اديان عالم
صابی
شفیقی عہدی پوری
(یہ مضمون ایک رسالے” اقبال "نامی سے کمپوزنگ کے لئے کاپی کر لیا تھا اور اس کا شمارہ نمبر اور تاریخ وغیرہ بھول گیا ہوں۔(
بر اعظم ایشیا مذاہب عالم کا گہوارہ ہے۔ دنیا کا ہر ایک مذہب یہیں سے نکلا اور جوان ہو کر اقصائے عالم پر چھا گیا۔ انہی میں سے ایک صابی مذہب ہے جو زمانۂ قدیم میں حران میں پیدا ہوا۔ اس مذہب کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔ احمد بن خلکان کے نزدیک یہ مذہب صابی بن مکتو شلح بن ادریس سے منسوب ہے ابوالفدا اسے صابی بن شیث سے نسبت دیتا ہے۔ عربی لغات نویسوں کے نزدیک انبیائے عظام کے طریقہ سے منحرف ہونے والا صابی ہے -گویا صابی وہ ہے جو اپنے بزرگوں کے مذہب کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کر لے اسی لئے مشرکین قریش نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے دعوت اسلام میں صابی کہا۔
در حقیقت یہ مذہب جو ابھی تک عراق اور جنوبی ایران میں باقی ہے، ایک کلدانی مذہب ہے جس نے افلاطونیت جدیدہ كو اپنےمذہب ميں شامل كر ليا ہے – افلاطونيت جديدہ دوسری صدی میلادی میں شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئی اور اڑھائی سو سال تک سلطنت روم میں مروج رہی۔ اس کا مشہور ترین داعی بلینناس مصری(Plotin ( تھا جو فلسفہ و عرفان سے بہرہ ور تھا اور مفکرین عظام کے افکار سے استفادہ کر چکا تھا۔ یہ گوردیان(Gordieen) شہنشاہ روم کے ساتھ عراق آیا اور تیسفون ساسانی پایۂ تخت کے محاصرے میں موجود تھا۔
صابی موحد ہیں۔ انہیں توحید الٰہی پر یقین ہے مگر ایسی توحید کو انہوں نے شرک سے ملوث کر رکھا ہے کیونکہ وہ حلول کے قائل ہیں اور ستاروں اور فرشتوں کی بھی پرستش کرتے ہیں اور انہیں خدائے واحد کے مظاہر خیال کرتے ہیں۔ شہرستانی کے نزدیک صابی مذہب روحانی کی ضد ہے۔
شہرستانی نے صابیوں کو چار فرقوں میں منقسم کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے؛
1۔ اصحاب روحانیات؛- یہ فرقہ خدا کو واحد اور صانع کائنات مانتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ خدائے تعالیٰ بے مثل ہے، یگانہ ہے، خالق ہے، اس لئے ہم براہ راست اس تک نہیں پہنچ سکتے۔روحانی بزرگ ہمارا واسطہ اور وسیلہ ہیں اور یہ واسطہ سات ستارے ہیں جن کے نام یہ ہیں؛ (1) ماہ، (2) مہر، (3) تیر (4) ناہید، (5) بہرام (6)برجیس(7) کیواں، یہ ساتوں ستارے کائنات میں ارواح عظیم ہیں۔ ان كي وساطت مخلوق و خالق کے درمیان واسطہ بن سکتی ہے، اس لئے ہمیں انھیں خوش کرنے کے لئے ان کی پرستش کرنا اور ان کے سامنے عاجزی سے گڑگڑانا چاہئیے، ان کے نام پر قربانی کرنی چائیے، صدقات دینے چاہئیں، تا کہ یہ خوش ہو کر ہمیں خدا سے ملا دیں۔
2۔ اصحاب ھیکل؛- یہ فرقہ روحانیات کے عقائد کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی اپنے شفیعوں کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کا بھی قائل ہے اور مزكورہ ساتوں ستاروں کو ھیاکل سبعہ قرار دیتا ہے۔ انہوں نے ان ستاروں کی منازل معین کر رکھی ہیں۔ ہر ستارہ کے لئے دعائیں مقرر ہیں ستاروں کی رعائت سے انگوٹھیاں بنا كر پہنتے ہیں حتیٰ کہ ہفتہ کے دنوں کے نام بھی ستاروں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ستاروں کی مورتیاں بھی بنا کر رکھی ہیں جنہیں دن اور ستارہ کی نسبت سے پوجا جاتا ہے۔
3۔ حرنانی:- یہ فرقہ اپنے مذہبی مولد و مسکن شہر حرنان کی نسبت سے "حرنانی" کہلاتا ہے۔ اصحاب روحانیات و ھیاکل کے اعتقادات سے متفق ہے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا سبعہ سیارگان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ کبھی وہ پورے طور پر حلول فرماتا ہے، کبھی جزوی طور پر، ساتوں ستارے اس کے اعضاء ہیں اور انہیں سے کائنات عالم کا نظم و نسق قائم ہے۔
