میڈیکل سپرنٹنڈنٹ منصورہ ہسپتال،لاہور
ڈاکٹر الیاس صاحب سے میری ملاقات تقریبا پانچ سال قبل اس وقت ہوئی تھی جب میں اپنی ٹانگ کے فریکچر کے ضمن میں ان سے ملنے گیا تھا۔ڈاکٹر الیاس سے ملنے کی وجہ نہ ان کی تعلیم اور قابلیت تھی اورنہ ان سے پہلے کی شناسائی یا تعلق بلکہ وجہ محض یہ تھی کہ میرا گھر ان کے ہسپتال سے قریب تھا تو میں نے سوچا کہ آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ لیکن ان سے مل کرخیال ہوا کہ میں نے فی الواقع صحیح فیصلہ کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جس محبت اور اخلاق کامظاہر ہ کیاوہ گروہِ ڈاکٹراں میں عموماًجنس نایاب ہے۔ بعد کی ملاقاتوں میں اگرچہ ان کی فنی قابلیت ، مریضوں کے ساتھ ان کے مخلصانہ رویے اور ان کے علمی ذوق نے مزید متاثر کیا لیکن فی الواقع جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی قرآن سے محبت تھی۔مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ وہ اس عمر میں اتنی اہم ذمہ داریوں کونبھانے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید بھی حفظ کر رہے ہیں تو بڑا ہی رشک آیا۔ اسی بنا پر میں نے یہ سوچا کہ ترجمہ قرآن کی کلاس میں اسناد تقسیم کرنے کے لیے انہیں مدعوکیا جائے چنانچہ جامعۃ الحرم کی تقسیم اسناد کی تقریب کی صدارت انہوں نے فرمائی اوراپنے صدارتی کلمات میں انہوں نے فرمایاتھا کہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ اس طرح کی کلاس میں باقاعدہ شاگر د بن کر حاضر ہوں۔ اس کے بعدان سے متعد د ملاقاتیں ر ہیں کبھی اپنے حوالے سے کبھی کسی مریض کے حوالے سے ،اللہ کا شکر ہے کہ ہر دفعہ ان کی شخصیت کے نئے گوشے وا ہوئے بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جائے تا کہ ہمارے قارئین بھی ان کی زندگی کے تجربات اور خیالات سے استفادہ کر سکیں۔
س۔ ڈاکٹر صاحب اپنے بچپن اور ذاتی حالات کے بارے میں کچھ بتائیں۔
ج۔ میری پیدائش ۱۹۵۹ کی ہے اور کویت جنم بھومی ہے کیونکہ میرے والد صاحب وہاں بسلسلہ کاروبار مقیم تھے۔میٹر ک تک تعلیم وہیں حاصل کی ۔ایف ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور سے اورایم بی بی ایس کے ای کالج سے کیا۔ اس کے بعد آئر لینڈ سے ایف آر سی ایس اور یو کے سے آرتھو پیڈک میں ماسڑز کی۔
س۔ بہن بھائی؟
ج۔ میں اپنے والدین کااکلوتا بیٹاہوں، بہنیں پانچ ہیں
س۔ کویت میں رہنے کی وجہ سے آپ کی عربی سے تو خاصی شناسائی ہو گی؟
ج۔ جی ہاں ، بچپن کویت میں گزارنے کا مجھے بہت فائدہ ہوا اور اس وقت کے اثرات میں اپنی زندگی پر اب تک محسوس کرتا ہوں۔دراصل یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لا شعوری طور پر انسان کی زندگی ایک خاص سانچے میں ڈھل رہی ہوتی ہے۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔کویت کامعاشرہ ہماری نسبت سے بہت tolerant معاشرہ ہے۔اس لیے میں اپنی زندگی میں کبھی بھی شدت پسند نہیں بن سکا نہ پہلے نہ آج۔
س۔ جماعت اسلامی join کرنے کے باوجود؟
