پاكستانيات
آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا
میر کیا سادہ ہیں—
دو دن پہلے سینٹ کی پٹرولیم کمیٹی کا اجلاس تھا۔ عمران مگھرانہ جو میرے ساتھ ہوتے ہیں نے ایجنڈہ بھیجا تو بہت اہم ایشوز تھے جو زیر بحث آنے تھے۔ ساری سستی ایک سائیڈ پر رکھی اور تیار ہو کر اجلاس شروع ہونے سے دس مںنٹ پہلے پہنچ گیا۔ کمیٹی روم میں اس وقت صرف دو سینٹرز تھے اور دونوں لیڈیز سینٹر تھیں۔ سعدیہ عباسی اور رخسانہ زبیری۔ مرد سینٹرز کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ چیرمین کمیٹی بھی نہیں تھے۔ رولز کے تحت تین ممبروں کا کورم بنتا ہے۔ اب تین سینٹرز بھی پورے نہیں ہورہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ پٹرولیم سیکرٹری اور دو درجن سے زیادہ مختلف اداروں کے سربراہ اور ان کے ساتھ ان کےسرکاری اسٹاف میٹنگ روم میں بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ کب سینٹرز آئیں اور اجلاس شروع ہو۔ اب جن جن اداروں کے سربراہان کراچی لاہور اور اسلام آباد سے اپنے دفاتر چھوڑ کر رات فلائٹس لے کر اس اہم اجلاس میں شریک تھے ان میں PSO، SSGC,SNGPL, OGDCکے اعلی افسران موجود تھے۔ اس کے علاوہ ایجنڈے پر موجود ایشوز پر بات کرنے کے لیے PMDC کے اعلی افسران موجود تھے۔ ان سب کی تعداد تقریبا تیس سے چالیس ہوگی۔ کچھ اجلاس کے اندر اور کچھ باہر موجود تھے۔ اس کے علاوہ درجن بھر میڈیا کے لوگ بھی موجود تھے۔ سینٹ سیکرٹریٹ کا اسٹاف اور سیکورٹی عملے پر موجود اہلکار الگ سے۔ مطلب یہ کہہ لیں تقریبا پچاس کے قریب لوگ وہاں بیٹھے انتظار کررہے ہیں۔ صرف دو سینٹرز موجود ہیں اور جب تک ایک اور سینٹر اور چیرمین نہیں آتے اجلاس شروع نہیں ہوسکتا۔
اب پندرہ بیس منٹ بعد ایک اور سینٹر تشریف لاتے ہیں۔ اور پھر چیرمین کمیٹی آتے ہیں۔ یوں اب تین سینٹرز ساتھ اجلاس شروع ہوسکتا ہے حالانکہ اس کمیٹی کے کل ممبران چودہ ہیں جن میں پٹرولیم کے وزیر بھی شامل ہیں۔ بڑی مشکل سے تین پورے ہوئے تاکہ اجلاس شروع ہوسکے۔
اب زرا ایجنڈہ ملاحظہ فرمائیں کہ آج کے اجلاس میں ان موضوعات پر بات ہونی ہے جس پر ان تین سینٹرز کو بریف کرنے کے لیے درجنوں افسران سب کام چھوڑ کر موجود ہیں۔
پٹرولیم بل 2022 میں کچھ اہم ترامیم ہونی ہیں۔ ایل پی جی ریٹس پر بھی کمیٹی کو افسران نے بریف کرنا ہے۔ کم آمدن والے عام لوگوں کے لیے فیول سستے داموں فراہم کرنے پر بھی بات ہونی ہے۔ آئل اور گیس کمیٹی نے جو تین فیلڈز پر دسمبر دو ہزار بائیس کے اجلاس جو ہدایات دی گئی تھیں ان کی پراگریس پر بھی کمیٹی ممبران کو بریف کرنا تھا جس میں جھل مگسی فیلڈ بھی شامل تھا۔ سب سے اہم ایجنڈا یہ تھا کہ پٹرولیم وزارت کو جاپانی کمپنی نے پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان کو روسی تیل اور نائیجیریا ایل این جی عالی مارکیٹ ریٹ سے 35 فیصد کم ریٹ پر فراہم کرنے کو تیار تھی۔
