نكبہ قبامت كبري كيا ہے

مصنف : بي بي سي

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مئي 2023

تاريخ

نکبہ: ’قیامت کبریٰ‘ کیا ہے

فلسطینی اس دن اپنے ہاتھوں میں چابیاں لے کر کیوں نکلتے ہیں؟

بي بي سي

یہ چابیاں دیکھنے میں سادہ مگر وزنی ہیں۔ ان میں سے کچھ زنگ آلود بھی ہیں لیکن وہ صرف دھات کے ٹکڑے نہیں۔ہر سال نکبہ (فلسطین اسے قیامت کبریٰ بھی کہتے ہیں) کے دن فلسطینی سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایک قیمتی آثار کو تھامے ہوئے ہوتے ہیں جسے بہت سے خاندانوں نے نسل در نسل اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے ان گھروں کی چابیاں ہوتی ہیں جہاں سے انھیں 75 سال قبل نکال دیا گیا تھا اور پھر وہ کبھی وہاں لوٹ کر نہ آ سکے۔

غرب اردن میں رام اللہ کی رہائشی اور فلسطینی شہریت و پناہ گزین کے ریسورس سینٹر بورڈ کی رکن لبنی شمالی نے بی بی سی ورلڈ کو بتایا: ’انھوں نے چابیاں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں کیونکہ انھیں واپسی کی امید اور خواہش ہے۔ یہ چابیاں ان کے گھروں کی علامت ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے گھر ابھی تک کھڑے ہیں یا تباہ ہو چکے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق ہے جس کا بین الاقوامی قانون نے ان سے وعدہ کیا تھا۔‘

اسرائيل نے برٹش مینڈیٹری فلسطین سے 14 مئی 1948 کو آزادی کا اعلان کیا جس کے دوسرے دن سے 15 ماہ تک جاری رہنے والی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور اس کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔

یہ وہی بے دخلی ہے جسے نکبہ یا 'قیامت کبریٰ' کے نام سے جانتے ہیں اور ہر سال 15 مئی کو مظاہروں کے روپ میں اس کی یاد مناتے ہیں اور اس میں ان کے گھروں کی چابیوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔

اسرائیل بننے والے علاقوں میں رہنے والے فلسطینی اسرائیلی فوجیوں اور صیہونی ملیشیا پر انھیں وہاں سے نکالنے کا الزام لگاتے ہیں۔ انھیں پھر کبھی واپس نہیں آنے دیا گیا۔

تاہم اسرائیلی حکام یہ کہتے ہیں ہوئے اس الزام کا دفاع کرتے ہیں کہ عرب ممالک نے ہی فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اپنی زمینیں اور گھر بار چھوڑ دیں تاکہ نوزائیدہ ریاست پر جب وہ حملہ آور ہوں تو انھیں جنگ کے نتائج بھگتنا نہ پڑیں۔

آج اقوام متحدہ تقریباً 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو تسلیم کرتا ہے، جن میں سے اکثر اردن، غزہ، مغربی کنارے، شام، لبنان اور مشرقی یروشلم کے کیمپوں میں رہتے ہیں۔

شمالی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں: 'فلسطینی کمیونٹیز میں بہت خوف تھا، بہت سے لوگ جو کچھ لے کر بھاگ سکتے تھے وہ لے کر بھاگے جن میں چابیاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے یہ سوچ کر اپنے گھر بند کر لیے کہ جب تشدد کم ہوگا، تو وہ واپس آ کر اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔'

لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔

یادوں کا جغرافیہ

بہت سے معاملوں میں وہاں جانے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ جیسا کہ فلسطین کے عظیم شاعر محمود درویش کے آبائی شہر البروہ کے ساتھ ہوا۔11 جون کو جب اسرائیلی فوجی ایکرے یا اکا سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر البروہ پہنچے تو وہاں تقریباً 1500 لوگ مقیم تھے۔ آج وہان صرف وہی بچا ہے جو کبھی سکول ہوا کرتا تھا۔محمد کیال کے خاندان کو بھی البروہ سے بھاگنا پڑا تھا۔ انھوں نے الگلیلی میں یودیدی المکر میں اپنے گھر سے بی بی سی منڈو کو بتایا: ’جس دن فوجی نمودار ہوئے، میرے والدین اپنی کچھ چیزیں لے کر قریبی شہر بھاگ گئے، جہاں انھوں نے زیتون کے درختوں کے نیچے میرے دادا دادی اور میرے دو بڑے بھائیوں کے ساتھ کئی دن گزارے۔‘ان کے والدین عبدالرازق اور آمنہ کے پاس اچھی خاصی زمین تھی جہاں وہ پھل دار درخت، زیتون کے درخت اور دیگر فصلیں آگاتے تھے۔ پیشے سے صحافی اور مترجم کیال کہتے ہیں کہ ’انھوں نے اچھی زندگی گزاری تھی، ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔‘ وہ عرب فلم سٹار ام کلثوم اور محمد عبدالوہاب کی فلمیں اور کنسرٹ دیکھنے حیفہ جایا کرتے تھے۔

راحت بھری ان کی وہ زندگی راتوں رات ختم ہو گئی۔ کیال کا کہنا ہے کہ البروہ میں صرف 50 لوگ رہ گئے، جو گاؤں کے چرچ میں پیرش پادری کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھے۔ کچھ دن بعد انھیں بھی پرتشدد جھڑپوں کے بعد نکال دیا گیا۔

کیال کے خاندان نے اپنے سفر کا آغاز قریبی قصبوں سے کیا، جہاں ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ پہلے ایک دوریز خاندان، پھر ایک عیسائی خاندان اور آخر میں ایک مسلمان خاندان نے ان کی مہمان نوازی کی۔

عبدالرزاق نے ایک فیکٹری میں مزدور اور نائٹ گارڈ کے طور پر کام کرنا شروع کیا، جس کی مدد سے وہ اپنے آبائی شہر سے تقریباً دو کلومیٹر دور یودیدی میں زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا خریدنے اور آزادانہ طور پر رہنے کے لیے ایک کمرہ بنانے میں کامیاب رہے۔

محمد وہیں پیدا ہوئے اور اپنی زندگی کے 67 سال وہیں گزارے۔ حالانکہ بہت سے دوسرے فلسطینیوں کی طرح اگر ان سے پوچھا جائے کہ وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں، تو وہ ہمیشہ جواب میں کہیں گے کہ 'البروہ سے۔‘

کیال قدرے تلخی کے ساتھ کہتے ہیں: ’میرے والدین نے البروہ واپس آنے کی تمام امیدیں کبھی نہیں چھوڑیں، حالانکہ انھوں نے دوبارہ کبھی اپنے گاؤں میں قدم نہیں رکھا۔‘

جب ان کی موت ہوئی تو وہ اپنی سرزمین میں جہاں پیدا ہوئے تھے دفن نہ ہو سکے۔ قصبے کے قبرستانوں کی بے حرمتی کی گئی اور سنہ 1948 کے بعد کسی کو دوبارہ وہاں دفن نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ اس کے سب سے مشہور پڑوسی محمود درویش کو بھی دفن نہیں کیا گیا اور انھیں رام اللہ میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔

درویش یا کیال کی جلاوطنی کی کہانی ان لاکھوں کہانیوں میں سے ایک ہے جس نے فلسطینیوں کے قومی شعور کو بُنا ہے۔

فلسطینی-امریکی مورخ راشد خالدی بتاتے ہیں: ’فلسطینی جانتے ہیں کہ ان کے بہت سے گاؤں اور مکانات اب موجود نہیں ہیں۔ لیکن ان کی چابیاں ان کے فلسطین واپس جانے کی خواہش کی علامت ہیں۔‘ راشد خالدی یونیورسٹی آف کولمبیا میں ماڈرن عرب اسٹڈیز کے ایڈورڈ سید چیئر پر فائز ہیں۔

