انڈونیشیا وومن علماء کانگریس میں شرکت کرنے کے لئے ڈاکٹر فائزہ کی طرف سے دعوت نامہ ملا اور انہوں نے متوجہ کیا کہ مجھے اس میں شرکت کرنی چاہئے، سو میں نے اور مرکز الحریم کی کچھ معلمات نے اس میں شرکت کے لئے درخواست بھیج دی جبکہ جانے کی ترتیب میری اور معلمہ نمل کی بن سکی، ہم اکیس نومبر کو انڈونیشیا پہنچے اور دس دنوں کے قیام کے دوران مختلف شہروں میں جانے کے مواقع ملتے رہے۔
ہم نے سامارنگ، جیپارہ، اور جوگجہ میں کچھ دن گزارے۔شروع کے دو دن سامارانگ میں گزارے، جہاں اسلامی یونیورسٹی میں کانفرنس منعقد کی گئی تھی اور مختلف شہروں و دیگر کئی ملکوں سے علماء و عالمات نے شرکت کی۔دوران کانفرنس جو خیال بار بار آتا رہا وہ یہ کہ یہاں علم و عالم ہونے کا معیار داڑھی،پگڑی،برقع ہرگز نہیں ہے۔ ہر ایک کی پہچان اس کی گفتگو سے ہوتی ہے اور علماء اپنی اپنی ثقافت کے بہت قریب ہیں ۔ ثقافتی رقص، دف، لباس،سُر، تال سے ان کے مذہب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دف، ڈھول یہاں کی مذہبی و دیگر تقریبات میں بالکل عام سی بات ہے۔
یہاں کے علماء وعالمات کے لئے صرف اپنی قومی زبان کا آنا ہی کافی ہے، وہ عربی یا انگریزی میں فی البدیہہ گفتگو نہیں کرسکتے۔ ان کے ہاں ہماری طرح کی بحث نہیں ہے کہ مدارس کے فضلاء کو انگریزی یا عربی کیوں نہیں آتی۔ یہ اس پر مطمئن ہیں کہ اپنی زبان میں اپنی قوم کو تبلیغ کریں۔ مکمل کانفرنس اور کانگریس میں علماء و عالمات نے اپنی زبان میں ہی گفتگو کی اور غیر ملکیوں کے لئے انگریزی ترجمانی کے لئے ماہر ترجمان موجود تھے جو مکمل ترجمانی کر رہے تھے، اگرچہ اس کی وجہ سے مسلسل ہمیں یہ محسوس ہونے لگا تھاکہ کسی ریڈیو پر خبریں سن رہے ہیں۔ اور ان کا کہنا تھا کہ ہم وہی کہنا چاہتے ہیں جو ہمارا دل کہتا ہے اور دل کے لفظوں کی ترجمانی اپنی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں ممکن ہی نہیں۔
ان تقریبات کے افتتاح میں جاوا کے وزراء، سفراء اور کثیر تعداد میں اہلِ علم کا حلقہ موجود رہا۔ مخصوص ثقافتی طرز پر ان کا استقبال کیا جاتا رہا جس میں مخصوص دف، ثقافتی ملبوسات میں رقصاں بچیاں اور قسم قسم کے ثقافتی نمونے آویزاں تھے اور ان کا بہت احترام کیا جارہا تھا۔
راتو کلی نعمت کا مقبرہ:
جابپارہ کی طرف جاتے ہوئے ہم نے راتوکلیانامت مقبرے کا دورہ کیا، مقبرہ ایک خوبصورت تاریخی مسجد کے عقب میں واقع ہے، راتو کلی نعمت 1579 میں وفات پانے والی خاتون ہے، جو جابپارہ کی ملکہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون جابپارہ کی خواتین کے لئے بزنس رول ماڈل کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اگلے کچھ دنوں میں ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کی نئی نسل میں راتو کلی نعمت کس حد تک مقبول ہیں، وہ خواتین کے لئے دی جانے والی حوصلے، ہمت کی ہر مثال میں راتو کلی نعمت کا نام لیتی تھیں۔
اس مسجد میں ہم نے دیکھا کہ یہاں اور انڈونیشیا کی بیشتر مساجد میں مرد و زن کی نماز کی ادائیگی کا مشترکہ احاطہ ہے۔ کہیں کہیں مردوں کی صفیں خواتین سے مقدم ہوتی ہیں اور کہیں دونوں کی صفیں برابر یعنی مردوں کی دائیں جانب اور عورتوں کی بائیں جانب صفیں ہوتی ہیں۔اس مسجد کے برآمدے میں دو بڑے بڑے ڈھول لٹک رہے ہیں، جو نماز کے لئے لوگوں کو متوجہ کرنے اور رمضان میں سحر وافطار کے وقت بالخصوص بجائے جاتے ہیں۔
