ابو سفيان اصلاحي صاحب كے حالات زندگي - ايك انٹرويو

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : انٹرویو

شمارہ : ستمبر 2023

ابو سفيان اصلاحی صاحب سے ايك انٹرويو

انٹرويو- محمد صديق بخاری ، مدير ماہنامہ سوئے حرم

سوال- اصلاحی صاحب السلام عليكم – اللہ كا شكر ہے كہ ہم مختلف يونيورسٹيز ميں ہونے والے  آپ كے محاضرات بھی سنتے رہتے ہيں اور آپ كی تصانيف بھی نظر سے گزرتی رہتی ہيں ،اس ليے علمی گفتگو سے صرف نظر كرتے ہوئے آج آپ كی ذاتی زندگی پر بات چيت كر نا مقصود ہے تا كہ اس حوالے سے بھی ايك سنجيدہ طالب علم كو حوصلہ اور انسپر يشن مل سكے كہ علما كی زندگی واقعتاًجہد مسلسل سے عبارت ہوتی ہے – اس سے پہلے كہ ميں كوئی مخصوص سوالات كروں اگر آپ خود ہی اپنا خاندانی تعارف كرواد يں تو مہربانی ہو گی-

جواب-بخاری صاحب بہت شكريہ، ميرا تعلق كسان فيملی سے ہے ، زراعت ہمار ا آبائی پيشہ ہے  ليكن ہمارے پاس اتنی زرعی زمين نہ تھی كہ آسانی سے گزر بسر ہو سكتا -والد صاحب اسی   ميں خوش تھے اور ہميں بھی استغنا كے فضائل سنايا كرتے تھے جبكہ ہمارے بڑے بھائی صاحب كی رائے ان سے ذرا مختلف تھی – وہ چاہتے تھے كہ معاشی خوشحالی كے  ليے ہميں زراعت كے ساتھ ساتھ تجارت پر بھی توجہ دينی چاہيے -چنانچہ اس مقصد كے ليے انہوں نے والد صاحب سے چھپ كر پاسپورٹ بنوايا اور چپكے سے ملائشيا تشريف لے گئے -والد صاحب كو اس كاعلم ہو ا تو وہ آبديدہ ہو گئے  - ظاہر ہے كہ يہ ان كے ليے بڑا دھچكا تھا ليكن بہر حال اب تو پرندہ اڑ چكا تھا-ملائيشيا ميں بھائی صاحب  نے چھوٹا سا ہوٹل بنايا اور كچھ ہی عرصہ بعد ہميں پيسہ بھيجا كہ ہم  سرائے مِیر میں  کپڑے کی دکان بنائيں۔پہلے كرايہ كی دكان تھی اور رفتہ رفتہ ذاتی دكان خريد لی گئی-وقت كے ساتھ ساتھ ہمارا آبائی پيشہ يعنی  زراعت تو پس منظر ميں چلا گيا اور تجارت ہم لوگوں کے ذہنوں پر حاوی ہوگئی۔ ہم لوگ سات بھائی تھے – آٹھ دس سالوں ميں بھائی صاحب نے ہميں اس قابل كر ديا كہ ہم نے بمبئي ميں فيكٹری بنا لی-اللہ كا شكر ہے كہ پھر پيسے كی بارش ہو نے لگی  - اس وقت بھی آٹھ دس ڈسٹركٹ ميں ہمارا كپڑے كا كاروبار ہے- ميری اپنی كپڑے كی چھ سات دكانيں ہيں-الحمدللہ ،اللہ كريم نے بہت عطا كر ركھا ہے -

سوال- اگر ميں يہ كہوں كہ معاشی اعتبار سے سارا كنٹري بيوشن آپ كے بھائی كا ہے تو كيا ميرا يہ كہنا ٹھيك ہو گا؟

جواب-جی بالكل ٹھيك ہو گا- اس حوالے سے ہمارے والد صاحب كا كوئی كنٹری بيوشن  نہيں-اس حوالے سے ميں اپنے بھائی صاحب كی ايك اور خوبی بھی سامنے لانا چاہوں گا وہ يہ كہ سات بھائيوں اور ان كے بچوں كو عيدكے موقع پر جو گفٹ بھيجتے تھے تو سب كے ليے برابر بھيجتے تھے-يہ ممكن ہی نہ تھا كہ اپنے بيٹے كو دو پيسے بھي زيادہ دے ديں-وہ جب بھی ملايشيا سے آتے تو دو بڑے بڑے باکس  ساتھ لاتے تھے۔ دنیا بھر کی چیزيں ان میں بھری ہوتی تھیں۔ وہ باكس لا كر وہ ميرے گھر ميں ايك تخت پر ركھ ديتے  اور چابی والد محترم  کے سپرد کر دیتے تھے۔ پھر والدِ محترم اس کو کھولتے اور بانٹتے تھے۔ تو اس حوالے سے ہمارے بڑے بھائی بھی كو ايك مربی كی حيثيت حاصل ہے – ان سے بھی ہم نے بہت سی اقدار سيكھی ہيں-

