محترم اعجاز احسن قریشی سے ملیے

مصنف : فرحان احمد خان

سلسلہ : انٹرویو

شمارہ : اکتوبر2016

انٹرویو
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی سے ملیئے
فرحان احمد خان 

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن، ملک کی سیاسی تاریخ کے گواہ اور کہنہ مشق صحا فی ہیں ۔۱۹۲۸ء میں بھارت کے ضلع کرنال کے ایک مذہبی گھرانے میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں پر حاصل کی۔ایف ایس سی علی گڑھ سے کی۔ تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔جرمنی سے تاریخ کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کیا اور کچھ عرصے کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر بھی رہے۔
انہی دنوں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے نام سے ایک منفرد ماہنامہ شروع کیا۔صحافت کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی سرگرم رہے اور یہاں کے مقامی پھلوں اور سبزیوں کی برآمد شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مستحق طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے والے ادارے کاروان علم فاؤنڈیشن کے بانی اور سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔سات دہائیوں پر مشتمل صحافتی سفر میں قید و بند سمیت کئی آزمائشوں سے بھی گزرے۔ تقسیم کار کے تحت اپنے بھائی الطاف حسن قریشی کو لکھنے کی ذمہ داری سونپی اورخود پس منظر میں رہے۔ آج کل اپنی یاداشتیں قلمبند کر رہے ہیں جنہیں مناسب وقت پر کتابی صورت میں شائع کرنا چاہتے ہیں۔۸۷ سال کی عمر میں بھی چاق چوبند ہیں۔
گزشتہ ہفتے ان کے ساتھ طویل نشست ہوئی جس میں متنوع موضوعات زیربحث آئے۔ اس ملاقات کا احوال ان سطور میں نذر قارئین ہے۔
گفتگو کا آغاز ملکی صحافت کے حال احوال سے ہوا تو انہوں نے کہا ’’قوموں کی تعمیرمیں جہاں تعلیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے وہیں صحافت بھی اہم کردار کرتی ہے۔ اگر پڑھنے والوں کوصحیح خبریں اور درست تجزیے پڑھنے کو مل جائیں تو انہیں اپنی رائے بنانے میں آسانی ہو گی۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران شروع ہی سے آزادی صحافت کے قائل نہ تھے۔یہاں ابتداء ہی سے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیاں لگتی رہیں۔جو بھی حکومتوں پر تنقید کرتا تھا وہ غدار شمار ہوتا۔شروع ہی کے سالوں میں جب حسین شہید سہروردی حکومت سے الگ ہوئے تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جو صحافی سچی بات لکھتا تھا سے غدار قرار دے دیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ حکومتوں کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ وہ اپنے چنیدہ لوگوں کو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت صحافی بناتے رہے ہیں۔‘‘
ان کے بقول اخبارات میں حکومتوں کے ساتھ اختلاف رائے کی روایت جماعت اسلامی کے اخبار ’’تسنیم‘‘ سے چلی جس میں وہ بطور ڈسپیچر بھرتی ہوئے تھے۔اس زمانے کی یادوں کو آواز دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس وقت کشمیر کے مسئلے پر مولانا مودودی مرحوم سے منسوب ایک بیان تناؤ کی بڑی وجہ بن گیا جس کے پیچھے نوائے وقت اخبار تھا۔ نوائے وقت نے ’’تسنیم‘‘ کے خلاف باقاعدہ ایک اداریہ لکھا ،جس میں اس اخبار کو بند کرنے پر زور دیا گیا تھا۔‘‘