سگریٹ نوشی بہت عام ہے، امام ہو یا مقتدی،مسجد کا برآمدہ ہو یا یونیورسٹی آڈیٹوریم کی گزرگاہ سب جگہوں پر علماء، اساتذہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھے، گئے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک کی آب و ہوا میں سگریٹ نوشی مضر صحت نہیں بلکہ مفید ہے۔اس کے بعد ہم راتو کلی نعمت کے مقبرے کی طرف گئے، راتو کا مقبرہ ایک وسیع قبرستان میں واقع ہے۔اس قبرستان کے کئی حصے ہیں، ایک حصہ راتو کے خاندان کا ہے، دوسرا حصہ اس دور کے بادشاہوں کے خاندانوں کا ہے، ہر حصے میں قبروں کی علامات مختلف ہیں۔انڈونیشیا کے لوگوں کی راتو سے عقیدت ہے،میں نے دیکھا کہ اس کے مقبرے کا دروازہ بند تھا لیکن ایک فیملی دروازے کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی۔ لوگ یہاں قرآن مکمل کرکے اسے ایصال کرتے ہیں اور اس کی برکت سے اپنی دعائیں قبول ہونے کا گمان کرتے ہیں۔
مسجد اور قبرستان میں جا بجا چندے کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں جسے الخیر کے نام پر جمع کیا جاتا ہے،مسجد کے نگران نے ہمارے لئے مقبرے کا دروازہ کھولا، سبز رنگ سے قبریں ڈھکی ہوئی تھیں جہاں راتو، اس کے شوہر، اس کی سوتن اور سوتیلی بیٹی کی قبریں ایک ہی لائن میں ہیں، ان قبروں پر لگایا جانے والا پتھر چائنہ سے منگوایا گیا ہے، کیونکہ راتو کلی نعمت کے دور میں چائنہ اور انڈونیشیا کے درمیان گہرے تجارتی مراسم تھے۔اسی دوران انڈونیشیا کی ایک خاتون اندر آئی اور متولی نے بتایا کہ یہ عالمہ ہیں، انہوں نے ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند فاتحہ اور دعا کروائی اور سب کو قبر کے پاس دو زانو بیٹھنے کا کہا، قبروں پر پھولوں کی ٹوکریاں اور ہار رکھے ہوئے تھے، اس کے علاوہ قبروں کے پاس پانی کی بوتلیں اور مٹکے بھرے رکھے تھے جس کا قبر پر چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ مقبرے کے باہر ایک درخت ہے جہاں سے پھل لے جانے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس سے اولاد ہوتی ہے۔
قبروں کی تزئین و آرائش کے حوالے سے یہاں کے علماء کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں پر پتھر رکھنے کا حکم دیا اس کا مطلب یہی تھا کہ قبر کی پہچان ہو، کسی سادے پتھر کے بجائے اگر خوبصورت پتھر لگا دئے جائیں تو یہ انسان کے ذوقِ جمالیات کا عکاس ہوگا، اسی طرح قبروں پر پھول نچھاور کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبر پر ٹہنی گاڑھی تھی۔
قبرستان مکمل طور پر صاف ستھرا تھا، جہاں کہیں بھی جوتے لے جانا منع تھا، قبروں کے قریب کہیں کہیں بینچ بھی رکھے ہیں جہاں بیٹھ کر لوگ دیر تک قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، کچھ جگہوں میں قرآن کریم کے شیلف اور قرآنی سورتوں کے کتابچے بھی رکھے تھے۔
مدرسہ ہاشم الاشعری میں
یہ 1965 میں بنایا گیا انڈونیشیا جابپارہ کا قدیم مدرسہ ہاشم الاشعری ہے جو کہ نہضۃ العلماء کی فکر پر قائم ہے۔انڈونیشیا مشرقی جاوا میں نہضۃ العلماء کا گہرا اثر دیکھا جاسکتا ہے جو کہ انڈونیشیا میں31 جنوری 1926ء میں قائم ہونے والی، سنی مسلمانوں کی ایک تنظیم ہے،اس کے اراکین کے تعداد 30 ملین سے زائد ہے، یہاں کے مقامی علماء کرام، مدارس اور مذہبی تحریکیں بھی نہضۃ العلماء کے منہج اور فتاوی کو تسلیم کرتی ہیں،اور اسے سرکاری طور پر بھی مقبولیت حاصل ہے، ان کا ماننا ہے کہ یہ منہج جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہے اور اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ کیسے ہر شخص کو اسلام کے قریب کیا جائے۔
