بطور استاد یہ میرا چوتھا سال تھا جبکہ بطور پرائمری اسکول ٹیچر گریڈ اول کے یہ میرا تیسرا سال تھا۔طلباء کو سبق پڑھانے کے بعد میں نے انہیں تحریری طور کچھ کام کرنے کو کہااور پھر بچوں کے درمیان گھومنا شروع کر دیا،تاکہ جن بچوں نے کام مکمل کر لیا ہے اس کا مشاہدہ کر سکوں۔میرے پاس ایک تسبیح تھی جو کہ آج بھی میرے پاس ہے نوعمری ہی سے میں اسے جیب یا ہاتھ میں رکھتا آرہا ہوں۔ایک روز جب ایک طالب علم کے کام کی درستی کے لیے میں اس کے قریب پہنچا تو اس تسبیح کا ایک حصہ میری جیب سے باہرنکل آیا۔میں نے محسوس کیا کہ کوئی اسے اپنی چھوٹی انگلی سے چھو رہا ہے، لیکن میں نے مڑ کر نہیں دیکھا، اور اپنی حالت پر قائم رہا۔اس کے بعد میں نے سوچا کہ دیکھوں تو کیا ماجرا ہے، مجھے ہاتھ کے نیچے سے ایک دلچسپ منظر دکھائی دیا میں نے دیکھاکہ طالب علموں میں سے ایک ننھا طالب علم میری جیب سے نکلی تسبیح کو پیار سے ٹٹول رہا ہے، اور اس دوران اس کے چہرے پر عجیب سی جادوئی مسکراہٹ ہے۔میں سیدھاکھڑا ہوا، خاموشی سے تسبیح نکالی اور اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر تسبیح اس کی گود میں رکھ دی۔اس کے بعد میں وائٹ بورڈ کے پاس بچوں کوکوئی بات سمجھانے چلاگیا، اور بچوں سے کہا کہ وہ خود کو تفریح (بریک) کے لیے تیار کریں۔ میں نے ننھے طالب علم کی طرف دیکھا کہ تفریح کے اعلان سے خوش ہونے کے بجائے وہ تسبیح سے کھیلنے میں مگن تھا اس نے اپنے ہاتھوں سے میز پر تسبیح رکھ کر اسے زور سے رگڑا اور پھر اسے سونگھ کر اپنی خوبصورت معصوم آنکھوں سے لگایا۔میں اس کے رویے پر حیران تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ اسے معلوم ہو کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔اسی دوران کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی، اور بچے جوق در جوق باہرنکلنے لگے۔ جبکہ تسبیح والا ننھا طالب علم اپنی جگہ پر بیٹھا رہا۔وہ باربار اس عمل کو دہراتے جا رہا تھا۔ میں کَن اکھیوں سے اس کی حرکت دیکھتا رہا اوراسے یہی احساس دلایا کہ میں بلیک بورڈ کو ترتیب دینے میں مصروف ہوں۔اسی دوران بچہ میرے پاس آیا وہ کچھ بولنا چارہا تھا مگر ایک دم خاموش ہو گیا -85۔‘‘پھر اس نے کہا، ‘‘استاذ جی آپ کی تسبیح!‘‘میں نے اسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ بچے نے میرا ہاتھ پکڑ کر چوما اور کہا:
میں آپ سے پیار کرتا ہوں استاذ جی!! میں اس کے پاس گیا اور اس کے سر کو چوما، اور اس سے کہا: میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں اور اسے گلے لگا لیا۔اس دوران اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔وہ کلاس چھوڑ کر چلا گیا، لیکن میرے لیے بہت سے سوالات چھوڑگیا؟کوئی بچہ آپ سے کہے: میں آپ سے پیار کرتا ہوں، یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
میرے پاس سکول ڈائریکٹر کی تعریف اور کام کی کارکردگی کی امتیازی حیثیت کی ڈگری، ناظم تعلیم کی تعریف، ڈائریکٹر ایجوکیشن کا امتیازی اعزاز، اور بیسیوں تعریفی اسناد تھیں لیکن اس ننھے طالب علم کی محبت کا اظہار میرے لیے ان سب اعزازات سے بڑا تھا۔میں ایک عجیب خوشی کے ساتھ اسکول کی راہداریوں میں سے ایک کے اندر چلا گیا اور حیرت میں گم سم تھا۔اسی دوران اسکول کے شعبہ ریکارڈ کے ذمہ دار سے میرا سامنا ہوا-85 تو میں نے بے ساختہ اس سے پوچھا:کہ پہلی جماعت کے طلباء کی فائلیں کہاں ہیں؟
اس نے بڑی شفقت سے مجھے متعلقہ دفتر میں ریفر کیا۔میں نے اس سے اجازت لی اور طالب علم کی فائل تلاش کرنے لگا۔ وہاں موجود ملازم نے کہا: سر آپ کیا چاہتے ہیں؟میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔وہ مسکرایا اور مجھے اول جماعت کی فائلیں تھما دیں۔ میں نے بچے کی فائل نکالی اور اسے کھولا۔