ج۔ شدت پسندی جماعت اسلامی کے ساتھ خاص نہیں یہ پورا ایک رویہ ہے جو ہر جماعت میں پایا جاتاہے ۔
س۔ تو ہم بات کررہے تھے کویت کی؟
ج۔ کویت میں رہنے کا اصل فائدہ عربی زبان کے اعتبار سے ہوا ۔عربی زبان بولنا سمجھنا ممکن ہوا اور پھر اسی چیز نے قرآن فہمی کی راہیں میرے لیے آساں کر دیں۔حتی کہ قرآن مجید کوحفظ کرنابھی بہت آسان ہو گیا۔
س۔ حفظ کاذکرآیا تو ساتھ ہی یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟
ج۔ قرآن مجید کی محبت ہمیشہ سے میرے من کے اندر موجود رہی ہے ۔اسوقت بھی جب میں مذہب سے زیادہ قریب نہ تھااور اب بھی جب میں خودکو مذہب سے زیادہ قریب محسوس کرتاہوں۔
س۔ کیاحفظ ،قرآن سے محبت کا تقاضا ہے؟
ج۔ جی بالکل، کوئی بند ہ بغیر محبت کے اتنی محنت اور مشقت کیسے کر سکتا ہے؟۔میں سمجھتا ہوں کہ جو بندہ حفظ کر سکے اسے ضرورکرنا چاہیے ۔اور پھر اصلاً تومیری یہ خواہش ہے کہ کل قیامت میں اللہ مجھ سے یہ کہے کہ جا بندے جنت میں،قرآن پڑھتاجا اور جنت کے درجوں میں چڑھتا جااور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسے تو دنیامیں ٹھہر ٹھہر کرپڑھتا تھا اور تیر ا درجہ وہی ہو گاجہاں تو آخر ی آیت پر پہنچے۔اس کے علاوہ حفظ کی نسبت حضورﷺ سے بھی ہے ۔آپ یقینا قرآن مجید کے پہلے حافظ تھے میں سمجھتا ہوں کہ جو حفظ کرے اسے حضور کی یہ نسبت بھی حاصل ہوتی ہے۔
س۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حفظ وقت کا ضیا ع ہے خاص طور پر پریس اور انٹر نیٹ کے اس دورمیں؟
ج۔ بچگانہ خیا ل ہے ۔ایسے لوگ اس امت کی تاریخ سے بھی ناواقف ہیں اور اس امت کی قرآن مجید سے محبت اور تعلق سے بھی بے خبر ہیں۔قرآن مجید سے تعلق ایمان کا تقاضا ہے ۔ جس درجے میں بھی ہو، ہونا چاہیے۔جو لوگ حفظ سے ہٹانا چاہتے ہیں وہ اصل میں امت کاقرآن مجید سے رہا سہا تعلق بھی کمزور کرنا چاہتے ہیں۔فہم قرآن کی اہمیت سے انکار نہیں اس طرف ضرور متوجہ کرنا چاھیے لیکن ایک چیز کی اہمیت کایہ لازمی تقاضا نہیں ہوتا کہ دوسری چیز کی اہمیت کو رد کیا جائے ۔امت نے قرآن کی حفاظت کے خدشے کے پیش نظر حفظ شروع نہیں کیا تھا بلکہ ان فضائل کے پیش نظر شروع کیا تھا جو حضورﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں اور وہ فضائل آج بھی موجود ہیں۔
س۔ بعض لوگ تو فضائل کے نام پر زیر لب مسکرا دیتے ہیں؟
ج۔ وہ نادان ہیں ۔ فضائل اصل میں اللہ کے وعدے ہوتے ہیں اور اللہ سے زیادہ کون ہے جو وعدے پورے کرے؟اور یہاں فضائل سے میری مراد ‘‘تبلیغی جماعت ’’کی طرح کے فضائل اور کہانیاں نہیں بلکہ وہ جو مستند روایات سے ثابت ہیں۔
س۔ حفظ کے لیے آپ کو محنت تو بہت کرنا پڑی ہو گی؟
ج۔ ظاہر ہے لیکن یہ اصل میں ٹائم مینجمنٹ کی بات ہے یہ بات آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ میں نے زیادہ تر حفظ ڈرائیونگ کے دوران میں کیا ہے ۔ ڈیفنس سے منصورہ آنے جانے میں قریبا ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے ۔اس وقت کو میں نے اس مقصد کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا ۔