یہاں بنین اور بنات دونوں کی تعلیم وتعلم کا انتظام ہے، متوسطہ اور ثانویہ کے طلباء و طالبات کی درس گاہیں الگ ہیں، البتہ عالیہ اور عالمیہ لیول کے طلباء و طالبات کی درس گاہ ایک ہی ہے۔مدرسہ قدیم تراث خوبصورت عمارات اور دیدہ زیب لکڑی کے نقش ونگار کا مظہر ہے۔
مدرسے میں داخل ہوتے ہی ہم نے دیکھا کہ لڑکیاں لکڑی کی کاریگری اور فریمز بنارہی ہے، (یہ وومن امپاورمنٹ کے اظہار کا طریقہ تھا)
دو روزہ کانگریس اس مدرسے میں ہونے کی وجہ سے یہاں چھٹی کا اعلان تھا اور فارغ التحصیل طلباء و طالبات و دیگر شہروں سے بہت سارے لوگ موجود تھے ۔مدرسے میں سائنس لیبارٹری، کتب خانہ اور دیگر تمام سہولیات بھی موجود ہیں۔مختلف جگہوں پر دس حلقات کا انتظام کیا گیا ہے اور ان حلقات میں مختلف عناوین پر گفتگو ہو رہی ہے ، ان حلقات میں شمولیت کے لئے دور دراز سے خواتین موجود تھیں اور مختلف عناوین پر گفتگو میں شریک تھیں۔ حبس، گرمی اور یہاں کے بے زار کن موسم میں طویل ترین لیکچرز ہورہے تھے اور خواتین انہیں بہت ذوق سے سن رہی تھیں۔گفتگو میں شریک ہوکر تسلسل قائم رکھے ہوئے تھیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی خواتین میں تعلیم و تعلم کا شعور کس حد تک موجود ہے،یہاں کے بڑے اجتماعات میں عوام کی بھیڑ کے بجائے باشعور خواتین جمع تھیں۔
مدرسے کی انتظامیہ اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھی انہیں اس بات سے کوئی خوف نہیں تھا کہ بین الاقوامی شرکاء مدرسے کی کسی بھی حصے میں جائیں، کسی سے بھی بات کریں، بلکہ علاقے بھر کی سڑکوں پر مدرسے کے طلباء و طالبات پھیلے ہوئے تھے سڑک، بازار، دکان، راستہ ہر جگہ ہمیں دیکھتے ہی کوئی ایک ہمارے ساتھ ہوجاتا اور کہتے کہ آپ کو زبان سمجھنے کا مسئلہ ہوگا اس لئے ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔
مدرسہء ہاشم ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے، جس میں کئی عمارتیں واقع ہیں، 25 نومبر کو یومِ اساتذ ہ کی نسبت سے یہاں کیمپ اور اسٹال لگا کر اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
مدرسے کے مہتمم صاحب کا گھر بھی اسی احاطے میں موجود ہے جس میں مستقل 24 گھنٹے کے لئے دسترخوان بچھادئے گئے تھے اور اس کے دروازے ہمارے لئے کھلے تھے، ہمیں کہا گیا تھا کہ جس وقت بھی آپ کو پھل، کھانا، چائے، کافی کچھ بھی چاہئے ہو آپ یہاں جا سکتے ہیں۔یہاں یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ خواتین باقی سب دنوں میں باجماعت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں، لیکن جمعے کی نماز باجماعت پڑھنے کی پابند نہیں ہیں۔
مدرسہ ء افکارنا یوگ یکارتہ
اتوار کی شام یوگ یکارتہ میں واقع مدرسہ افکارنا میں نشست مقرر تھی۔ڈاکٹر عصمہ کی ہمراہی میں ہم مدرسے پہنچے، مدرسے کے مہتمم، مہتممہ،منتظمین واساتذہ نے دروازے پر پرتپاک استقبال کیا اور سیدھا دفتر لے گئے، پھلوں اور جوس سے تواضع کی۔کچھ توقف کے بعد درسگاہوں کی طرف رخ کیا۔ایک کشادہ ہال میں طلباء و طالبات کھڑے تھے، دف بجاتے، طلع البدر علینا اونچی آواز سے پڑھ رہے تھے، یہ ان کے ہاں معززین کے استقبال کا طریقہ ہے۔
طلباء و طالبات ایک ہال میں بیٹھے تھے، درمیان میں پردہ بھی لگا رکھا تھا، سب نے ہم آواز سلام کیا اور دوگھنٹے سے زائد سیشن کے دوران باادب ہوکر بیٹھے رہے-