سینٹرز کو اس بات پر بھی بریف کرنا تھا کہ پی ایس او، SSGC, SNGPL اور OGDC کا سرکلر ڈیٹ کیسے کم کرنا ہے جو اس وقت پورے آئل اور گیس سیکٹر کو بری طرح متاثر کررہا ہے جس کی وجہ سے ہر دن بجلی گیس کے ریٹس بڑھ رہے ہیں۔ جو سب سے بڑا ایشواجلاس میں اٹھایا جانا تھا وہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں آئل ریفائنری کا قیام، دس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اس منصوبے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے۔
ایک اور اہم ٹاپ یہ تھا کہ روس سے لانگ ٹرم بینادوں پر آئل اور گیس خریداری کے کنڑیکٹس کیسے پاکستان لے سکتا ہے تاکہ انرجی بحران کو مستقل بینادوں پر کم کیا جائے۔
اس کے علاوہ SSGC کے بورڈ ممبران کی پرفارمنس اور نئے ڈائریکٹرز کی تعنیاتی پر بھی اس اجلاس میں بات ہونی تھی۔
اب زرا ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان کے ان اہم ایشوز پر وہاں اجلاس میں کیا بات ہوئی۔ اجلاس شروع ہوتے ہی پٹرولیم بل پر ایک افسر نے بریفنگ شروع کی ۔ چند منٹ گزرے ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے دو سینٹرز آئے اور دو تین منٹ بعد انہوں نے درمیان میں اس بریفنگ کو روکا اور پوچھا پہلے بتایا جائے وزیر کہاں ہیں۔ انہیں بتایا گیا وہ کسی کانفرنس کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔ پھر بات اس پر شروع ہوگئی وہ وزیر پہلے بھی دو تین اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ یہ کمیٹی کی توہین ہے۔اس پر سیکرٹری پٹرولیم نے کہا سر وزیرصاحب اور کمیٹی کے درمیان کچھ پرانا ایشو چل رہا ہے۔ بہتر ہوگا اگر آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر وہ معاملہ طے کر لیں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں۔
ان الفاظ پر پی ٹی آئی سینٹرز بھڑک پڑے۔ سیکرٹری اور ان وزراء کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ سیکرٹری نے کہہ دیا آپ مجھے براہ راست رگڑنے کی بجائے کمیٹی چیرمین کو ایڈریس کریں کیونکہ رولز آف بزنس یہی کہتے ہیں تاکہ آپس میں کراس ٹاک نہ ہو اور کوئی تلخی کا ماحول نہ نبے۔ سیکرٹری پٹرولیم بھی احتیاط کا دامن چھوڑ چکے تھے۔ سینٹرز پہلے سے غصے میں تھے یوں شاوٹنگ میچ شروع ہوگیا اجلاس میں۔
