اصلاح و دعوت
*ڈیجیٹل فاسٹنگ*
افتخار تبسم
مجھے تیسرے دن ان صاحب کا فون آیا، وہ شرمندہ تھے اور بار بار معذرت کر رہے تھے. میں نے عرض کیا: میں بھی حیران تھا کہ آپ نے کبھی رِنگ بیک میں تاخیر نہیں کی.میں نے کال کی، آدھ گھنٹے میں آپ کا جواب آ گیا. پہلی بار ایسا ہوا کہ میں نے آپ کو آٹھ فون کیے اور آپ کا تین دن تک جواب نہیں آیا لہٰذا میں پریشان ہوگیا تھا. اللّٰه کرم کرے آپ خیریت سے ہوں. وہ ہنس کر بولے، میں آپ سے شرمندہ ہوں تاہم میں اللّٰه کے کرم سے ٹھیک ٹھاک ہوں، صحت مند بھی ہوں اور اللّٰه تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی پریشانی اور تکلیف سے بھی بچا رکھا ہے. بس میں تین دن کے لیے *ڈیجیٹل فاسٹنگ* پر تھا. اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں دے سکا-ڈیجیٹل فاسٹنگ کا لفظ میرے لیے اجنبی تھا. لہٰذا میں نے رک کر پوچھا -کیا مطلب؟ آپ نے کس قسم کے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں؟ وہ ہنسے اور پھر مطمئن آواز میں بولے، جناب میں ہر پندرہ دن بعد تین دن کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن بند کر دیتا ہوں، یہ میرا ڈیجیٹل فاسٹ ہوتا ہے. میں ان دنوں میں ٹیلی فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کرتا ہوں. میں ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتا اور اخبار بھی نہیں پڑھتا. یہ بات میرے لیے حیران کُن تھی چنانچہ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سننا شروع کر دی. وہ بولے: میں ان تین دنوں میں صرف کتابیں پڑھتا ہوں، مارننگ واک کرتا ہوں. پہاڑوں میں چلا جاتا ہوں، سڑکوں اور پارکس میں گھومتا ہوں، سموسمہ چاٹ کھاتا ہوں، عام چائے خانوں میں بینچ پر بیٹھ کر دودھ پتّی پیتا ہوں، پرندوں کو دانہ ڈالتا ہوں، خرگوشوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، صبح جلدی اٹھ کر سورج کو نکلتے اور شام کے وقت ڈوبتے دیکھتا ہوں، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لیکچر دیتا ہوں. بیگم کے ساتھ واک کرتا ہوں، اس کے ساتھ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتا ہوں، چائے کافی پیتا ہوں، تصویروں کی نمائش پر جاتا ہوں، کتابوں کی دکانوں کا چکر لگاتا ہوں اور ناراض دوستوں کے گھر جا کر انھیں راضی کرتا ہوں. میں ان تین دنوں میں وہ سارے کام کرتا ہوں جو میں عام دنوں میں *ڈیجیٹل وال* کی وجہ سے نہیں کر پاتا. میں نے ہنس کر پوچھا، اور جناب یہ *ڈیجیٹل وال* کیا ہوتی ہے؟
وہ بھی ہنس پڑے اور بولے، ڈیجیٹل ورلڈ نے ہمارے اور فطرت کے درمیان اور ہمارے اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار / وال کھڑی کر دی ہے. ہم اب گلہری کو بھی انسٹا گرام اور ٹویٹر پر دیکھتے ہیں.
ہم دوستوں، رشتے داروں اور دشمنوں سے بھی فیس بک پر ملاقات کرتے ہیں. ہم اپنے چاہنے والوں سے بھی واٹس ایپ پر بات کرتے ہیں. اب تو انجینئر، ڈاکٹر، استاد اور قاری سے ملاقات بھی وڈیو کال پر ہوتی ہے اور ہم مولوی صاحب کا خطبہ بھی یوٹیوب پر سنتے ہیں. یہ تمام گیجٹس اچھے اور مفید ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصوّر ممکن نہیں لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے لیے تباہ کن بھی ہیں!!
