اگر واک کرنا روزانہ کا معمول نہیں بنا پائے تو وِیک اینڈ کے دو دنوں میں ہی سہی، خوب لمبی واک کر لیا کریں۔ دورانِ خون والی گاڑی کے ایکسلریٹر پر دباؤ بڑھا کر اس گاڑی کو بھگانا ضروری ہے۔ خون کو بدن کی نس نس تک پہنچانا صحت کی طرف لوٹ جانا ہے۔خون میں جگہ بہ جگہ گانٹھیں پڑ جاتی ہیں، بلڈ کلاٹس کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ واک کرنے سے ٹوٹتے ہیں۔ دماغ کی باریک ترین شریانوں تک خون پہنچتا ہے تو طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے، ڈیپریشن چھٹ جاتا ہے، صحت مند، مثبت، اور تخلیقی خیالات کی یلغار سی ہونے لگتی ہے۔ مُوڈ یکسر بدل جاتا ہے۔ مسائل کے نت نئے حل نظر آنے لگتے ہیں، اور چڑچڑاہٹ جاتی رہتی ہے۔پیدل چلنے یا تھوڑی دیر بیڈ منٹن وغیرہ کھیلنے جیسی ایکٹوٹی کو خوب celebrate کر کے یوں انجام دیں جیسے یہ بہت ضروری (unavoidable کام ہو جس بِنا آپ کا گذارا ممکن نہیں۔ نتیجتاً آپ دیکھیں گے کہ گھر میں جھگڑے کم ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے الجھنے کی بجائے، ہنسی خوشی اور جوش و خروش والی فضا پیدا ہوتی ہے۔
آج کی مصروف زندگی میں پیدل چلنے کو وقت نکالنا خوبصورت ترین جہاد ہے۔ بدن کے تھکے ہارے کیمیائی نظام کے اندر بھونچال آجاتا ہے۔ دل سے جڑی شریانوں میں لہو کی گردش کا میسر آنا گویا زندگی کے مہ و سال کا بڑھ جانا ہے۔
آپ یقین جانیں، ہمارے ہاں ایک ہزار افراد میں سے کوئی نو سو افراد اس نوع کی لاشعوری خود کشی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں، ورنہ پاکستان میں صحت مند زندگی کی اوسط عمر 58 برس نہ ہوتی۔
ایسا کیوں ہے کہ جرمنی یا امریکہ جیسے ممالک میں ہم 80 اور 90 سالہ بندے کو جوگنگ کرتا ہوا دیکھتے ہیں؟ روزانہ آٹھ کلومیٹر سائیکل چلانے والے 90 سالہ نوجوان وہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔پاکستان سے متعلق سٹڈیز اور اعدادوشمار کیمطابق یہاں قبل از وقت موت کے بڑے اسباب میں سرِفہرست coronary artery disease ہے، یعنی دل کی شریانوں میں خون کا مناسب مقدار میں نہ پہنچنا۔ اس میں چکنائی سے بنی مرغن غذائیں اور مصالحہ جات کا استعمال تو کنٹریبیوٹ کرتے ہی ہیں، واک کلچر یا فزیکل ایکسرسائز کی کمی ''سونے پر سہاگے'' کا کام کرتی ہے۔
پچھلے دنوں معروف استاد سکندر حیات بابا نے ایک مختصر پوسٹ لگائی جس کا متن قابلِ توجہ ہے:''کل رات میں نے امراضِ قلب والے وارڈ میں جو کچھ دیکھا چشم کشا ہے۔ اب اگر مجھ میں حیا ہوئی تو روزانہ آدھ گھنٹہ لازمی پیدل چلا کروں گا، چاہے کانٹوں پر چلنا پڑے۔ بازاری اشیاء سے پرہیز کروں گا۔ خود اپنے گھر میں بنی زیادہ چکنائی اور مرچ مصا لحہ والی چیزیں بھی نہیں کھاؤں گا۔ سوفٹ ڈرِنکس سے اتنا دور رہوں گا گویا شراب کی طرح حرام ہو۔ صرف سلاد اور ہری بھری سبزیاں کھاؤں گا، وہ بھی کوشش کر کے زیادہ تر کچی، یا پھر جو زیادہ جلائی گئی نہ ہوں۔ رات کسی صورت بارہ بجے کے بعد نہیں جاگوں گا، چاہے جاگنے پر مجھے انعام مل رہا ہو۔ نماز کی ہر صورت پاپندی کروں گا۔ ''