’’تسنیم‘‘ میں صحافتی خدمات کے زمانے سے جڑی کئی اور اہم باتیں انہیں یاد آئیں ’’میں جب ’تسنیم‘ کا رپورٹرتھا اس وقت پورے ملک میں ختم نبوت کی تحریک زوروں پر تھی۔ وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ نے اعلان کیاکہ جلوسوں پر گولی نہ چلائی جائے۔ میں نے اس اعلان کی خبر لگا دی۔ صبح اپنے دفتر (جو گوالمنڈی میں واقع تھا) پہنچا تو گولیوں کی اواز سنی ،ہڑبڑا کر باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ بانساں والے بازار سے آرہے ہیں اور میو ہسپتال کے سامنے ان لوگوں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اسی ہیجانی کیفیت میں دولتانہ صاحب کو فون کیا اور کہا کہ اس وقت لوگوں پرگولیاں چل رہی ہیں حالانکہ رات کو آپ کا جو بیان آیا تھا وہ اس کے بر عکس تھا۔ انہوں نے کہا ہم نے تو لاہور میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے اس وقت انہیں کہا کہ بس یوں سمجھیے کہ اب آپ کی سیاسی زندگی کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد ممتاز دولتانہ بھٹو کی نوکری کے علاوہ کبھی سیاسی افق پر نمایاں طور پرابھر نہ سکے۔
جب مارشل لاء لگا تو میں تسنیم اخبار کے لیے رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس وقت مجھے ایک ترکیب سوجھی اور میں مختلف ہسپتالوں میں گیا،جہاں زخمی داخل کیے گئے تھے۔ ان کے کوائف جمع کیے۔میں یہ سب معلومات ایک خبر کی صورت میں پریشان حال لوگوں کی اطلاع کے لیے شائع کرانا چاہتا تھا۔ اس وقت سنسر بورڈ کے انچارج ملک محمد حسین تھے۔ میں ان کے پاس یہ خبر لے کر گیا توانہوں نے اس پر سنسر کی مہر لگا دی۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ خطرناک خبر ہے۔ میں ’’تسنیم‘‘ کے مالک و ایڈیٹر نصر اللہ خان عزیز کو وہ خبر دے کر ایگزیٹ پرمٹ لے کر کراچی چلا گیا۔ وہاں دو دن بعد میں نے ریڈیو میں سناکہ ’’تسنیم‘‘ تین ماہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔اس خبر کے سلسلے میں ملک نصر اللہ عزیز کی پیشی بھی ہوئی۔ وہاں ملک محمد حسین نے ان سے کہا کہ آپ صحافی لوگ اتنے چالاک ہوتے ہو کہ سنسر کو بھی غیر موثر کر دیتے ہیں۔میں ایسا صحافی رہاہوں ۔
ستر کی دہائی قریشی برادران اور اردو ڈائجسٹ پر بہت گراں رہی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے بارے میں استفسار کیا تو بتانے لگے ’’بھٹو صاحب کو ایوب خان کی کابینہ سے نکالنے والا اردو ڈائجسٹ ہی تھا۔الطاف حسن قریشی نے بھٹو صاحب کا انٹرویو کیا تھا۔اردو ڈائجسٹ میں اس انٹرویو کے شائع ہونے کا تو کسی نے نوٹس نہیں لیا لیکن کسی طرح وہ میر خلیل الرحمٰن کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے اس کی خبر بنا کر شہہ سرخی کے طورپر اپنے اخبار میں شائع کر دی۔اس طرح خبر پھیل گئی اور ایوب خان نے بھٹو صاحب کو طلب کر لیا اور پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا؟بھٹو صاحب نے کہا جناب میں نے تو آف دی ریکارڈ بات تھی وغیرہ وغیرہ۔پھر بھٹو صاحب نے الطاف صاحب کو ٹیلی فون کیا۔ اس وقت ہمارا ٹیلی فون خراب تھا۔اس لیے انہوں نے علامہ علاء الدین صدیقی کو فون کیا کہ آپ جائیں اور الطاف حسن قریشی سے میرا رابطہ کرائیں۔ پھر کچھ دن میں ہمارا فون ٹھیک ہو گیا تو بھٹو صاحب نے الطاف حسن قریشی صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کے انٹرویو کی وجہ سے مجھے ایوب خان نے کابینہ سے نکال دیا ہے۔ الطاف نے جواب دیا کہ اچھا ہے اب آپ قوم کے لیڈر بن جائیں گے۔یہ بات الطاف حسن قریشی کی نئی کتاب ’’یادیں کیا کیا ‘‘ میں درج ہے۔ پھر بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی جدو جہد شروع کر دی۔