س۔ کتنے سال لگے ؟
ج۔ تقریبا چھ برس
س۔ مزیدکیا ارادے ہیں؟
ج۔ اب میں قرآن فہمی میں آگے بڑھنا چاہتاہوں۔
س۔ اس سلسلے میں آپ کس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیں گے؟
ج۔ موقع ملے تو غامدی صاحب سے
س۔ تو آپ غامدی صاحب سے متاثر ہیں؟
ج۔ جی بہت ،علمی طور پرمیں ان سے واقعتا متاثر ہوں۔وہ نازک علمی گوشوں میں جس اعتماد سے بات واضح کرتے ہیں وہ انہی کاحصہ ہے ۔میں نے ایک دفعہ سوچا بھی تھا کہ ان کے ہاں باقاعد ہ طور سے پڑھا جائے لیکن پھر وقت نہ مل سکا۔سنا تھا کہ ان کے ہاں باقاعدہ سے کلاسیں ہوتی ہیں؟
ج۔ جی پہلے ہوتی تھیں ۔اب باقاعدہ سے سسٹم نہیں ہے ۔البتہ انٹرنیٹ پر اور بذریعہ خط و کتابت شارٹ کورسز ہوتے ہیں جن میں دین کے مختلف پہلووں کوآسان پیرائے میں سمجھایاجاتا ہے۔
س۔ غامدی صاحب کے علاوہ آپ کس شخصیت سے زیادہ متاثر ہیں؟۔
ج۔ ڈاکٹر اسرار صاحب سے
س۔ ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے ؟
ج۔ اصل میں مجھے ان کا اندازِ بیان بہت اچھا لگتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ قرآن کی تفسیر بہت بہتر اور خوبصورت انداز میں بیا ن کرتے ہیں۔
س۔ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کے ذاتی حالات کے حوالے سے بات کررہے تھے؟تو آپ نے میڈیکل میں آرتھو کے شعبے کا انتخاب کیوں کیا؟
ج۔ میڈیکل میں سرجری میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے سرجری میں آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ نے واقعتا کچھcontribute کیا ہے ۔ اور پھر سرجری میں آرتھو بطور خاص چیلنجنگ ہے ۔اوردوسرا یہ ہے کہ اس میں مریض جب ٹھیک ہو کر دعائیں دیتے ہوئے جاتا ہے تو بہت اچھا محسوس ہوتاہے۔
س۔ آرتھو میں ہمارے ہاں پہلوان سسٹم رائج ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ بھی موثر ہے؟
ج۔ ہڈیوں کی چوٹوں میں بہت سی چوٹیں ایسی ہوتی ہیں جو خود بخود ہی ٹھیک ہونی ہوتی ہیں اس قسم کی چوٹوں میں وہ کوئی تیل یا مالش دے دیتے ہیں تو نام ان کا ہو جاتاہے۔
س۔ ایسا تو ڈاکٹروں میں بھی ہوتا ہے؟
ج۔ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے کیسز کے خراب ہونے کی ریشو کیا ہے اگر تو بہت زیادہ ہے تو پھر کہا جائے گا کہ ڈاکٹرکی نالائقی ہے لیکن اگر سو میں ایک دو ہے تو اتنی ریشو فنی طور پر acceptable ہوتی ہے۔
س۔ اچھاڈاکٹرصاحب آپ کا دین کی طرف رحجان کیسے ہوا؟
ج۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ میرا دینی رحجان یورپ میں جا کر ہوا۔اوراس کی وجہ وہاں قائم تصوف کے حلقے تھے۔
س۔ توگویا آپ تصوف سے متاثر رہے ہیں؟
ج۔ جی بہت۔ایک عرصے تک تصوف میری دلچسپی کا موضوع رہا۔ اس میں بہت سے حلقوں کامطالعہ کیا اسی طرح بہت سی کتب بھی زیر مطالعہ رہیں۔تصوف میں انسانیت سے محبت کادرس بہت متاثر کن ہے ۔صوفیا کا عمل بھی اس بات سے مطابقت رکھتا ہے اور یہی بات لوگوں کو اس طرف کھینچتی ہے ۔صوفی لوگوں کو متعلق کرتا ہے ان کا دکھ در د بانٹتا ہے ۔اصل میں صوفی کا موضوع ہی انسان ہے ۔