سوال- معاشيات كو ايك طرف ركھتے ہوئے  اگر ہم دينی اوراخلاقی تربيت كی بات كريں تواس ميں آپ كے والد صاحب كا كيا رول ہے ؟

جواب-جی اس حوالے سے ان كا غير معمولی رول ہے -نما ز كے حوالے سے وہ بہت حساس تھے اور اس ميں تشدد سے بھی گريز نہيں كرتے تھے –فجر کی اذان وہ اوّل وقت میں دیتے تھے۔ اور ان کی خواہش ہوتی تھی کہ سب لوگ اول وقت میں مسجد میں پہنچ جائیں۔  اگر کوئی نہيں اٹھتا  تھا تو  اس کی چارپائی پلٹ دیتے تھے یا اس پر پانی لا کے ڈال دیتے تھے۔ ہے تو يہ ذرا متشدد رويہ  لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا كہ جب سے میں  نے ہوش سنبھالا ہے چار سواچار  اٹھتا ہوں اور اُسی وقت سے اپنی عبادات ،  تحقیقات اورمطالعے کا آغاز کرديتا ہوں۔ ہمارے محلے كی مسجد ذرا دور تھی – برسات اور سخت سردی ميں وہاں جانے ميں دقت تھی تو والد صاحب نے ميرے گھر كے ساتھ ہی مسجد بنوادی اور اس ميں اہتمام كيا كہ كسی سے كچھ نہ ليا جائے بلكہ ذاتی پيسہ استعمال كيا جائے -ميں نے عرض كيا كہ آپ لوگوں سے مانگيں تو نہ ليكن اگر كوئی اپنی مرضی سے حصہ ڈالنا چاہتا ہے تو اس كو منع نہ كريں – اس طرح اسے بھی اجر مل جائے گا اور آپ كو بھی كہ آپ نے ايك مسلمان كو نيكی ميں حصہ ڈالنے كا موقع فراہم كيا-ميرے كہنے پر وہ مان گئے -ان كی خواہش ہوتی تھی كہ اپنے تمام بچوں  ، پوتوں اور، پوتیوں کولے کر بھی مسجد میں حاضر ہوں۔ مسجد سے واپسی پر عورتوں كی شامت آتی تھی اور بآواز بلند پوچھتے تھے كہ فلاں نے نماز پڑھی كہ نہيں-ہماری بڑی بھابھی پہ تو بعض اوقات اتنا خوف طاری ہوتا تھا کہ بے وضو  ہی نماز كے ليے کھڑي ہو جاتي تھيں- ميں والی بال كا پليئر تھا۔ ہمارا فائنل ميچ تھا اور ميں اس كی تياری ميں مصروف – ابا جان نماز كے ليے مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آ گئے -ميرا رخ دوسری طرف تھا- پیچھے سے ایک  ايسا طمانچہ مجھے  رسید کیا كہ ميرے ہوش ٹھكانے نہ رہے اور ميں وہاں سے بھاگا – نہ ميچ ياد رہا اور نہ كچھ اور-

ميں لكھنئو يونيورسٹی ميں ايم اے كر رہا تھا – چھٹيوں ميں گھر آيا-وہ اپنے كمرے ميں كسی بات پہ ناراض اونچي آواز ميں بول رہے تھے – ميں انہيں كہہ بيٹھا كہ ابا جان ، ذرا یہ بات دھیرے سے کہہ دیجیے۔ فوراً ايك ڈنڈا اٹھايا اور ميرے سر پہ دے مارا- اور كہا كہ تم پڑھ لكھ كے ہم ہميں تہذيب سكھاؤ گے ؟ان كايہ اندا ز آج كے ماحول ميں اجنبی لگتا ہے ليكن بہر حا ل ہم پہ اس كے اثرات آج تك موجود ہيں- او ر ہميں حفظ مراتب كی قدر كا اچھی طرح احساس ہے – ہم لوگ تصور بھی نہيں كر سكتے كہ كسی بڑے كے سامنے اونچی آواز سے بات بھی كريں جبكہ نئی نسل كے ليے يہ كوئی عجيب بات نہيں-