البروہ کی طرح تقریباً 400 فلسطینی بستیاں متاثر ہوئیں۔

پروفیسر خالدی کے مطابق جب سنہ 1947 کے آخر میں (اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے اپنے منصوبے کا اعلان کرنے کے بعد، جس نے اس علاقے کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا، ایک یہودی اور ایک عرب) لڑائی شروع ہوئی اور جب تک کہ ریاست کا 14 مئی 1948 کو اعلان نہ ہوا اس وقت تک تقریباً 300,000 فلسطینیوں کو صہیونی ملیشیا نے ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’فلسطین، ون ہنڈرڈ ایئرز آف کولونولیلزم اینڈ رسسٹینس' کے مصنف خالدی کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد ’اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی زیادہ منظم بے دخلی شروع کی اور مزید 450,000 لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔‘

یہ اعداد و شمار بس ایک تخمینہ ہیں، لیکن اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں کے زیر انتظام اعداد و شمار کے مطابق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 80 فیصد فلسطینیوں کو بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔ لبنا شومالی وضاحت کرتی ہیں کہ واپسی کی کوشش کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، قید کیا گیا یا جلاوطنی پر مجبور کیا گیا کیونکہ ان پر 'درانداز' کا لیبل لگا دیا گیا تھا۔

 

خالدی بتاتے ہیں: ’صرف وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے اور اسرائیل نے اپنی پہلی مردم شماری میں انھیں رجسٹر کیا تھا، انھیں ہی اسرائیلی شہری تصور کیا گیا تھا۔ باقی تمام کو غیر حاضر قرار دیا گیا اور ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی، چاہے وہ مثال کے طور پر مشرقی یروشلم کے ہی کیوں نہ ہوں اور ان کا گھر صرف شہر کے دوسرے حصے میں چند میٹر پر ہی کیوں نہ ہو۔‘

کچھ جگہوں پر جہاں آبادی نے مزاحمت کی وہاں مورخین نے قتل عام کی دستاویز لکھی ہے جیسا کہ دیر یاسین میں ہوا جہاں جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد ایک سو فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یا پھر تنتورہ کے واقعے کو ہی لے لیں جہاں کچھ شاہدین کے مطابق 200 غیر مسلح افراد کو قتل کر دیا گیا اور یہ واقعہ ایک حالیہ اسرائیلی دستاویزی فلم کا مرکزی کردار رہا ہے۔

مورخین کے اتفاق رائے کے مطابق سنہ 1948 میں فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کی آبادی کا صرف ایک تہائی حصہ یہودی تھے جو تقریباً 600,000 لوگ تھے۔ کولمبیا کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ اور یہ برادری وہاں کی زمین کے ’صرف چھ یا سات فیصد حصے کے مالک تھے۔ اور وہ بھی نجی ہاتھوں کے بجائے بنیادی طور پر صہیونی تنظیموں جیسے کہ جیوش نیشنل فنڈ یا جیوش کالونائزیشن ایجنسی کے پاس تھی جب کہ زمین کی زیادہ اکثریت ریاست کی تھی یا عرب مالکان کی تھی۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں

’منظم پالیسی‘

خالدی کہتے ہیں: 'فلسطینیوں کی بے دخلی جنگ کا کوئی اتفاقی نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ایک منظم پالیسی تھی۔ آپ آبادی کو تبدیل کیے بغیر اکثریتی عرب ملک کو یہودی ریاست میں تبدیل نہیں کر سکتے۔ صہیونی رہنما 1930 کی دہائی سے یہ سمجھتے تھے کہ صرف نقل مکانی سے یہودیوں کی اکثریت بنانا ممکن نہیں ہے انھیں عربوں کو بھی منتقل کرنا پڑے گا۔‘

تاہم، ابتدائی اسرائیلی حکمرانوں نے ایک بہت ہی مختلف کہانی بنائی۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں یہودی تاریخ کے پروفیسر ڈیرک پینسلر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اس کے لیے 'ایک بیانیہ بنایا گیا جو سنہ 1950 کی دہائی میں اسرائیل میں مضبوط ہوا تھا اور جسے دنیا کے بہت سے یہودی آج بھی مانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نقل مکانی کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ رضاکارانہ تھی یا عربوں کے احکامات کے جواب میں تھی اور حقیقت میں ایسا تھا کہ اسرائیلیوں نے اس کے بعد ہر ممکن کوشش کی تاکہ عرب وہاں سے چلے نہ جائیں۔'

