جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں فضلائے کرام کی نشست سے حضرت مولانا محمد زاہد صاحب کا خطاب
21دسمبر 2013ء
مولاناکے خطاب کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں فضلا کو تین نصیحتیں کیں۔
1- پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ آپ لوگ جو بھی عمل کریں، اسے پوری محنت، یک سوئی اور لگن سے کریں، اس کو محض بوجھ اتارنے کے انداز میں نہ کیا جائے۔ اس طرز کو عربی میں إتقان العمل کہتے ہیں، یعنی کام کو خوب سے خوب تر انداز میں کرنا۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جب دیکھا کہ اس میں ایک جگہ کھدائی کچھ صحیح انداز میں نہیں ہوئی تو اس خلا کو پر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا عَمَلَ عَمَلًا، أَحَبَّ اللہُ أَنْ یُّتْقِنَہ. ''اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب انسان کوئی عمل کرے تو اسے اچھی طرح کرے۔'' (طبرانی، المعجم الکبیر، باب السین، رقم: 776) حالاں کہ قبر میں یہ معمولی کمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن چوں کہ دیکھنے میں دیدہ زیب نہیں تھا اس لیے آپ علیہ السلام نے اس کا حکم دیا۔یہ 'اتقان' خود اللہ کی سنت ہے جس کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے: صُنْعَ اللَّہِ الَّذِی أَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ إِنَّہُ خَبِیرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: من الآیۃ 88) آج کی یورپی اقوام میں لاکھ کمیاں سہی لیکن ان کے دنیا پر غلبے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں اس 'اتقانِ عمل' کا وصف موجود ہے، جب کہ مشرقی اقوام میں یہ کمی پائی جاتی ہے۔پیسہ اہلِ مغرب کے پاس بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ کاہل اور تن آساں نہیں ہوئے لیکن بہت سے مسلمان ملکوں کو پیسے نے سہل انگار بنا کر رکھ دیا۔
2- دوسری اور نہایت کار آمد نصیحت یہ فرمائی کہ اپنے علم کو پیچھے کی طرف لے جائیں اور علماے سلف کی علمی روایت کا ادراک حاصل کریں۔اس آگاہی سے تنگ نظری ختم ہوتی ہے۔(مولانا کی یہ بات اس اعتبار سے بہت کار آمد ہے کہ بعض اوقات کسی موقف کے حوالے سے کوئی دوسرا آدمی کوئی بات کہہ رہا ہوتا ہے جو کہ علماے سلف میں سے کسی کے ہاں مل جاتی ہے،لیکن ہمارے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے ہم کو وہ 'اکابر کے طرز کے خلاف' معلوم ہوتی ہے۔ راقم)
3- تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ غیبت، خصوصا اہلِ علم کی غیبت سے نہایت گریز کیا جائے ۔ کیوں کہ:لُحُومُ العُلَمَاءِ مَسمُومَۃ۔(اہل علم کا گوشت زہریلا ہوتا ہے۔) کسی صاحب علم، خواہ وہ اپنی جماعت اور فرقے کے علاوہ کسی فرقے کا ہی کیوں نہ ہو،کے خلاف اگر تہمت، الزام تراشی، نکتہ چینی اور پروپیگنڈہ ہو رہا ہو تو کبھی بھی اس کا حصہ نہ بنو ۔میرا تجربہ بلکہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو کبھی بقا نہیں ہوتی۔ امام بخاری کے خلاف وقت کے بہت صاحب علم لوگوں نے فتوے کا بازار گرم کیا لیکن آج ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں۔اپنے طبقے کے علاوہ دیگر طبقوں کے اہلِ علم کا احترام بہ حیثیت صاحب علم ہونے کے ضروری ہے۔جب علماے دیوبند کی طرف نسبت رکھنے والے حضرات میں حیات و ممات کے مسئلے پر زور دار بحث جاری تھی تو حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ نے ملتان تشریف آوری کے موقع پر فرمایا تھا کہ ‘‘افسوس عالم کا بحیثیت عالم احترام باقی نہیں رہا’’۔ اس کی تشریح میں والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اپنے نظریے اوراپنی ‘پارٹی’ کے عالم کا احترام کرنا کمال نہیں ہے، محض علم کے احترام کا اندازہ تب ہوتا ہے جب سامنے دوسری پارٹی کا عالم ہو۔
حضرت کی یہ باتیں یقینا رجحان ساز باتیں ہیں اور اِن میں اُن سلیم طبیعتوں کے لیے بہت کچھ راہ نمائی کا سامان موجود ہے جو دل میں دین کا درد رکھتی ہیں۔اگرچہ بندے کی نظر میں اس طرح کی باتوں پر مولانا حالی کا یہ شعر حسبِ حال ہے کہ:
مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالی نے کھولی ہے دُکاں سب سے الگ
تاہم فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ(جھاگ اڑ جاتا ہے اور نافع کو بقا ہوتی ہے۔)کے مصداق ان شاء اللہ یہ وژنری باتیں اثر انگیز ہوں گی اور بہت سے فضلا کے لیے غور وفکر
کا سامان مہیا کریں گی۔اللہ تعالی ان کو ہمارے لیے نافع بنائے۔آمین
شنیدم آں چہ از پاکانِ امت
ترا با شوخء رندانہ گفتم
اصلاح و دعوت
طلبا کے لیے اہم نصیحتیں
مفتی محمد زاہد