تو مجھے وہاں اس کا داخلہ فارم مل گیا جہاں اس کے خاندان کی معلومات درج تھیں میں کیا دیکھتاہوں؟کہ اس میں اس کے باپ کی تصویر نہیں تھی اور اس کی جگہ (وفات) لکھا تھا۔یہی دراصل راز تھا۔بعد میں پتہ چلا کہ بچے کا باپ اس کے اسکول میں داخل ہونے سے ایک ماہ قبل ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں فوت ہو گیا تھا خدا اس کی مغفرت فرمائے۔اور یہ یتیم بچہ اس کا پہلا بیٹا ہے۔بچے کی خواہش تھی کہ اس کا باپ اس کے ساتھ اپنا اسکول کا تجربہ شیئر کرے؛ اس کا نہ ہونا تقدیر خداوندی تھی
اور نفسیاتی طور پریہ بچہ چاہتا تھا کہ میں (بدل کے طور پر) اس کے باپ کی محبت کی تلافی کروں جو اب دنیا میں نہیں۔اس صورتحال نے میرے کیریئر اور میرے انسانی رشتوں کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
مجھے یقین ہے کہ تعلیم ایک عظیم قدر اور پیغام ہے۔اس کے بعد میں نے اپنے اس ننھے طالب علم کاساتھ اپنا رشتہ چھونے، سلام کرنے اور سرپر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ مضبوط کرنا شروع کیا۔صبح اسمبلی کی قطار میں’میں سب بچوں کو ایک ایک کرکے چیک کرتا تھا اور پھر اس بچے کے پاس کھڑا ہو جاتا تھا۔میں اسکول کے اوقات میں اس کی نگرانی کرتا تھا، اور تمام مضامین کی رپورٹ چیک کرتا۔چنانچہ بچہ دوسری جماعت میں کامیاب ہوا۔مجھے یاد ہے کہ وہ کھیل کود کے وقفہ میں فٹ بال کھیلتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے ایک ساتھی نے اسے مارا
وہ رونے لگا۔ اس نے فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کو شکایت کی ۔ پھر وہ سکول کے ہال میں داخل ہوا اور پھر ٹیچرز کے کمرے میں-85. وہ آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے میرے پاس آیااور مجھے کہا: سر مجھے فلاں نے مارا۔
میں نے اس سے کہا: اسے تو کوئی حق نہیں کہ آپ کو مارے۔وہ کہنے لگا آپ’’اٹھو، میرے ساتھ چلو!!!‘‘میں نے کہا: اچھا بیٹا خوش ہو جاؤ۔میں چلتا ہوں’’میں اس کے ساتھ اسکول کے کھیل کے میدان میں گیامیں نے ریفری (جسمانی تعلیم کے استاد) کے سامنے معاملہ رکھاتو اس نے متعلقہ بچے کو تنبیہ کی، خدا اسے جزائے خیر دے۔اس کے بعد میں نے اس سے سیٹی لی اور خود ریفری کے فرائض سرانجام دینا شروع کیے۔میری موجودگی نے اسے حوصلہ بخشا چنانچہ میرے اس ننھے طالب علم نے گیند کو ہِٹ لگائی -85 اسی دوران میری سیٹی بجی،اور چند ہی لمحوں میں اس نے گول کردیا اس دوران گرمجوشی سے تالیاں بجانے والا سب سے پہلا میں ہی تھا۔اب میرے اس ننھے طالب علم نے تیسرا گریڈ پاس کرلیا تھا اور اب وہ ہمارے سکول سے فارغ التحصیل ہو کر مزید تعلیم کے لیے کسی اور تعلیمی ادارہ میں چلا گیا۔
میں تمہیں کبھی نہیں بھول پاؤں گا ننھے ماجد۔
آپ نے -96 خدا کے فضل کے بعد -96 میرے دل کی سختی کو نرم کیا، اور مجھے سکھایا کہ تعلیم کا میدان کس طرح ہر زندہ ضمیر کے لیے میدان ہونا چاہیے۔اس کی جدائی نے مجھے واقعی پریشان کردیا۔
آپ سب کو سلام-85
وہ ننھا طالب علم ماجد اب بڑا ہو چکا تھا اس نے یونیورسٹی کی تعلیم سے فراغت کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے اس محسن استاذ کی یہ تحریر پڑھی ۔دیکھئے طالب علم ماجد نے اسے پڑھنے کے بعد اپنے استاد کو کیا جواب دیا
(طالب علم ماجد کا اپنے استاد کے پیغام پر جواب)
میرے استاد محترم، آپ کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ تک پہنچا -96
ایک بچہ جس کا باپ اس کے پہلے مہینوں میں ہی گم ہو گیا تھا۔وہ بڑا ہوا اور اس کی پرورش اس کے چچاوں نے کی۔اس کی لسانی لغت کو وہ جملے نہیں معلوم تھے جو اس کے ہم عمر لوگ دہراتے تھے۔جب وہ دوسروں سے جھگڑتا ہے تو وہ روتا ہے اور کہتا ہے: (میں اپنی امی کو بتلاؤں گا) جبکہ دوسرے کہتے ہیں: (ہم اپنی امی ابو کو شکایت کریں گے)۔سال گزر گئے اور میری ماں -96 خدا اس کو جزائے خیر دے -96 باپ کا کردار اور ماں کا کردار ایک ساتھ نبھاتی رہی!!