گفتگو کا آغاز ہوا، پاکستان میں بنات کے مدارس، نصاب اور طریقہ کار سے آگاہی دینے کے بعد مرکز الحریم کا مختصر تعارف اور مقاصد پیش کیے۔ مرکز الحریم کی مجلس عاملہ کے ریکارڈ تاثرات انہیں اسکرین پر دکھائے۔سب نے نہایت دلچسپی سے سنا ،اگرچہ یہ میرے لئے مشکل تھا کہ ایک نئی جگہ اور اجنبی زبان کے لوگوں کے درمیان انگریزی میں گفتگو کی جائے، لیکن سب کی توجہ،انہماک اور دلچسپی نے گفتگو سہل بنا دی
گفتگو کے آخر میں طلباء و طالبات کی جانب سے بہت سارے سوالات کئے گئے، جن میں سے چند سوالات یہ تھے کہ:
پاکستان میں مدارس کا نصاب و نظام تعلیم معاشرے کے لئے کس قدر مفید ثابت ہوتا ہے؟پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت و ضرورت کس قدر ہے؟ملالہ کے بارے میں میرے کیا تاثرات ہیں؟
مدرسے کے مضبوط نصاب ونظام کے بعد مرکز الحریم جیسے ادارے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
کچھ بچوں نے پاکستان کی ثقافت، روایات اور کھانے پینے کے بارے میں بھی پوچھا۔
نشست کے اختتام پر مہتمم نے کہا کہ تمام بچیاں آپ سے ہاتھ ملائیں گی مدرسے کی تمام بچیاں قطار در قطار آتی گئیں اور انہوں ہاتھ چوم کر آنکھوں اور پیشانی سے لگایا (جس سے مجھے کچھ ججھک بھی ہوتی) رہی۔
نشست کے بعد ہم دوبارہ رئیس صاحب کے دفتر میں آئے جہاں روایتی کھانے میز پر چن دئے گئے تھے،اسی دوران انہوں نے افکارنا مدرسے کا مکمل تعارف کروایا، نصاب و نظام پر روشنی ڈالی، ایک مربوط نظام تعلیم میں جو امور میں نے محسوس کئے وہ درج ذیل ہیں:
مدرسے میں ثانویہ کے طلباء و طالبات کو مقاصد شریعت پڑھانے شروع کردیے جاتے ہیں، یہاں کا ہر طالب علم مقاصد شریعت سمجھتا ہے اور اس کی روشنی میں تدبر کرتا ہے۔دف بجانا یہاں کی ثقافت اور روایت بھی ہے اور مذہبی نقطہء نظر سے مانع بھی نہیں ہے۔مہتمم صاحب نے بتایا کہ ہمارے مدرسے میں پہلی مرتبہ سیاہ برقع اور نقاب میں کوئی مہمان آیا ہے،مجھے فکر تھی کہ طلباء و طالبات آپ کو سمجھ سکیں گے یا نہیں، لیکن انہوں نے بہت ہی خوش دلی سے گفتگو سنی۔طلباء و طالبات میں اساتذہ کا احترام پایا جاتا ہے، اساتذہ کی طرف پیٹھ بھی نہیں کرتے، ان کے سامنے الٹے قدموں جھک جھک کر گذرتے ہیں۔
معلمات خواتین کو مکمل خود مختاری ہے، وہ طلباء و طالبات کے متعلق فیصلے کرنے میں کسی ناظم اور مہتمم کی اجازت کی پابند نہیں ہیں۔
مہتمم اور اساتذہ مجھ سے ملالہ کے بارے میں کئی سوال کر رہے تھے، اس کے علاوہ مہتمم صاحب کے مطابق مدرسے کے نظام تعلیم کو کارآمد بنانے کے لئے انہوں جن لوگوں کے نقطہء نظر سے افادہ ہوا ان میں سے ایک صاحب پاکستانی ہیں اور ان کا نام پرویز ہودبھائی ہے، (یہ بھی میرے لیے کسی حیرت سے کم نہ تھا)اس کے علاوہ وہ پرویز مشرف کی آمرانہ پالیسیوں سے بھی متاثر نظر آرہے تھے۔
7: ایک طویل نشست کے بعد مہتمم صاحب اور ناظم اعلی بنفس نفیس اپنی گاڑی میں ہمیں ہماری رہائش تک چھوڑنے آئے اور بہت عزت و تکریم کی ۔مدرسے کے نظم و نسق کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت حیران کن تھی یہاں کے لوگ پاکستان میں ملالہ اور پرویز ہود بھائی وغیرہ سے متاثر نظر آرہے تھے۔
مدرسہء اسواجا، ملانگی
