جا یا جائے
جا یا جائے بھی فارسی کا ایک لفظ ہے جو اردو میں کثیر الاستعمال ہے۔ یہ بھی عموماً ترکیب میں ہی آتا ہے۔ جیسے جائے نماز یا جانماز، نماز کی جگہ۔ اسی طرح جائے اقامت یا جائے فرار وغیرہ معروف تراکیب ہیں۔ اس کے بجائے، یعنی اس کی جگہ۔ جاگیر، جا اور گیر سے مرکب ہے، کوئی جگہ پکڑ لینا یعنی اس کا مالک بن جانا۔ گیر، گرفتن سے ہے اور دلگیر اور دامن گیر جیسی تراکیب میں بھی شامل ہے۔ دلگیر آواز، دل کو گرفت میں لے لینے والی آواز۔ فکر کا دامن گیر ہونا، یعنی چمٹ جانا۔ کفگیر چمچ کو کہتے ہیں جو ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے۔
جانشین، جا اور نشین کا مرکب ہے، کسی کی جگہ بیٹھنے والا یعنی نائب۔ جابجا یعنی جگہ جگہ۔ پابرجا، یعنی پاؤں جو اپنی جگہ پر ٹکے ہوئے ہوں، مراد ثابت قدم۔ ہرجائی میں یہی جا ہے، جو کسی ایک کا وفادار نہ ہو، ہر جگہ یاری لگا لے۔
بے جا کا مطلب اپنی جگہ سے ہٹا ہوا، یعنی بے محل اور غلط۔ اس کے مقابلے میں بجا کا مطلب اپنی جگہ پر، یعنی برمحل اور درست۔ حکم بجا لانا یا حکم کی بجا آوری کا مطلب ہوا حکم کو اس کی جگہ پر رکھنا، یعنی پورا کرنا۔ اسی طرح آداب بجا لانے کا یہی مفہوم ہے۔
بعض مرکبات میں جا اور جاں میں لوگوں کو اشتباہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً جانشین کو جاں نشین پڑھتے ہیں یا جاں نثار کو جانثار لکھ دیا جاتا ہے۔ پہلی ترکیب جا اور نشین سے جبکہ دوسری جاں اور نثار سے بنی ہے۔
معرکہ آرا اور معرکۃ الآرا
معرکہ آرا اور معرکۃ الآراء میں سے کون سی ترکیب درست ہے، اس پر اہل علم مختلف الرائے ہیں۔ ثقہ اہل علم کے ہاں دونوں ترکیبات کا استعمال ملتا ہے۔ معنوی اعتبار سے دیکھا جائے تو دونوں کی مناسبت بنتی ہے، البتہ محل استعمال کچھ مختلف ہے۔ معرکہ عربی میں میدان جنگ کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ فارسی میں بھی مستعمل ہے۔ اس سے معرکہ آرا کی ترکیب بنی ہے جس کا مطلب ہے، میدان جنگ کو سجانے والا یا گرم کرنے والا، جیسے بزم آرا اور جہاں آرا کی ترکیبات ہیں۔ آرا، آرائش سے فاعل کے معنی میں ہے۔ اسی سے معرکہ آرائی بن جاتا ہے، یعنی میدان میں اترنا اور برسرپیکار ہونا۔
معرکۃ الآراء عربی ترکیب ہے، لیکن اس میں آراء، رائے کی جمع ہے۔ مطلب ہے،
آرا اور نظریات کا میدان جنگ۔ ایسے مسئلے کو معرکۃ الآراء کہا جاتا ہے جس میں بہت زیادہ اختلاف ہو اور کبار اہل علم باہم مدمقابل ہوں۔
یوں دونوں ترکیبات معنوی طور پر درست ہیں، لیکن جیسا کہ ہم نے دیکھا، محل استعمال الگ الگ ہے۔ اگر ہم جنگ یا بحث کے فریقوں کا ذکر کر رہے ہوں تو یہاں معرکہ آرا کا ہی استعمال درست ہوگا۔ یوں نہیں کہہ سکتے کہ فلاں اور فلاں معرکۃ الآراء ہوئے۔ لیکن اگر کسی مسئلے یا بحث کا ذکر کر رہے ہوں تو معرکہ آرا مسئلہ یا معرکۃ الآراء بحث، دونوں بامعنی ہوں گے، اگرچہ مسئلے کو معرکہ آرا کہنا مجاز کا اسلوب ہے کیونکہ دراصل لڑائی کے فریق معرکہ آرا ہوتے ہیں۔
