تاریخ: ‘بہایت’نے ‘بابیت’ کے بطن سے جنم لیا ہے یعنی ‘بابیت’ سے الگ ہوکر ایک مستقل مذہب کی صورت اختیار کی ہے۔ بابیت کا بانی مرزا علی بن محمد رضا شیرازی تھا۔ وہ ایران کا باشندہ تھا۔ اس نے ‘بابُ اللہ’ (اللہ کا دروازہ) ہونے کا دعویٰ کیا۔ اُسے روس کی مکمل تائید حاصل تھی۔ روس نے اُسے ‘مہدی منتظر’کا دعویٰ کرنے پر اُکسایا۔ روس ہی کی شہ پاکر اس نے نبوت و رسالت کا دعویٰ کر دیا۔ جب اس کے باطل افکار و نظریات کو فروغ ملنے لگا تو ایرانی حکام نے ۱۸۴۷ء میں اسے گرفتار کرلیا اور ۱۸۴۹ء میں اسے برسرِعام گولی سے اڑا دیا گیا۔ اگرچہ روس اور برطانیہ کی حکومتوں نے اسے سزائے موت نہ دینے کی درخواست کی اور اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا مگر ان کی کوششیں بے سود رہیں۔ بابیت قبول کرنے والوں میں ایک شخص ‘حسین علی بن عباس بزرگ’ تھا۔ یہی بہائیت کا بانی ہے۔ یہ شخص ۱۸۱۷ء میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان سرکاری ملازمت میں پیش پیش تھا اور استعماری طاقتوں بالخصوص روس اور برطانیہ سے اس خاندان کے خصوصی مراسم و تعلقات تھے۔
حسین علی نے بابیت قبول کرلی تھی مگر باب شیرازی نے اسے ‘زندہ حروف’ میں شمار نہیں کیا تھا جس کا حسین علی کو قلق تھا۔ ‘زندہ حروف’ بابیت کے قائدین شمار کیے جاتے ہیں۔ حسین علی حسدو انتقام کی آگ میں جل کر ‘باب’ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگیا اور مناسب موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ علی شیرازی’ یعنی باب جب قیدخانے میں بند تھا توا س کے پیروکاروں میں ‘اُم سلمیٰ زرین تاج’ نامی عورت شامل تھی۔ اس نے ۱۸۴۸ء میں ایران کے ‘صحراے دشت’ میں بابیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ باب شیرازی نے اس عورت کو ‘قرۃ العین’ کا لقب دیا۔ یہ عورت اپنے حسن و جمال’ شاعری’ خطابت اور شیریں زباں ہونے کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہوگئی۔ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ نہ رہی تو خاوند نے اسے طلاق دے دی۔ اُس کی اولاد نے بھی اپنے آپ کو اپنی ماں کی طرف منسوب کرنے میں عار محسوس کی۔
مذکورہ کانفرنس کے صحرائے دشت میں آغاز سے کچھ ہی دیر پہلے قرۃ العین نے حسین علی المازندرانی سے ملاقات کی۔ کانفرنس میں شراب کا دور چلا’ اور بے حیائی کا ارتکاب بھی ہوا۔ اسی کانفرنس میں قرۃ العین نے اسلامی شریعت منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ چندایک حاضرین نے جب اس پر احتجاج کیا تو حسین علی نے کھڑے ہو کر سورۃ الواقعہ پڑھی اور اس کی باطنی تشریح کی۔ اس نے قرۃ العین کے اعلان کی تائید و توثیق کی۔ بعد میں ایرانی حکام نے قرۃ العین کو سزائے موت دے دی۔ قرۃ العین ہی نے حسین علی کو ‘بہاء اللہ’ کا لقب دیا تھا۔ ایک رائے کے مطابق حسین علی نے خود ہی ‘بہاء اللہ’ کا لقب اختیار کیا’ وہ ‘البہا’ یا ‘البہا حسین’ کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔
اس حسین علی کا ایک بھائی جو مرزا یحییٰ کہلاتا تھا۔ شیرازی (باب) نے اُسے ‘صبحِ ازل’ کا لقب دیا تھا اور اُسے ‘زندہ حروف’ میں شامل کر رکھا تھا۔ باب نے وصیت کی تھی کہ میرے بعد ‘صبحِ ازل’ میرا جانشین ہوگا اور وہی بابیوں کا سربراہ ہوگا۔ حکومتِ ایران نے ان دونوں بھائیوں (بہاء اللہ اور صبحِ ازل) پر الزام لگایا کہ وہ شاہ ناصرالدین قاچاری کو قتل کرنے کی کوشش میں ملوث ہیں’ چنانچہ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ بہاء اللہ نے روسی سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی اور روس کی کوشش تھی کہ وہ حکومتِ ایران سے اس بات کی یقین دہانی لے لے کہ بہاء اللہ کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ مرزا یحییٰ (بابیت کے نئے سربراہ) اور حسین علی کو ایران سے ملک بدر کر کے بغداد بھیج دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں بھائیوں کو ۱۸۶۳ء میں استنبول بھیج دیا گیا۔ یہاں ان لوگوں نے یہودیوں سے راہ و رسم خوب بڑھائے۔ مختصر مدت کے بعد دونوں بھائی ادرنہ (ترکی) منتقل ہوگئے۔ حسین علی کی کوشش تھی کہ اُسے موقع ملے تووہ وہ اپنا خصوصی جتھا تشکیل دے۔
ادرنہ پہنچتے ہی ‘البہا حسین’ نے اپنے مخصوص عقائد کی تشکیل و تبلیغ کا آغاز کر دیا۔ اس کے پیروکاروں کا مذہب ‘بہائیت کہلایا۔ اب دونوں بھائیوں کے مابین کش مکش اور مقابلہ شروع ہوگیا۔ ان میں سے ہر ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ کتاب الایقان اس کی تصنیف ہے جو ‘بہائیت’ کی گمراہیوں سے لبریز ہے۔ ازلیوں اور بہائیوں کی یہ کش مکش جاری تھی حتیٰ کہ حسین علی (بہاء اللہ) نے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کو زہر کھلا کر ہلاک کرنے کا جتن کیا۔ ۱۸۶۸ء میں بہاء اللہ کو فلسطین کے ساحلی شہر عکا میں جلاوطن کردیا گیا۔ وہاں کے یہودیوں نے بہاء اللہ اور اس کے پیروکاروں کا پرتپاک خیرمقدم کیا اور اپنے مال و دولت سے بہائیوں کی خوب مدد کی۔ انھوں نے خلیفہ عثمانی کے واضح احکام کی مخالفت کی جس کے حکم پر اُسے جبراً وہاں بھیجا گیا تھا۔ یہودیوں نے بہاء کو وہاں محل میں ٹھیرایا جو اب بھی ‘البہجۃ’ کے نام سے مشہور ہے۔ عکا میں حسین علی نے اپنے جھوٹے نظریات کا پرچار جاری رکھا۔ بالآخر اس نے اپنی الوہیت کا دعویٰ کر دیا۔ اپنے خدا ہونے کا اعلان کرنے کے بعد وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالنے لگا کیوں کہ اس کے فاسد عقیدے کی رُو سے کسی انسان کے لیے روا نہیں کہ وہ اللہ کی بہاء (رونق وجمال) کو دیکھ سکے۔ اپنی زندگی کے اواخر میں وہ پاگل ہوگیا تھا’ چنانچہ اس کے بیٹے نے اُسے ایک کمرے میں بند کر دیا تاکہ لوگ اُسے نہ دیکھ سکیں۔ یہی بیٹا بعد میں ‘عبدالبہا’ کے لقب سے مشہور ہوا’ وہ اپنے والد کا نمایندہ اور ترجمان بن کر لوگوں سے مخاطب ہوتا تھا۔ بہاء اللہ ۲ذی قعدہ ۱۳۰۹ھ (۱۸۹۲ء) میں مرا۔ ایک خیال کے مطابق اُسے کسی بابی نے قتل کر ڈالا تھا۔ اس کی موت کے بعد بہائیوں کی قیادت اس کے بیٹے عباس افندی نے کی۔ اپنے والد کی موت کے بعد ‘عباس افندی عبدالبہا’ حیفا چلا گیا’ وہاں اس نے تمام مذاہب کے پیروکاروں کی خوشامد شروع کردی۔ وہ مسجدوں میں جاکر نمازپڑھتا’ گرجاؤں کی عبادت میں عیسائیوں کے ساتھ شریک ہوتا اور ساتھ ہی اس نے صہیونیت ویہودیت کے ساتھ اپنے روابط مضبوط کرنے شروع کر دیے۔
عقائد: بہائی اپنے اصل عقائد ظاہر نہیں کرتے’ وہ جو کچھ ظاہر کرتے ہیں’ اس پر ان کا ایمان نہیں ہوتا حتیٰ کہ وہ اپنی متداول کتابوں میں بھی اپنے بہت سے اصل عقائد بیان نہیں کرتے’ یہاں پر ان کے چند مسلّمہ عقائد درج کیے جاتے ہیں۔
بہاء حسین کی تصنیف کتاب الاقدس تمام کتب ِسماویہ کی ناسخ ہے۔ بہائی الوہیت’ وحدت الوجود اور حلول کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بہاء اللہ کے لیے لاہوت اور ناسوت میں جدائی نہیں۔ اسی لیے وہ اپنے چہرے پر نقاب پہنے رکھتا تھا۔ کتاب الاقدسمیں مرقوم ہے: جس نے مجھے پہچان لیا اس نے مقصود کو پہچان لیا’ جس نے میری طرف توجہ کی’ وہ معبود کی جانب متوجہ ہوا۔
