اصلاح و دعوت
گالی کا جواب: گالی ، شکایت یا خاموشی؟
سيد منظور الحسن
گالی کے پیرائے میں حق بات بھی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ بے علم کو جاہل کہا جائے تو اُسے برا لگتا ہے۔ نشہ کرنے والا اور چوری کرنے والا نشئی یا چور کہلانا پسند نہیں کرتا ۔پھر گالی اگر جھوٹ پر مبنی ہو اور اُس میں تضحیک و تذلیل بھی شامل ہو جائے تو حد درجہ اذیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین و اخلاق میں اسے ایک مسلمہ برائی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ مذاہب اور معاشرے اسے رذائل اخلاق میں شامل کرتے اور اس سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ گالی کے جواب کا ہے۔ اگر کوئی شخص دشنام تراشتا، بہتان لگاتا اور تمسخر اڑاتا ہے تو اُس کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ اِس ضمن میں تین طرح کے رویے اختیار کیے جاتے ہیں:
اول، رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جواب میں بھی گالی دی جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم معاملے کو اپنی ذات کی عدالت میں لے آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فساد پیدا ہوتا ہے۔
دوم، مدافعت کرتے ہوئے زیادتی کی شکایت پیش کی جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم معاملے کو لوگوں کی عدالت میں لے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمیں دی گئی گالی زبان زد عام ہو جاتی ہے۔
سوم، برداشت کرتے ہوئے، خاموش رہا جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ ہم معاملے کو اللہ کی عدالت میں لے گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیادتی کرنے والا شرمندہ ہو کر معافی کا طلب گار بن جاتا ہے یا بہ صورت دیگر قیامت میں سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں، تیسرا رویہ ہی قابل اعتبار اور لائق ترجیح ہے۔ سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
"ایمان والو، نہ (تمھارے) مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہترہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب دو۔ (یہ سب فسق کی باتیں ہیں، اور) ایمان کے بعد تو فسق کا نام بھی بہت برا ہے۔ اور جو (اِس تنبیہ کے بعد بھی) توبہ نہ کریں تو وہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔"
سورۂ حج میں حکم دیا ہے:فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۶۷﴾ وَ اِنۡ جٰدَلُوۡکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۸﴾ اَللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۶۹﴾(الحج 24)
"سو اِس معاملے میں وہ تمھارے ساتھ ہرگز کوئی جھگڑا نہ کرنے پائیں۔ لہٰذا نظر انداز کرو اور اپنے پروردگار کی طرف بلاتے رہو۔ یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔اِس کے بعد بھی اگر وہ تم سے جھگڑنے کے درپے ہوں تو اِن سے کہہ دو کہ اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اللہ قیامت کے دن تمھارے درمیان اُس چیز کا فیصلہ کر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔"
احادیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلسل گالیاں دے رہا تھا۔ حضرت ابو بکر بالکل خاموش تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خاموشی پر مطمئن تھے۔ جب وہ حد سے بڑھ گیا تو حضرت ابوبکر نے بھی کچھ جواب دے دیا۔ اس پر حضور کا اطمینان باقی نہ رہا۔ حضرت ابوبکر نے حضور سےسبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب تک تم خاموش تھے، اللہ کے فرشتے تم پر سلام بھیج رہے تھے۔ جیسے ہی تم نے جواب دیا تو وہ واپس چلے گئے۔
اس سے واضح ہے کہ الزامی دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ جوابی دشنام طرازی بھی دین و اخلاق میں نامقبول ہے۔المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کوئی کام اگر رہنماؤں اور پیش واؤں سے صادر ہو جائے تو عام طور پر اس کی کوئی تاویل یا توجیہ پیش کر کے اُسے محمود یا کم از کم جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بالعموم یہ دلائل دیے جاتے ہیں:
اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔ باطل کا سر اسی طرح کچلنا چاہیے۔ یہ عام انسانی رویہ ہے۔ یہ حق کی حمیت کا اظہار ہے۔ یہ لوگوں کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ یہ ادبا کا شعار ہے۔ ہجو گوئی اور ہزل سرائی تو زبان و بیان کی مسلمہ اصناف ہیں۔
اس طرح کے دلائل پر امام امین احسن اصلاحی کا ایک نوٹ پیش خدمت ہے۔ اسے انھوں نے سورۂ حجرات کی مذکور بالا آیت کے الفاظ’وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:" ’تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ‘ کے معنی آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرنا ہے۔ اچھے القاب سے ملقب کرنا جس طرح کسی فرد یا قوم کی عزت افزائی ہے اسی طرح برے القاب کسی پر چسپاں کرنا اس کی انتہائی توہین و تذلیل ہے۔ ہجویہ القاب لوگوں کی زبانوں پر آسانی سے چڑھ جاتے ہیں اور ان کا اثر نہایت دوررس اور نہایت پائدار ہوتا ہے۔ ان کی پیدا کی ہوئی تلخیاں پشت ہا پشت تک باقی رہتی ہیں اور اگر معاشرے میں یہ ذوق اتنا ترقی کر جائے کہ ہر گروہ کے شاعر، ادیب، ایڈیٹر اور لیڈر اپنی ذہانت اپنے حریفوں کے لیے برے القاب ایجاد کرنے میں لگا دیں تو پھر اس قوم کی خیر نہیں ہے۔ اس کی وحدت لازماً پارہ پارہ ہو کے رہتی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ دور جاہلیت میں عربوں کے اندر یہ ذوق بدرجۂ کمال ترقی پر تھا۔ قبیلہ کا سب سے بڑا شاعر اور خطیب وہی مانا جاتا جو دوسروں کے مقابل میں اپنے قبیلہ کے مفاخر بیان کرنے اور حریفوں کی ہجو و تحقیر میں یکتا ہو۔ ان کے ہجویہ اشعار پڑھیے تو کچھ اندازہ ہو گا کہ اس فن شریف میں انھوں نے کتنا نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا۔ ان کی اس چیز نے ان کو کبھی ایک قوم بننے نہیں دیا۔ وہ برابر اپنوں ہی کو گرانے اور پچھاڑنے میں لگے رہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام نے ان کو انسانی وحدت اور ایمانی ہم آہنگی سے آشنا کیا جس کی بدولت وہ دنیا کی ہدایت و قیادت کے اہل بنے۔ قرآن نے یہاں ان کو دور جاہلیت کے انہی فتنوں سے آگاہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان و اسلام کی برکات سے نوازا ہے تو اس کی قدر کرو۔ شیطان کے ورغلانے سے پھر انہی لاف زنیوں اور خاک بازیوں میں نہ مبتلا ہو جانا جن سے اللہ نے تمہیں بچایا ہے۔"