حمد رب جليل
جب خزاں کرتی ہے اعلانِ تسلّط باغ میں
رنگ کو موسم کے پردوں میں چھُپا دیتا ہے وہ
پھر خزاں کی سلطنت تاراج کر دینے کے بعد
شاخساروں پر نئے غنچے کھلا دیتا ہے وہ
بیج میں رکھے ہیں اس نے ممکناتِ برگ و بار
خاک کے پردوں سے خوشبوئیں اٹھا دیتا ہے وہ
رات کے تاریک باطن سے سحر کر کے طلوع
پھر اُسے سورج کی کرنوں سے سجا دیتا ہے وہ
چھین کر خورشیدِ عالَم تاب کا جاہ و جلال
شام کے کمزور قدموں پر جُھکا دیتا ہے وہ
کھینچتا ہے موت کی ظلمت سے نورِ زندگی
اور پھر اس نور کو ظلمت بنا دیتا ہے وہ
خشک میدانوں کی عریانی چھپانے کے لئے
پربتوں پر برف کی چادر بچھا دیتا ہے وہ
ابر کے ٹکڑوں کو دے کر فطرتِ خوئے خرام
تشنگی تپتی زمینوں کی بُجھا دیتا ہے وہ
بھیجتا رہتا ہے شبنم کے صحیفے رات بھر
لالہ و گل کو سفیر اپنا بنا دیتا ہے وہ
وہ، جنہیں ہوتا ہے تختِ بادشاہی کا غرور
دربدر اُن تاجداروں کو پھرا دیتا ہے وہ
مُورِ بے مایہ کا بھی فریاد رس ہے وہ کریم
فوج داروں کی رعونت کو مٹا دیتا ہے وہ
تشنہ جاں مرغابیوں کو جب ہو پانی کی تلاش
ان کے ننّھے ذہن کو رستے سُجھا دیتا ہے وہ
سرسراتا ہے رگوں میں جب اُداسی کا سکوت
روح کے پاتال سے مجھ کو صدا دیتا ہے وہ
جو مکاں میں بھی نہیں جو لامکاں میں بھی نہیں
لمحہ لمحہ اپنے ہونے کا پتہ دیتا ہے وہ
انور جمال