س۔ مذہب نہیں؟یعنی مذہب صوفی کا مسئلہ نہیں؟
ج۔ میرا خیا ل ہے نہیں۔صوفی کا مسئلہ اللہ ہے وہ اللہ تک پہنچنا چاہتا ہے اور اسی کی تلاش کر تا ہے۔اور اسی کے لیے مختلف طریقے اختیا ر کرتا ہے ۔ دنیا بھر کے صوفیوں کا مسئلہ یہی رہا ہے ۔
س۔ مذہب کا مسئلہ بھی تو اللہ ہے ؟
ج۔ جی ہے، لیکن مذہب کا اللہ رسالت کی راہ سے ملتا ہے لیکن صوفی رسالت سے مجرد ہوکر اللہ کو تلاش کرنا چاہتاہے ۔ اسی لیے ان کانظریہ ہے کہ سب راہیں اسی کی طرف جاتی ہیں ۔آپ کو کسی خاص راہ پر اصرار کیوں ہوتاہے؟۔سب کو وہیں پہنچنا ہے ۔ سب اسی منزل کے راہی ہیں۔اس لیے سب سے پیار کرو ۔ یہ مذاہب مختلف راستے ہیں اللہ تک پہنچنے کے ۔ میں آپ کو بتاؤں کہ وہاں آئر لینڈ میں ایک ہندو صوفی ڈاکٹر تھے ان سے اس موضوع پر اکثر گفتگو رہتی تھی اور وہ مسلمان صوفیوں کا نام بہت احترام سے لیا کرتے تھے ۔خاص طور پر نظام الدین اولیا، معین الدین اجمیری ۔
س۔ آپ کی اور تصوف کی راہیں کب جداہوئیں؟
ج۔ پھالیہ میں، یو۔کے سے واپسی پر میں سیدھا پھالیہ چلا آیا اور وہاں ہسپتال میں ملازمت کر لی ۔ لیکن وہیں پر مجھے تصوف کے حوالے سے غور وفکر کے بھی زیادہ مواقع میسر آئے ۔اس غو روفکر نے یہ احساس دلایا کہ کہ تصوف تو شرک کی طرف لے جاتا ہے ۔ اوریہ احساس دلانے میں اہل تصوف کے مختلف اعمال نے بھی خاص کردار ادا کیا۔ پھر قرآن مجید کے مطالعے نے ساری بات واضح کر دی۔ چنانچہ میرا واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔اوراب میں سمجھتا ہوں کہ تصوف ایک انٹر نیشنل مذہب ہے۔ ہر قوم اورہر مذہب میں صوفی ہوتے ہیں۔ اور سب کا مقصودایک ہی ہے البتہ اقوام و مذاہب کے لحاظ سے طریقہ کارمیں تھوڑا بہت فرق ہوجاتاہے۔
س۔ تو گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصوف اسلام کے متوازی الگ سے ایک مذہب ہے ؟
ج۔ جی بالکل
س۔ بعض حضرات کی یہ رائے ہے کہ تصوف تو بالکل ٹھیک ہے البتہ اس میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش ہو گئی ہے ۔ ان کودور کر دیا جائے تو تصوف اسلامی ہو جائے گا؟
ج۔ تصوف اسلامی یا غیراسلامی نہیں ہوتا یہ بس تصوف ہوتا ہے۔جس طرح اسلام عربی یا عجمی نہیں ہوتا بس اسلام ہوتا ہے۔
س۔ توآپ تصوف کی ضرورت کے بالکل قائل نہیں رہے؟
ج۔ جی اسکی آخر ضرورت کیا ہے ؟ ہمارا مقصود جنت میں پہنچنا ہے اور اسکے لیے قرآ ن وسنت کافی ہیں۔البتہ صوفیاکی وہ باتیں جو قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہمیں ان کے قبول کرنے میں کیا رکاوٹ ہے ۔صحیح بات تو ہر جگہ صحیح ہی ہوتی ہے۔
س۔ ڈاکٹر صاحب بہت سی دینی جماعتیں کام کر رہی ہیں آپ نے رکنیت کے لیے آخر جماعت اسلامی کو ترجیح کیوں دی؟
ج۔ میرے خیال میں باقی جماعتیں اور تحریکیں جزیات پر کام کر رہی ہیں جب کہ یہ جماعت کل پرکام رہی ہے۔اس میں خدمت بھی ہے ، للہیت بھی ہے ، سیاست بھی ہے ، جہاد بھی ہے اورتبلیغ بھی ہے۔
