میر وغالب سے لے کر اقبال تک تمام شعرا نے غزل میں تلمیح کی اس روایت کو باقی رکھا۔ نئے دور کے شعرا میں حفیظ میرٹھی اور نعیم صدیقی وغیرہ نے قرآنی تلمیحات کے ذریعے اردو غزل کو مسلمان بنایا۔
تلمیح فن شاعری کی بے حد معروف و مقبول صنعت ہے۔ انسان کی قدیم تاریخ، مشاغل، رسم و رواج اور جنگ و جدال سے وابستہ ہزاروں کہانیاں اور داستانیں موجود ہیں۔ ان قصے کہانیوں کی طرف جو لفظ ضرب المثل، کہاوتیں اور محاورے اشارے کرتے ہیں، ادبی اصطلاح میں انہیں تلمیح کہا جاتا ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لیے ان کا استعمال ضروری سمجھا گیا ہے۔ حقیقت میں یہاں ایک قسم کا لطیف اشارہ ہوتا ہے جو پابندی حدود و اختصار کے باوجود ایک دفتر کا حامل ہوتا ہے اور وہ شعر کے دو ایک لفظ میں سمٹ کر کوزے میں دریا کے مصداق ہو جاتا ہے۔
اردو شاعری کی تاریخ اگرچہ تین سو برسوں سے زیادہ نہیں مگر اس چھوٹی سی عمر میں بھی اس نے زندگی کے ہزار رنگ اور زمانے کی بہت سی گردشیں دیکھی ہیں اور اپنے گرد و پیش کا اثر قبول کیا ہے۔ لیکن ان میں متعدد کیفیتیں وہ ہیں جو اسے ورثہ میں ملیں ہیں۔ عربی اور فارسی شعر وادب کے اثرات تو اردو زبان کے خمیر میں شامل ہیں لہذا عربی و فارسی تلمیحات کا ایک بیش بہا ذخیرہ پہلے ہی سے اردو میں موجود ہے پھر خالص ہندوستانی ماحول اور ہندو دیومالائی تلمیحات بھی رائج ہیں۔ ہماری اردو شاعری کے آئینہ صد رنگ میں اگر ایک طرف گل و بلبل فرہاد و شیریں رستم و سہراب بت و بتخانہ اور مئے و میکدہ کی کیف آگیں باتیں اور شبستان عجم کی دلنوازیاں جھلکتی ہیں تو دوسری طرف ہمارے شعراء کا کلام جا بجا ایسے خیال افروز اصطلاحات اور فصیح و بلیغ اشارات سے مزین ہے جن کا ماخذ قرآن و سنت اور خالص اسلامی تاریخی روایات ہیں۔
اردو شاعری میں اسلامی اصطلاحات اور قرآنی تلمیحات کا بے تکلف اور فنکارانہ استعمال ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور یہ کیفیت ہمیں ہر دور میں جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ نعتیہ کلام مرثیہ اور ان اخلاقی اور قومی نظموں سے ہٹ کر جنہیں ہم کسی بھی شعری جائزے میں نظر انداز نہیں کر سکتے، خود اردو غزل بھی بڑی حد تک ان اثرات کی مرہون منت ہے۔ جو خالص دینی عقائد اور اسلامی تاریخ و تہذیب کے پس منظر میں وجود پذیر ہو کر اصطلاحات واشارات اور تلمیحات کے وسیلے سے معرض اظہار میں آئے ہیں۔
عام طور پر اردو شاعری میں جو اسلامی اصطلاحات اور تلمیحات رائج ہیں، ان کا تعلق قرآن مجید کے قصص الانبیاء سے ہے۔ ان میں ‘‘حسن یوسف’’ ہمارے شعر کا سب سے مقبول انتخاب ہے۔ جسے ‘‘احسن القصص’’ بھی کہتے ہیں۔ ان کے بعد ایسی تلمیحات کی ایک کثیر تعداد ہماری شاعری میں رائج ہے، جن کے پیچھے پوری پوری کہانیاں سمائی ہوئی ہیں۔ جن کی ایک مختصر ترین فہرست یوں بن سکتی ہے۔
