہ میں کتنے اداروں اور انجمنوں کا سرپرست اور صدر ہوں،لیکن صرف اس نقطۂ نظر سے لکھ رہا ہوں تاکہ مزید لوگوں کو خدمت انسانی کے حوالے سے ترغیب دی جا سکے، وہ یہ دیکھ کر اس اہم شعبے کی طرف راغب ہو جائیں کہ ایک شخص جو بہت دولت مند بھی نہیں ہے، فیکٹریاں اور کارخانے بھی اس کی ملکیت نہیں ہیں، وہ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے کے بجائے ممکن حد تک اپنا سب کچھ ان غریب، بے بس اور بے سہارا لوگوں پر نچھاور کر رہا ہے جو حاصل ہونے والی آمدنی سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے، علاج و معالجہ تو دور کی بات ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ حجاز ہسپتال کے دروازے کی سٹرھیوں پر جب میں قدم رکھتا ہوں تو ہسپتال کا وہ برآمدہ جو مریضوں کی انتظار گاہ ہے، وہاں علاج معالجے کے لیے آنے والے بوڑھے مرد، غریب عورتیں اور بیمار بچے بڑی تعداد میں محبت سے مجھے گھیر لیتے ہیں اور ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں جن کے چہروں پر اطمینان اور خوشیاں دیکھ کر مجھے اپنے دکھ بھول جاتے ہیں۔ اس لمحے میں خدائے بزرگ و برتر کا بے حد شکر کرتا ہوں جس نے مجھے یہ ہسپتال بنانے اور اس میں مزید سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے دوستوں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیابی عطا فرمائی۔ اس وقت خدمت انسانی کی سعادت کے ساتھ ساتھ اطمینان قلب اور ذہنی سکون بھی میسر آتا ہے اور میں غریب اور بیمار لوگوں کی دعاؤں سے بغیر دوا کے شفایاب ہو جاتا ہوں۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری زندگی کے وہ دن بھی بہت کٹھن تھے جب معالجین نے یہ انکشاف کیا کہ میری خوراک کی نالی اور معدہ کے درمیان موجود ریٹرن وال شکستہ ہو چکا ہے۔ سجدہ ریزی سے خوراک کی نالی معدے سے الگ ہونے کا خدشہ ہے۔ میری اس اندرونی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے سجدہ کرنے کی ممانعت کر دی۔ ڈاکٹروں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے میں نے ایک سال سجدہ نہیں کیا۔ پھر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر سجدے کی حالت میں موت آ جائے تو اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں کی نصیحت کے برعکس میں دوران نماز خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ ریز ہونے لگا اور دل سے یہ خوف دور کر دیا کہ سجدہ ریزی سے خوراک کی نالی معدے سے الگ بھی ہو سکتی ہے۔ اس واقعے کو دس سال ہو چکے ہیں۔ خدا کے فضل سے نہ صرف زندہ ہوں بلکہ دن میں پانچ سے بھی زائد مرتبہ پروردگار کے سامنے اہتمام سے جھکتا ہوں۔ نماز پڑھنے اور نیکی کی یہ عادت مجھے میرے والدین سے ورثے میں ملی جس پر میں آج تک الحمد للہ قائم ہوں اور اللہ نے چاہا تو زندگی کی آخری سانس تک قائم رہوں گا۔
اسی طرح ایک مرتبہ میں کچھ رقم لے کر ہسپتال میں جمع کروانے کے لیے آیا۔ میری آمد میں تاخیر ہوئی۔ نماز مغرب کے بعد ہسپتال کا دفتر بند ہو چکا تھا۔ چنانچہ مجھے اسی طرح اپنے گھر لوٹنا پڑا۔ جونہی میری گاڑی اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پہنچی ، تاریکی میں چھپے ہوئے دو ڈاکو اچانک میری گاڑی کے سامنے آ گئے۔ پھر جونہی گاڑی رکی تو ڈاکوؤں نے دروازے کھول کر مجھ تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ حسن اتفاق سے گاڑی کے دونوں دروازے لاک تھے جس کی وجہ سے وہ کھل نہ سکے۔ ناکامی کے بعد انھوں نے شیشے کا نشانہ لے کر مجھ پر فائر کیا جس سے گاڑی کا شیشہ کرچی کرچی ہو کر میرے دامن میں پیوست ہو گیا۔ اس لمحے موت چند لمحوں کے فاصلے پر تھی۔ ڈاکوؤں نے چند اور فائر بھی مجھ پر کیے لیکن میں اس وقت حیران رہ گیا جب ڈاکوؤں کے اور میرے درمیان سٹیل کی پلیٹ خود بخود حائل ہو گئی جس نے گولیوں کو مجھ تک پہنچنے سے روک لیا۔ اس لمحے جب میں نہ تو ڈاکوؤں سے لڑ کر جیت سکتا تھا اور نہ بھاگ کر ہی جان بچا سکتا تھا، ان غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی دعائیں ڈاکوؤں کے عزائم کی راہ میں دیوار بن گئیں۔
میرے تمام اثاثے (رہایش گاہ اور پراپرٹی جہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے میں گزر اوقات کر رہا ہوں) میری موت کے بعد حجاز ہسپتال کی ملکیت میں چلے جائیں گے۔ ایسا میں نے اپنی زندگی میں اس لیے کیا کہ میرے بعد جائیداد پر مقدمات اور تنازعات کی نوبت نہ آئے۔ ویسے بھی میری اولاد کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے مالامال کر رکھا ہے، اس لیے انھیں میرے ورثے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے زیادہ دولت اورعزت عطا کی ہے لیکن ترغیب کے باوجود بہت کم لوگ سماجی اور فلاحی شعبے کی طرف آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کی دعاؤں سے یہ نعمت بطور خاص مجھے عطا کر رکھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے مجھے دلی تسکین محسوس ہوتی ہے۔ کئی لوگ بار بار حج و عمرہ کرنے کو اپنے لیے بڑی سعادت تصور کرتے ہیں۔ سعادت تو یہ واقعی ہے لیکن میرے نقطۂ نظر سے اگر یہی رقم کسی غریب اور مستحق بیمار انسان پر خرچ کر دی جائے تو روز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا یہ عمل زیادہ مقبول ہو گا۔ بے شمار بچیاں غربت کی وجہ سے والدین کی دہلیز پر بوڑھی ہو جاتی ہیں، اگر ایسی بچیوں کے سرپر دست شفقت رکھ دیا جائے تو کتنا ثواب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے مگر اپنی مخلوق کے حقوق معاف نہیں کرتا۔ یہی روح اسلام ہے۔ میری آئیڈیل شخصیات میں حکیم محمد سعید (جنھیں ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کے عوض شہید پاکستان کا لقب مل چکا ہے) بھی شامل ہیں۔ کم سونا، خلق خدا کی خدمت کرنا، نہایت سادہ خوراک اور لباس پہننا حکیم محمد سعید کی وہ عادتیں ہیں جو مجھے بے حد پسند ہیں اور میں ممکن حد تک ان پر عمل بھی کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ وہ لاہور تشریف لائے۔ شیڈول بہت مصروف ہونے کے باوجود انھوں نے کمال مہربانی سے میرے عشائیے میں شرکت کی دعوت قبول کی۔ وہ حقیقت میں مجھے بہت بڑے انسان نظر آئے۔ کراچی واپسی پر انھوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں انھوں نے مجھے ابو ذرغفاری سے مماثلت دی۔ میں سمجھتا ہوں یہ لقب واقعی میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ زندگی کی ساعتیں سمٹی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس لمحے میری ایک ہی آرزو ہے کہ جن افراد کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے خوب نوازا ہے ان کو اپنی تجوریوں کے منہ غریبوں کی مالی سرپرستی کے لیے کھول دینے چاہییں۔ میں چاہتا ہوں کہ جو بچے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے سکول نہیں جا سکے وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کے باوقار شہری بن جائیں۔ اور جو لوگ غربت کی وجہ سے علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم ہیں اور اپنے گھر میں موت کے منتظر ہیں، ان کو علاج معالجے کی باوقار سہولتیں میسر ہوں۔ اس مقصد کے لیے مجھے کسی تنظیم کے سرپرست یا صدر بننے کی خواہش نہیں، بلکہ میں تو نائب قاصد بن کر ہر اس دروازے پر دستک دینے کو تیار ہوں جہاں سے غریبوں کی امداد کے لیے کچھ حاصل ہو سکے۔ انھیں مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں، میں نے ایک ویلفیئر سوسائٹی بنائی ہے جس کے مقاصد میں کوٹھیوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کی کفالت، ان کے حقوق کا تحفظ، مساجد میں ان کے لیے تعلیم کا اہتمام اور بیمار بچوں کی بروقت طبی امداد کا اہتمام بھی شامل ہے۔ بے شک اپنے خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ بنگلوں میں رہنے والے امیر زادوں کو خلق خدا کی خدمت میں متحرک کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ قوت عطا کر رکھی ہے اور زندگی کی آخری سانس تک میں اسی جستجو میں مگن رہوں گا۔
آخر میں ، میں اپنے کاروبار میں ترقی کا راز بھی آپ کوبتاتا چلوں جو قرآن پاک کی مختلف سورتوں کی مندرجہ ذیل آیات پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔‘‘جو تمھاری ضرورت سے زائد ہو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دو۔ ضرورت مندوں میں لٹا دو۔ دنیا کی دولت ناپائیدار ، کھیل تماشا، فریب اور متاع قلیل ہے۔ دنیا کے طلبگار کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ مال میں بخل کرنے والا دوزخی ہے۔ ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے دونوں کا حق ہے۔ جو صرف دنیا کی زندگی کا خواہش مند ہے اس سے تم منہ پھیر لو۔ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے والوں کو دوچند اور جنت کا صلہ ملے گا۔ تمھارا مال اور تمھاری اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے۔ جو مال ہم نے تم کودیا ہے اس میں اس (وقت) سے پیشتر خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو اس وقت کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار، تو نے مجھے تھوڑی مہلت اور کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کر دیتا۔ جو مال ہم نے ان کودیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہراً خرچ کرتے ہیں او رنیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔ جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہے تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اس کے لیے جہنم کو مقرر کر رکھا ہے۔ فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ۔’’
میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جتنا نوازا اس سے کئی گناہ زیادہ آخرت میں نوازے گا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور میری ماں کی بہترین تربیت اور راہنمائی کا نتیجہ ہے جو ہر مشکل میں ہمیں صبر کی تلقین کرتی رہیں اور خود میرے لیے زندگی کی آخری سانس تک دعا گو رہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)
(بشکریہ ،حجاز نیوز لیٹر، جون، 2009)