المختصر، واک کرنے سے دل کی صحت میسر آتی ہے جسے طبّی زبان میں cardiovascular fitness کہتے ہیں، اور پھیپھڑوں کی صحت جسے pulmonary fitness کہتے ہیں۔
ایک طالب علم کے لیے واک کرنا کھانا کھانے سے زیادہ اہم شے ہے۔ سُست پڑے رہنے سے آدھے دماغ تک خون پہنچتا ہے۔ ذہن پڑھائی جیسی پیچیدہ مشقّت گوارا کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ نیز، پڑھا ہوا، یاد کیا ہوا مواد دماغ کی تختی پر جم کر نہیں دیتا۔ بچوں کو بتائیں کہ برین سَیلز پر ایسی پڑھائی کا نقش گہرا نہیں ہو پاتا۔ سٹڈیز میں مشغول بچہ اگر یہ کہتا نظر آئے کہ مجھے پڑھا ہوا سبق بھول جاتا ہے تو اُسے بادام کھلانے سے زیادہ کچھ دیر کھیل کُود والا ایکسپوژر دینا ضروری ہے۔ کم سے کم کچھ دیر ذرا تیز قدموں چلنا نماز کی طرح فرض خیال کریں۔امریکہ میں محکمہ صحت اپنے شہریوں کو تجویز کرتا ہے کہ صحت مند رہنے کو 10 ہزارsteps روزانہ پیدل چلا کریں۔ اب موٹے موٹے امریکی اس بات پر کتنا عمل کرتے ہیں، اس سے ہمیں غرض نہیں، تاہم میں نے اپنے ہاں ایک اچھی رُوٹین یوں استوار کی کہ پہلے پہل ذہن کو اعدادوشمار کے ساتھ hook کر کے، ذرا ناپ تول کر واک کرنا شروع کی۔
نوٹ کیا کہ ذرا مناسب رفتار سے چلوں تو میں چار منٹوں میں 1000 قدم پورے کر لیتا ہوں۔ یعنی آٹھ منٹ میں دو ہزار قدم، اور 12 منٹ میں تین ہزار قدم۔ یعنی 24 منٹوں میں 6 ہزار قدم لگ بھگ 40 منٹوں میں دس ہزار قدم بہ آسانی پورے ہو جاتے ہیں۔ گویا 10 ہزار steps کا سادہ سا مطلب ہے 40 منٹ کی واک۔ آپ چل پڑیں تو اتنے وقت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
آپ کے گھر میں جو افراد ضعیف ہیں، وہ یہ ٹارگٹ دو یا تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ صبح سے ظہر تک کے بیچ کسی طور 5 ہزار قدم پورے کرائے جا سکتے ہیں۔ یعنی سات آٹھ منٹ کی واک بنتی ہے۔ پھر عصر سے مغرب کے بیچ۔ پھر مغرب کے بعد کھانے سے پہلے یا کچھ دیر بعد۔
زندگی میں سکون اور خوشی کا مطلب ہے صحت مند ہونا۔ ایک غریب مگر صحت مند فرد ہی اپنی غربت سے لڑ سکتا ہے، اور ایک صحت مند امیر ہی اپنی امارت کا لطف اُٹھا سکتا ہے۔
ایمان کے بعد صحت اِس زندگی کی سب سے بڑی دولت ہے۔ ایمان کا مطلب ہے بعد از موت جی اُٹھنے اور اپنے کیے پر خدا کی عدالت کا سامنا کرنے کے احساس کے ساتھ جینا۔ جبکہ صحت کا مطلب ہے دستیاب وسائل اور وقت کو استعمال میں لانے کی طاقت و صلاحیت۔
صحت کی قدر کریں، اور روزانہ کچھ دیر پیدل چلنا اپنا معمول بنائیں۔ یہ واک کلچر اپنی زندگی میں یوں اپنائیں کہ دنیا آپ کے دیکھا دیکھی اس کلچر کو اپنانا شروع کر دے۔ یوں آپ کی واک ripple effect پیدا کرے گی ایک لہردار حلقہِ تاثیر! یہ واک صدقہ جاریہ بن جائے گی۔
طب و صحت
پیدل چلنا
ہمایوں تارڑ