آدم و خلد، موسی و خضر، ید بیضاء، تجلی طور، ضرب کلیم، آتش نمرود، گلزار خلیل، گلستان ابراہیم، دم عیسی، دامن مریم، ابن مریم، صبر ایوب، گریہ یعقوب، ارنی، لن ترانی، بانگ صور، اژدہ موسی، عصائے موسی، اصحاب فیل، اصحاب کہف، اعجاز مسیح، باغ ارم، باغ شداد، بانگ اسرافیل، تخت بلقیس، مرغ سلیمان، پیام جبریل، حوض کوثر، شراب طہور، کوثر و تسنیم، خواب زلیخا، سفینہ نوح، در یتیم، روز محشر، سدرۃ المنتہتی، طائر قدسی، طور سینا، فرعون و موسی، قوم ثمود، قوم عاد، فتح مکہ، غار حرا، فتح مبین، کلیم اللہ، عصائے موسی، کوہ فارس، لحن داؤدی، ماہ کنعان، حرف نیلون، الم نشرح، قم باذن اللہ، کن فیکون، لا تقنطوا، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام تلمیحات کا تعلق قرآنی قصص، اسلامی عقائد، دینی تعلیمات اور اس کی تاریخی و جغرافیائی خصوصیات سے ہے۔ بعض جگہ تو پورے پورے مصرعے میں آیت قرآنی یا جزو آیت کو دہرایا گیا ہے۔
اردو شاعری کی تین سو سالہ تاریخ میں سیکڑوں شعراء ہیں جن کے یہاں بطور مثال ان قرآنی تلمیحات کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ سر دست میں اردو شاعری کے تین سنگ میل شاعروں؛ میر، غالب اور اقبال کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو شعری عظمت کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی بھر پور نمائندگی کی بھی کرتے ہیں۔ ولی دکنی تو اردو غزل کے باوا آدم ہیں ہی، جنہوں نے اپنے فنی کمال سے اردو غزل میں تنوع اور وسعت پیدا کر دی۔ اردو شاعری کو غالب نے ایک ذہن دیا اور ساتھ ہی فکر کی گہرائی بھی عطا کی۔ اقبال نے فکر کو یقین کی روشنی اور تابندگی بخشی، لیکن غزل کی اصل روایت میر کی سوز آرزومندی ہے۔ میر، غالب اور اقبال کے بعد سچ تو یہ ہے کہ حسرت، اصغر، فانی اور جگر کی صورت میں چار ایسے عناصر ہیں جن سے جدید اردو غزل مرکب ہے، جنہوں نے اردو غزل کو ایک نئی زندگی، توانائی اور دل آویزی بخشی ہے اور ادب و زندگی کے صالح تقاضوں اور روایات کو جذب کر کے غزل کے رنگ و آہنگ میں سمونے کی ایسی جاندار کوشش کی ہے کہ غزل کی شمع فروزاں کے سامنے دوسری اصناف سخن کی لوئیں مدھم پڑ گئی ہیں۔ عصر حاضر میں اردو غزل کی اس روشن روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جن شعراء نے فکر و فن کا حسین امتزاج پیش کیا ہے، اُن میں نعیم صدیقی، حفیظ میرٹھی، کلیم عاجز اور عزیز بگھروی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ نئی شاعری کے یہ وہ عناصر اربعہ ہیں جنہوں نے اردو غزل کو مسلمان بنایا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان شعراء نے اپنی شاعری میں قرآنی تلمیحات کو کس کس انداز سے برتا اور استعمال کیا ہے۔ ولی دکنی نے شاعری خصوصاََ غزل گوئی کو بطور تفنن طبع اختیار نہیں کیا تھا، ان کی شاعری میں مقصدیت پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں جہاں پیام قرآن کو پیش کیا ہے وہیں قرآنی آیات و الفاظ کو بھی بڑی روانی سے استعمال کیا ہے۔ مگر یہاں صرف وہ اشعار ملاخطہ فرمائیے جن میں قرآنی تلمیحات آئی ہیں۔
تو ہے رشک ماہ کنعانی ہنوز
تجھ کو ہے خوباں میں سلطانی ہنوز
موسی اگر جو دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کوں پہاڑ ہووے پھر طور کا تماشا
میر تقی میر اردو غزل کے بادشاہ ہیں۔ ان کا کلام ایسا درد بھرا ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پر چوٹ سی لگتی ہے جو لطف سے خالی نہیں ہوتی۔ میر کا کلام حسرت و ناکامی اور حرماں و مایوسی سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی زبان کی فصاحت اور سادگی سوز و گداز مضامین کی جدت اور تاثیر ایسی خوبیاں ہیں جو انہیں ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی ہیں۔ان کی یہ خوبیاں ان اشعار میں بھی موجود ہیں جہاں قرآنی تلمیحات کو ایک خاص اسلوب و انداز میں برتا گیا ہے۔