منگل کی شام ہمیں ملانگی شہر کے مدرسے اسواجا پہنچنا تھا، ہمیں لینے کے لئے اوبر بھیجی گئی تھی، ہم ملانگی شہر پہنچے تو ڈرائیور کو بتایا کہ ہمیں مدرسے جانا ہے۔اس نے ایک مدرسے کے باہر گاڑی روکی، سامنے کچھ بچیاں بآواز بلند قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھی، ہم اتر گئے، سامنے مدرسہ فلاحیہ کا بورڈ لگا ہوا تھا، معلمہ نمل نے کہا کہ یہ تو کوئی اور مدرسہ ہے۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو گاڑی والا جا چکا تھا۔ اسی اثناء میں اندر سے ایک لڑکی نکلی،اس نے کہا مدرسہ اسواجا ساتھ والی گلی میں ہے، وہ فوراً ہمارے ساتھ ہو لیں۔ پوری گلی کے گھروں سے اونچی آواز میں قرآن کی آواز آرہی تھی، یوں محسوس ہورہا تھا کہ سب طرف مدرسہ ہے،بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ اس محلے میں سولہ مدرسے ہیں اور ہر مدرسے کے طالب علم یا طالبہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ دوسرے مدرسے کے بچوں سے زیادہ باادب، ملنسار اور مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔
اسواجا پہنچے تو مہتممہ مستغفرہ صاحبہ نے پرتپاک استقبال کیا، سامنے درس گاہ میں بچیاں قرآن پڑھ رہی تھیں اور ایک استاد بھی بیٹھے تھے، ہم درس گاہ کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے، ہمارے لئے قہوہ لا کر رکھا گیا اور مہتممہ ہمیں مدرسے کے حوالے سے آگاہ کر رہی تھیں۔ عشاء کی اذان ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ اسی درس گاہ میں استاد نے طالبات کو عشاء کی نماز با جماعت پڑھائی۔
اس مدرسے میں ہمیں مہتممہ مل گئیں تو ہمیں بہت سے سوالات کرنے میں آسانی ہوئی، اس کے علاوہ ان کا مزاج، ہنس مکھ اور دوستانہ طبیعت نے ہمیں ان سے کسی قسم کی جھجک محسوس نہ ہونے دی، ان سے مختلف امور پر گفتگو ہوئی جس کے چند نکات درج ذیل ہیں:
1: یہاں طلباء و طالبات کی درسگاہیں اور راستے ایک ہیں سب کا ایک دوسرے سے تعارف ہے، اس کے باوجود یہاں ایسے واقعات بہت نایاب ہوتے ہیں کہ مخالف جنسوں کا ایک دوسرے سے کوئی ناشائستہ تعلق قائم ہو یا دل لگی کی کہانیاں جنم لیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں نے بچپن سے یہ ماحول دیکھا ہے انہیں ایک دوسرے کی حدود معلوم ہیں، اس کے علاوہ اس علاقے میں 16 مدرسے ہیں اور ہر مدرسے کے بچے کی پہچان یہی ہے کہ وہ دوسرے سے اچھا ہو یہ وجہ ہے کہ ان کے مزاجوں میں جنس مخالف کی طرف رجحان نہیں پایا جاتا۔
2: ہم نے دیکھا کہ وہاں لڑکے، لڑکیاں ایک ہی راستے سے گذر رہے تھے، ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے تھے اور ادارے کی طرف سے ان پر کڑی نظر رکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی (ہمارے ہاں دو لڑکیاں یا دو لڑکے بھی گفتگو کر رہے ہوں تو اداروں کے لئے تشویشناک ہوتا ہے)۔
3: اس علاقے کے تمام مدرسوں میں بچے اپنی چار دیواری میں محدود نہیں تھے، سب مدرسوں کے بچے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور آنا جانا کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ دو ہزار سولہ میں جاوا میں نہضۃ العلماء نے ایک تحریک چلائی تھی جس کا سلوگن تھا‘‘اپنے بچوں کو مدرسہ بھیجو’’اس تحریک کے بعد بے تحاشا بچوں نے مدارس کا رخ کیا، یہی وجہ ہے کہ جاوا انڈونیشیا کے بہت کم بچے ایسے ہوں گے جو مدرسے نہ جاتے ہوں۔
4: طلباء و طالبات سے گفتگو کے لیے ہمیں ایک ہال میں لے جایا گیا، جہاں درمیان میں مختصر سی آڑ تھی تو طلباء و طالبات موجود تھے۔
5: اس ہال میں عالمیہ لیول کے طلباء موجود تھے، ان میں سے کچھ کو انگریزی سمجھنے میں مشکل ہوئی تو مہتممہ قومی زبان میں تمام گفتگو کا خلاصہ پیش کرتی رہیں۔
6: اس علاقے کا نام ملانگی ہے جو ملانی سے نکلا ہے، اور کئی سالوں سے یہاں مدارس قائم ہیں اس لیے اسے ملانوں اور ملیانوں کا محلہ کہا جاتا ہے۔