ہم سمجھتے تھے کہ بھٹو اور مجیب دونوں بڑے فاشسٹ ہیں اور دو فاشسٹ جب ٹکرائیں گے تو ملک کو نقصان ہو گا تو ہم نے ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ’’زندگی‘‘ میں بھٹو پر بہت سخت تنقید کی۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے پنجاب اسمبلی ہال کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں قریشی برادران کو’ فکس اَپ‘ کروں گا ، اگر میں نہ کر سکا تو میری اولاد کرے گی۔ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک تقریر کی جو میں اور الطاف ایک ساتھ بیٹھ کہ ٹرانسسٹر پر سن رہے تھے۔تقریر سننے کے بعد میں نے کہا تھا کہ اس شخص کو پھانسی لگے گی۔ یہ میری پیش گوئی تھی۔ الطاف نے پوچھا کہ بھائی آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے اس کی تقریر سے محسوس ہو گیا ہے کہ یہ بہت منتقم مزاج ہے۔ یہ انتقام لے گا اور نتیجے میں پھانسی چڑھ جائے گا۔پھر اس کے بعد ہم نے ان کی پالیسیوں کے خلاف مضمون لکھنے شروع کیے حالانکہ اس زمانے میں کسی کو بھٹو کے خلاف بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
ایک واقعہ بڑا عجیب ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب غلام مصطفی کھر بھٹو کے مخالف ہوئے تھے۔ یہاں تاج پورہ میں ایک ضمنی انتخاب کے سلسلے میں وہ جلسہ کر رہے تھے۔ اس جلسے میں پانی چھوڑ دیا گیا لیکن اس کے باوجود جلسہ ہوا۔ پھر اس میں سانپ چھوڑ دیے گئے جس سے بھگدڑ مچ گئی اور کئی لوگ کچلے گئے اور مر گئے۔ اس وقت ڈی پی آر اپنے بننے کے اگلے دن ہی لاگو ہو گیا تھا۔ اس کے تحت ایک پریس نوٹ جاری ہوا کہ تاج پورہ کے واقعے کے بارے میں کوئی خبر بھی شائع نہ کی جائے اور دوسری ہدایت یہ تھی کہ یہ بھی شائع نہ کیا جائے کہ یہ پریس نوٹ جاری ہوا ہے۔ کسی مائی کے لال کی جرات نہیں تھی کہ اس پریس نوٹ کی مخالفت کرے۔ ہمارے پاس وہ پریس نوٹ تین دن بعد پہنچا۔ہم نے اس کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے وکیل اسد اللہ صدیقی کے پاس گئے اور ان سے مشاورت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس پریس نوٹ کی مخالفت کی وجہ سے آپ کا ڈیکلیریشن ضبط ہو جائے گا، پریس بھی بند ہو جائے گااورآپ لوگ جیل چلے جائیں گے۔ ہم نے کہا بس یہی ؟ اور تو کچھ نہیں ہو گا ناں؟ پھر ہم نے اردو ڈائجسٹ میں ’’ہم ہیں آپ کے وفا دار‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں ایک متوازی حکومت قائم ہے جوموجودہ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کے نوٹس جاری کرتی ہے۔پھر ہم سب اندر ہو گئے۔اس سے اندازہ کیجیے کہ ایک ماہنامہ نے کس طرح ایک حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ۷۲ ء کی بات ہے ہم نے ڈائجسٹ کے چار شماروں میں ’سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے‘ کے عنوان سے ایک مضمون قسطوں میں شائع کیا۔اسکی وجہ سے ہمیں ڈی پی آر کے تحت پکڑ لیا گیا۔ ہم دو بھائی (میں اور الطاف حسن قریشی)،مجیب الرحمان شامی،مظفر قاضی(ان کا کوئی اور مسئلہ تھا) اور حسین نقی قید ہوئے۔ہم انہی کوٹھریوں میں رکھے گئے جہاں بھٹو صاحب کو رکھا گیا۔ پھر مجھے اٹک جیل ،الطاف کو جھنگ جیل جبکہ شامی صاحب کو سیالکوٹ اور مظفرقاضی کو ملتان بھیجا گیا۔ حسین نقی کو بھی سیالکوٹ جیل بھیجا گیا۔