در پہ خون میر کے نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
غیرت یوسف ہے یہ وقت عزیز
میر اس کو رائیگاں کھوتا کیا
عہد میر میں مرزا سودا اور خواجہ میر درد ایسے شعراء ہیں جن کے یہاں قرآنی تلمیحات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ شعراء متوسطین میں غالب، ذوق اور مومن کے ہاں بھی قرآنی تلمیحات اور اسلامی اشارات کافی تعداد میں ملتے ہیں۔
مرزا غالب اردو غزل میں اپنی مشکل بیانی اور معنی آفرینی کے لیے مشہور و ممتاز ہیں، مگر غالب جیسے رند قدح خوار کے یہاں بھی اسلامی تاثرات کی ایک خاص کیفیت ہے، جو خاصی نکھری نظر آتی ہے۔ وہ عام شعراء کے انداز کے مطابق اہل شرع سے شوخیاں بھی کرتے ہیں۔ شوخی، طنز اور بے تکلفی جو غالب کا خاص رنگ سخن ہے ان اشعار میں بدرجہ اتم موجود ہے جو زبان زد خاص و عام ہیں۔ غالب کے ہاں مضامین حقانی اور تلمیحات قرآنی کی رونق چند اشعار میں ملاخطہ فرمائیے۔
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
بہت سہی غم گیتی، شراب کم کیا ہے
غلام ساقی کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں
علامہ اقبال تک پہنچتے پہنچتے تو غزل کا پیمانہ ہی بدل گیا۔ یہاں غزل ایک بالکل نئی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کی غزل کی خصوصیت اس کا جاندار رمز وایما، فکر انگیز جوش بیان اور صحت مند قوت و توانائی ہے۔ ان کی شاعری میں اسلامی اصطلاحات اور قرآنی تلمیحات و تشبیہات اس انداز سے سما گئی ہیں گویا یہی شعر کے بنیادی عناصر ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کے افکار و نظریات کا بنیادی محور قرآنی تعلیمات ہی ہیں۔ قرآن کے مطالعہ نے اقبال کے ذہن و فکر کی دنیا میں عظیم انقلاب برپا کر دیا تھا۔ بقول صاحب تفہیم القران مولانا سید ابو الاعلی مودودی ‘‘دنیا نے دیکھا کہ وہ (اقبال قرآن میں گم ہو چکا ہے۔ اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا وہ جو کچھ سوچتا تھا اور جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا’’۔ ماہرین اقبالیات نے اس جہت سے کئی گراں قدر تحقیقات پیش کی ہیں۔ اقبال کی شاعری میں قرآنی تعلیمات مذہبی اصطلاحات کا جائزہ قابل ذکر تصانیف ہیں۔ بلاشبہ اقبال نے اپنے اشعار میں عربی الفاظ و قرآنی آیات کا بلا تکلف استعمال کیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ان کے کلام میں تقر یباًپانچ سو ایسے اشعار ہیں جن میں ہو بہو قرآنی آیات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ سر دست یہاں صرف ان اشعار کو پیش کر تا ہوں جن میں اقبال نے قرآنی تلمیحات کو بڑی بر جستگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ بعض جگہ انہوں نے ایک ہی تلمیح کو کئی کئی شعروں میں جگہ دی ہے۔ مگر ہر جگہ اچھو تا انداز ہے فکر و خیال اتنے لطیف ہیں کہ احساس پر ذرا بھی گراں نہیں گزرتے، حضرت ابراہیم اور آتش نمرود کا واقعہ متعد د شعروں میں ملاخطہ فرمائیے۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