س۔ کیا اس کو آپ کی خو ش فہمی نہیں کہا جا سکتا ؟جبکہ عملاً اس جماعت پر سیاست غالب ہے؟
ج۔ آپ کہہ سکتے ہیں لیکن نسبتاً مجھے یہ بہتر محسوس ہو تی ہے۔
س۔ کیا اُخروی کامیابی کے لیے کسی جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے اور کیا یہ دین کاتقاضا ہے؟
ج۔ تقاضا تو شاید نہیں لیکن میرے خیال میں یہ بہتر رہتاہے ۔اکیلی بھیڑ کو بھیڑیا کھا جاتا ہے۔
س۔ آپ نے جماعت کارکن بننے سے قبل مولانا وحیدالدین کی کتاب کا مطالعہ تو کیاہو گا ؟
ج۔ جی کیا ؟
س۔ غامدی صاحب سے اس بارے میں بات ہوئی ؟
ج۔ نہیں ہو سکی۔
س۔ کل کلاں کو آپ کو یہ ثابت ہوکہ آپکا رکن بننا غلط تھا تو کیا آپ رجوع کر لیں گے؟
ج۔ جی بالکل مگر قرآن وسنت کی دلیل پر۔
س۔ جماعت کے اکابرین کا رویہ کیساہے؟
ج۔ بہت بہتر۔سادہ لوگ ہیں۔
س۔ بعض لوگ جماعت کی قیادت پر کرپشن کا الزام بھی لگاتے ہیں ؟
ج۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے البتہ نچلی سطح پرانفرادی طور پر ایسا ہوبھی سکتا ہے ۔
س۔ تبلیغی جماعت کو جاننے اور دیکھنے کاموقع ملا؟
ج۔ تبلیغی جماعت سے میری کبھی موافقت نہیں ہوسکی۔ایک تو یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی حق پرہیں اور دوسرے ان میں arrogance بہت ہے۔منہ پر تو میٹھے میٹھے بنتے ہیں لیکن اصلاً ان میں تعصب بہت ہے ۔اپنے حلقے سے باہر کے لوگوں کو نہ سننا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی قسم کاتعاون۔
س۔ اگر آپ کوامت مسلمہ کا سربراہ بنا دیا جائے توآپ کیا تبدیلی لانا چاہیں گے؟
ج۔ میں سب سے پہلے یہ پابندی لگانا چاہوں گا کہ قیادت ذاتی جائیداد نہیں بنا سکتی اورانکا رہن سہن عام کارکن کی سطح پر ہوگا۔
س۔ جائیدادپر پابندی لگانا قرآن وسنت کے خلاف نہیں؟
ج۔ اگر ایسا ہے تو پھر سمجھیے کہ اسے حکمت عملی کے طور پر اختیا رکیا جائے گا۔
س۔ ایک اسلامی جماعت قرآن و سنت کے خلاف حکمت عملی اختیار کرے گی؟
ج۔ میری ذاتی رائے ہے ۔دراصل میں سمجھتاہوں کہ رسول اللہﷺکا اسوہ اور خلافت راشدہ کانمونہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نمونہ یہی ہے۔
س۔ سوال یہ نہیں ،سوال یہ ہے کہ اگر آپ پر کوئی قرآن و سنت کے دلائل سے یہ ثابت کردے کہ آپ کا موقف قرآن وسنت کے برعکس ہے جیسا کہ جب حضرت عمر ؓنے زیادہ مہر پر پابندی عائد کرنا چاہی تو ایک خاتون نے قرآنی آیت سے یہ ثابت کردیا کہ ان کاموقف ٹھیک نہیں تو آپ ؓ نے فوراً سر تسلیم خم کر دیا؟
ج۔ جی قرآن کے سامنے تو یہی رویہ ہونا چاہیے۔
س۔ جماعت اسلامی کے اندر یہ سوچ بھی ہے کہ جماعت مولانامودودی کی راہ سے ہٹ رہی ہے اور اس میں اب للہیت اوراخلاص سے زیادہ شو بازی اورہتھکنڈوں سے کام لیا جاتا ہے ؟
ج۔ جی دو دھارے تو ہیں۔ پرانے لوگ دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ بہر حال بعض احتیاطوں کی ضرورت ہے۔
س۔ ہمارے ہاں عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک اچھا مذہبی انسان بننے کے لیے ایک خاص قسم کی ڈاڑھی، ہونی چاہیے ،خاص قسم کی شلوار قمیض پہننی چاہیے ، موسیقی سے پرہیز کرنا چاہیے اورتصویر سے اجتناب۔آپکا کیا خیال ہے؟