7: مدرسے میں ہر فرد ایک مہینے میں قرآن کریم مکمل ختم کرتا ہے، دوران نشست نبی علیہ السلام کا نام آنے پر اونچی آواز سے صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کی آیت آنے کے بعد’’صدق اللہ العظیم، اور کسی کے سلام کرنے پر اونچی آواز سے وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ہم آواز ہوکر کہہ رہے تھے۔
8: خوشی کے موقع پر انفاق اور درود و سلام کا ختم ان کا رواج ہے، حتی کہ مہتممہ کی بیٹی آیت جس روز پیدا ہوئی تو جاوا کلینڈر کے مطابق ہر 32 دنوں بعد اس کی ولادت کی تاریخ یا دن آتا ہے اور مدرسے کے تمام بچے اس کی طرف سے درود کا ختم کرتے ہیں اور اسی دن بچوں یا محلے کے غرباء کو صدقہ دیا جاتا ہے، جسے وہ صدقۃ المیلاد کہہ رہی تھیں۔
9: تعدد ازواج کے سوال پر ان کا رد عمل شدید تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں مردوں کا زیادہ شادیاں کرنا پسند نہیں کیا جاتا اور جو کرتے ہیں تو وہ اس کا اظہار برملا نہیں کر سکتے۔
10: مدرسے کے طلباء نے نشست کے اختتام پر سوالات کیے جو کہ بہت دلچسپ تھے, میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستان کو کیسے جانتے ہیں؟
ان میں سے اکثر کا جواب تھا کہ ہندی فلموں کی وجہ سے ہم انڈیا کو جانتے ہیں اسی لیے ہمیں پاکستان کا بھی تعارف ہے، اکثر بج رنگی بھائی جان فلم کا نام لے رہے تھے۔
ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ: انڈیا پاکستان کے تعلقات بج رنگی فلم موجود ہے، آپ یہاں سے جانے کے بعد انڈونیشیا پاکستان کے علمی روابط پر بھی کوئی تجویز دیں اور کام کریں۔
ایک سوال تھا کہ: کیا آپ پاکستان میں رات کے وقت تنہا سفر کر سکتی ہیں؟؟
ایک سوال تھا کہ: پاکستانی مدرسے کے فاضل کے پاس معاشرتی ترقی کے کون کون سے اسباب و وسائل موجود ہوتے ہیں؟
نیز بنات کے مدارس میں کئی سال رہنے کے بعد جب طالبات مردوں سے گفتگو یا بات چیت نہیں کرتیں تو معلمہ اور استاذہ بننے کے بعد وہ سماج کی راہ نمائی کیسے کرسکتی ہیں؟(واضح ہوکہ انڈونیشیا میں استاد کی بہت عزت کی جاتی ہے چاہے وہ مرد یا عورت)۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ طلباء و طالبات اپنے سوالات میں بالکل با اختیار تھے، ان میں سے کچھ انگریزی کو گوگل کر کے کاغذ پر لکھ رہے تھے اور گفتگو میں حصہ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔نہایت سنجیدگی اور وقار سے سجائی گئی اس مجلس کا اختتام ہوا، طالبات اسی طرح قطار در قطار مصافحہ کر کے ہاتھ آنکھوں سے لگاتی رہیں،جبکہ طلباء سنجیدگی سے اپنے درالاقامہ کی طرف بڑھ گئے۔
آخری اور اہم بات یہ کہ ہمارے بے شمار پاکستانی علماء کرام جن کی اردو زبان میں تقریریں فیس بک اور یوٹیوب پر گردش کرتی رہتی ہیں، یہاں کے طلباء و طالبات ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتے، یہاں کے مدرسوں میں اگر کسی پاکستانی عالم کو جانا جاتا ہے تو وہ جس کی علمی کتابیں بھاسا زبان میں ترجمہ ہوکر ان تک پہنچی ہیں، اور جن کی کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے وہ ملالہ، ہود بھائی یا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
مدرسہء علی مقصوم و مدرسہء نفیسہ
مدرسہ ہاشم کی مہتممہ محترمہ ہِندُن کو ہم نے بتایا کہ ہم یوگ یکارتہ جانے کاارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہاں میریدادا کا مدرسہء علی مقصوم اور والدہ کا مدرسہء نفیسہ ہے، آپ جب وہاں جائیں تو ان سے ضرور ملنا۔سو آخری دن میں نے ان سے رابطہ کیا کہ آپ کی والدہ سے ملنا چاہتی ہوں، انہوں نے کچھ توقف کے بعد بتادیا کہ اگلے روز صبح گیارہ بجے ملاقات ہوجائے گی، اگلے دن ہم مدرسہء علی مقصوم پہنچے یہ کوئی مدرسہ نہیں بلکہ پورا ایک محلہ تھا جہاں مختلف ناموں سے مدارس موجود تھے،