سوال- اچھا ايك ضمني سوال كرنا چاہوں گا كہ قرآن ميں يہ جو آيا ہے كہ والدين كو اُ ف تك نہ كہوتو كيا عربی كا اف اور اردو كا اف معانی و مفہوم كے اعتبار سے  ايك ہی ہے ؟

جواب-جی دونوں ایک ہی ہیں۔ اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔يعنی قرآن  کہنا چاہتا ہے کہ والدین کے جو شدائد  اورسختیاں ہیں، ان كو ہر ممکن حد تک برداشت کیا جائے۔ حدیثِ رسولؐ ہےکہ اگر تمہارے  والدين غير مسلم ہيں تب بھی اُن کے ساتھ وہی شريفانہ برتاؤ کرنا ہوگا جو قرآن کریم نے کہا ہے۔

سوال- اچھا يہ بتائيے كہ سوشل ويلفیر كے حوالے سے آپ كے والد صاحب كا رويہ كيسا تھا؟

جواب- بخاری صاحب يہ بہت اہم سوال كيا آپ نے – اس حوالے سے ہمارے والد صاحب يقيناً بہت ممتاز تھے-گاؤں ميں اگر كسی كے ہاں شادی ہوتی تو وہ فوراً اپنی سائیکل پہ وہاں جاتے تھے  اور کہتے تھے بھائی آپ دودھ مت خریدئے گاجتنے بھی دودھ کی آپ کو ضرورت ہو گی ميں آپ كو پہنچاؤں گا- اور پھر يہ نہيں كہ انہيں كہتے كہ آ كے لے جاؤ بلكہ خود انہيں دودھ فراہم كرتے تھے كيونكہ ہمارے گھر ميں بھينس اور گائے وافر مقدار ميں موجود تھيں- اعظم گڑھ  ايك بڑا علاقہ ہے-دور دور تک اگر کسی کا انتقال ہوجاتا تو میرے والد محترم وہ پہلے شخص ہوتے تھے جو وہاںموجود ہوتے تھے۔غسل اور تجہيز و تكفين كا سارا انتظام خود ہي كرتے تھے

كفن كا كپڑا بھي خود ہي فراہم كرتے اور جب تك مسافر قبر تك نہ پہنچ جاتا گھر واپس نہ آتے -اسي طرح جامع مسجد جو كہ خاصی بڑی تھی وہاں  تقریباً دس بجے  پہنچ جاتے   اور پوری مسجد ميں جھاڑو لگاتے، بڑی بڑی دریاں خود جھاڑتے  ،لوہے كے برش  سے  واش روم ،وضو خانہ اور نالياں صاف كرتے -ہمارے والد صاحب نماز كا دوسرا نام تھے – گاؤں كے لوگ انہيں ديكھتے ہي مسجد كی طرف چل پڑتے تھے-

سوال- آج كل اس طرح كا عمومی ماحول كيو ں پيدا نہيں ہو رہا؟

جواب-معاشرے ميں دينی فضا پيدا كرنے كے ليے يہ ضروری ہے كہ آپ معاشرے كو كيا دے رہے  ہيں-

دينے والے كو ہی ملتا ہے - جب تک ملت اسلامیہ ، پبلک کو، عوام کو دوسری قوموں کو دیتی رہی ہے ، اس  وقت تك اقتدار ان كے پاس تھا۔ جب سے ملتِ اسلامیہ نے علمي ، معاشرتی ، اخلاقی ہر اعتبار سے معاشرے كو  دینا بند کر دیا ہے ، تب سے يہ بھي ہر اعتبار سے كنگال ہو گئے ہيں -پہلے سپين ہاتھ سے نكلاپھر دوسری قوميں اوراب ہماري جھولي ميں حقارت ، ذلت ونكبت كے سوا كچھ نہيں- اگر ہم انفرادي طور پر دينے والے بنيں گے تو انفرادي عزت ملے گي اور اگر اجتماعی طور پر دينے والے بنيں گے تو اجتماعی عزت ملے گی ان شاء اللہ-