ج۔ میں تو ہمیشہ سے اس تصور کے خلاف رہاہوں۔اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اسے ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں قید کرنا اس کی آفاقیت پر ضرب لگاناہے ۔نبی ﷺ کا عمل غالباًبعض مواقع پر موسیقی کا جوازثابت کرتا ہے کہ آپ خاموش رہے یا آپ نے کہا کہ انصار کو موسیقی پسند ہے تو شادی بیا ہ پر ہو جاتی تو مضائقہ نہ تھا۔اگریہ حرام ہوتی تو نبی سے یہ بعید ہے کہ وہ خاموش رہے یاگوارا کرے۔اسی طرح تصویر بھی شرک کی علت کی وجہ سے ممنوع رہی اب وہ علت اس میں نہیں تو ممانعت بھی نہیں۔ اچھا مسلمان بننے کے لیے اچھی اخلاقیات اور اللہ سے تعلق کا ہونا ضروری ہے نہ کہ ان ظواہر کا۔
س۔ جماعت کے حلقوں میں تو غالباًان چیزوں کی پابندی کی جاتی ہے؟
ج۔ بعض جگہ Rigidity موجود ہے۔
س۔ ڈاکٹر صاحب آپ منصورہ ہسپتال کے انچارج ہیں، آپ مستقبل میں اس ہسپتال کو کیا دیکھنا چاہیں گے
ج۔ میری خواہش ہے کہ یہ ایک مکمل ہسپتال بنے اسکے لیے ہماری لاہو ر یونیورسٹی سے بات چیت جاری ہے۔ یہ پھر، ایک ٹیچنگ ہسپتال ہو گا ۔پی ایم ڈی سی کا وفد بھی وزٹ کر چکاہے امیدہے جلدہی ہم اپنے اس ٹارگٹ کو حاصل کرلیں گے۔
س۔ کیا پھر بھی یہ فلاحی ہسپتا ل ہو گا؟
ج۔ جی بالکل ،اسکے بعد تو ہم اس کو فلاحی ہسپتال بنانے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے ۔میری تو ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ مریض کا سب سے پہلے علاج ہونا چاہیے پیسوں کی بات اس سے بعد میں ہونی چاہیے ۔میری خواہش ہے کہ کم سے کم پیسوں میں لوگوں کوسپیشلسٹ حضرات کی سہولت بھی حاصل ہو۔
س۔ لیکن آپ نے اپنے آئی وارڈ میں تو ۶۰ روپے کر دیے ۔۲۰ روپے پرچی کے اور ۴۰ روپے عینک کا نمبر لگانے کے بہانے۔ جبکہ عینک کا نمبر اصلاً غیر مستندفرد چیک کرتا ہے جو ڈاکٹر تو کیا شاید ڈسپنسربھی نہیں؟
ج۔ بعض مجبوریا ں بھی ہیں ۔ہمارے پاس کوئی بڑا ڈونرنہیں ہے ۔اس لیے اسوقت مجبوراً ہمیں فیسوں کا سہار ا لینا پڑرہا ہے۔
س۔جوزکوۃ فنڈ سے مدد نہ لینا چاہے لیکن وہ رعایت کابھی حقدار ہو اس کا کیا حل کرتے ہیں؟
ج۔ اسکو بھی ہم بہت سی رعایت کر دیتے ہیں۔
س۔ آپ کے پاس ہسپتال کی مالیات بھی رہی ۔ اس حوالے سے شعبہ اکاؤنٹس کے ایک فرد رفیق صاحب نے کافی الزامات عائد کیے ؟
ج۔ میں سمجھتاہوں کہ رفیق صاحب نہایت دیانتدار انسان ہیں۔ان کی دیانت میں تو کوئی شک و شبہ نہیں لیکن انہیں ایک نفسیاتی عارضہ لاحق ہے کہ وہ ہر ایک کے بارے میں سوئے ظن کا شکار رہتے ہیں اس سے پھر ایسے مسائل جنم لیتے ہیں کہ جو حل ہونے کا نام نہیں لیتے بات تو واضح ہے کہ اگر میرا کوئی مفاد ہوتا تو میں استعفی نہ دیتا ۔ویسے بھی عملا صورت حال یہ ہے کہ مالیات کا تمام شعبہ مرکزی قیادت کی زیر نگرانی کام کرتا ہے ۔
س۔آپ اپنے بچوں کو کیا بنانا چاہیں گے ؟
ج۔ صرف گائڈ کروں گا بنیں گے وہ خود ہی جو چاہیں گے ۔
