اصلاح و دعوت
نيك لوگوں كي صحبت كا متبادل
عمار خان ناصر
نیک لوگوں کی صحبت اور کسی اللہ والے کے ساتھ تعلق، یہ اصلاح وتربیت کے حوالے سے ہماری دینی روایت کا ایک معروف اور مقبول نسخہ رہا ہے جو عموماً نئی نسل کو بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے شاید یہ اب بھی مفید ہوگا، لیکن عمومی مشاہدہ اور تجربہ اب اس میں کافی ترمیم اور اجتہاد کا متقاضی ہے۔نیک صحبت اور اللہ والے کے ساتھ تعلق، دونوں میں ایک بنیادی مشکل یہ ہے کہ دونوں ایک قیمت مانگتے ہیں جو ہمارے ماحول میں questioning mind اور انفرادیت کا کسی بھی درجے کا احساس رکھنے والے افراد کے لیے ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ نیک ماحول اپنے ساتھ مستقل وابستگی کے لیے ماحول کے ساتھ یک رنگ ہونے کا طالب ہوتا ہے اور اللہ والے کے ساتھ تعلق کا جو تصور متعارف ہے، وہ تو مبنی ہی بدست زندہ ہونے کے اصول پر ہے۔ شیخ جیسا بھی باکمال اور بے نفس ہو، اس تعلق کی نفسیات میں possessive ہونا شامل ہے جس سے شیخ بھی خود کو مبرا نہیں کر سکتا، الا ماشاء اللہ۔ اس کے ساتھ جب پیران طریقت پر مروجہ دنیاپرستی کے اثرات شامل ہو جائیں تو یہ تعلق بسا اوقات الٹا دین اور روحانیت سے نفرت وغیرہ پر منتج ہو جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم سب کو ہوتا رہتا ہے۔
نظری طور پر یہ کہہ دینا آسان ہے اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی مثال بیان کر دینا بھی آسان ہے کہ انھوں نے اپنے شیخ سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کی بیعت اپنی اصلاح کے لیے کی ہے، دین سیکھنے کے لیے نہیں، لیکن یہ ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اب تو پیران کرام مریدوں کے بالکل ذاتی معاملات پر بھی اثر انداز ہونے کی خواہش رکھتے اور اس میں فرماں برداری کو روحانی تعلق کا معیار مانتے ہیں۔ اسی لیے درس نظامی کی فراغت کے بعد والد گرامی نے ہمارے ہاں آنے جانے والے بعض پیران طریقت کے متعلق مجھے باقاعدہ خبردار کیا تھا کہ اگر وہ کبھی اچانک بیعت کے لیے نظر کرم فرمانا چاہیں تو گول مول بات کر کے ٹال دینا کہ میں پہلے سے کسی بزرگ کے ساتھ تعلق میں ہوں، لیکن بیعت نہ کرنا۔
مجھے ذاتی طور پر الحمد للہ مریدی کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر بعض اہل تقویٰ کے غیر رسمی تعلق سے اور بعض اہل علم کے اصلاحی لٹریچر سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ میرا ناچیز مشورہ نئی نسل کے باصلاحیت اور سوچنے سمجھنے والے علماء کو بھی یہی ہے کہ کسی شیخ کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے کی غلطی نہ کریں کہ اس کی قیمت آپ نہیں دے سکیں گے اور الٹا ایک نفسیاتی اور روحانی بوجھ لے کر لوٹیں گے۔ اگر عزم وارادہ اور توفیق الہی شامل حال ہو تو ان شاء اللہ تلاوت اور مسنون اذکار کے ساتھ ساتھ صفۃ الصفوۃ لابن الجوزیؒ سے صالحین کے احوال کا مطالعہ کرتے رہنا اور اصلاحی ادب میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مواعظ یا مولانا وحید الدین خانؒ کے تذکیری لٹریچر (فکری لٹریچر نہیں) سے استفادہ کرتے رہنا ضروری اصلاح کے لیے کافی ہوگا۔