سوال- اچھا يہ بتائيں كہ تجارت سے علم كی طرف آپ كا سفر كيسے شروع ہوا؟

جواب-ہم سات بھائی تھے ۔ صرف بڑے بھائی  ہائی سکول  تك پڑھے تھے،باقی سب كی تعليم مكتب تك ہی تھی- ميری توجہ بھی بالکل  پڑھنے کی طرف نہیں تھی ۔ میرے بڑے بھائی  جنہوں نے ہميں معاشی اعتبار سے اسٹرانگ کیا وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ میرے كسی بھائی كو پڑھنا بھی چاہيے -تو ميرا پڑھنا بھی اصل ميں انہيں كا صدقہ جاريہ ہے -ميں جب كاروبار كے سلسلے ميں لكھنو پہنچا تو وہاں چھٹيوں ميں علی گڑھ كے بچے آتے تھے تو ہر طرف   ایک خاص قسم کی تہذیب ، ایک خاص قسم کی رِوایت ، ايك خاص قسم كي زبان او رخاص قسم كا لباس نظر آتا تھا-اور مجھے يہ سب اچھا لگتا تھا-

سوال- تو گويا اچھے لوگوں كااچھا لگنا بھی آپ كو اچھا بنا سكتا ہے –

جواب- جي بالكل – ميرے ساتھ بھی يہی ہوا- ميں ان سے متاثر ہو كر علم كی طرف متوجہ ہوا-علي گڑھ ہم سے كوئی دس گھنٹے كا راستہ ہے – ليكن ميں نے وہاں داخلہ لے ليا-    ماحول كا اثر ہوا تو دھیرے دھیرے گھر سے ، تجارت سے طبيعت بيزار ہو گئي-اللہ كے فضل سے  پی ایچ ڈی بھي ہو گئي- ایک جگہ نکلی وہاں درخواست دے  دي ، اللہ کا  فضلِ خاص ہوا کہ میرا وہاں تقرر ہوگیا۔ مجھے پہلی  تنخواہ تین سو سولہ روپے ملے تھي ۔ وہ میں نے لے جا کے پورے پیسے بھائی کے ہاتھ پہ رکھ دیے۔ خوش تو بہت ہوئے – انہوں نے كہا ، اچھا پیسے لے لیتا ہوں -ليكن  آپ  كو اس ليے نہيں پڑھايا تھا كہ آپ نوكري كرتے پھريں –  پی ایچ ڈی کر کے سیدھے گھر آئیے اور کاروبار دیکھیے آپ۔ دل اور دماغ ميں بہت كشمكش ہوئی اور اس معاملے ميں، ميں بھائی صاحب كی بات نہ مان سكا اور پورے طریقے سے تحقیق اور مطالعے کی طرف  وقف ہوگيا-

سوال- اصلاحی صاحب معذرت كے ساتھ ، آپ نے ہميں براہ راست علي گڑھ تك پہنچا ديا – راستے كی ساري منزليں آپ نے چھوڑ ديں – كچھ ان كے بارے ميں بھی تو بتائيے –

جواب-

اصلاحی صاحب: ميرے گاؤں كا نام طوي  ہے جوسرائے مِیر کے پاس ہے ۔ ہمارے گاؤں میں ایک مکتب تھا جس کا نام محبوبیہ تھاوہيں  ہم نے ناظرہ وغير ہ پڑھا۔ يہاں ایک سال یا ڈیڑھ سال  تعلیم حاصل کی ۔پھر ہم مدرستہ الاصلاح چلے گئے – ميں كہہ سكتا ہوں كہ ميں مكمل اصلاحی ہوں-  پہلی کلاس سے لے کر جو مکتب کے پانچ سال ہیں اورپھر سات سال جو عربی کے درجات ہیں اس کو میں نے  پورا مدرستہ الاصلاح ميں کمپلیٹ کیا ہے۔

سوال- آپ مدرستہ الاصلاحی ميں طالب علمي كے دور كی كچھ ياديں تازہ كرنا چاہيں گے ؟

جواب- جی ضرور ، مدرستہ الاصلاح كے دستر خوان پہ كوئی امتياز  نہيں تھا – طلبا ، اساتذہ سب ايك ہي جگہ اكٹھے كھاتے تھے – حتي كہ ناظم ابوالحسن فراہی بھی اگر آتے تو اسی دستر خوان ميں شريك طعام ہوتے تھے –