ہم نے پوچھا کہ ابتلاء کی اس گھڑی میں دائیں بازو کی اس زمانے کی توانا آواز یعنی نوائے وقت نے آپ کی رہائی کے لیے کچھ کیا تو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے ’’ کیا بات چھیڑ دی ہے آپ نے۔ ایک دفعہ جب ہم جیل میں گئے تو اس وقت مجید نظامی صاحب سی پی این ای کے صدر تھے۔ان کی بھٹو سے ملاقات ہوئی توانہوں نے بھٹو سے صحافیوں کی گرفتاری سے متعلق پوچھا۔بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ انہوں نے میرے خلاف کیا لکھا ہے؟خیر جب ہم رہا ہو کر آئے تو ہماری ملاقات مجید نظامی صاحب کے ساتھ ہوئی۔ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ بھائی! ہم توجیل نہیں جا سکتے۔‘‘
سوال یہ تھا کہ قائد اعظم اور ان کے ساتھی کیسا پاکستان چاہتے تھے۔آج کل یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کو معاشی تحفظ دینا تھا۔ اس پر وہ بھڑک کر بولے’’میں سمجھتا ہوں جو لوگ ایسی بات کرتے ہیں وہ جاہل ہیں۔ پاکستان کا بننا اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔میں نے نواب زادہ لیاقت علی خان کے حلقہ نیابت میں اس وقت کام کیا جب ہم علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔ پھرمیں وہاں سے سندھ گیا۔اس وقت عوام کا یہی نعرہ تھا کہ ’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ‘۔ ہمارے لیڈران کا کردارالبتہ اس کے خلاف تھا۔مسلم لیگ کی اس وقت کی قیادت کو کئی مرتبہ عوامی دباؤپر یہ مجبوراً یہ نعرہ لگانا پڑالیکن اللہ تعالیٰ کو عوام کا لگایا ہوایہ نعرہ منظور تھا۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ پاکستان اس وقت بنا جب قائداعظم بھی پاکستان کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور اس وقت جو مشن پلان آیا تھا اس کے تحت ہندوستان کے تین حصے کیے گئے تھے۔انگریزوں کے اس وقت کے اٹارنی جنرل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ پلان پہلے کانگریس نے تسلیم کر لیا تھااور قائداعظم نے بھی کہا تھا کہ وہ اپنی ورکنگ کونسل سے مشورہ کر کے بتائیں گے۔ جب مسلم لیگ نے ہاں کر دی تو کانگریس والے یہ سوچ کر کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے ،مْکر گئے۔ پٹیل نے کہا کہ انہیں پاکستان دے کر ان سے جان چھڑاؤ۔ مطلب یہ کہ قائداعظم ’’اے بی سی‘‘ والی یہ تقسیم ماننے پر تیار ہو گئے تھے لیکن اللہ تعالی کو منظور تھا کہ پاکستان بنے گا، چنانچہ وہ بن گیا۔
قیام پاکستان کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نے قرآنی آیات کا سہارا لیا اور کہنے لگے ’’ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف علوم کے ساتھ ساتھ سابق اقوام کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ قرآن میں بنی اسرائیل کا واقعہ تفصیل سے ہے۔ بنی اسرائیل ایمان و عقیدے کے اعتبار سے بہت کمزور تھے۔ان کو آزاد کرانے کے لیے دو انبیاء مبعوث کیے گئے۔ بنی اسرائیل کے خلاف اللہ تعالیٰ نے جو چارج شیٹ بنائی ہے وہ پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کی حالت کتنی بدتر تھی۔ان کا رویہ انبیاء کے ساتھ بہت ہی نامناسب تھا۔اسی طرح پاکستان اللہ تعالیٰ نے بنانا تھا جس کے لیے ایک شخص منتخب کیا گیا جس کا نام تھا محمد علی جناح اور ہندوؤں وغیرہ کی سازشوں کے باوجود یہ ملک بن گیا۔ قائداعظم کا یہ کہنا کہ میری جیب میں یہ کھوٹے سکے ہیں ،درست تھا۔ میں نے ان کے ساتھیوں اور نمائندوں کا کردار بہت قریب سے دیکھا ہے اور آج جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ انہی کھوٹے سکوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔
دیکھئے قائداعظم کے بارے میں میں کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ منافق تھے لیکن باقی سارے منافق تھے(قطعیت کے ساتھ)۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عوام کا کیا مطالبہ تھا ، وہ کیوں ان کے ساتھ ہوئے تھے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ معاش کا مسئلہ تھا۔اس وقت قائداعظم نے پاکستان کا نقشہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس میں مولانا مودودی بھی شامل تھے۔ میں نے قائداعظم کی بہت سی تقاریر سنی اور پڑھی ہیں۔ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا(کہ پاکستان مسلمانوں کی معاشی حالت کی بہتری کے لیے بنایا گیا ہے)۔۴۶ء کے الیکشن میں مینڈیٹ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘ ہی کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔
مولانا مودودیؒ کے بارے میں پھیلائی گئی یہ کہانی بالکل غلط ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف تھے۔ مولانا مودودی نے جو کہا وہ سب لکھا ہوا ہے۔ان کی کتاب’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ پڑھنی چاہیے۔افسوس یہ ہے کہ لوگ مولانا مودودی کی کتابیں پڑھے بغیر ان پر تنقید کرتے ہیں۔میں جب پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے کا طالبعلم تھا تو وہاں ڈاکٹر حمید الدین میرے استاد تھے۔ہم برطانوی ہند کا عہد پڑھ رہے تھے تو انہوں نے مولانا مودودی پر اعتراضات کرنے شروع کر دیے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مولانا مودودی کی لکھی ہوئی کوئی بھی کتاب پڑھی ہے؟کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ہمیں ایم اے کی سطح پر پڑھا رہے ہیں مگر آپ نے مولانا مودودی کو نہیں پڑھا۔ ہمارا یہی المیہ ہے۔
مولانا مودودی کی خاص بات کیا تھی۔ انہیں کیوں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ؟ اس پر قدرے جذباتی ہو کر کہنے لگے ’’اردو میں ان کی طرح کا انشاء پرداز نہیں ہوا۔ میں یورپ میں پچاس کی دہائی میں گیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے یورپ کے بارے میں مولانا مودودی کی بہت سی تحریریں پڑھ رکھی تھیں، وہاں جا کر دیکھا تو وہ معلومات بالکل درست تھیں۔ انہوں نے پیرس کا جو حال لکھا ہوبہو ویسا ہی تھا۔ مولانا مودودی نے جو بھی بات کی دلیل کے ساتھ کی اور ایسی زبان میں کی جو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ان کی نثر کا ایک ایک لفظ ایسا ہے جسے آپ ہلا نہیں سکتے۔مولانا امین احسن اصلاحی ڈاکٹر اعجاز حسن کے پڑوسی تھے۔ ان کی بابت پوچھا تو کہنے لگے ’’وہ ایک بڑے عالم دین تھے لیکن ان میں اپنے راجپوت ہونے کا بہت احساس تھا۔ وہ داعی نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ داعی کاکام سب کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ یہی مولانا مودودی کی بھی کمزوری تھی۔
جماعت اسلامی میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔ اس زوال کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