ہم بیت التحفیظ النفیسۃ کی طرف گئے، خوبصورت عمارت اور جابجا بہترین تزئین تھی، اس سے ظاہر ہورہا تھا کہ مہتممہ بہت ہی باذوق اور نفیس خاتون ہیں۔
ہم عمارت کے مہمان خانے میں داخل ہوئے،جہاں پہلے سے کچھ خواتین موجود تھیں، ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ہمارے سامنے پھل، کافی، بسکٹ اور دیگر لوازمات رکھ دئے گئے، ڈاکٹر عصمہ نے اپنی طالبہ خیرۃ کو ہمارے ساتھ بھیج دیا تھا، ان کی وجہ سے ہمیں کافی سہولت رہی۔کچھ دیر بعد ہمیں معلوم ہوا کہ مہتممہ سیدۃ نفیسہ کسی میٹنگ میں گئی ہوئی ہیں، کیونکہ اسی شب ان کے سسر مرحوم علی مقصوم کی 31 ویں برسی ہے، جس کے لئے انہیں مذہبی تہوار کا انتظام کرنا ہے۔خیرہ نے کہا کہ مہتممہ کے آنے تک ایک گھنٹہ لگے گا، ہمیں انتظار کرنا چاہئے، مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ ہمارے ہاں کی طرح کی روایتی مہتممہ ہوں اور ان سے ہماری ملاقات نہ ہوسکے، کیونکہ ان کے گھر سے بھی ثروت کے آثار نمایاں تھے خیرہ نے مجھے حیرت سے دیکھا اور کہا کہ: کیا آپ ان سے ملے بغیر چلی جائیں گی؟ ان سے تو لوگ دعا کروانے کے لئے دور دراز سے آتے ہیں، میں نے فیصلہ خیرہ کی صواب دید پر چھوڑ دیا۔وہاں بیٹھی دیگر خواتین کچھ لفافے لائی تھیں جو انہوں نے ایک ذمہ دار لڑکی کو تھما دئے اور اٹھ کر چل دی۔ دعاؤں اور لفافوں سے میرا تاثر تھا کہ مہتممہ کوئی بزرگ سے خاتون ہوں گی، شاید وہ آئیں تو ہم سے صرف ایک دو منٹ کی گفتگو ہی کر سکیں، بہر کیف خیرہ نے کہا تو ہم نے انتظار کرنا بہتر سمجھا، اس دوران خدمت گار لڑکیوں نے ہماری میز ایک منٹ کے لئے بھی خالی نہ چھوڑی، بار بار گرم کافی، دودھ اور میوے لا کر رکھتی رہیں۔
گھنٹے بعد ایک خوبصورت خاتون، زیورات ، میک اپ اور سجی سجائی اندر داخل ہوئیں اور عربی میں کہتی جا رہی تھیں ‘‘عفوا عفوا، نسیتُ‘‘مجھے معاف کردو، میں بھول گئی تھی کہ آپ نے آنا ہے اس لئے دیر ہوگئی۔ ہم انہیں یک ٹک دیکھے گئے، نہایت نفیس اور سجی سنوری سی خاتون ہمارے سامنے تھیں اوربہت محبت سے مل رہی تھیں۔
یہ مدرسہ صرف حفظ کا ہے جہاں تین سو سے زائد لڑکیاں قران کریم حفظ کر رہی ہیں، ان میں بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہیں جو فجر سے پہلے سبق سناتی ہیں اور اس کے بعد اسکول، کالجز جاتی ہیں۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران ایک خاتون اندر آئی تو میں نے دیکھا کہ مہتممہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی ہیں اور ان خاتون کے لئے جگہ خالی کر رہی ہیں، معلوم ہوا کہ یہ خاتون سیدہ ہیں، دیگر سب خواتین بھی انہیں جھک جھک کر سلام کر رہی تھیں اور انہیں عزت دے رہی تھیں۔ اس علاقے میں بہت سے سید خاندان آباد ہیں اور ان کو بے تحاشا عزت دی جاتی ہے، کوئی ان کے سامنے اونچا نہیں بولتا، کوئی ان کی بے ادبی نہیں کرتا۔
وہ خاتون چلی گئیں تو ایک اور خاتون اندر آئیں ۔انہیں بھی یہی عزت دی گئی، معلوم ہوا کہ یہ بھی سیدہ ہیں اور مہتممہ سیدہ خواتین کو واپس خالی ہاتھ نہیں بھیج رہی تھیں، بلکہ خوبصورت ہدایا دے رہی تھیں۔ مہتممہ نے آتے ساتھ ہی ہمارے لئے روایتی کھانوں کا بہترین دستر خوان لگوادیا اور بہت عمدہ اسلوب سے پیش آتی رہیں۔ انہیں معلوم ہوا کہ میں حافظہ ہوں تو انہوں نے مدرسے کی ایک طالبہ کوبلایا، اپنے برابر بٹھایا اور مجھے کہا کہ اس کا امتحان لیں۔ میں نے تین مقامات سے اس بچی کا امتحان لیا، اس نے بہترین لب و لہجہ میں تلاوت کی جس سے دل خوش ہوگیا۔