بہائی عقائد کے مطابق وحی کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ‘خاتم النبیین’ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نبیوں کے لیے زینت ہیں جس طرح خاتم (یعنی انگوٹھی) انگلی کے لیے زینت ہوتی ہے۔ بہائی’ مسلمانوں سے شدید نفرت و بغض رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں انتہائی گھٹیا باتیں کرتے ہیں۔ بہائیوں کی کتاب الایقان کے ایک اقتباس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ’ مسلمانوں کے متعلق کیسا نفرت آلود عقیدہ رکھتے ہیں’ کتاب میں لکھا ہے کہ: ‘یہ جاہل و گنوار ہر روز صبح سویرے فرقان (قرآنِ کریم) پڑھتے ہیں مگر اب تک حرفِ مقصود پانے سے قاصر ہیں’۔ اس کے علاوہ بہائی’ پبلک مقامات پر اللہ کے ذکر کو حرام سمجھتے ہیں خواہ یہ ذکر خفیہ ہی کیوں نہ ہو۔ کتاب الاقدس میں ہے: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے اللہ کا ذکر کرے اور اس کے لیے اپنی زبان کھولے جب وہ سڑکوں اورراستوں پر چل رہا ہو’۔ بہائی ۱۹ کے عدد کو مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کا سال ۱۹ مہینوں کا ہوتا ہے’ ہر مہینے میں ۱۹ دن ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک قیامت’ بہاء اللہ کی اللہ کے رُوپ میں آمد ہے۔ یہ لوگ جنت’ دوزخ’ فرشتوں اور جنوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ موت کے بعد برزخی زندگی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور باب شیرازی کے مابین مدت ہی برزخ ہے۔
یہ لوگ جہاد اور جنگ کو قطعی حرام سمجھتے ہیں (استعماری قوتوں کے ساتھ ان کے روابط کا اصل راز یہی ہے)۔ یہ لوگ سیاست میں حصہ لینے کو بھی حرام سمجھتے ہیں البتہ ان کے نزدیک استعماری قوتوں کا آلہ کار بننے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ بہائی متعہ کے جواز کے قائل ہیں اور زنا بالجبر کی سزا ان کے نزدیک مالی جرمانہ ہے۔ وہ وحدتِ اوطان کے مدعی ہیں اس لیے کسی وطن کی طرف نسبت کرنے کو روانہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ زبانوں (لغات) کو معطل کر دیا جائے’ یہ صرف اس زبان کو اختیار کرتے ہیں جسے ان کا سربراہ مقرر کر دیتا ہے۔
بہائی مذہب میں قرآنی آیات کی باطل تاویل کی جاتی ہے’ مثلاً سورۃ التکویر کی فاسد تاویل یوں کرتے ہیں: اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ o (۸۱:۱) (شریعتِ محمدیؐ ختم ہو جائے گی اور شریعت بہائی آجائے گی)۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ o (۸۱:۴) (شہروں کے چڑیا گھروں میں وحشی جانور اکٹھے کیے جائیں گے)۔ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ o (۸۱:۷) (یہودی اور عیسائی بہائی مذہب اختیار کرلیں گے)۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (ابراھیم۱۴:۲۷) کی فاسد تاویل بہائی یوں کرتے ہیں:‘دنیا کی زندگی محمدؐ پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے، جب کہ آخرت کی زندگی بہاء پر ایمان لانے سے درست ہوتی ہے’۔
عــبادات: ان کے عقائد کی طرح ان کی عبادات بھی عجیب و غریب ہیں:
نماز: نماز جنازہ کے سوا وہ باجماعت نماز کے قائل نہیں۔ تین نمازیں پڑھتے ہیں: صبح’ ظہر اور شام۔ ہر نماز میں تین رکعتیں ہیں مگر ان نمازوں کی کیفیت متعین نہیں۔ ان کا قبلہ عکا (اسرائیل) میں قصر بہجہ ہے۔ وضو میں وہ صرف منہ اور ہاتھ دھوتے ہیں۔ عرقِ گلاب سے وضو کرتے ہیں۔ اگر عرق گلاب نہ ملے تو پانچ مرتبہ ‘بسم اللہ الاطہر’ پڑھ لیتے ہیں۔
صھیونیوں سے تعلقات: بہائیوں کے استعماری قوتوں سے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ روس کے ساتھ بہاء کے خاندان کے گہرے تعلقات تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے جیل سے نکلوانے کے لیے روس اور برطانیہ نے دباؤ ڈالا۔