پا
پا فارسی کا معروف لفظ ہے جو اردو میں عام مستعمل ہے، یعنی پاؤں۔ البتہ شعروں کے علاوہ عموماً یہ مفرد استعمال نہیں ہوتا، کسی ترکیب میں ہی آتا ہے۔ جیسے بے دست وپا کرنا، کسی کی طاقت ختم کر دینا۔ بے سر وپا، جس بات کا کوئی سر پیر نہ ہو۔ پس پا یعنی پیچھے کی طرف ہٹنے والا۔ گریز پا، یعنی فرار اختیار کرنے والا۔ ہاتھاپائی میں یہ بالکل ہی اردو قالب میں ڈھل گیا ہے۔
پازیب، یعنی پاؤں کا زیور۔ پاجامہ، یعنی ٹانگوں کا لباس۔ پاپوش کا مطلب ہوا پاؤں کی پوشاک یعنی جوتا۔ پایاب، پاؤں تک پہنچنے والا یعنی بہت کم پانی۔ پاخانہ، یعنی وہ کمرہ جس میں قدمچہ رکھا ہو جس پر بیٹھ کر رفع حاجت کی جا سکے، بیت الخلاء۔ پاخانہ کا اصل مفہوم یہی تھا۔ پھر توسعاً اس کا اطلاق فضلے پر ہونے لگا اور اب یہ اسی معنی میں عموماً بولا جاتا ہے۔ پابند، یعنی جس کے پاؤں آزاد نہ ہوں۔
پامردی یا پایمردی اردو میں استقامت کے معنی میں ہے جس کی مناسبت واضح ہے۔ پامال یا پایمال پا اور مال کا مرکب ہے۔ مال، مالیدن سے ہے جس کا مطلب ملنا یا روندنا ہے۔ پامال، یعنی پاؤں کے نیچے روندا ہوا۔ اسی طرح پاکوب یا پایکوب پا اور کوب سے مرکب ہے۔ کوب، کوبیدن سے جس کا مطلب کوٹنا اور ضرب لگانا ہے۔ زد وکوب اور سینہ کوبی میں یہی لفظ ہے۔ تو پاکوب کا مطلب ہوا زمین پر پاؤں مارنے یعنی ناچنے والا۔ بہادر شاہ ظفر کی مشہور غزل ''بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی'' کا ایک شعر ہے:
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
پاسنگ کی ترکیب کچھ تشریح طلب ہے۔ بظاہر یہ پا اور سنگ سے مرکب ہے، لیکن دراصل یہ پارسنگ کا مخفف ہے جو خود پارہ سنگ کی تخفیف شدہ شکل ہے۔ پارہ سنگ یعنی پتھر کا ٹکڑا۔ یہ کثرت استعمال سے پارسنگ بنا اور پھر وہاں سے پاسنگ۔ فارسی میں پارسنگ بھی مستعمل ہے، لیکن اردو میں یہ پاسنگ ہی آتا ہے۔ پاسنگ کا مطلب وہ پتھر جو ترازو کے ایک پلڑے میں وزن برابر کرنے کے لیے رکھا جائے۔ اسی سے محاورہ بنا ہے کہ فلاں تو فلاں کا پاسنگ نہیں ہے، یعنی اس کے برابر کا نہیں ہے۔
کوب کی ترکیبات پر دو مزید شعر
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال
اور غالب فرماتے ہیں،
لگدکوب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ تھی ضامن بتوں کا ناز اٹھانے کی
لگد کا مطلب لات جو ماری جائے، لگدکوب حوادث یعنی آفات ومصائب کی ضرب۔
لسانیات
جا یا جائے ’’ معرکہ آرا اور معرکۃ الآرا
عمار خان ناصر