آخرکار اہل پاکستان پر مہنگائی کا وہ قہر برس پڑا جو اشرافیہ کے چند خاندانوں کے سوا ہر شخص کو متاثر کرے گا۔ اب پی ٹی آئی کے حامی پی ڈی ایم پر برسیں یا پی ڈی ایم کے حامی پی ٹی آئی کو کوسیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دونوں مل کر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرائیں یا موجودہ یا سابقہ مقتدرہ پر الزام ڈالیں، جو عذاب آگیا ہے وہ فوری طور پر جانے کے لیے نہیں آیا۔ قہر کی کالی گھٹائیں چھا گئی ہیں اور دیر تک برسنے کے لیے آئی ہیں۔ہم انھی صفحات میں برس ہا برس سے اس ساری صورتحال کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ اس کے لیے کسی علم غیب کی ضرورت نہیں تھی، قوموں کے عروج و زوال کا قانون، امت مسلمہ کی تاریخ اور آسمانی صحیفے اس پر متفق ہیں کہ اخلاقی پستی ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔
ہم نے اصلاح احوال کی کوشش میں کتنی گالیاں کھائیں، کتنے لوگوں سے جہالت کے طعنے سنے، کتنے احباب کی نگاہ میں علمی طور پر بے اعتبار ہوئے اور کتنے دوستوں کو کھو دیا؛ اس کا شمار اب یاد نہیں۔ مگر جو کچھ لکھا علم و بصیرت کی بنیاد پر اور احساس ذمہ داری کے ساتھ لکھا اور اب بھی جو لکھ رہے ہیں، اسی احساس سے لکھ رہے ہیں شاید کہ اب لوگ کچھ توجہ سے سن لیں۔
اصل بات جو لوگوں کو بتانے کی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہم سب اس سے کہیں زیادہ برے انجام کے مستحق ہیں۔ باخدا ہمارے ساتھ کم ہی ہورہا ہے۔ اس میں کسی انسان کی کوئی خوبی نہیں، اللہ کی عنایت اور ایمان و اخلاق کی اس قرآنی دعوت کا ثمرہ ہے جس کے حاملین چاہے گنتی کے ہوں، مگر خدا کی نظر میں اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا ہمیشہ لحاظ کرتے ہیں۔
ایمان و اخلاق کی اس قرآنی دعوت کی بنیاد حق پرستی پر ہوتی ہے۔ یعنی خدا انسان کے لیے ہر چیز سے زیادہ اہم ہوجائے اور سچ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔ انسان اپنے لیڈروں اور تعصبات کی نفرت و محبت سے بے نیاز ہوکر صرف خدا کی رضا اور سچ کی تلاش میں جیتا رہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری قوم کی غالب ترین اکثریت اس پہلے پیمانے ہی پر خدا کی مجرم ہے۔ یہاں لوگوں کے لیے کچھ لیڈروں اور گروہوں کی نفرت سب سے زیادہ اہم ہے یا ان کی محبت۔ وہ اس نفرت اور محبت میں ہر سچائی کو رد کرنے اور ہر حد کو پامال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر ساتھ میں خدا کی بندگی کا دعویٰ بھی کرتے ہوں تو انھیں صرف اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب ان کا چہرہ مسخ کر دیا جائے گا۔ اب یہ دنیا میں ہوگا یا آخرت میں اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کریں گے، مگر اس جرم کی سزا یہی ہے۔
جو لوگ ذہنی طور پر اتنے غبی اور احمق ہوں کہ وہ حق و باطل اور سچ اور جھوٹ میں فرق نہ کرسکیں، ان کے لیے دوسرا پیمانہ اخلاق ہوتا ہے۔ چلو ایمان کے پرچے میں فیل ہوگئے ہو تو کم از کم ان اخلاقی تقاضوں ہی کو نبھا لو جنھیں خود مانتے ہیں۔ کیوں ہر سنی سنائی بات بلاتصدیق آگے بڑھاتے ہو؟ کیوں صرف ایک طرف کی بات سن کر کسی معاملے میں حتمی رائے قائم کرلیتے ہو؟ کیوں اپنی خام معلومات اور یکطرفہ پروپیگنڈے کی بنیاد پر الزام و بہتان کی پوری مہم چلا دیتے ہو؟ کیوں تمھیں اپنے لیڈروں کے کرتوتوں کا شہتیر نظر نہیں آتا اور دوسروں کے آنکھوں کے بال کی کھال اتار لیتے ہو؟
جو لوگ حق و باطل میں ٹھوکر کھا جائیں، امکان ہے کہ عالم کا پروردگار انھیں اخلاقی رویے میں درستی کی بنیاد پر بہت کچھ رعایت دے دے گا۔ مگر جو لوگ اخلاقی معاملات میں گردن تک دلدل میں دھنسے ہوں، وہ کسی رعایت کے مستحق کیوں کر ہوسکتے ہیں؟
اس لیے لوگ کان کھول کر سن لیں۔ ہم زبانی اور آئینی طور پر جس طرح دنیا کے سامنے اسلام کے علمبردار بنے پھرتے ہیں، یہ رویہ ایمان و اخلاق کی اصل دینی دعوت کی ایسی پامالی کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ لوگوں کو ہر صورت میں لوٹنا ہوگا۔ توبہ کرنی ہوگی۔خدا کی ہستی کو ہر چیز سے زیادہ اہم بنانا ہوگا۔ بنیادی اخلاقی رویوں میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
لوگ یہ کرنا شروع کردیں پھر وہ معجزے ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ اس آسمان نے پہلے بھی ایسے بہت سے معجزے دیکھے ہیں۔ اب بھی یہ آسمان ایسے ہی معجزے کی گواہی دینے کے لیے تیار ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ خدا کو کچھ لوگ مل جائیں جو آج اور ابھی طے کرلیں کہ میرا لیڈر نہیں بلکہ میرا خدا میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے۔ میرے لیڈر اور پسندیدہ اینکر کا بیان نہیں
بلکہ حق اور سچ میرے لیے ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں اسی کی گواہی دوں گا چاہے میرے خلاف ہو، میرے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہو یا پھر میرے لیڈر کے خلاف ہو۔
میں کسی پروپیگنڈے کے زیر اثر، اپنی پسند کا چینل دیکھ کر یا اپنے لیڈر کی یکطرفہ حمایت کرنے والے صحافی کی بات سن کر رائے قائم نہیں کروں گا۔ میں کسی طور پر کسی جھوٹ کا حصہ نہیں بنوں گا۔ میں الزام و بہتان، کسی خاص لیڈر کی نفرت یا محبت کی نفسیات سے اوپر اٹھ جاؤں گا۔ میری انگلی دوسروں کی طرف اٹھنے کے بجائے اپنی کمزوریاں ڈھونڈے گی۔ میں مایوس ہونے کے بجائے خدا پر بھروسہ کروں گا۔ میں مشکل کو حوصلے اور صبر سے برداشت کروں گا۔ میں اپنے مالک کی رضا اور اس کے فیصلوں پر راضی رہوں گا۔
ایسا ایک بھی شخص خدا کو کائنات کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ آج بھی ہمیں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے بچے ہیں اور کل بھی انھی کی وجہ سے خیر بڑھے گا۔ تو اب سیاست کی منافقانہ دلدل سے نکل کر خدا پرستی کی اس رفعت میں آئیے۔ اسی میں ہماری قوم کی نجات ہے۔ اسی میں ہماری آخرت کی نجات ہے۔
اصلاح و دعوت
سچ کا ساتھ
ابو یحیی