وہاں بہت سے اساتذہ اور دفتر كے لوگ بھی رضاكارانہ طور پر كام كرتے تھے -اساتذہ كي كوشش ہوتی تھی كہ اپنا تمام علم طلبا كے   دل ميں  ڈال دیں ، انڈیل دیں۔ مولانا غالب احسن اصلاحی صاحب نے ہمیں قرآن پڑھایا ہے اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ جب وہ قرآن کی  کلاس لینے کے لیے جاتے تھے تو ہمیشہ  وضوکرتے تھے۔ ہر كلاس كے ليے نيا وضو كرتے تھے يہاں تك كہ اگر دو قرآن كلاسز كے پيريڈ متصل بھی ہوں تب بھی- جب ميں نے ان سے پوچھا كہ وضو برقرار ہونے كي صورت ميں بھی آپ وضوكيوں كرتے ہيں تو انہوں نے فرمايا كہ انہيں تشفی نہیں ہوتی – وہ چاہتے ہيں كہ  جب بھی وہ  قرآن کوچھوئيں تو نئے وضو كے ساتھ چھوئيں-

میں نے حسان عارف صاحب سے ایک بار کہا تھا کہ دنیا کے بہت سے مدارس اور جامعات کے فارغین کو میں نے دیکھا ہے لیکن جو صفات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  اور مدرسہ الاصلاح کے جو فارغین اور ابنائے قدیم  ميں ديكھی  ہيں اس كی مثال كہيں اور نہيں ملتی (دارالعلوم ديوبند كو بھی اس ميں شامل كرنا چاہيے تھا-صديق بخاري) وہ اپنے ادارے پر نہ صرف مال بلکہ جان بھی خرچ كرتے  ہیں۔ مثال دینا چاہوں گا ،پچھلے دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں کچھ بننا تھا پیسے کی خاصی کمی آ گئی ۔وائس چانسلر صاحب نے ایک میل لكھی  تو  یورپ میں جو علیگ خواتین بیٹھی ہوئی ہیں،  تو انہوں نے اپنے زیورات  فروخت کر کے بہت سے پیسے یہاں پر بھیج دئیے –

سوال- علی گڑھ يونيورسٹی اور مدرستہ الاصلاح كے علاوہ كوئی اور ايسا تعليمي ادارہ جس نے آپ كو متاثر كيا؟

جواب-تو جناب ہے يہ ہے  لکھنو یونیورسٹی- اس  میں  میرا داخلہ 1981 ميں ہوا-وہاں پہ مجھے بہت سے غير مسلم اساتذہ ملے-دو استاد خاص طور پر قابل ذكر ہيں ايك رستوگی اور دوسرے دوبے صاحب-یہ دونوں ہسٹری کے استاد تھے - وہ کبھی مسلم غیرمسلم طلبا میں فرق  نہیں كرتے تھے۔ سعید احمد ندوی صاحب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب وہ ندوۃ العُلما میں استاذ ہو گئےتو اپنے بیٹے پروفیسر محمد راشد ندوی کو مغرب کے بعد پڑھاتے تھے ۔ جیسا کہ سبھی لوگ پڑھاتے ہیں اپنے بچوں کو ۔ اس پڑھانے کے دوران  ميں ندوے کے چار پانچ طلبا آئے ۔  انہوں نے کہا بچو کیسے آئے ہو؟ مولانا ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اپنے بیٹے کو چھوڑ کر ، اُن بچوں كے  اشکالات حل كيے ، ان کے  سوالات كے جواب ديے- يہ ديكھ كر بيٹا صاحب  ناراض ہوگئے۔ مارے غصے کے گھر میں جا کے بیٹھ گئے۔ جب وہ بچے چلے گئے تو کہنے لگے کہ بھئی آؤ، پڑھ لو۔ انہوں نے کہا میں نہیں پڑھتا آپ سے۔ آپ  مجھے عزیز نہیں رکھتے ، دوسرے  بچے آپ کو زيادہ عزیز ہیں؟ راشد ندوي صاحب نے كہا بيٹا،ندوہ مجھے تنخواہ دیتا ہے تم مجھے تنخواہ نہیں دیتے۔كاش آج بھی اداروں كے ساتھ يہ خلوص اساتذہ ميں پيدا  ہو جائے -

سوال- آپ بات كر رہے تھے لكھنو يونيورسٹي كي وہاں كے كس استادسے آپ سب سے زيادہ متاثر ہيں؟