کیوں؟ کیونکہ یہ ہمارے اور زندگی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ہیں اور اس دیوار کی وجہ سے ہم آج کے انسانوں کو فرسٹریشن بھی ہو رہی ہے، ٹینشن بھی اور اینگزائٹی بھی، ہم بلڈ پریشر، شوگر اور کینسر کے مریض بھی بن رہے ہیں. یہ درست ہے ہم آج کے دور میں ڈیجیٹل ورلڈ سے الگ نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ایک آدھ دن کا ڈیجیٹل فاسٹ رکھ کر خود کو اصل زندگی سے کنیکٹ تو کر سکتے ہیں اور میں یہ کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہا ہوں. میں نے پوچھا، آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
بولے : میری ٹینشن، ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول فوراً نیچے آجاتا ہے. میرا بلڈ پریشر اور شُوگر بھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور مجھے دکھائی اور سنائی بھی دینے لگتا ہے.مجھے اپنی بیوی، اپنے بچے اور پوتے پوتیاں بھی نظر آنے لگتے ہیں.مجھے کیاریاں اور کیاریوں کے پھول اور ان پر چڑیاں اور درختوں میں چھپی کوئل بھی دکھائی دینے لگتی ہے. میرے ٹیسٹ بَڈز بھی امپروو ہو جاتے ہیں اور میں گاجر اور مولی کا ذائقہ محسوس کرنے لگتا ہوں. مجھے کافی اور چائے بھی بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میں عام نارمل دنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہو جاتا ہوں اور میرے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں. ان کا کہنا تھا موبائل فون ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے. ہم جوں ہی اسے ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہماری زندگی، ہماری زندگی نہیں رہتی. یہ سوشل میڈیا، واٹس ایپ، کالز، ایس ایم ایس، ای میلز اور ٹینشن اور ڈپریشن سے بھری ہوئی آڈیوز اور وڈیوز کے رحم و کرم پر چلی جاتی ہے اور ہم اس کے بعد اندر سے فوت ہونے لگتے ہیں. لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی زندگی میں کوئی ایک دن موبائل اور ٹیلی ویژن کے بغیر رہ کر دیکھیں.آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے گا.
آپ کو چند لمحوں میں والدین کے چہرے کی جُھریاں دکھائی اور چھوٹے بچوں کے قہقہے سنائی دینے لگیں گے. آپ کو چہرے پر سکون اور دماغ میں ٹھنڈک محسوس ہوگی اور آخری بات، وہ رکے، لمبی سانس لی اور بولےاور آخری بات آپ کا دن لمبا اور رات پُرسکون ہو جائے گی. آپ یقین کرو ہمارا 60 فیصد دن سوشل میڈیا کھا جاتا ہے. آپ جس دن اس کا روزہ رکھ لو گے اس دن آپ کا 60 فیصد دن آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اس دن وہ سارے کام نبٹا لو گے جن کے بارے میں آپ کو سوچنے کی فرصت نہیں ملتی تھی. ہم بستر میں بھی موبائل فون لے کر لیٹتے ہیں چناں چہ ہماری نیند بھی ڈسٹرب ہو جاتی ہے. آپ جس دن موبائل کا روزہ رکھو گے اس دن نیند اور آپ کے درمیان سوشل میڈیا نہیں ہوگا، آپ اس رات اپنی نیند کی کوالٹی چیک کر لینا، آپ زیادہ دیر سوئیں گے اور صبح فریش اٹھیں گے. زندگی میں لوگوں سے براہ راست رابطہ کی کمی تھی اور ڈیجیٹل گیجٹس کی زیادتی تھی. ایک کو بڑھا دیا، دوسرے کو کم کر دیا. زندگی آسان ہو گئی!!