آج مورخین کے درمیان اس نظریے میں تبدیلی آئی ہے۔

'دی اوریجنز آف اسرائیل 1882-1948: ایک دستاویزی تاریخ‘ جیسے اہم کام کے مصنف پینسلر نے کہا: 'اسرائیلی مورخین کے درمیان، خواہ بائیں بازو کے نظریات کے حامل ہوں ہو یا دائیں کے، سب اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطینیوں نے اپنی مرضی سے اپنے گھر بار نہیں چھوڑے بلکہ بے دخلی کے واضح واقعات ہوئے تھے، جیسے کہ رام اللہ اور لوڈ کے قصبوں میں پیش آئے۔ تعداد کے لحاظ سے (بے گھر ہونے والے) 750,000 تھے۔'

تاہم اسرائیلی محققین جس چیز پر متفق نہیں ہیں وہ ان بے دخلی کے متبادل ہیں۔ پینسلر نے کہا: 'آج بحث یہ ہے کہ اسرائیلی اس وقت اور کیا کر سکتے تھے، آیا یہودی ریاست ان 750,000 عربوں کے ساتھ قابل عمل تھی یا نہیں۔'

1967 میں چھ روزہ جنگ میں یروشلم کے پرانے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی حکام نے ایک پلازہ بنانے کے لیے دیوار گریہ کے سامنے والے مکانات کو گرا دیا

1967 کے بے گھر ہونے والے

بے دخلی کا یہ معاملہ 1948 میں ہی ختم نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد مزید 300,000 افراد کو کو بے دخل کر دیا گیا۔

اس وقت جو ہزاروں فلسطینی بیرون ملک کام کرنے، رشتہ داروں سے ملنے یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے تھے اور جیسا کہ لبنی شومالی کے شوہر کے ساتھ ہوا انھون نے اچانک اس چھ روزہ جنگ کے بعد پایا کہ وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکتے۔ وہ وضاحت کرتی ہیں کہ 'ایس لوگ حقیقی پناہ گزین بن گئے۔'

اس کے بعد اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں 140 بستیوں کی تعمیر کی اجازت دی جن میں تقریباً 600,000 یہودی رہتے ہیں لیکن انھیں عالمی برادری غیر قانونی سمجھتی ہے۔

ان بے گھر افراد کی واپسی کا حق، جس کی توثیق اقوام متحدہ کی قرارداد 194 نے 11 دسمبر سنہ 1948 کو منظور کی تھی، فلسطینیوں اور ان کے رہنماؤں کے اہم مطالبات میں سے ایک ہے۔

اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ 'جو پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں، انھیں جلد از جلد ایسا کرنے کی اجازت دی جائے۔' اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'جو لوگ واپس نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کو ان کے اثاثوں کا معاوضہ دیا جانا چاہیے۔'

یکے بعد دیگرے اسرائیلی حکومتوں نے یہ موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 فلسطینیوں کے واپس جانے کے مخصوص 'حق' کو تسلیم نہیں کرتی بلکہ یہ تجویز کرتی ہے کہ پناہ گزینوں کو واپسی کی اجازت دی جائے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے کہ 'نہ تو بین الاقوامی کنونشنز کے تحت، نہ ہی اقوام متحدہ کی اہم قراردادوں کے تحت، اور نہ ہی فریقین کے درمیان متعلقہ معاہدوں کے تحت، فلسطینی پناہ گزینوں کو اسرائیل واپس جانے کا حق حاصل ہے۔'

ڈیرک پینسلر کا کہنا ہے کہ 'سنہ 1950 کی دہائی میں حکومت کا بیانیہ یہ تھا کہ عربوں نے جنگ شروع کی اور اس لیے انھیں اس کے نتائج بھگتنے پڑے، اور یہ ایک بیانیہ ہے جو آج بھی موجود ہے۔'

یہ منطقی طور پر عرب اسرائیل تنازع سے نکلنے کے راستے کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔

اسرائیل کی آبادی 90 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ 50 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کو واپس نہیں آنے دے سکتا کیونکہ اس کا مطلب یہودی ریاست کے طور پر اس کے وجود کا خاتمہ ہوگا۔