صہیونیوں کے ساتھ بہائیوں کے تعلقات کو ظاہر کرنے میں مصری مصنفہ عائشہ عبدالرحمن کا بڑا دخل ہے۔ وہ ‘بنت الشاطئ ، کے نام سے لکھتی تھیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ استعماری قوتیں ہمیشہ ایسی تحریکوں کی سرپرستی کرتی ہیں جو جہاد کو حرام قرار دیتی ہوں اور حبِ وطن کے جذبے سے سرشار نہ ہوں’ جیسے بہائیت اور قادیانیت وغیرہ۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہودیوں نے ترکی میں بہاء اللہ کا والہانہ استقبال کیا’ پھر فلسطین میں اس کا خیرمقدم کیا اور اس کے لیے قصر البہجۃ تیار کیا۔ استعماری قوتوں اور صہیونیوں کے ساتھ بہاء اللہ کے بیٹے عبدالبہاء عباس افندی کے محبت و تعاون کے تعلقات تھے۔ عبدالبہاء نے سقوطِ فلسطین کے فوراً بعد جنرل لانبے کا پرجوش خیرمقدم کیا اور ‘سر’ کا خطاب حاصل کیا۔ برطانوی سرکار نے اُسے بہت سے اعلیٰ تمغوں سے بھی نوازا۔ عبدالبہاء نے متعدد صہیونی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اس نے اپنی تحریروں اور بیانات میں’ فلسطین میں یہودیوں کے یک جا ہونے کی ہمیشہ تائید وحمایت کی۔ اس کا ایک قول ہے: ‘ اس دور میں بنی اسرائیل ارضِ مقدس میں اکٹھے ہوں گے اور یوں یہودی قوم جو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بکھری ہوئی ہے، یک جا ہو جائے گی’۔
عجیب بات یہ ہے کہ عباس افندی کے بعد بہائیوں کا سربراہ ایک امریکی صہیونی بنا جس کا نام ‘میسون’ تھا۔ یہودیوں نے ۱۹۶۸ء میں مقبوضہ فلسطین میں بہائیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں منظور کردہ قراردادیں صہیونی افکار و آرا سے ہم آہنگ تھیں۔
دنیا میں بہائیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ شکاگو میں ہے۔ اس کا نام ‘مشرق الاذکار’ ہے۔ دنیا میں بحیثیت مجموعی بہائی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم ہے۔ مگر چوں کہ وہ صہیونیوں اور استعماری قوتوں کے گماشتے ہیں اس لیے ان کا نمایندہ اقوامِ متحدہ میں موجود رہتا ہے۔ اسی طرح مختلف بین الاقوامی اداروں میں بھی ان کے نمایندے موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے مفادات کا عالمی سطح پر تحفظ کرتے ہیں’ جیسے یونی سیف اور یونیسکو وغیرہ۔
شیعہ علما کی راے بھی علما ے اہل سنت سے الگ نہیں۔ یہاں بہائیوں کے بارے میں صرف ایک شیعہ عالم دین کی راے لکھی جاتی ہے۔ الشیخ محمد السند کہتے ہیں: ‘بہائیوں کے بارے میں شرعی موقف یہ ہے کہ وہ کفار میں شمار ہوتے ہیں’ کیوں کہ انھوں نے دین اسلام اختیار کرنے سے انکار کیا ہے۔ ان میں سے جو پہلے مسلمان تھا’ پھر اس نے بہائیت قبول کرلی تو وہ مرتد ہوگیا۔ اسی طرح اگر یہ شخص شہادتین اشہد ان لا الٰـہ الا اللّٰہ واشـھد ان مـحمد رسـول اللّٰہادا کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہائیت اختیار کرلیتا ہے تو وہ بھی مرتد ہے’۔
اس مفصل جائزے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بہائیوں کا اپنے آپ کو مسلمان فرقہ ظاہر کرنا یا شیعہ مذہب کا ایک فرقہ ہونے کا تاثر دینا’ انتہائی گمراہ کن ہے۔ اس بے بنیاد دعوے کا مقصد سادہ لوح اور نیم تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا’ اپنے گمراہ کن عقائد کو خوش نما بناکر پیش کرکے اسلام کو زک پہنچانا اور اسلام دشمن طاقتوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہے۔(بشکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن،لاہور)