جواب-

اصلاحی صاحب۔ جي ميں بغير تردد كے كہنا چاہوں گا كہ وہ ہيں رستوگی صاحب ۔رستوگي صاحب مسلم ، غير مسلم سب بچوں كو پڑھاتے تھے – اس ليے ان كاامتحان بہت سخت تھا كہ كيا وہ امتيازي سلوك تو نہيں كرتے-اس حوالے سے وہ بہت ممتاز تھے – وہ اپنے ہر طالب علم سے بغير كسي مذہب و ملت كے برابر كا سلوك كرتے تھے -اس كي اسي تدريسي عظمت كے حوالے سے ميں ان كو اول درجے پہ ركھتا ہوں-

سوال-  مدرسۃ الاصلاح کے حوالے سے کچھ  اور ياديں آپ شیئر كرنا چاہيں گے ؟

اصلاحی صاحب۔ ابو الحسن علی فراہی  ہمارے ناظم تھے - جب ہمارا آخری سال تھا تو ہمیں فئیر ویل دیاگيا-اس ميں انہوں كے ايك ايسي بات كي تھی كہ جو اب تك ميں نے پلے باندھ ركھي ہے – انہوں نے فرمايا تھا كہ مدرستہ الاصلاح كا امتياز قرآن مجيد سے تعلق ہے -انہوں نے كہاتھا كہ بچو تم  کہیں بھی رہو لیکن قرآن کو کسی نہ کسی طریقے سے لوگوں تك پہنچاتے رہنا۔ میری زندگی تقریباً باسٹھ سال کی ہونے جارہی ہے ۔ ان باسٹھ سالوں میں ، کبھی بھی درس قرآن کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ، الحمد للہ۔قرآن سے رشتہ اگر ہمارا مضبوط ہوگا تو میں  چھوٹی موٹی کمی اللہ اس  کتاب کی برکت سے دور كر دے گا۔  امت کا قرآن سے رشتہ كمزو ر نہيں بلكہ ختم ہي ہو كر رہ گيا ہے -مدرسہ كے سارے اساتذہ  بغیر پڑھے ہوئے کبھی نہيں پڑھاتے  تھے۔ وہ لیکچر کی تیاری کرتے تھے، پورے طریقے سے حاوی ہوتے تھے۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا تھا کہ ایک ایک آیت پر اتنے سوالات ہوتے تھے ، كہ پورا ہفتے ايك ہي آيت پر گزر جاتا تھا- جیسے  ’’کانَ اِبراہِیمَ اُمَّتاً قَانِتً ‘‘ ميں ايك لفظ آيا ہے " امت " اب اس كا ترجمہ ہر مترجم نے مختلف كيا ہے - مولانا فراہی نے کہا کہ ايك عرصہ غور كے بعد اللہ نے دل ميں ڈالا كہ يہاں امت كا لفظ مكمل يا ٹوٹل كے معني ميں ہے-يعني ابراہيم عليہ السلام مكمل طور پر اللہ كے فرمانبردار تھے يعني كسي بھي حوالے سے كوئی كمی ان ميں نہ تھی-مولانافراہی نے کہا کہ جب مجھے يہ مفہوم مل گيا تو مجھے ايسی خوشی ہو رہی تھی كہ جيسے كسی كو بادشاہت مل جائے-

سوال- کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدرسۃ الاصلاح  ابھی تک مولانا فراہی کے منہج پر قائم ہے؟

جواب-جي اصل ميں في زمانہ سليبس ميں رياضي اور سائنس وغيرہ  كا تناسب بڑھنے سے  قرآنی تفکر  اور عربی ادب  متاثر ہورہا ہے ۔مولانا فراہي كا كہنا تھا كہ قرآن کو ڈائریکٹلی پڑھو۔ اب يہ چيز كم ہوتي جا رہي ہے – اب تو اساتذہ بھي مولانا امین احسن اصلاحی  كي  تدبر قرآن کو پڑھ كر آگے پڑھا ديتے  ہيں-وہاں جو تدریسِ قرآن ہے وہ قدرے اضمحلال کی طرف  یا یہ کہیے کہ زوال کی طرف جا رہی ہے ۔ کاش کہ ایسا نہ ہوتا –

سوال-  فکرِ فراہی کو جس طرح مولانا اصلاحی نے آگے بڑھایا،  آج کے دور میں ، آپ کی رائے ميں کون صاحب ایسے ہیں ، مولانا اصلاحی کی طرح ،  اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں؟