پتہ چلا وزیر مصدق ملک کے اجلاس میں نہ آنے کی وجہ چند ماہ پہلے کا ایک اہم اجلاس تھا جس میں سندھ سے سینٹر اوبڑو کے ساتھ ان کی تلخی ہوئی تھی اور سینٹر نے کہا تھا آپ وزیرمملکت ہیں آپ اجلاس میں نہیں آسکتے۔ صرف وفاقی وزیر آسکتا ہے۔اس سے پہلے مصدق ملک اجلاس میں شریک ہوتے تھے اور سینٹرز کو اچھی طرح بریف کرتے اور سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتے تھے۔ جب انہیں کہا گیا وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے تو انہوں نے اجلاس میں آنے سے معذرت کر لی کہ جب آپ لوگ مجھے وہاں دیکھنا نہیں چاہتے تو میں کیوں آئوں۔ اب ان کا کہنا تھا کہ پہلے سینٹرز طے کر لیں کہ وہ اجلاس میں شریک ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کی طرف اب سیکرٹری پٹرولیم نے اشارہ کیا تھا جس پر پی ٹی آئی سینٹرز بھڑک اٹھے تھے اور دونوں اطراف سے گولہ باری شروع ہوگئی۔
دراصل مصدق ملک نے اس اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ جب اسد عمر وزیر تھے تو اس وقت ایل این جی تین ڈالر کے حساب سے مل رہی تھی لیکن انہوں نے پٹرولیم وزارت کو خط لکھ کر روک دیا تھا کہ وہ اس ریٹ پر ایل این جی نہ خریدیں۔ وزارت افسران پٹتے رہ گئے کہ سر بہت سستی مل رہی ہے خریدنے دیں۔ مصدق ملک کی وزارت کے افسران کا اجلاس میں کہنا تھا کہ اسد عمر نے روک دیا تھا۔ مصدق ملک نے اجلاس کو بتایا تھا کہ اس کے کچھ عرصے بعد جو ایل این جی تین ڈالر کے حساب سے مل رہی تھی وہ 41 ڈالرز کے حساب سے خریدی گئی اور پاکستان نے کئی کروڑ ڈالرز زیادہ ادا کیے تھے اور پاکستانیوں کو بھی وہ مہنگی بیچی گئی تھی کیونکہ مہنگی ملی تھی۔ اگرچہ اسد عمر اس خط سے انکار کرتے رہے ہیں کہ ایسا خط نہیں لکھا گیا تھا تاہم وزارت کے افسران کا اجلاس میں کہنا تھا وہ خط ان کے پاس موجود تھا جب انہیں تین ڈالر کے حساب سے ایل این جی کا کارگو شپ نہیں خریدنے گیا اور اکتالیس ڈالرز پر خریدا گیا۔
شاید اس انکشاف بعد پی ٹی آئی سینٹرز مصدق ملک اور ان کی وزارت کے افسران کے دشمن ہوگئے تھے۔ ابڑو بھی پی ٹی آئی کے سینٹر تھے جنہوں نے مصدق ملک کو کہا تھا آپ اجلاس میں نہ آیا کریں اور وہ آنا چھوڑ گئے۔
ابھی اجلاس چند منٹ چلا ہوگا کہ ایک سینٹر کھڑے ہوئے کہ میں احتجاجا واک آئوٹ کررہا ہوں، پھر دو دوسرے کھڑے ہوئے وہ چلے گئے۔کورم ٹوٹ گیا۔ سینٹر رخسانہ زبیری چیرمین سے لڑتی رہیں کہ اجلاس مت ملتوی کریں۔ وہ کراچی سے فلائٹ لے کر عوام کے پیسے لگا کر آئی ہیں۔ یہ سب افسران اپنے کام چھوڑ کر آئے ہیں۔ الاونس ٹی اے ڈی خرچ ہوا ہے۔ قوم کے لاکھوں روپے اس اجلاس پر لگے ہیں۔
پٹرولیم کمیٹی چیرمین بھی پی ٹی آئی سینٹر ہیں۔انہوں نے کہا وہ اپنے پارٹی سینٹرز آگے بے بس ہیں.
یہ اجلاس چند منٹ چلا۔ سب نے اپنا اپنا الاونس اور ٹی اے ڈی اے لیا۔اتنا اہم ایجنڈا اور ایشوز سب ٹھس۔یہ ہے ہماری حکمران کلاس کی اس ملک کے حالات ٹھیک کرنے کی سنجیدگی کا عالم۔ یہ ہیں آپ کے وہ عظیم لیڈرز جنہوں نےاس ملک اور قوم کو عظیم بنانا ہے۔
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