خدا کی قسم وہ تسبیح کا قصہ پہلی ملاقات کا آغاز تھا۔پہلا تاثر وہ ہوتا ہے جو ذہن میں جَڑ پکڑتا ہے، خواہ وہ تاثر خوبصورت ہو یا بدصورت۔اس تاثر کو بدلنا مشکل ہے چاہے ہم پہلی ملاقات میں جو کچھ ہوا اسے بحال کرنے کی کتنی ہی کوشش کریں۔جہاں تک تسبیح کی کہانی کا تعلق ہے، یہ بچپن کی چالوں میں سے ایک تھی جو لاشعوری طور پر مجھ سے سرزد ہوئی جب کہ مجھے اپنے والد کی محبت کی خوراک کی ضرورت محسوس ہوئی!!
میں آپ کو بتاؤں گا -96 ان سالوں کے بعد -96 آپ کے ساتھ اپنی کچھ سوانح عمری کے بارے میں۔کبھی کبھی میں نے اپنے پڑھنے کے سبق میں قصداً غلطی کرتاحالانکہ مجھے اس کا اچھا علم ہوتا۔میں اکثر اپنی نشست سے اٹھتا اور جو میں لکھتا وہ آپ کو دکھاتا کہ میں نے کیا لکھا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ میں نے جو لکھا ہے وہ سچ ہے۔بلکہ میں نے کتنے دن قلم کی نوک کو آپ کے دفتر کے کونے میں نصب بڑے شارپنر سے ٹھیک کرنے کے لیے توڑا۔میں نے یہ سب کچھ آپ کے قریب جانے اور گرمی محسوس کرنے کے لیے کیا تھا۔ اپنے باپ کی گرمی
آخر میں: میرے پیارے استاذ میں نے ایلیمنٹری اسکول سے لے کر انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری لیول تک اور آخر میں یونیورسٹی کے مرحلے تک بہت سے پروفیسرز کے ساتھ تعلیم حاصل کی، اور آپ کی خوبصورت تصویر میری آنکھوں کے سامنے ہے۔اور آپ کے محبت بھرے الفاظ اس سفر کو جاری رکھنے کا ایندھن بنے۔
میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور میری بھرپورحوصلہ افزائی کی۔اللہ تعالی آپ کو بہترین جزائے خیر عطافرمائے۔
دستخط شدہ: آپ کا طالب علم، لیکن آپ کا بیٹا (ماجد)
ایک دل کو چھو لینے والی اور سبق آموز کہانی
اے اللہ ہمیں نرم دل عطا فرما۔ایک کہانی، اگر ممکن ہو تو میں اسے ہر گھر اور اسکول کی دیوار پر لٹکا دوں۔ ایک کہانی جو معلم کی طاقت اور طلباء پر اس کے اثرات کو بتاتی اور ترجمہ کرتی ہے۔ کتنے دل ہیں ان روحوں کے درمیان جو ماں باپ کی محبت کے منتظر ہیں۔ان جسموں میں کتنی روحیں ہیں جو باپ کے لمس کی پیاس ہیں۔
تعلیم و تربیت
اچھے استاد کے اثرات
ایک قابل رشک عرب استاد کی آپ بیتی کا ترجمہ
مترجم ’ صہیب فاروق