قرآن مجید کی آیت: ولما جاء موسی لمیقاتنا و کلمہ ربہ قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی (سورہ اعراف آیت ۳۴۱) ترجمہ: اور جب موسی ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر کوہ طور پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا، تو کہنے لگے: اے پروردگار! جلوہ دکھا تا کہ میں تیرا دیدار کر
سکوں۔ پروردگار نے فرمایا کہ تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے۔’’
ان آیات قرآنی کے پس منظر میں اب یہ اشعار دیکھیے
اَرنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
اور اب دوسری نوعیت کی تلمیحات کے ساتھ چند اشعار
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضاء
دور اقبال کے دوسرے شعراء خصوصاََ حالی اور اکبر الہ آبادی کے یہاں بھی اسلامی اشارات اور قرآنی تلمیحات کی بہتات ہے جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ جدید اردو غزل کے عناصر اربعہ حسرت، اصغر، فانی اور جگر کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقریباً تمام تعمیر پسند شعراء کے اشعار میں قرآنی تلمیحات موجود ہیں، جن پر تفصیلی اظہار خیال میں طوالت کا خوف مانع ہے۔ صرف چند اشعار پیش خدمت ہیں تاکہ اردو شاعری کے آغاز سے لے کر عصر حاضر تک قرآنی تلمیحات کا جو وسیع و وقیع سلسلہ رہا ہے، وہ آئینہ ہو سکے۔
گم کردہ راہ عشق فنا کیوں نہ ہو گیا
احساں جو اس پر خضر و مسیحا کے رہ گئے
(حسرت موہانی)
ہاں وادی ایمن کے معلوم ہیں قصے سب
موسی نے فقط اپنا اک ذوق نظر بدلا
(اصغر گونڈوی)
اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی
دیکھوں ترے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی
(فانی بدایونی)
موسی کی طرح کون سنے لن ترانیاں
بے عیب ہے جو حُسن تو پردہ نہ کیجیے
(جگر مرادآبادی)
قیمت ادا ہوئی مگر یوسف نہیں بکا
آئی خریدنے جو زلیخا، وہ بک گئی
(نعیم صدیقی)
بے عصا اپنی کلیمی ہے تو ہو
وقت کے فرعون سے ڈر جائیں کیا
(حفیظ میرٹھی)
دنیا بغیر عشق ہمیں ناپسند ہے
یوسف نہیں تو مصر کا بازار کیا کریں
(کلیم عاجز)
کبھی بدر و احد میں ہے، کبھی بازار طائف میں
وہ مرد حق جو مصروف دعا غار حرا میں ہے
(عزیز بگھروی)
مختصر یہ کہ ولی دکنی سے اقبال تک اور اقبال سے عصر حاضر تک تمام تعمیری شعراء نے نہ صرف قرآنی تلمیحات کو پورے فنی کمال کے ساتھ استعمال کیا ہے بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات اور خدا پرستانہ قدروں کو اپنا کر شاعری کی صحت مند روایات کو آگے بڑھایا ہے جو جدید شاعری کا معیار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان شعراء نے فکر و فن کا جو چراغ جلایا تھا وہ آج بھی نہ صرف یہ کہ پوری تابانیوں کے ساتھ روشن ہے بلکہ اس کی ضیا باریوں سے ہزاروں شمعیں جل رہی ہیں۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
(مضمون نگار انجمن ڈگری کالج بھٹکل، کرناٹک کے سابق صدر شعبہ اردو اور ادارہ ادب اسلامی ہند کے سابق قومی صدر ہیں)
بشکریہ: ہفت روزہ دعوت ۔تاریخ اشاعت - 6 ستمبر، 2022
شعر و ادب
اردو شاعری میں قرآنی تلمیحات
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی، بھٹکل