4۔ اصحاب اشخاص:- یہ اصحاب روحانیات اور اصحااب ھیاکل کے معتقدات سے متفق ہیں۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ چونکہ رات کے وقت سورج غروب ہو جاتا ہے، چاند اور دوسرے ستارے دن میں نظر نہیں آتے، اس لئے ان کے بتوں کو اپنے پاس رکھنا چاہئیے چنانچہ یہ فرقہ نہ صرف ستاروں کے مجسموں کو اپنے عبادت خانہ میں رکھتا ہے بلکہ عیسوی صلیب کے مانند ہر وقت ان کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں بھی اپنی جیبوں میں لیا پھرتا ہے۔ مقررہ دن پر صاف و پاکیزہ لباس پہن کر عبادت خانہ میں جاتا ہے اور ستاروں کی مورتیوں کی پرستش کرتا ہے-
صابیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے علوم اور مذاہب وہی ہیں جو انہیں، عازیمون، و ،ھرمس، یعنی حضرت شیث و ادریس نے تعلیم کئے تھے بایں ھمہ صابی عقل پرست ہیں اور ہر بات کو عقل کی ترازو میں تولتے ہیں۔ وہ حضرت شیث اور ادریس کے بعد کسی پیغمبر کے قائل نہیں۔ وہ بزرگوں کا احترام بھی کرتے ہیں۔ ماں باپ اور مذھبی رھنماؤں کی عزت کو ایمان کا جزو مانتے ہیں۔ نفس کو جوھر یقین کرتے ہیں اور اسے جاودانی کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جزا اور سزا روح کے لئے ہے۔ بروں کی روح نو ہزار سال تک عذاب میں گرفتار رہے گی اور پھر رحمت الٰہی میں مل جائے گی۔
صابی دن رات میں تین نمازیں پڑھتے ہیں۔ یعنی صبح جس میں وہ آٹھ رکعت نماز ادا کرتے ہیں اور ہر رکعت میں تین بار سجدہ کرتے ہیں۔ دوسری نماز دوپہر کو ادا کرتے ہیں اس میں پانچ رکعتیں ادا کرتے ہیں اور ہر رکعت میں تین تین بار سجدہ کرتے ہیں۔ تیسری نماز غروب آفتاب کے بعد پڑھتے ہیں جو دوسری کی مانند ہوتی ہے۔کتاب الفہرست میں لکھا ہے کہ صابی نوافل بھی ادا کرتے ہیں، جسے وتر نماز کی طرح مستحب و مؤکد مانتے ہیں نماز کے لئے طہارت اور وضو کو ضروری خیال کرتے ہیں۔غسل جنابت ان کے ہاں لازمی ہے۔ میت کو چھونے کے بعد بھی غسل کیا جاتا ہے۔ صابیوں کے قبلہ کے متعلق مؤرخوں نے اختلاف کیا ہے۔بعض قطب شمالی اور بعض قطب جنوبی لکھتے ہیں۔ بعض لکھتے ہیں کہ وہ ستاروں کی طرف منہ کر کے نمازپڑھتے ہیں۔ صابی روزے بھی رکھتے ہیں۔ مشہور ہے کہ سال بھر میں تین روزے واجب خیال کرتے ہیں ۔ بعض سات روزوں کا پتہ دیتے ہیں اور بعض نے تیس روزے بھی لکھے ہیں۔ صابی سال بھر میں چار بار عید مناتے ہیں۔(1) عید الفطر(2) عید الحبل، (3) عید میلاد، (4) عید تموز۔
اس مذہب کے پیرو سؤر، کُتے، کبوتر اور پنجوں والے پرندوں کے گوشت کو حرام خیال کرتے ہیں۔ مرُغ وغیرہ بے چنگال پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ذبح کے لئے جانوروں کے حلق پر چھری پھیرتے ہیں۔ پیاز اور لہسن ان کے نزدیک حرام مطلق ہے۔ مچھلی نہیں کھاتے کہ ممکن ہے اس نے سانپ نگلا ہو۔ جو لوگ تارک الدنیا ہو جاتے ہیں وہ پہاڑوں کے غاروں اور گپھوں میں چلے جاتے ہیں اور دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ لوگ ختنہ نہیں کراتے -ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح نہیں کرتے دو بیویاں ان کے ہاں ممنوع ہیں۔ جائیداد بیٹے اور بیٹی میں برابر برابر تقسیم کرتے ہیں۔