جواب -دیکھیے جناب،تعصب تو ہر جگہ ہوتا ہے – مقدا ر كا فرق ہوتا ہے بس-مدرسۃ الاصلاح میں بھی ایک   طبقہ ایسا ہے ، جو اس بات كے پرچارك ہيں کہ فکرِ فراہی کا اصل Symbol مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب ہیں۔حالانكہ  مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب نے  خود یہ کہا ہے کہ مَیں تصنیف کا آدمی نہیں ہوںمیں تقریر کا آدمی  ہوں ۔  ان كی چيزيں ميرے نزديك بھي بہت قابل قدر ہيں ليكن امین احسن اصلاحی صاحب کا جو قد  ،وزن اور معيار ہے ، وہ مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب  کے ہاں نہیں مجھے ملتا۔ ہميں بغير تعصب كے اس بات  كا اعتراف کرنا چاہیےکہ اگر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نہ ہوتے تو فکرِ فراہی کی جو ترویج ہوئی ہے وہ شايد نہ ہوتی- فکر فراہی کا اہلِ علم تک پہنچنا تدبرِ قرآن کی دَین ہے۔ اگر تدبرِ قرآن نہ ہوتی تو نہ مستنصر مير ہوتے ، نہ خالد مسعود ، نہ جاويد غامدي اور نہ ہي شہزاد سليم يا حسان عارف-اگر تدبر قرآن نہ ہوتي تو نہ ہي لوگ اس پر پی ايچ ڈی كرتے اور نہ ہی بخاری صاحب آپ كی طرح لوگ ايم فل كے مقالے لكھتے – آپ كا مقالہ "تدبر قرآن كا دعوتي اسلوب" بھي يقيناً  خود تدبر قرآن كي دين ہے - مولانا امین احسن اصلاحی کے  تلمیذِ خاص ، خالد مسعود صاحب نے فکرِ فراہی کو جس طریقے سے سمجھا ہے، مجھے ابھی تك كوئي  ایک اصلاحی بھی نہيں ملا جس نے  اتنے اچھے سلیقے سے فکرِ فراہی کو سمجھا ہو ۔ اگر مولانا اصلاحي نہ ملتے تو ہو سكتا ہے كہ خالد مسعود صاحب  کی زندگی سائنس میں گزر جاتی۔ "حیاتِ رسولِ امُّی  "وجود  ہي میں نہ آتی۔  تو اس طرح فكر فراہي كے ابلاغ ميں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا بہت بڑا کردار ہےجس كا اعتراف کرنا  چاہیے-

سوال- مدرستہ الاصلاح ، ديوبند يا ندوہ سے كس طرح ممتا ز ہے ؟

جواب-  حديث اور فقہ كي جو خدمت ديوبند نے كي ہے اس كا ثاني كوئی اور نہيں-اسي طر ح ندوہ كا امتيا ز عربي زبان و ادب كا فروغ ہے جبكہ شبلي اسے ايك ايسا علمی ادارہ بنانا چاہتے تھے جہاں سے محقق پيدا ہوں-جدید عربی زبان و ادب میں اسلام کا تعارف کروانے کے سلسلے میں ندوۃ العُلما کا Main رول ہےجبكہ  مدرسۃ الاصلاح کا امتیاز یہ ہے کہ اُس اِدارے نے قرآنيات کے عالم پیدا کیے ہیں اور ايسے عالم پيدا كيے ہيں كہ جن كا ثاني كوئی نہيں – جيسے پروفیسر الطاف احمد اعظمی ، مولانا صدرالدین اصلاحی ، مولانا وحید الدین خان کی ، مولانا امين احسن اصلاحی وغيرہ- غامدي صاحب اور ڈاكٹر اسرار صاحب بھی اصل ميں اسي كا تسلسل ہے -تفہیم القرآن  ميں بھي  نظم ِ قرآن اور لفظوں کی تحقیق کے حوالے سے جو رنگ ہے اس ميں  فکر فراہی کے اثرات پوری طرح   موجود ہیں۔

سوال-ہماری اس محفل ميں عارف علوي صاحب ، حسان عارف صاحب اور عبداللہ بخاري صاحب بھي تشريف فرما ہيں -ميں چاہوں گا كہ اگر آ پ ميں سے كوئی سوال پوچھنا چاہے تو ہم حاضر ہيں-