س۔ آپ کی اہلیہ بھی کیا دینی ذہن رکھتی ہیں؟
ج۔ جی ہاں
س۔ کس مسلک سے متعلق ہیں؟
ج۔ کسی خاص مسلک سے نہیں ۔بس محلے میں درس قرآن وغیر ہ پر جاتی رہتی ہیں۔
س۔ آپ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ،آپ ڈرتے ہیں یا وہ؟
ج۔ دونوں ،اپنی اپنی باری باری پر۔ویسے میر ی اہلیہ کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ ہر حال میں میرا ساتھ نبھاتی ہیں اور ہرطرح کے حالات میں خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یوکے ، پھالیہ، اور پھر مختلف جگہوں اور مختلف حالات میں ان کا تعاون ہمیشہ مجھے حاصل رہا۔
س۔ والدین کا رویہ کیسا ہے ؟
ج۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میری کامیابیوں اور ترقیوں میں والدین کی دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ ان کی شفقت ، محبت اور دعائیں ہی ہیں جو مجھے کٹھن حالات سے بھی نبرد آزما ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔
س۔ آپ کی زندگی کا یاد گار لمحہ؟
ج۔ جب میں باپ بنا۔
س۔ آپ کی زندگی کا یادگار مریض ؟
ج۔ میو ہسپتال لاہور میں میری رات کی ڈیوٹی تھی اور رات کی ڈیوٹی میں صبح چار پانچ بجے کا وقت بہت سخت ہوتا ہے ۔ نیند کا بھر پور غلبہ ہوتاہے ۔ایسے میں ایمر جینسی میں ایک مریض لایا گیا ۔ جسے گولی لگی تھی اور سٹاف کے بقول وہ مر رہا تھا۔ میں نے اسے چیک کیا تو محسوس ہوا کہ واقعی مر رہا ہے ۔اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور رنگ نیلا پڑتاجار ہا تھا۔ میں نے اپنے سینئر کو جگایا اس نے کہا وہ مر رہا ہے نا، بس تم جو بھی کرو گے وہ ٹھیک ہے یہ کہا اور پھر سو گئے ۔میں پھر گیا تو دیکھا کہ اس کا سانس رک رہا ہے ۔مجھے محسوس ہوا کہ اس کے گلے میں غالباً کوئی رکاوٹ ہے جو سانس کی نالی کو دبا رہی ہے میں نے گلے میں کٹ دیا توواقعی سانس کی نالی خون سے بھر رہی تھی اورسانس اس وجہ سے بند ہو رہا تھا۔جوں ہی نالی سے خون صاف کیا گیا تو سانس بحال ہو گیا۔ صبح جب میں وارڈ میں گیا تو وہ بیٹھا جوس پی رہا تھا مجھے اس وقت جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے ۔
س۔ آپ نے لوگوں کو مرتے دیکھا ہو گا؟
ج۔ جی ہاں ، اور میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی ہے کہ بعض موتیں بہت سخت ہوتی ہیں جبکہ بعض بہت آسان۔
س۔ آپ کی زندگی کے یادگارلمحات
ج۔ جب میں نے ہر طر ف سے مایوس ہو کر اللہ کو پکارا اور پھر جس طرح غیب کے خزانوں سے اس نے میری مددکی وہ واقعی یادگارہے۔
س۔ آپ نیکی اور آخر ت کے حوالے سے اپنی زندگی کا کیا نچوڑبیان کرنا چاہیں گے؟
ج۔ میرا خیال ہے کہ اگر میں کسی کو صرف ایک بات بتانا چاہوں تو وہ ہوگا ‘‘قیام اللیل’’ ۔اللہ کے بندوں کی خاص خصوصیات میں سے ہے ‘‘والذین یبیتون لربھم سجدا و قیاما’’جو شخص بھی اپنی زندگی میں اس پر کاربند ہو جائے گا وہ اس دنیا میں جنت کے مزے لوٹے گا اور ویسے بھی کہا گیاہے کہ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی۔