صابیوں کی کتاب کا نام مورخین نے زبور بتایا ہے جسے وہ الہامی یقین کرتے ہیں۔ ان کی ایک اور کتاب بھی ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ یہ حضرت شیث پر نازل ہوئی تھی۔یہ کتاب کلدانی زبان میں ہے اور مواعٖظ اخلاقی پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے حضرت شیث اور حضرت ادریس کے بعد کسی کو نبی نہیں مانتے۔ ان کا خیال ہے کہ پیغمبروں کو عام انسانوں پر خاص برتری حاصل نہیں کیونکہ بشریت کے لحاظ سے وہ بھی انسان ہیں۔اگر عام انسان بھی مجاہدہ و ریاضت پر کاربند ہو جائیں تو پیغمبری شان پا سکتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود یہ بھی مانتے ہیں کہ نبی کا نفس مذمومات سے پاک ہوتا ہے اور اس کا جسم آفات سے محفوظ۔ وہ ہر حیثیت سے کامل اور اکمل ہوتا ہے۔
شہرستانی صابیوں کے ایک فرقہ کو ستارہ پرست کہتا ہے اور دوسرے کو بت پرست، وہ کہتا ہے کہ یہ لوگ سبعہ سیارہ کو ھیکل کہتے ہیں۔ اسی لئے انھوں نے ستاروں کی پرستش کے لئے جو عبادت خانے تعمیر کئے ہیں ان کا نام بھی ہیکل رکھا ہے۔صابی حج بھی کرتے ہیں مگر کعبۃ اللہ کا نہیں بلکہ حران کا، کیونکہ وہ اس شہر کو اپنے مذہب کا اوّلین گہوارہ تصور کرتے ہیں اور اسے حضرت شیث کی آخری آرام گاہ سمجھتے ہیں۔ یہ شہر اوس کے جنوب میں موصل اور شام کے راستے پر واقع ہے۔ اھل حران کو حرنانی کہا جاتا ہے، حالانکہ صحیح نسبت حرانی ہے۔ مگر یہ خلاف قاعدہ رائج ہے۔ اس شہر کا نام تورات میں بھی مذکور ہے کیونکہ حضرت ابراہیم نے اسی شہر سے ہجرت کی تھی اس شہر کو حضرت ابراہیم کے بھائی، "ھاران" سے بھی منسوب کیا گیا ہے طبری کہتا ہے کہ یہ نام حضرت ابراہیم کے چچا ھاران کے نام پر رکھا گیا تھا۔ عرب اسی ھاران کو حران کہتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ حران کا شہر جزیرہ کے شمال مشرق میں دریائے فرات اور جانور کے درمیان واقع ہے اور وہاں حضرت ابراہیم کے باپ تاریخ کی قبر ہے۔ زمانۂ قدیم میں یہ شہر بڑا آباد اور تجارت کا مرکز تھا۔ یہاں چاند دیوتا کا مندر تھا جسے آشوری حکمرانوں نے آرائش و زیبائش سے قمر چہار دھم بنا رکھا تھا۔ سکند یونانی کی فتوحات سے یونانی یہاں آ کر آباد ہو گئے اور اس مندر کے بتوں اور ديوتاؤں کے نام یونانی رکھے گئے۔جب یونانی حکومت کا دور گزر گیا اور رومیوں نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تو اُنھوں نے اھل حران کو مسیحی بنانے کی مہم بڑے زور شور سے شروع کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوئے۔لہذا عیسائیوں نے اہل حران کو بت پرست مشہور کر دیا۔ جن یونانی اور دوسرے لوگوں نے عیسائیت قبول نہ کی وہ اس شہر میں پناہ گیر ہوئے اور اس طرح یہ شہر بت پرستی اور یونانی افکار کا مرکز بن گیا۔
مروان بن محمد آخری اموی خلیفہ کو یہاں کی آب و ہوا اور صفائی بہت پسند آئی اور اُس نے کئی سال تک یہاں قیام رکھا۔ ابراہیم بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس جو ابراہیم امام کے نام سے مشہور ہیں، اسی شہر میں محبوس ہوئے اور آخر میں قتل کر دئے گئے-اہل حران کی بت پرستی یونانیوں کے اختلاط سے ایک نئے دور میں داخل ہوئی یعنی ریاضی اور علمی و اخلاقی نظریات فیثا غورثی اور افلاطونیت جدیدہ سے اس کی ٹکر ہو گئی اور خوب خوب مباحثے اور مناظرے ہونے لگے اور یہ شہر علم و حکمت کا مرکز بن گیا۔
حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں عراق فتح ہوا اور اہل عراق کو اپنے مذہب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ۔ خلفائے راشدین، بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد ہائے حکومت میں حرانی اپنے مدارس میں ریاضیات، فلکیات اور فلسفہ کی تعلیم دیتے تھے۔ ھارون الرشید اور مامون الرشید کے عہد میں یہی یونانی علوم عربی میں ترجمہ ہو کر بغداد میں منتقل ہو گئے اور اس طرح تمام اسلامی ممالک ان سےمتاثر ہوئے۔ افلاطونیت جدیدہ انہیں کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچی۔