سوال – (علوي صاحب )مدرستہ الاصلاح يا علي گڑھ كے تہذيبي اثرات كيا ہيں؟

جواب-سر سيد نے اپنے  رسالے کا نام  تہذیب الاخلاق کیوں رکھا ؟ وہ بار بار اس بات كو بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے تعلمي ادارہ صرف سکالر ، انجینئر ، سائنٹسٹ پیدا کرنے کے لیے  نہیں بنایا بلكہ تعليم كے ساتھ ساتھ تربيت كے لييي      بہي بنايا ہے – وہ بار بار اس بات پہ زور ديتے ہيں كہ تعلیم اور تربیت ، جب تک دونوں ساتھ ساتھ نہیں ہوں گے تو تعلیم کے جو مقاصد ہیں وہ فوت ہو جائیں گے- سر سید نے بار بار اپنے  مضامین میں لکھا ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کبھی بستر پہ پورے طریقے سے مجھے سو نہيں پايا ۔ صرف ملت کے غم میں۔  اور لکھا ہے کہ کبھی کبھی مستقل کروٹیں بدلتا رہتا تھا کہ میں اپنی قوم کو کس طریقے سے ذلت سے ، حقارت سے ، اس دلدل سے نکالوں ۔ انہوں نے  لکھا  کہ جب مغلیہ حکومت ختم ہوگئی تو اُن کے بچوں کو میں نے  دلی کی سٹرکوں پہ  بلبلاتے ہوئے ، روتے ہوئے ، فاقہ کشی کرتے ہوئے ديكھا ہے۔ میں اپنے اِن بچوں کو تہذیبی اعتبار سے پھر دوبارہ اسٹرانگ کر نا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی تہذیبی قدر  ہے ‘تعلیم‘تعلیم اور تعليم۔ وہ كہا كرتے تھے کہ تعلیم جب ہوگی تو ہم دنیا کے سارے مسائل کا ، دنیا کے سارے غموں کا بآسانی مقابلہ کر سکيں گے۔

سوال- ڈاکٹر صاحب کے آپ کے کتنے بچے ہیں؟

جواب- میرے تین بچے ہیں اور تینوں الحمدللہ معلم ہيں- اللہ کے رسول ﷺ نے جو یہ کہا ہے کہ اَنَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تو ميں سمجھتا ہوں كہ دنیا کا سب سے عظیم پیشہ تعلیم و  تدریس ہے۔ ميري بیٹی  زوالوجی میں پی ایچ ڈی ہے - بيٹا فرحان  کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی ہے۔  دونوں ماشا ء اللہ معلم ہيں -چھوٹا بیٹا  حمزہ سفیان بارہ سال کی ایج میں  مصنف بن گیا تھا۔ بارانِ رحمت کے نام  سے ، اس کی کتاب ہے۔

ميں  چاہوں گا كہ انجينرنگ كر كے وہ بھي معلم بنے-

سوال- اصلاحی صاحب ہم آپ كے بہت شكرگزار ہيں – گزارش ہے كہ آخري كلمات كے ساتھ ہمارے ليے دعا بھي فرما ديں-

اصلاحی صاحب: ايك آخري بات كہنا چاہوں گا كہ آپ كا جو بيٹا عبداللہ بخاري ہے اس كے اندر بہت سي خوبياں ہيں-بہت ہي فرمانبردار ہے – عجزو انكساري بھي كمال كي ہے ان ميں -جو لمبے درخت آسمان سے باتیں کرتےہیں ۔ طوفان آتے ہيں تو وہ  جھکتے نہیں -  طوفان ان کو توڑ كے ركھ ديتا ہے  لیکن جو درخت جھک جاتے ہیں ، ہَوا اُن کا کچھ بگاڑتی نہیں ہے۔ تو یہ چیز آپ کے بیٹے کے اندر موجود ہے ۔ ميں اس كو قدر كي نگاہ سے ديكھتا ہوں-خاص طور سے جناب حسان عارف شکریہ ادا كرنا چاہوں گا۔ان كے والد صاحب سے ميں نے بہت فيض حاصل كيا ہے ميري دعا ہے كہ حسان صاحب اگر تفسير نہيں لكھ سكتے  توتفسیری  خدمات كو  پرنٹنگ  اور طباعت کے حوالے سے پھیلاتے رہیں۔ اور فکرِ فراہی کی ترویج میں اپنا کردار ادا كرتے  رہيں۔  اللہ تعالیٰ ان کے اس کردار میں مزید برکت عطا فرمائے۔ میں انہی کلمات کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔ آپ سب كے ليے دعاگو بھي ہوں اور شكر گزار بھي -