’’ میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت اسلامی درمیانے طبقے کی جماعت ہے۔جو شخص اوپر کے طبقے کا یہاں آتا ہے وہ ان میں فٹ نہیں ہو پاتا۔دوسرے یہ کہ ان کے عہدے داران جماعت کے معاوضہ پر کارکن ہیں۔ ان کی اپنی زندگی میں کوئی ایسی کنٹریبیوشن نہیں ہے جس کی بنیاد پر قوم انہیں لیڈر سمجھے۔‘‘
کنٹری بیوشن کی مراد پوچھی تو کہنے لگے ’’دیکھئے عمران خان کیوں لیڈر بنا ؟ اس کے پاس ٹائٹل تھا۔قائداعظم اس لیے لیڈر تھے کہ وہ مسلمانوں کے منجھے ہوئے وکیل تھے۔عام طور پر لیجنڈ ہی لیڈر بنتے ہیں۔ لیڈرو ں کے اعتبار سے جمنا کے اس پار کا خطہ زرخیزتھا۔وہاں جاگیردار اور وڈیرے نہیں تھے۔پنجاب کا علاقہ ذہنی لحاظ سے بہت پست تھا۔تعلیم کے لحاظ سے بھی یہ لوگ بہت پیچھے تھے۔ عوامی سطح پر کوئی بھی اچھا وکیل نہیں تھا۔اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک جج صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جب پہلا مارشل لاء لگا تو آپ کو اس کے نتیجے کا کوئی اندازہ نہیں تھا؟ انہوں نے جواب دیا اعجاز صاحب! ہمیں کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان بننے کے بعد اپنے علاقوں کے تیسرے درجے کے وکیل تھے۔ اہل افراد کی کمی کے باعث یہ لوگ ان عہدوں پر پہنچ گئے جن کے وہ حقیقت میں اہل نہیں تھے۔
الطاف قریشی صاحب کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ ادھر ڈھاکہ میں فوجی آپریشن جاری تھا اور اِدھر آپ لوگ لکھ رہے تھے کہ وہاں کے لوگوں میں پاکستان کے لیے محبت کے جذبات جوش مار رہے ہیں؟’’جب محبت کے زمزے بہہ رہے تھے، اس کے اور کشت وخو ن کے درمیان پانچ چھ سال کا فرق تھا۔ انہوں نے اس عرصے میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے عوام اس وقت پختہ ذہن نہیں تھے۔ آج بھی یہی المیہ ہے۔ بھٹو صاحب نے صاف کہا تھا کہ یہ قوم بے وقوف ہے۔’’میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر آیا ہوں ، دینا کس نے ہے؟‘‘
بھٹو صاحب ۷۰ کی دہائی میں سیاسی افق پر نمایاں ہو کر ابھرے اور چھا گئے۔ ان کی شخصیت کے اس سحر کی کیا وجہ تھی؟
’’دیکھئے یہ وہ دور تھا جب ہماری قوم پہلی مرتبہ انتخابات میں جا رہی تھی۔ اس سے پہلے ۴۶ء میں انتخابات ہوئے تھے جن میں ووٹ دینے کے لیے خاص قسم کی پابندیاں تھیں اس لیے بہت کم لوگ ووٹ دے پاتے تھے۔ بھٹو جب آئے تو پہلی بار ملکی سطح پر انتخابات ہو رہے تھے۔ وہ اس سے قبل وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے خلاف ایک فضاء بنا دی تھی جو اِن کے کام آگئی۔یہ بات بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک اچھے مقرر بھی تھے۔ انہیں بولتے ہوئے یہ احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ جو وہ بول رہے ہیں اس کاانہیں جواب بھی دینا ہوگا۔لوگوں کی پگڑی اچھالنا ان کی عادت تھی۔
آپ بھٹو صاحب کے مخالف تھے؟ اس اچانک سوال پر وہ بولے’’نہیں ہم ان کی پالیسیوں کے مخالف تھے۔ شریف برادران سے ہم اس لیے محبت کرتے تھے کہ یہ پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہیں لیکن جب ہم نے ان کے لچھن دیکھے تو ان سے بھی دل بھر گیا۔ میں نے تو انہیں ووٹ بھی نہیں دیا۔وہ چیز اب سامنے آ رہی ہے جس کی وجہ سے میں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔میں ایک عرصہ تک عمران خان کو اچھا سمجھتا تھا لیکن اب میرا خیال ہے اس میں لیڈرشپ کی صلاحیت نہیں ہیں۔انٹرویو کا ۵۴ منٹ تھا کہ انہوں نے سامنے پڑی چائے کی جانب التفات کیا جو اب شربت بن چکی تھی۔)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

بشکریہ : بشکریہ روزنامہ ایکسپریس