سب سے پہلا صابی مفکر جو درباربغداد میں مقبول ہوا، ثابت بن قرۃ تھا جو 221ھ میں پیدا ہوا۔ یہ ایک حرانی صراف تھا جو علوم اور فلسفہ میں اپنی نظیر آپ تھا اس وقت معتضد باللہ تخت حکومت پر جلوہ افروز تھا اور ثابت بن فرہ کا اس قدر معتقد کہ اسے خلوت میں بھی بلا لیتا تھا۔ ایک روز یہی خلیفہ ثابت بن قرہ کے ساتھ ایک باغ میں ٹہل رہا تھا۔ ثابت بن فرہ نے خلیفہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ ناگاہ خلیفہ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ ثات بن فرہ نے حیران ہو کر عرض کی۔ حضور! مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئی؟ خلیفہ نے کہا، میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ کے اوپر تھا جو بے ادبی تھی کیونکہ علم کا مرتبہ سب سے بڑا ہے۔ جب آل بریہ نے عراق پر قبضہ کیا تو صا بی مفکرین و علماء اس کے دربار میں جمع ہو گئے کیونکہ سر زمین عراق ان کے لئے مقدس و محترم تھی۔بغداد میں چند صابی علماء خاص طور پر مشہور تھے جن میں سے ثابت بن قرہ ریاضیات و فلکیات میں ماہر تھا۔ ثابت بن سنان بھی عام علوم میں مسلم سمجھا جاتا تھا اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ھلال بن ابراہیم ریاضیات اور ھئیت میں ید طولیٰ رکھتا تھا۔ اس کا بیٹا ابو اسحاق ابراہیم الصابی ادیب شہیر اور ریاضی اور فلکیات میں مسلم تھا۔ البستانی علماے ہندسہ میں امامت کا درجہ رکھتا تھا۔ یہی زائچہ ستار گان کا موجد ہے ابوجعفر الخازن ریاجی میں اپنی نظیر آپ تھا۔
ھارون رشید کے عہد میں صابی آزادی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ مگر مامون کے آخری عہد میں ان پر کچھ سختی ہوئی۔ اس کی داستان اس طرح ہے کہ ماموں اپنے آخری ایام حیات میں مشرقی روم پر حملہ کرنے کے لئے چلا۔ جب وہ مصر سے گزر رہا تھا تو لوگ استقبال اور دعائے فتح کے لئے راستے پر اکٹھے ہو گئے۔حرنانی بھی آئے ہوئے تھے۔ ان کا لباس کھلی قبا تھا اور سر پر لمبے لمبے بال تھے۔ مامون نے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم حرنانی ہیں خلیفہ نے کہا تمہارا مذہب کیا ہے؟ یہودی ہو یا عیسائی یا مجوسی؟ مگر انھوں نے اپنا مذہب بھی حرنانی بتایا۔ خلیفہ نے کہا کہ یہ کیا مذہب ہے؟ تم مشرک اور بت پرست ہو، تمہارا قتل جائز ہے۔ انھوں نے جواب دیا ہم جزیہ دیتے ہیں۔ خلیفہ بولا جزیہ تو اہل کتاب سے لیا جاتا ہے اگر میری واپسی تک تم نے کوئی مذہب قبول نہ کیا تو تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔
خلیفہ چلا گیا مگر یہ لوگ پریشان رہ گئے۔ بعض نے مسیحیت قبول کر لی بعض اسلام کے حلقہ میں آ گئے اور زیادہ اپنے مذہب پر قائم رہے مگر نہائت پریشان تھے۔ ایک حرنا نی رھنما نے دیکھا تو حکم دیا کہ تم سب اپنے آپ کو صابی کہو تا کہ مذہب کی تبدیلی کی ضرورت ہی نہ پڑھے اور جزیہ کے سوا کوئی تعزیر نہ رہے۔ چنانچہ یہ لوگ صابی کہلانے لگے۔ صابی کا لفظ قرآن پاک میں موجود ہے اور اسی مذہب کو ادیان قبل اسلام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اس وقت صابیوں کی تعداد بہت کم ہے یہ عراق اور جنوبی ایران میں آباد ہیں مگر تعداد بہت کم ہے صابیوں کے عام پیشے زرگری اور آہنگری ہیں۔ خوزستان کے بعض حصوں میں دریاؤں اور ندیوں کے کناروں پر آباد ہیں۔ سپید لباس پہنتے ہیں اور سر اور ڈاڑھی کے بالوں کو کٹوانا گناہ سمجھتے ہیں-