مہتممہ نے ہمیں مدرسے کا دورہ کروایا کلاسوں کے ہال میں لے کر گئیں، مجھے خیرہ نے کہا کہ ان سے دعا کا کہیں، میں نے ان سے دعا کا کہا تو انہوں نے ہاتھ بلند کر کے بہت بہترین انداز میں عربی میں دعا کروائی ، اس کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ بھی استاد ہیں اس لئے آپ بھی دعا کروائیں۔
میں نے ان سے جابپارہ میں ان کی بیٹی کے مدرسے کے بارے میں پوچھا کیونکہ وہ بھی بہت قدیم مدرسہ ہے، تو معلوم ہوا کہ یہاں کے مدارس یا کِیائی،(مذہبی پیشوا) کے گھرانے کے بچوں کی شادی دوسرے (کیائی) مذہبی پیشوا کے گھر میں ہی ہوتی ہے، کوئی بھی مذہبی پیشوا آدمی کا بیٹا یا بیٹی کسی ایسے فرد سے شادی نہیں کرتا جو مذہب پیشوا کی اولاد نہ ہو۔ اس کی وجہ ان کے ہاں حفظ النسل ہے اور خاندانی مذہبی بادشاہت کی سالمیت بھی ہے۔
اس شب یہاں علی مقصوم کی 31 ویں برسی تھی اس لئے رات کی تقریبات کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں، جس میں طالبات نے ثقافتی طرز پر کچھ پروگرامز کرنے تھے۔
ہماری وہاں سے واپسی کے دوران مہتممہ نے ہمیں بہت سارے پھل، میوے اور ہدایہ بھی تھما دئے، ان کا یہ محبت بھرا رویہ ہمارے لئے حیران کن تھا۔ جبکہ خیرہ کا کہنا تھا کہ آپ پاکستان میں استاد ہیں اس لئے (نِیائی) خاتون پیشوانے آپ کا بہت اکرام کیا ہے۔
مساجد اور عمومی رویہ
آخری روز ہم نے مالیوبورو کی مساجد، میوزیم اور دیگر جگہیں دیکھنے کا طے کیا، مالیو بورو میں کچھ تاریخی مساجد واقع ہیں، جن کا طرز وہی تھا جو کلی نعمت کی مسجد کا تھا۔
ایک اہم بات یہ کہ یہاں صفائی کا بہت زیادہ اہتمام ہے، حتی کہ لوگ غسل خانوں اور قضائے حاجت کی جگہوں پر بھی جوتے نہیں پہنتے، مسجدوں کے غسل خانے اور وضوخانے صاف ستھرے اور جوتوں سے پاک تھے۔وضو خانوں میں کہیں بیٹھ کر وضو کرنے کی ترتیب نہیں ہے، ہر جگہ اونچے سے نل لگے ہوئے ہیں، یہی ترتیب میں نے مدرسے میں دیکھی جہاں لڑکیاں کھڑے ہی وضو کر رہی تھیں۔
مالیو بورو میں مسجد کے ساتھ ہی چرچ بنا ہوا ہے، معلمہ نے کہا کہ میں نے کبھی چرچ نہیں دیکھا تو ہم جوتے اتار کر اندر چلے گئے، سامنے کوئی بھی نہیں تھا، ہم جیسے ہی باہر نکلنے لگے تو چرچ کی انتظامیہ میں سے ایک خاتون نے ہمیں دیکھا وہ فوراً باہر آئیں،
اچھے طریقے سے ملیں اور چرچ کی ترتیب کے حوالے سے ہمیں سمجھایا اگرچہ وہ زیادہ انگریزی نہیں جانتی تھیں، لیکن ان کا رویہ قابلِ ستائش تھا۔وہ ہمارے پیروں کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہی تھیں کہ مسجد مسجد۔۔ یعنی یہ مسجد نہیں ہے تم نے جوتے کیوں اتار دئے۔
مالیو بورو میں اسلامی تاریخ کا ایک میوزیم بھی واقع ہے جو انڈونیشیا میں اسلام اور ثقافت کے باہمی ملاپ کی مکمل تاریخ بیان کرتا ہے۔
سڑک یا کسی دکان پر جب کوئی ہم سے پوچھتا کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، اگر ہم کسی کوکہتے کہ ہم پاکستان میں تدریس سے وابستہ ہیں تو وہ فوراً ہمیں استاد کہتا، جھک کر سلام کرتا، کئی بار تو لوگ فوراًزمین پر جوتے اتار کر بیٹھ جاتے کہ آپ استاد ہیں۔
ہم نے وہاں دس دن گزارے، کچھ دن کانفرنس کی انتظامیہ کی نگرانی میں اور اس کے بعد کے کچھ دن اپنی ذمہ داری پر، بلامبالغہ یہ بات کہوں گی کہ ہمیں ایک دن بھی کسی طرف سے کہیں کوئی خوف، خطرہ یا پریشانی محسوس نہیں ہوئی۔
تعلیم و تعلم
انڈونیشیا میں دینی مدارس کی ثقافت
حیا حریم